مکمل ناول

چھپا کے چھئی : فرزانہ کھرل

’’کیوں امی! آپ ان کے معاملے میں اتنی کھٹور کیوں ہو جاتی ہیں۔ وہ آپ کی سگی بھتیجیاں ہیں ، جنہیں ایک غیر عورت کے لیے آپ نے اپنی زندگی سے نکال پھینکا ۔ آپ خدا کے گھر اور روضہ رسول اللہ علیہ وسلم سے ہو کر آئی ہیں ‘پھر بھی ان کے خلاف دل کا میل نہیں دھویا‘ خدا کے گھر پہ تو نگاہ پڑتے ہی انسان نیا جنم لیتا ہے ‘سبز گنبد کے سامنے ہاتھ اٹھا کر تو بندہ …غیروں تک کے لیے دعائیں کرتا ہے اورآپ اپنی سگی بھتیجیوںکے لیے دل سے بغض اور کینہ ختم نہیں کر سکیں، ہمارے دین میں تو تین دن قطع تعلق کی ممانعت ہے کجا کہ اتنے سال …‘‘ آصفہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے بیٹے کا چہرہ بے یقینی سے تکنے لگیں ‘یہ وہ اذان تو نہیں جو صرف مطلب کی بات کرتا تھا ۔ بیٹے نے لوہا گرم سمجھا اور مزید ضرب لگائی ‘اور ان کے تمام حالات ماں کے سامنے کھول کر رکھ دیے ‘جن کا چہرہ کبھی دھواں تو کبھی شعلہ ہو جاتا ۔
’’سوچیں آج کے خود غرض دور میں جب سگے ماموں نے یہ کمال دکھائے ہیں ‘تو غیر تو ان کو بیچ کے کھا جاتے ۔‘‘اس نے ساری تفصیل بیان کی تو ان کیے چہرے کر رنگ اڑا۔ تازہ تازہ کی گئی عبادت کا اثر تھا کہ دل میں تل برابر گنجائش بنتی محسوس ہوئی۔
’’زوبیہ تو مجھے اور ہی کہانیاں سناتی تھی۔‘‘
’’ سچ پوچھیں تو ان کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں میں آپ برابر کی شریک ہیں۔‘‘ آج وہ دل کی بھڑاس خوب نکال رہا تھا۔
’’بس کردو اذان ۔‘‘آصفہ کا کمزور سالہجہ‘ جگہ ‘جگہ سے ٹوٹا۔
’’سچ یہی ہے امی ‘آپ ان سے رشتے استوار رکھتیں تو انہیں لاوارث سمجھ کر لوگ ان پہ زندگی کو تنگ نہیں کرتے ۔ ‘‘ وہ جیسے تھک ہار کے چپ ہو گیا۔ آصفہ نے دز دیدہ نظروں سے شوہر کو دیکھا۔
’’ہو گیا نا بیٹا میرے سامنے آپ یہی چاہتے تھے۔‘‘ شوہر نے بلاوجہ دائیں بائیں دیکھا۔
’’ حنان کی بیوی اچھی عورت نہیں تھی ۔ اس نے بھانجیوںکو بھی اپنی راہ چلا لیا۔‘‘وہ بھی بیٹے سے حساب برابر کرنے روبروآگئیں۔
’’اچھی عورتیں کیسی ہوتی ہیں ذرا مجھے تفصیل بتائیں۔ ‘‘اس کے اندر اشتعال کی لہر اٹھی۔
’’جو عورت پچھلے نو سال سے ضرور تاََ بستر سے اٹھتی ہے ۔ اسے کو ن سی بری لت لگی ہوئی ہے ۔‘‘ اس کی ماں نے سرعت سے سر اٹھا کر اسے دیکھا ۔کانوں میں زوبیہ کی آواز ابھری ۔
’’حادثے کے سال بھر بعد بھلی چنگی ہو گئی تھی ۔ سارا دن خود بھی آوارہ گردی کرتی ہے اور لڑکیوں پہ بھی ذرا روک ٹوک نہیں ‘ اسے مردوں کو پھنسانے کا فن آتا ہے ۔‘‘ وہ دھیان سے چونکیں‘اذان کبھی جھوٹ نہیں بول سکتا ‘بیٹے پہ بھی پورا یقین تھا۔
’’بہت جلدبہت ساری سچائی کھل کر آپ کے سامنے آجائے گی۔‘‘وہ اٹل لہجے میں کہتا وہاں سے اٹھ گیا۔ دونوں میاں بیوی نے اٹھ کر ایک دوسرے کو دیکھا۔
’’اگر اتنی اچھی ہوتی تو حنان کی بچیوں سے صرف خدمتیں نہیں کرواتی ۔ انہیں صرف پلو سے باندھ کے رکھا‘ کسی اسکول کا منہ تک نہیں دیکھا۔‘‘ اس نے لائونج کا دروازہ عبور کرتے ہوئے یہ آخری بات سنی تھی۔
٭…٭…٭
’’اذان بھائی نے تو بے وفائی کی حد کر دی‘ کہتے تھے جلد آیا کروں گا‘ مگر دو ہفتے سے اوپر ہو گئے جو ایک چکر بھی لگایا ہو۔ ‘‘ا من واقعی اداس تھی۔
’’ماشاء اللہ اس کے ماں باپ حج کر کے آئے ہیں ۔ ابھی تو ملنے ملانے والوں سے ہی فراغت نہیں ہو گی۔‘‘ امن کے شکوئوں پہ مدحت اسے تسلیاں دیتی۔
’’دو ہفتے ‘دوماہ‘ پھر دو سال انتظار کرتی رہنا ۔ ‘‘ عدن کا اتنا کہنا اسے آگ بگولا کر دیتا‘عدن کے چہرے پہ صدیوں اور زمانوں کا حساب کتاب پڑھ کر اندیشوں میں گھری محبت بند گلی کے آخری گھر کا کواڑ کھول کے راستہ دیتی۔
٭…٭…٭
مجمع لگا تھا‘چھٹ بھی گیا تھا‘ عدالت لگائی گئی گواہ‘ وکیل ‘جج ‘سب ہی نے اپنی ‘اپنی بولیاں بولیں ‘مجرموں کو کٹہرے میں کھڑا کیا گیا۔ الزام سنایا گیا‘ کوئی اپنی صفائی میں بولا تو کسی نے ہارمان کے جرم تسلیم کر کے گردن جھکالی ۔اذان کو زوبیہ اور منیر میں کچھ فرق محسوس نہیں ہوا تھا دونوں ہی موقع پرست ڈھیٹ بے شرم ثابت ہوئے۔
سب سے زیادہ ظلم تو آصفہ نے اپنے وجود پہ ہوتا محسوس کیا وہ دکھ سے ابھی تک نڈھال تھیں ، انہوںنے ایک غلط لڑکی سے دوستی نبھائی اوراس لڑکی نے دوستی کی آڑ میں خوب دشمنی نبھائی۔ماضی کے جھرکوں میں جھانکتا ان کا دل ایک دم ڈوبا تھا۔
ایک ترو تازہ سی صبح کو رشتے کروانے والی ماسی‘ اماں کو کچھ لڑکیوں کی تصویریں دکھانے لائی ۔ حنان بھی قریب بیٹا ناشتہ کر رہا تھا ۔اماں کو جولڑکی پسند آئی ‘بیٹے کو بھی چپکے سے تصویر تھمادی‘ نرم و نازک سی مسکراتی آنکھوں والی صباحت پہلی ہی نظر میں اس کے دل کو بھا گئی، سو ان کی طرف سے لڑکی والوں کو رضامندی کا عندیہ بھیج دیا گیا ۔ اماں نے آصفہ کو بھی بلاوا بھیج دیا‘جس کے ساتھ سات سال کا اذان بھی تھا۔
بھائی کی شادی کی تاریخ رکھنے کی خبر سن کے بہن نے لڑائی کی کہ وہ تو اپنی سہیلی زوبیہ کو بھا بھی بنانا چاہتی ہے‘ اماں بھی سامنے سے ڈٹ گئیں کہ زبان دے دی ہے‘ انکار نہیں ہو سکتا، کچھ عزیز از جان شوہر نے بھی سمجھا بجھا کر ٹھنڈا کیا ۔بجھے دل کے ساتھ ہی سہی مگر بارات کے ساتھ چار گھنٹے کا سفر کر کے بھائی کی من پسند بیوی بیاہ لائی ‘واپسی پہ شوہر کے ساتھ اپنے سسرال چلی گئیں ۔ بھائی کو اس بات کا ہمیشہ قلق رہا کہ اکلوتی بہن نے شادی کی پہلی پہلی رسموں میں شرکت کرنا بھی گوارا نہیں کیا۔
ان کی ہنستی ‘بستی زندگی کو پتا نہیں کس کی بددعا لگی کہ ایک رات ہیضے جیسے عارضے میں مبتلا ہو کر صباحت چل بسی ۔ اماں اور حنان کی اس آناََ فاناََ صدمے سے جیسے کمر ٹوٹ گئی ۔ دکھ کے اس کڑے اور بھاری وقت میں بھی آصفہ نے کم ہی میکے کا رخ کیا ۔ان ہی دنوں زوبیہ نے دوبارہ اپنی خواہش سہیلی کے سامنے ر کھی‘ تو وہ دوڑی دوڑی ماں اور بھائی سے بات کرنے پہنچیں‘ مگر اس بار بھی اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا کیونکہ حنان مدحت سے شادی کا فیصلہ کر چکا تھا، بہن کے سامنے اس نے زوبیہ کی منگنیاں ٹوٹنے کا بھی پول کھولا‘ مگراس نے کسی بات پہ اعتبار نہیں کیا۔
’’آپا! جوان بہن کی اچانک موت پہ مدحت نیم پاگل ہو چکی ہے۔ بھانجیوں کو اپنی آغوش میں سمیٹے گی توان میں بہن کی خوشبو پاکر سنبھل جائے گی۔‘‘ اس شام دونوں کی تلخ کلامی گلی کے موڑ تک سنی جاسکتی تھی۔
’’زوبیہ ایک فلرٹ اور حاسد لڑکی ہے‘ کبھی اس سے پوچھنا کہ وہ کن کی گاڑیوں میں گھومتی پھرتی ہے ۔‘‘ وہ لبوں پہ ہاتھ دھرے ششدر سی دیکھ رہی تھی‘ بھائی کو نہیں بلکہ دروازے کی اوٹ میں کھڑی زوبیہ کو‘ اس کے استعجابیہ انداز پر حنان نے پیچھے مڑ کے دیکھا‘وہ جا چکی تھی۔
’’اگر تم نے میری دوست کے بجائے اپنی سالی سے بیاہ رچایا تو مجھ سے اپنا رشتہ ختم سمجھو۔‘‘ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتی حتمی لہجے میں پھنکاری۔
’’اس سے تو میں مر کے بھی شادی نہیں کروں گا ۔ تمہیں جو کرنا ہے کر لو۔ ‘‘ ماں نے دہل کر دونوں ضدی بچوں کو دیکھا ‘انہوں نے سینے میں امڈتے درد کو ہاتھ سے دبایا‘جانتی تھیں کہ بیٹی نے جو کہہ دیا وہ کر دکھائے گی ۔ جب تک ماں زندہ رہی حنان کی غیر موجودگی میں آصفہ دو گھڑی میکے کا چکر لگا جاتی تھی‘ بعد میں یہ سلسلہ ختم ہو گیا ۔ اس گھر میں مدحت کی موجودگی اسے شدید ترین شکست کا احساس دلاتی۔
آخری بار وہ ناظم آباد اپنے مرے ہوئے بھائی کا آخری دیدار کرنے گئی تھیں ۔سب ہی اپنے اپنے گھروں کو جاچکے تھے ۔ اسے رونا نہیں آرہا تھا‘ حالانکہ رونے کا مقام تھا‘ ان کے اعتبار کی دھجیاں اڑی تھیں ‘کیسے زوبیہ نے ان کا تمسخر اڑاتے ہوئے اعتراف کیاتھا۔
’’اس نے مجھے آوارہ اور بد چلن کہا تھا‘ پھر میں کیسے ڈھنڈورا پیٹتی پھرتی کہ حنان کی بیٹیاں تو زم‘ زم سے دھلی ہیں ۔‘‘ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بھائی کے گھر سے فاصلوں کی خلیج تو کبھی اس کی دوست نے پاٹنے ہی نہیں دی تھی‘ وہ ان کی سگی بھتیجیاںتھیں جنہیں برباد کرنے میں زوبیہ ہر حد سے گزر گئی تھی۔ پتا نہیں کہاں کہاں اس نے حنان کی بیٹیوں کورسوا نہیں کیا ہوگا ۔ ان کا سینہ جلنے لگا‘ ان کے اردگرد مختلف آوازیں ناچنے لگیں۔
٭…٭…٭
وہ ایک مسئلے سے نمٹ پاتا تو دوسرا کھڑا ہو جاتا، آج کل آفس میں کام کی نوعیت کچھ ایسی ہی تھی ۔ ہڑتالز وغیرہ میں کچھ کمی آئی تھی جس کے باعث فیلڈ کا کام ذرا کم ہو گیا تھا اب TMA کی حدود کے اندر سڑکوں کی ڈیولپمنٹ کے لیے ٹھیکیداروں کا تانتا بندھا رہتا ‘تو کبھی تحصیلدار لوگوں کی زمینوں کے ریکارڈ اٹھا کر ان کے رقبے مخصوص کرانے کی غرض سے روزانہ چکر لگاتے رہتے‘ اس وجہ سے چاہنے کے باوجود وہ ناظم آباد نہیں جاپا رہا تھا ۔ ابھی لنچ کے لیے وہ اٹھاہی تھا کہ سیل پہ میسج ٹون ہوئی ‘وہ میٹنگ میں مصروف تھا تو موبائل سائلنٹ کر دیا تھا۔
’’بھائی آپ کال ریسو کیو ں نہیں کررہے۔‘‘امن کا میسج تھا۔
’’اوہ خدا ! ‘‘ لاتعداد کالز تھیں ۔اس نے سائلنٹ پر سے ہٹایا ہی تھا کہ کال دوبارہ آگئی۔
’’ ماموں لوگ آئے ہیں ۔ کہہ رہے ہیں عدن اور جبران کا نکاح ابھی ہو گا۔ آپ پلیز ابھی آجا ئیں ۔‘‘ کہہ کر حواس باختہ سی امن نے کال ڈراپ کر دی ۔یہ سن کر اس کے قدموںتلے زمین ساری تہوں تک کھسکی تھی ۔ ایک گھنٹے کی ڈرائیو اس نے پینتس منٹ میں کی‘ وہ گاڑی اڑا کر لایا تھا ، صحن میں دس افراد پہ مشتمل مختصر سی بارات پہ وہ اچٹتی سی نظر ڈالتا سیدھا مدحت کے پاس آیا ۔ منیر صاحب کی اس طرف پشت تھی۔
’’ یہ سب کیا ہے آنٹی؟‘‘ اس کا سنجیدہ لہجہ برف میں لپٹا ہوا تھا۔ منیر جیسے اچھل کر کھڑا ہوا۔
’’ اس معاملے سے تمہارا کوئی تعلق نہیں برخوردار ۔‘‘ وہ اونچی آواز میں غرایا۔
’’ آواز نیچی رکھیں منیر صاحب …یہ گھر ہے‘ آپ مجمعے میں نہیں کھڑے ۔‘‘مضبوط لہجے میں کہہ کر اس نے تمام لحاظ بالائے طاق رکھتے ہوئے ان کی طرف شہادت کی انگلی اٹھائی۔
’’وہ میرے بیٹے کی منگیتر ہے، ایسے کیسے ہم رشتہ ختم کردیں۔‘‘
’’پھر مرد چار شادیاں بھی کر سکتا ہے۔‘‘ وہ یقیناََ منیر کی بیوی تھی جو کمر کس کے میدان میں اتری۔
’’اور تم ہوتے کون ہو میرے شوہر سے اس طرح جرح کرنے والے ‘خاندان ہمارا‘ لڑکی ہماری ۔‘‘ اس عورت کی آنکھیں مقابل کو جسم کرنے والے شعلے اگل رہی تھیں۔
’’ نسیمہ! ختم کرو یہ ڈرامہ۔ ‘‘مدحت پہلی بار غصے بھری آواز میں چلائیں۔
’’اور اپنی یہ نام نہاد بارات ‘واپس لے جاؤ … جہاں تک اذان کی بات ہے یہ غیر نہیں ان بچیوں کا پھوپھی زاد ہے۔‘‘ مدحت کے ہاتھ سے ضبط کا دامن چھوٹا جارہا تھا۔
’’ارے منیر…تم فون کر کے قاضی کو بلاؤ میں دیکھوں گی‘ کون روکتا ہے۔‘‘ وہ پہلے سے زیادہ کرخت آواز میں بولی۔
’’آپ اپنی آنکھوں سے دیکھیں گی‘ میں روکوں گا۔‘‘ اس کے مضبوط اٹل لہجے پہ ایک لمحے کو جیسے وہاں سب کو سانپ سونگھ گیا۔
باوقار‘ بربار‘ سچا‘ حکم صادر کرنے والا‘ اپنے زورِ بازو پہ فیصلے بدلوانے والا‘ اس کی پسند ایسی ہی تھی۔ دروازے سے جڑی عدن آنکھوں سے بہتا نمکین پانی ہاتھ کی پشت سے صاف کرنے لگی۔
’’ ہماری بات کو سمجھو بیٹا‘ ان بچیوں کے اپنے ہم دونوں گھرانے ہی ہیں ، کسی بھی تیسرے گھر والے لالچی ہوسکتے ہیں‘ مخلص نہیں ۔ کل کو لڑکیوں سے سب کچھ ہتھیا کر‘انہیں خالی ہاتھ اور بے سہارا چھوڑنے والوں کی کمی نہیں ‘کئی اپنے بن کر ان کی زندگیوں میں آئیں گے‘ مگر حقیقت یہی ہے کہ دولت کے لیے آنے والوں کو لڑکیوں کی کمی نہیں ہوتی ۔ ‘‘ منیر کی بیوی نے گرگٹ کی طرح رنگ بدلا ۔
’’ جبران شادی شدہ ضرور ہے مگرمال ہتھیا کر لڑکی کو بے سہارا نہیں کرے گا ‘کھائے گا بھی تو مل بانٹ کے‘ باقی رہ گئے تم تو سیدھی بات یہی ہے ‘ تم ایک اعلیٰ خاندان کے چشم وچراغ ہو۔چار دن ہمدردی دکھا کر اپنی راہ ہو لو گے پھر۔‘‘ وہ مسکرا کر سیدھا ‘ اس کی آنکھوں میں دیکھتی اسے عجب سی آزمائش میں ڈال گئیں۔
’’میں اگر اعلیٰ خاندان کا ہوں تو عدن بھی گری پڑی نہیں … اور میں ہمدردی جتا کر اپنی راہ پہ واپس نہیں جاؤں گا ، آپ کو اعتبار نہیں تو ابھی قاضی کو بلائیں ۔ میں ابھی اسی وقت عدن سے نکاح کے لیے تیار ہوں ۔ ‘‘ بہت پر سکون ہو کر بارعب انداز میں اپنا فیصلہ سنا گیا ۔ وہاں اتنی خاموشی تھی کہ سوئی گرنے کی آوازبھی سنائی دے جاتی۔
’’مگر مجھے کسی سے بھی شادی نہیں کرنی۔‘‘ اس خاموشی کو عدن کی فیصلہ کن سرد آواز نے توڑا۔
’’دونوں باراتیں واپس جاسکتی ہیں ۔ ‘‘ وہ سب کو حیرت کے بوجھ تلے دباتی اس مہرباں پہ ایک شکوہ کناں نظر ڈالتی واپس مڑگئی جس کا خوب صورت چہرہ ایک پل کو متغیر ہوا تھا۔
’’اور ہاں ایک بات اور …‘‘ اس نے دوسرے پل اپنا رخ روشن دکھایا۔
’’میں اپنے باپ کے گھر رہ رہی ہوں، سڑک پہ نہیں کہ کوئی بھی میرا ہاتھ تھام سکتا ہے ۔ ‘‘ اس بار اس نے اندر جا کر دروازہ کھٹاک سے بند کیا تھا۔
’’لوجی، آپ تو کہتے تھے لڑکی کے منہ میں زبان ہی نہیں ۔بے زبان گائے جیسی ہے۔ دیکھ لیا کیسے اس بے زبان گائے نے کسی کے آگے سوکھی گھاس بھی نہیں ڈالی تو بہ ‘ توبہ۔ ‘‘ منیر کی بیوی نے کانوں کو ہاتھ لگائے۔
’’ا رے مدحت !تف ہے تمہاری تربیت پہ ۔‘‘ وہ ہاتھ نچاتی لہراتی سب کو اٹھنے کا اشارہ کرتی بلند آواز میں تبصرے کر رہی تھی۔
’’واہ منیر صاحب !یہاں لاکر آپ نے ہمیں یہ کمال دکھانے تھے‘ ابھی تو چلیں بعد کی بعد میں دیکھی جائے گی ۔‘‘ منیر نے فاتحہ پڑھتی نظروں سے بہن کو دیکھا‘ جو پتھر کا بت بنی بیٹھی تھیں ۔ اگلے دو منٹ میں گھر خالی ہو گیا ۔ اذان کا دل ابھی تک بے یقینی کی منزلوں پہ کھڑا تھا۔
’’آنٹی مجھے بھی اجازت دیجئے۔‘‘وہ پھیکا سا مسکرا یا‘ مگر مدحت مسکرا بھی نہ سکیں، بس نگاہیں اٹھا کر اس کے چہرے پہ بے یقینی کے اترے سایوں کو خالی خالی تکا۔
’’بھائی پھر آئیں گے ناں ؟ ‘‘ امن کسی کمرے سے نکل کر تیزی سے اس کے سامنے آئی اور امید بھری نظروں سے اسے دیکھا۔
’’ہاں گڑیا! کیونکہ میں نے ابھی رشتے ختم نہیں کیے ۔‘‘ وہ اس کا رخسار تھپتھپا کر نرمی سے گویا ہوا۔ مگر قدم اٹھانے سے پہلے اس نے اس دشمن جاں کے کمرے کے بند دروازے کو ایک عزم سے دیکھا تھا۔
٭…٭…٭

پچھلا صفحہ 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12اگلا صفحہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے