مکمل ناول

چھپا کے چھئی : فرزانہ کھرل

بیٹے کی زبانی تمام ماجرا سننے کے بعد آصفہ بڑی خوب صورتی سے مسکرائیں۔
’’اس وقت اسے ایسا ہی فیصلہ کرنا تھا۔‘‘
’’ لیجئے بھرے مجمع میں آپ کے خوبرو‘کمائو بیٹے کو آپ کی بھتیجی نے بے دردی سے ٹھکرادیا اور آپ ہنس رہی ہیں۔‘‘ وہ مصنوعی خفگی سے منہ پھلا کر بولا۔
’’کیوں کہ اچھی لڑکیاں بنا لڑکے کے گھر والوں کے شادیاں نہیں کرتیں۔‘‘ آج مسکراہٹ آصفہ کے ہونٹوں سے سنبھالی نہیں جارہی تھی۔
’’چلیں آپ نے مان لیا وہ اچھی لڑکی ہے۔‘‘ کسی خوش کن احساس کے تحت اس کالہجہ گداز سا ہوا۔
’’مان تو لیا ہے مگر‘ باقی آدھا فیصلہ اسے دیکھ کر کروں گی۔‘‘نقلی سنجیدگی طاری کر کے بیٹے کو ڈرانا چاہا۔
’’چلیے بیگم صاحبہ گاڑی میں مٹھائی اور پھل وغیرہ کھوا دیے ہیں۔ ‘‘ مسعود صاحب کی خوشی بھی دیدنی تھی۔
’’امی ! آدھا فیصلہ اب ابو کو کرنے دیجئے گا؟‘‘مسعود صاحب کو شرارتی نظروں سے دیکھا‘ جنہوں نے نا سمجھی سے ماں بیٹے کے ہنستے چہروں کو دیکھا ۔
’’میں نے آنٹی اور امن سے فون پہ بات کرلی ہے‘مگر یہ نہیں بتایا کہ آپ آج ہی آرہے ہیں۔‘‘
’’ تو پھر بات کیا کی ہے۔‘‘ آصفہ نے رک کر اس کے چہکتے چہرے پہ نظر ٹکائی۔
’’تمام معاملہ رازداری میں رکھنا ہے ۔ میں بھی اس سے تھوڑا سا بدلہ لینا چاہتا ہوں ۔‘‘ اس کے لہجے سے جگنو اڑنے لگے۔
’’ باقی کا معاملہ میں سنبھال لوں گا‘ منگنی کی تاریخ لے کر اور شادی کی تاریخ دے کر آئیے گا۔‘‘ اتنا کہہ کر اس نے اپنے ہی قہقہے کو انجوائے کیا تو وہ دونوں بھی سر جھٹک کرہنس دیے۔
٭…٭…٭
اتنے برسوں کے بعد ان راستوں پر سفر کر کے آصفہ کی آنکھیں بھیگ گئیں ۔ وہ گھر سے کچھ فاصلے پرا ترے‘ دروازہ ذرا سا کھلا تھا ۔ نومبر کی نرم ہلکی دھوپ نے بھیگی آنکھوں والی عورت کو حیرت سے دیکھا۔
’’یہی تو وقت تھا پھو پھی کو نیچا دکھانے کا‘ عدن نے بہت غلط کیا ۔‘‘ کسی عورت کی آواز سن کر وہ ٹھہر گئیں۔
’’ہمارا ان سے کوئی مقابلہ نہیں‘ اس گھر کے دروازے ہمیشہ ان کے لیے کھلے ہیں ۔ اگر میرے ماں باپ نہیں تو میں کسی اور سے اس کے ماں باپ کیوں چھینوں ۔ میں نہیں چاہتی تھی کہ پھوپھو کے دل میں ہمارے لیے اور نفرت بڑھتی ۔ ‘‘ اس سے زیادہ وہ سن نہیں سکتی تھیں ۔ سو کھلا دروازہ دھکیلتی اندر چلی آئیں ۔ ان سب نے انہیں آنکھیں مل کے دیکھا‘ مگروہ مجسم حقیقت تھیں ۔ انہوں نے با ہیں واکیں تو دونوں بہنوں نے بھی گلے لگنے میں ذرا تاخیر نہیں کی تھی ۔ مدحت سے ہاتھ جوڑ کے معافی مانگی ۔ اس نے نند کے جڑے ہاتھوں کو دھیرے سے چوم لیا ۔ نہ انہوں نے کچھ شکوہ کیا نہ آصفہ کو صفائی دینے کی ضرورت پیش آئی۔
بہت شفیق اور مہمان سے مسعود صاحب میں اذان کی جھلک واضح تھی ۔ عدن چائے بنانے کے لیے گئی تو آصفہ نے اپنا دامن مدحت کے سامنے پھیلایا ۔ مسکراتی آنکھوں سمیت سروقد نازک سی عدن اپنی ماں کی کاپی تھی۔
’’آپا! شرمندہ مت کریں آپ کی اپنی بچی ہے۔‘‘ تشکر سے ان کی آواز تک بھیگ گئی‘ کبھی کبھی خوشی سے بھی حلق میں پھندے پڑ جاتے ہیں۔
’’اذان جیسا بیٹا خدا سب کا نصیب کرے۔‘‘انہیں الفاظ نہیں مل رہے تھے۔
’’ارے! ابھی تک روشن دانوں میں کبوتروں کا بسیراہے ۔‘‘ حیرت سے دیکھا ‘انہیں اماں کی صلواتیں یاد آئیں جو وہ ان کبوتروں کو سناتی تھیں ۔ ایک پل یادوں کے آنسو چھلکے‘ تو دوسرے پل ہنس دیں۔ روئی کے گالوں جیسی سفید نرم دھوپ میں مزیدار چائے کا لطف اٹھایا گیا۔ چپکے سے منگنی کا دن بھی مقرر کر لیا۔
’’ بندہ ذراسی ہمت دکھائے تو ٹوٹے رشتے پھر سے استوار ہو جاتے ہیں ۔ ‘‘مسعود صاحب نے بیوی کی طرف فاتحانہ نگاہوں سے دیکھا ۔ پچھتاوے ان کے حصے میں آئے تھے، مگر شوہر کی کاوش اور نیک نیتی پہ توصیفی نگاہ ان پہ ڈالی۔
’’تمہاری کو شش اپنی جگہ مسعود‘ مگر میں نے خدا کے گھر میں ہاتھ اٹھا کر اپنے لیے رب سے ہدایت مانگی تھی ۔ دل سے میل دھل جانے کی دعا کی تھی ۔ یہ ایسی دعا ہے جب کوئی اپنے لیے رب کریم سے مانگتا ہے تو قبولیت کی گھڑی آنے میں دیر نہیں لگتی بشر طیکہ کوئی مانگے تو ۔‘‘
٭…٭…٭
محبت ہے بہت سرکش بلا کا حافظہ اس کا
جسے ہم بھول جاتے ہیں یہ اس کو یا درکھتی ہے
آج کسی کام میں بھی دل نہیں لگ رہا تھا ۔
امن اور خالہ کی تیاریاں عروج پر تھیں جن کے بیچ اسے بھی گھسیٹ لیا جاتا۔
’’اف اس قدر بے رنگ ‘پھیکا سا چہرہ ۔وہ کیا سمجھے گا کہ تم اسے ٹھکرا کے پچھتا رہی ہو ۔‘‘ رات کو جب امن فیشل کے لیے گئی تو اسے بھی زبردستی ساتھ لے لیا۔
ناشتے سے فارغ ہوئی تھی کہ مائدہ آگئی۔
’’ پہلے عدن کو مہندی لگادو۔‘‘
’’ا رے … نہیں …نہیں‘ میں کیوں۔ ‘‘ ہاتھ پیچھے کر لیے۔
’’اتنی سج دھج سے تیار ہو کر جاؤ کہ صاف ظاہر ہو کہ اسے ریجیکٹ کرنے میں دل کا فیصلہ بھی شامل تھا ۔‘‘ وہ ذرا ر عب سے بولی ۔
یہ فیصلہ دل کا تو ہر گز نہیں تھا مگر‘ خودداری اور اپنی ذات کو معتبر رکھنا دل سے زیادہ ضروری تھا ۔ آنکھوں میں اتری نمی کو جھپک جھپک کے پیچھے دھکیلا۔
’’اس قدر اسٹائلش پنک سوٹ ۔ارے یہ کب خریدا۔‘‘ مدحت منہ پھیر کے مسکرائیں۔
’’ایک تم ہی بے خبر رہنا۔ ڈرائیور کہاں رہ گیا ہم تو تیار بیٹھے ہیں ۔‘‘ مدحت کے چہرے پہ سکون و اطمینان جھلک رہا تھا‘ مگروہ بھانجی کے چہرے کو بھی دھیان سے دیکھ لیتیں۔
’’امن اسے بتایا تھا نا کہ اس کی دو ٹائیاں اور کچھ موزے ادھر رہ گئے ہیں ۔‘‘ بلاوجہ ہی ہاتھوں میں اترے رنگوں کو دیکھا ۔
اس دن کے بعد وہ دوبارہ نہیں آیاتھا ‘ حالانکہ اس نے بہن سے بارہا میسجز بھیجوائے۔
’’ہاں بھئی۔ آج کل مہنگائی کے دور میں دونوں چیزیں خرید نا کافی مشکل ہے ۔ ‘‘ خالہ کی آنکھیں تک مسکرانے لگیں‘ تب ہی گاڑی کا ہارن سنائی دیا ۔ امن خالہ کو سہارا دے کر سیڑھیاں اتروانے لگی تو وہ بھی تیزی سے ان کے دوسری جانب آگئی۔ امن نے گیٹ سے باہر جھانکا۔
’’گاڑی میں تو مٹھائی کی ٹوکریاں پڑی ہیں۔ تین افراد کے لیے جگہ نہیں۔ ‘‘ مڑکے بہن کو جواب دیا۔
’’ڈرائیور تمہیں دوبارہ لینے آجائے گا ۔‘‘ مسکراہٹ دبا کر کہا۔
پھوپھو کی ہدایت تھی کہ ڈرامے میں جھول نہ رہے‘ دونوں ہماری طرف آجانا پھر اکٹھے اسے سرپرائز دیں گے ۔ گاڑی چلی گئی تو وہ دروازہ بند کر کے سست قدموں سے واپس مڑی ۔ چڑیاخوشی سے چوں چوں کرتی پھدک کے دوسری شاخ پہ بیٹھی۔ تبھی دستک کی آواز سنائی دی۔
’’اتنی خوش کیوں ہو ۔‘‘خفگی سے اسے ڈپٹا۔ دوبارہ دستک ہوئی۔
’’مجھے تو پہلی محبت کے بچھڑ جانے کا غم بھی نہیں منانے دیا جا رہا ۔‘‘ کلس کر دروازے کی جانب بڑھی۔
’’آپ یہاں…‘‘ حیرانی سے دیکھا۔
’’جی میں … اپنی ادھر رہ جانے والی چیزیں لینے آیا ہوں۔‘‘ اسے ایک طرف ہٹاتا اندر چلا آیا۔
’’گھر میں مل نہیں رہیں۔ بازاروں میں آج کل شارٹ ہیں۔‘‘ انتہائی سنجید گی سے بولا۔
’’ ایسا کیونکر ہو سکتا ہے‘ اتنی کا من چیزیں اور شارٹ ہوں۔‘‘ الجھ کر اسے دیکھا۔
’’اس قدر تواتر سے میسجز آرہے تھے‘ لگ رہا تھا عالمی مارکیٹ سے بھی یہ چیزیں شارٹ ہو چکی ہیں ۔ اب صرف اس گھر میں مل سکتی ہیں ۔ ‘‘ دونوں آگے پیچھے ہی برآمدے میں آئے۔
خاصا محفوظ سا ہو کر بڑے دھیان سے اسے دیکھا۔
’’آپ ٹھہریں ۔ ‘‘ اس کے زیر استعمال کمرے میں گئی ۔ جالی کا دروازہ کھول کر وہ بھی اندر آگیا ۔ عقبی صحن میں کھلنے والی دیوار گیر کھڑکی کے پردے ہٹے ہوئے تھے۔ وہ گرل کے ساتھ ٹیک لگا کرکھڑا ہوگیا۔
’’ یہ لیں ۔‘‘ نظر اٹھائے بنا‘ ہاتھ میں پکڑی ٹائیاں دکھائیں ‘مگر سامنے کھڑے شخص نے ان کی بجائے ہاتھ پکڑ لیا ۔ اس نے سٹپٹا کے تحیر سے اسے دیکھا۔ آنکھوں کی سطح ہلکی گیلی تھی۔ وہی اسیر کر دینے والا پل…
’’یہ سمیرا حمید کا ناول نہیں۔ اس لیے رومانٹک سچویشن کری ایٹ کی جاسکتی ہے ۔‘‘ شوخ ہوتی گہری نگاہیں اس پہ مرکوز تھیں ۔
مہندی کی خوشبو لبوں تک لے جاکے سونگھی ۔ ہاتھ چھڑانے کے لیے کافی زور لگایا پھر‘ نا قابل فہم انداز میں اسے دیکھا ہے۔
’’غور سے دیکھو کیا میں گنجا ہوں۔ ٹھگنا بھی نہیں‘نہ ناک لمبی ہے نہ توند نکلی ہوئی ۔ رنگ بھی بہت صاف ہے۔ پوچھ سکتا ہوں پھر مجھے کس وجہ سے بے دردی سے ٹھکرا دیا ۔‘‘ دھیما لہجہ بھاری پن لیے تھا۔ وہ بے بسی سے ہونٹ کچلنے لگی۔
’’یہاں سے واپس گیا، ہر طرف صحراہی نظر آئے ۔ سمندر تو یہیں رہ گیا تھا ۔ آتی ہوئی لہروں پر جاتی ہوئی لڑکی ‘بھی پورے کراچی میں کہیں نظر نہیں آئی تو واپس یہیں آنا پڑا۔ ‘‘ وہ خجل سی ہو کر اس کے بوٹوں کی تکنے لگی ۔ آج اس نے ڈارک براؤن شلوار قمیص پہن رکھا تھا اور اس کا چہرہ الگ ہی کہانیاں سنا رہا تھا۔
’’اب آپ پلیز جائیں۔ ‘‘ آنکھیں چھلکنے کو بے تاب تھیں۔
’’پہلے مجھے ٹھکرانے کی وجہ بتاؤ ۔‘‘ زرا سختی سے اس کی نم پڑتی ہتھیلی کو بھینچا۔
’’میں آپ کے والدین کی مرضی کے بغیر نا معتبر ہو کر آپ کی زندگی میں شامل نہیں ہو سکتی تھی کہ شرمندگی سے میری نگاہیں تا عمر جھکی رہتیں ۔ میں سر اٹھا کر جینے کی قائل ہوں۔ ایک وجہ اور بھی ہے۔‘‘وہ کچھ دیر خاموش ہوئی۔
’’ میں خود کو تعلیم یافتہ لوگوں میں شمار نہیں کرتی‘ بس میرا آپ کا کوئی جوڑ نہیں بنتا۔‘‘وہ جھنجلا کر بولی۔ تو وہ زیرِ لب مسکرادیا۔
’’تم ہاں تو کرو۔ میں اپنے والدین کی رضامندی سے تمہیں اپنا سکتا ہوں۔‘‘ اس کی آنچ دیتی خواہش پہ عدن کی دھڑکنیں اتھل پتھل ہوئیں۔
’’آج آپ کی منگنی ہے ‘جس سے ہونی ہے اسی سے کریں ۔ میں اپنی وجہ سے کسی لڑکی کو دکھ نہیں دے سکتی۔‘‘ وہ رخ موڑ کے کھڑی ہو گئی۔
’’ سب کا خیال ہے بس میرا اور اپنا نہیں۔‘‘ وہ گھوم کر اس کے سامنے آیا۔
’’جو ہمیں تکلیف ہو رہی ہے‘ اس کا مداوا کیسے ہو گا؟‘‘ وہ اس کی طرف جھک کر نرمی سے بولا۔
’’ مجھے کچھ نہیں ہو رہا۔‘‘ وہ وہاں سے کھسک کر دروازے کی طرف بڑھی۔
’’عدن !میں تم سے محبت کرتا ہوں ۔‘‘ وہ انتہائی وہ وارفتی سے اسے دیکھتے ہوئے بولا۔ وہ باہر جانے والے دروازے میں جم کر کھڑا تھا ۔ اسے ہمایوں سعید یاد آیا ۔ جب اس کی منگنی کسی سے طے ہے تو اقرار کرنے کا فائدہ ‘مہوش حیات بننے میں کیا حرج ہے ۔ دل کے اندر گانٹھیںسی پڑیں۔
’’مگر میں تم سے محبت نہیں کرتی۔‘‘ ارے یہ کیا۔ دل کو قرار سا آگیا۔ اس نے لپک کے دونوں ہاتھ تھام لیے۔
’’میں کسی کہانی کا ہیرو نہیں کہ تم مجھے تھپڑ لگاؤ گی یا پھر دھکا دوگی۔‘‘ معنی خیزی سے کہتا وہ کچھ قریب ہوا۔
’’کیونکہ حقیقی زندگی میں ہیروئنیںاتنی بدلحاظ نہیں ہوتیں۔‘‘ خوشی سے لہجہ بو جھل سا ہوا۔دوسرے ہی لمحے دوروازے سے باہر تھا۔
’’اصل میں ہیرو ئنیں اتنی ہی کٹھور ہوتی ہیں۔‘‘ عدن نے با ہر ہونے والا شور اور آوازیں محسوس کرلی تھیں ‘جب کہ وہ باہر حق دق کھڑا تھا۔
’’بس بہت ڈراما ہو گیا۔ اب دلہن کو لے آئیں۔‘‘
’’یہ آواز تو پھوپھو کی ہے۔‘‘ وہ چونک کر مڑی ۔
’’ان تمام لوگوں کی بجائے اگر اس وقت دو بکرے کہیں سے آجاتے میری تو قسمت جاگ جاتی ۔‘‘ اس کی آنکھیں ہی نہیں آواز بھی لو دینے لگی ۔ وہ ایک دم گلابی سی ہو کر آگے بڑھی اور دھموکے اذان کے کندھوں پر جڑے سارا معاملہ اس کی سمجھ میں آگیا تھا۔
’’ ارے …ارے …یہ کیا دیکھا امن میں کہتی تھی نا کہ آج کل لڑکیاں محبت کی باتیں چھوڑ کر دہشت گردی پہ اتر آتی ہیں ۔‘‘ مدحت نے کھلکھلا کر سب کو تائیدی نظروں سے دیکھا۔ اس گھر کی بوسیدہ دیواروں کو محبت نے رنگ دیا تھا۔ غڑغوں ‘سفید اور سرمئی کبوتروں نے سرشار سا ہو کر پرواز کی۔
’’پتا نہیں یہ جوگی ہیں فقیر کے‘ اللہ والے نہ خود اونگھتے ہیں‘ نہ چین سے آرام کرنے دیتے ہیں۔‘‘آصفہ کو گھر کے ہر کونے سے ماں کی آواز سنائی دی۔
’’میں ان پرندوں کی بیٹ صاف کر کرکے ہلکان ہوتی ہوں اور یہ مہارانی اڑتے پرندوں کو دانے ڈال ‘ڈال کر عادی کر دیتی ہیں۔‘‘ حنان کا قہقہہ‘ ماں کی بڑبڑاہٹیں‘ ساس کی دہائیوں پہ کیسے مسعود نے سرگوشی کی تھی۔
’’ہمیں بھی ایسے ہی دانہ ڈال کر پھانس لیا۔‘‘
’’ا ف! کہیں اماں نے سن تو نہیں لیا۔‘‘ ویسے ہی گھبرا کے سامنے دیکھا۔ شوہر کی مسکراتی نظروں سے ٹکراؤ ہوا ۔ یادیں زمانے گزر جانے کے بعد بھی کونوں کھدروں سے نکل کر اسے چھونے لگیں۔
’’آپا! اگر کوئی بات ہے تو میں کہتا ہوں اپنی سہیلی کو آنکھیں کھول کر دیکھا کرو ۔ کیا خبر سچائی نظر آجائے۔‘‘ حنان دھیرے سے اس کے پاس سے اٹھا ۔ اس نے بے دھیانی میں اپنا پہلو ٹٹولا جو بالکل خالی تھا ۔
کاش وہ اس کی باتوں کا اعتبار کرتی ‘ذرا جو پر کھتی تو سچ سامنے آجاتا۔ توکیا زوبیہ ‘ حنان کی فیملی سے بدلہ لینے کے لیے اتنے سال کسی آسیب کی طرح اس کی ذات سے چمٹی رہی۔
’’امی سوچ لیجئے۔‘‘ اذان کی آواز سے اک سحر سا ٹوٹا‘ یادوں نے یکلخت چہرہ چھپایا۔
’’ صرف بہو نہیں پورا سمندر ساتھ جائے گا۔‘‘ آصفہ نے بائیں طرف سے گردن کو ہلکے سے مسلا اور روشن دانوں سے نظریں ہٹا کر سوالیہ انداز سے بیٹے کو دیکھا ۔ جواب امن کی طرف سے خاصا تفصیل سے دیا گیا ۔ عدن نے شرمندہ ہو کر پہلو یہ بدلا۔
’’مجھے منظور ہے ۔‘‘ آصفہ کی آواز سب کے قمقموں میں دب گئی۔ اس نے ڈھیروں دعاؤں سے نواز کر اس کی انگلی میں انگوٹھی پہنائی۔ اذان کی جگر ‘جگر کرتی آنکھیں عدن پہ مرکوز تھیں ۔ جب بیٹے کو مسعود نے انگوٹھی پہنائی تو اسے حنان کی جگہ پا کر سب کی آنکھیں بھیگ گئیں۔
’’ اچھے وقتوں کو بلاوجہ کی انا میں باندھ کر رکھ دیں اور پھر بھول جائیں تو اچھی یادیں بھی پچھتاوؤں کے ناگ بن کر ڈستی ہیں ۔ میں اپنے ساتھ صرف ایک عمر لے کر جاؤں گی‘ جس میں صرف ہم جئیں گے ۔‘‘ عدن نے اپنے پہلو میں بیٹھے اذان کو ذرا سا دیکھا۔
’’میں نے دنیا کو اور کتابوں کو بالکل بھی نہیں پڑھا ‘بس دنیا کو بے رحم اور خود غرضی کی حالت میں دیکھا اور برتا ہے، مگر ان ڈائجسٹوں میں زندگی کو برتتی ، قریب سے دیکھتی‘پڑھی لکھی رائٹرز کو بہت گہرائی تک جاکر پڑھا ہے کہ خوشی فراہم کرنا اور خوش رہنا ہی اصل زندگی ہے ۔ بیچ میں جو سب بھی ہوتا ہے وہ دھواں بن کر اڑ جاتا ہے ۔ نیت کی سچائی بھی رائیگاں نہیں جاتی ۔ ‘‘ اس نے خالہ کے تکیے کے ساتھ پڑے ڈائجسٹ کو محبت پاش نظروں سے دیکھا۔
تب ہی ایک ہنس مکھ فاختہ اوپری سیڑھی پہ آبیٹھی۔
اس نے آبخوروںمیں پانی بھرنے والی‘گھونسلوں سے گرے تنکوں کو سمیٹ کے رکھنے والی‘ ہر موسم میں شاخوں کو ہرا بھرا دیکھنے کی دعا کرنے والی لڑکی کو اپنے پہلو میں شخص کے ہمراہ ہمیشہ سرسبز رہنے کی دعا دی تھی۔

ختم شد

پچھلا صفحہ 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے