مکمل ناول

چھپا کے چھئی : فرزانہ کھرل

’’ مگر ہم تو کھاچکے ہیں۔‘‘ اس گھر میں ظہر سے پہلے کھانا کھالیا جاتا تھا۔
’’ مگر مجھے تو بھوک لگ رہی ہے۔‘‘ وہ فوراََ اسی کے اسٹائل میں بولا تو اس کی ہنسی چھوٹ گئی اس کے ہاتھ منہ دھونے تک امن ٹرے سجا کر لے آئی۔
’’ آپ اتنا کھانا لے آئے ہیں کہ مزید دس آدمی کھا سکتے ہیں۔‘‘وہ مسکراتے ہوئے اس کے سامنے ٹک گئی۔
’’چلو رات کو سب مل کے کھالیں گے ۔ عدن کو بھی کچھ فراغت نصیب ہوگی ۔ ‘‘ اس کے منع کرنے کے باوجود رات کا کھانا خاصا اہتمام سے تیار کیا جاتا تھا۔
’’ آج کل وہ کچھ زیادہ ہی ٹی وی دیکھتی ہے ؟ ‘‘ پوچھنے کا انداز سرسری سا تھا ۔ پھر بھی دل عجب سی لے پہ دھڑکا۔
’’ کوئی ٹی وی شی وی نہیں دیکھتی ۔ اکثر اسے چپ کے دورے پڑتے ہیں پھر بس کچن اور کمرہ ان دو مقامات کے علاوہ ہر جگہ سے غائب ۔ آج کل تو ناول بھی خالہ خود ہی پڑھتی ہیں۔ آپ نے انہیں چشمہ لگوا کر مجھ پر بڑا احسان کیا ہے۔‘‘ وہ ہنس کر بولی۔
’’کیسے ؟ ‘‘ محض نگاہوں نے استفسار کیا۔
’’خواہ مخواہ مجھے بھی سنناپڑ تا تھا ۔ ‘‘منہ بگاڑ کر کہا ۔ اس نے ذرا سا مسکرا کر نگاہ جھکائی۔ ان دونوں کے درمیان صرف خاموشی کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ خالہ دو پہرکے کھانے کے بعد سو جاتی تھیںاور وہ کہیں غائب تھی۔
’’ مجھے آپ سے ایک ضروری بات کرنی ہے۔‘‘ وہ محسوس کر رہا تھا کہ وہ کافی دیر سے تذبذب کا شکار تھی۔
’’ ہاں ضرور۔ ‘‘وہ مصروف سے انداز میں بولا۔
’’کل ساجدہ خالہ نے اشار تاََ اپنے چھوٹے بیٹے کا رشتہ دیا ہے۔‘‘ لقمہ توڑتے اس کے ہاتھ لمحہ بھر کو ساکت ہوئے۔
’’ مگر مجھے معلوم ہے عدن انکار کردے گی۔‘‘ سانس نے کچھ تازگی محسوس کی۔
’’کیوں ۔ ‘‘وہ ہولے سے مسکرایا۔
’’کیونکہ اسے گنجے مرداچھے نہیں لگتے ۔ خالہ کے بیٹے کی ناک بھی لمبی ہے جو کہ اسے پسند نہیں ہے۔‘‘
’’ اوہ ! ‘‘ پانی کا گلاس لبوںسے ہٹا کر امن کا سنجیدہ چہرہ دیکھا۔
’’ اسے اور کیا کیا پسند نہیں ۔ ‘‘ پتا نہیں اسے جاننا مقصود تھا کہ خود کو خوش کرنا۔
’’چھوٹا قد اور جس کی توند نکلی ہوئی ہو وہ بھی نہیں ‘رنگ بھی کالا نہ ہو۔‘‘ اس نے ایک ہی سانس میں اگلا۔
’’ یعنی کہ بندہ ہیرو ٹائپ ہو ۔‘‘ وہ اب پوری دلچسپی سے اس کی طرف متوجہ تھا۔
’’آپ پلیز خالہ سے کہیں، انہیں انکار کردیں اور عدن کا رشتہ وہاں ہونا چاہیے ۔ وہ برسوں سے جسے پسند کرتی ہے ۔ ‘‘ اٹھایا تو اس نے کھیرے کا ٹکڑا تھا ‘ مگریوں لگا جیسے ہزار والٹ کی ننگی تار ہاتھ میں آگئی ہو ۔ اسے کبھی محسوس نہیں ہوا تھا کہ وہ کسی اور میں انوالو ہے‘ شناسائی کے ریشم سے بندھی ان گھور سیاہ آنکھوں کو اس نے اپنے چہرے پہ جیسے بارہا محسوس کیا تھا ۔ وہ اعلا تعلیم یافتہ نہیں تھی ‘وہ مکمل حسن کے معیار پہ بھی پوری نہیں اترتی تھی ۔ پھر بھی وہ ایسی تھی جسے پورے فخر و غرور کے ساتھ چاہا جا سکتا تھا ۔ وہ پریشانیوں کے سمندر میں بھی خوشیوں کے کنارے ڈھونڈ نکالتی تھی ۔ اس نے اپنی خالہ کے سامنے اتنا کچھ ہونے کے باوجود ماموں کے خلاف ایک لفظ نہیں کہا تھا ‘بلکہ دل کی بھڑاس نکالتی امن کو بھی ڈپٹ کر خاموش کروادیا تھا ۔ وہ مدحت کو دکھ اور تنہائی کی کیفیت سے چند دنوں میں ہی واپس لے آئی تھی۔ اس نے کھیرا واپس پلیٹ میں رکھا۔
’’ تم جانتی ہو وہ کون ہے؟‘‘ اپنی ہی آواز کی پستی پہ اسے ہنسیں آئی۔
’’ ایک میں کیا اسے تو پورا پاکستان جانتا ہے۔‘‘ وہ کھلکھلائی ۔
’’ بلکہ آپ بھی جانتے ہوں گے ۔‘‘ وہ اس کی بات پر چونکا۔
پھر کچھ دیر بعد جوابدہ ہوا تو لہجے میں احتیاط سی تھی۔
’’ محلے میں سے کوئی ایکس وائے زیڈ ہوگا ۔ رہی یہ بات کہ اسے میں بھی جانتا ہوں تو سوری…‘‘ اس نے سراٹھا کر مسکرانے کی کوشش کی۔
’’جی نہیں‘ یہ تینوں نہیں ‘ ہمایوں سعید کی بات کر رہی ہوں۔‘‘
’’ لا حول ولا قوۃ ۔‘‘وہ سر جھٹک کر ایک دم ہی ڈھیلا پڑا۔
’’ تم لڑکیاں بھی ناں ۔ ‘‘اس نے سامنے براجمان امن کا سرزور سے گھما ڈالا۔
’’ یہ بندہ شادی شدہ ہے اور اس کی بیوی اسے اپنے ہینڈ بیگ میں گھسا کر رکھتی ہے ۔ ‘‘نچلی سیڑھی پہ استادہ عدن ‘بہن کو قاتلانہ نظروں سے گھورنے لگی‘ امن کے چہرے پہ مایوسی کے رنگ بھر گئے‘ پھر ایک دم ہی کسی دھیان کے تحت چہکی۔
’’تو پھر یوں کریں حمزہ عباسی کا اتا پتا ڈھونڈ یں ۔‘‘ وہ جو اٹھنے لگا تھا اس نئی افتادپہ بوکھلا کر پلٹا۔
’’ وہ عدن کی شادی ‘کہیں نہ کہیں تو کرنی ہے ۔ ‘‘ وہ اس کے جارحانہ تیور دیکھ کر کچھ جھجکی‘ کچھ ڈری۔
اس نے ہاتھ میں تھمی فائل چارپائی پہ پٹخی ‘پھر طیش سے اس کا بایاں کان کھینچا۔
’’ تم یہیں رکو‘ میں ابھی جاوید شیخ کو اپنے ساتھ لے کر آتا ہوں ۔ ‘‘ اتنا کہہ کر وہ جز بز ہوتی‘ دور کھڑی عدن پہ فرصت کی نظر ڈالتا باہر چلا گیا ۔ دونوں بہنیں پہلے تو کھسیانی سی ہو کر ہنسیں ۔ پھر کھلکھلا کر ہنستی ہی چلی گئیں، ان کی لوٹ پوٹ ہونے والی ہنسی مدحت کی سمجھ سے باہرتھی؟
گیٹ کے پاس کھڑے اپنے سیل پہ کسی کا نمبر ملاتے اذان کی سمجھ میں اچھی طرح آرہی تھی۔
٭…٭…٭
اپنے روبرو بیٹھی ثمرہ کے منہ سے شیر دل کا ذکر سن کر زوبیہ کا دماغ بھک سے اڑا۔
’’آپ مجھے غلط مت سمجھیں ‘دراصل مجھے اس سے کچھ معلومات چاہئیں۔‘‘ وہ اپنے ذہن میں لفظوں کو ترتیب دے کر بول رہی تھی۔
’’میں پوچھ سکتی ہوں کہ کس طرح کی معلومات؟‘‘زوبیہ نے گلا کھنکار کر پوچھا۔ اس کی آنکھیں ثمرہ کا سٹی اسکین کررہی تھیں۔
’’آپ نے کہا تھا کہ اذان کی ماموں کی بیٹیاں کچھ اچھی شہرت نہیں رکھتیں ‘ تو مجھے ان کے ہی متعلق پوچھ گچھ کرنی ہے۔‘‘ زوبیہ کے چہرے پر کئی رنگ آکر گزر گئے۔ وہ عجیب الجھن کا شکار ہوئی۔
’’ یعنی مجھے ان کے خلاف کچھ ثبوت چاہئیں۔‘‘ بالآخر اس نے کھل کر بات کرنے کا فیصلہ کیا اور چند باتیں حذف کرکے باقی اپنی اور اذان کی تکرار‘ من و عن اس کے گوش گزار کی ۔ یہاں تو کہانی کچھ اور ہی موڑ لے چکی ہے ۔زوبیہ کا دل خوشی کی ترنگ سے جھوم اٹھا ۔
’’ تمہیں خبر ہے کہ اس سارے قصے میں غفران خود ملوث رہا ہے پھر بھی ۔‘‘ وہ انتہائی سنجیدگی کاچولا اوڑھ کربولیں۔
’’ جو بھی ہے مگر میں اذان کی آنکھوں پر بندھی پٹی اتارنا چاہتی ہوں، جس نے ان مڈل کلاس ‘کم حیثیت لوگوں کی وجہ سے مجھے پہ انگلی اٹھائی ۔ میرے لائف اسٹائل کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ ‘‘ وہ انتہائی تنفر کے ساتھ بولی۔
’’ لیجئے صیاد خود ہی دام میں آگیا‘حنان کی لڑکیوں کو تو واصفہ گھاس تک نہیں ڈالے گی ‘ باقی رہی ثمرہ تو وہ اپنا پتا خود ہی صاف کرنے پہ تلی ہوئی ہے ۔ اب سارہ کے لیے آصفہ کو راضی کرنا کوئی مشکل نہیں کیونکہ ایک دفعہ اس نے آس دلائی تھی کہ ثمرہ سے بات نہ طے ہوئی تو پھر میری بہو سارہ کے علاوہ کوئی نہیں ہوگی ۔ ‘‘ تاہم وہ کچھ دیر سر جھکا کر بیٹھی رہیں۔ پھر اس سے معذرت کرتی چائے بنانے کے بہانے دو سرے کمرے میں آئیں۔ اپنے چھوٹے بیٹے کے کان میں کچھ کھسر پھسرکی، پھر بیٹی کو چائے کی تاکید کرتی دوبارہ اندر آئیں ۔ کچھ لمحوں بعد ان کا بیٹا بھی اندر آگیا جو صرف گیارہ سال کا تھا۔ وہ جان بوجھ کر ثمرہ کے پہلو میں بیٹھی تھیں‘ وہ لڑ کا صوفے کی پشت کی جانب تھا۔
’’ ابھی میری شیر دل سے بات ہوتی ہے ۔ وہ چند ماہ کے لیے پنجاب چلا گیا ہے۔‘‘ گھر میں داخل ہو تا شیر دل پھوپھی کے منہ سے اپنا نام سن کر کھڑکی کے پاس رک گیا۔
’’ میری مانو تو دفع کرو یہ انتقام کا چکر‘ آصفہ کے آنے کے بعد سب کچھ پہلے جیسا ہو جائے گا۔ ‘‘زوبیہ نے پکی سہیلی کی طرح اسے سمجھایا۔
’’آپ پلیز اسے کہیں ایک دن کے لیے کراچی آجائے میں اسے منہ مانگی رقم دوںگی ۔ ‘‘وہ اپنی بات پر ڈٹی ہوئی تھی ۔ رقم کے ذکر پہ شیرو کے نہ صرف منہ بلکہ کانوں میں بھی شکرسی گھل گئی۔
’’ ارے مجھ سے بہت بڑی غلطی ہوئی جو اس نا خلف کی باتیں سن کر ‘ جوکے سراسر اس کی من گھڑت ہیں ۔ ان بچیوں کے خلاف آصفہ اور رخشندہ کے سامنے منہ سے کچھ پھوٹا … وہ تو خود ان کے پیچھے پڑا ہوا تھا ۔‘‘
’’ واہ پھوپھی ان کے پیچھے تو مجھے تم ہی نے لگایا تھا۔‘‘
’’ارے بیٹھو چائے تیار ہے۔‘‘ اسے اٹھتا دیکھ کربولی۔
’’پھر کبھی سہی ۔‘‘وہ لب بھینچ کر زراسا مسکرائی ۔ شیرو جلدی سے باہر نکل گیا ‘زوبیہ نے اللہ حافظ کہہ کر دروازہ بھیڑ دیا ۔
ابھی ثمرہ نے گاڑی اسٹارٹ کی تھی کہ ڈرائیونگ ڈور کے شیشے پہ بے صبری سے دستک ہوئی، اس نے کوفت سے سر اٹھا کر دیکھا پھر شیشہ نیچے گرایا۔
’’ میں شیر دل ہوں۔‘‘ وہ بے تابی سے بولا ۔ثمرہ نے نافہم انداز میں بے یقینی سے اسے دیکھا ۔
’’ آپ کو جو معلومات چاہئیں میں فراہم کر سکتا ہوں ۔ ‘‘ثمرہ چند سیکنڈا سے دیکھتی رہی ‘اس کے وجود سے تناؤ کی کیفیت کم ہونے لگی ہو۔ اس نے فرنٹ ڈور کھول کر اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
وہ دونوں نہیں جانتے تھے کہ گلی کا موڑمڑتی گاڑی میں ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے شخص نے شیردل کو اس کی گاڑی میں بیٹھتے دیکھ لیا تھا ‘ گویا اس منظر کی صورت اس کی آنکھوں میں تیزاب ڈالا گیا تھا۔ اشتعال کی کئی لہروں نے اس کے وجود کو گھیرا تھا اس نے گاڑی تیزی سے پیچھے کی اور اندھا دھندہ بھگالے گیا۔
٭…٭…٭
دروازے پہ ہونے والی دستک اگر چہ مد ہم تھی مگر سکوت شب نے کسماکر دستک دینے والی کو حیرانی سے دیکھا ۔ وہ اپنی کچھ فائلز بریف کیس میں رکھ رہاتھا‘ پلٹ کے دیکھا اور ساکت سارہ گیا ۔
’’ مجھے آپ سے چند باتیں کرنی ہیں ۔ ‘‘ وہ ابھی اپنے دیکھنے کو محسوس بھی نہیں کر سکا تھا کہ وہ اوجھل ہو گئی ۔ وہ بریف کیس بند کرتا تیزی سے باہر آیا ‘وہ اس کے کمرے کے سامنے ہی برآمدے کی اوپری سیڑھی پر بیٹھی تھی۔ وہ ایک مناسب فاصلے پر بیٹھ گیا۔
’’خالہ نے آپ سے میرے رشتے کے متعلق جو بات کی ہے، یوں سمجھیں جیسے آپ نے سنی ہی نہیں۔‘‘ وہ بنا تمہید باندھے بولی تو اسے رخ پھیر کے دیکھنا پڑا۔
’’ مجھے کہیں بھی ‘کسی سے بھی شادی نہیں کرنی‘ میں امن کو اعلیٰ تعلیم دلواؤں گی ‘ وہ ہم دونوں کا سہارا بنے گی۔ ‘‘
’’توکیا اس کی شادی بھی نہیں کروگی۔ ‘‘اسے ایک دم ٹو کنا پڑا سو سنجیدگی سے پوچھا۔
’’کیوںنہیں‘وقت آنے پر شادی ہوجائے گی مگر خالہ کو چھوڑ کر کہیں نہیں جائوںگی ۔ آپ پلیز کسی رشتے کا کبھی ذکر نہیں کریں گے۔‘‘ وہ ملتجی سا ہو کر بولی۔
’’اور جو آپ کی پڑوس سے رشتہ آیا ہے‘ اس کا کیا ہو گا۔‘‘حسبِ اند یشہ اس نے پوچھ ہی لیا۔
’’خالہ انہیں خودی انکار کردیں گی۔‘‘ وہ انتہائی یقین سے بولی ۔
’’ اب انہیں علم ہے کہ ہم بھی کچھ نہ کچھ پراپرٹی کی مالک بن چکی ہیں اور دکانوں کا قبضہ اور کرایہ بھی پورا ملتا ہے‘ اس لیے بیٹے کی منگنی ختم کرکے بھی ادھر رشتہ جو ڑنا چاہتی ہیں۔‘‘
’’مگر عدن زندگی کی کچھ ترجیہات ہوتی ہیں ۔ تم سدا جامن اور نیم کی چھاؤں کو انجوائے نہیں کر سکوگی ‘جب تم پانی پہ چھینٹے اڑانے والی لڑکی نہیں رہو گی تو تمہارا سہارا کون بنے گا ۔ ‘‘ اس کے بدن کو جیسے کسی نے جادو کی سوئی چبھو کر سن کر دیا تھا‘ سب کچھ بے خبری میں ہی ہوا‘ اس نے نرم آواز میں اور مضبوط لہجے میں آنے والی رتوں کا آئینہ سامنے رکھ دیا تھا۔
’’جیسے خدا نے مجھے خالہ کا سہارا بنایا ہے ویسے ہی مجھے بھی خدا سے اچھی امید رکھنی چاہیے ۔ ‘‘ محسوس کی جانے والی خاموشی ان دونوں کے بیچ چپکے سے جم کر بیٹھ گئی۔
’’آپ نے جو کچھ بھی ہمارے لیے کیا وہ ہم ہمیشہ یاد رکھیں گے ۔ ‘‘دور کسی جگنو پہ نظر ٹکا کر وہ خوابیدہ سی بولی۔
’’ آج کل کوئی بھی کسی کے لیے کچھ نہیں کرتا‘ کسی کے پاس فرصت ہی نہیں‘ اللہ پاک آپ کے ساتھ بھی بہت اچھا کرے گا۔‘‘ بے ساختہ چہرہ موڑ کے دیکھا اور پھر اس پر سے نظر نہیں ہٹا سکا‘ دعا کی خوشبو اور اس پاس بیٹھی لڑکی کی خوشبو‘ اس کی پلکوں سے لپٹنے لگی‘ عدن کا بھیگا ‘نم لہجہ اسے بے قرار سا کر گیا ۔وہ اسے نظروں کے حصار میں باندھ کے بیٹھا تھا۔
’’عدن۔‘‘ کچھ کہنے کے لیے لب وا کئے ۔
’’پلیز کچھ مت کہئے گا۔‘‘ اس نے گردن موڑ کے بس آنکھوں سے التجا کی تھی۔
٭…٭…٭
حج جیسا مقدس فریضہ ادا کر کے ان دونوں میاں بیوی کو گھر آئے بھی دس دن ہو چکے تھے ۔ تمام دن ملنے ملانے والوں کا تانتا بندھا رہتا‘ وہ منتظر ہی رہا کہ ماں باز پرس کرے گی یا اس کے خوب لتے لے گی مگر ان کی جانب سے ہنوز لاپروائی کا عالم تھا ‘جیسے نہ وہ کہیں گیا‘ نہ ماں اس سے دور رہی ‘مگر اس نے موقعہ ملتے ہی باپ سے شکوہ کر ڈالا۔
’’یار ابو اب اپنے اس چار کنال کے گھر میں میرادل نہیں لگتا، بس دل کرتا ہے بند گلی کے آخری گھر کا وہ کمرہ کرائے پر لے لوں ۔ ‘‘ وہ باپ کے کندھے سے لگ کر آنکھیں موند کے بولا۔
’’ہاہاہا ۔‘‘ان کا قہقہہ بڑا جاندار تھا ۔
’’ بھئی ہم تو یہاں سنجیدہ ‘بر دبار سا‘ اے سی صاحب چھوڑ کے گئے تھے کیا خبر تھی کہ واپسی ہمیں وہ ایک کالج بوائے کی صورت ملے گا۔‘‘ پوری آنکھیں کھول کے بیٹے کا مسکراتا چہرہ بغور دیکھا پھر رازداری سے کان میں سرگوشی کی۔
’’جس کے لیے وہ کمرا کرائے لینا ہے‘ اسے ہی اس گھر میں لے آؤ۔‘‘وہ کرنٹ کھا کر ان سے کچھ دور ہوا۔
’’ آپ کی زوجہ محترمہ ایسا ہونے دیں گی؟‘‘ الٹا ان ہی سے سوال کر ڈالا۔
’’ اب آپ ہی کچھ کریں کیونکہ سارا کیا کرایا آپ کا ہی ہے۔‘‘ اس نے باپ کے سرا الزام دھرتے ہوئے محتاط نظروں سے ادھر ادھر دیکھا۔
’’باپ بیٹے میں کیا راز و نیاز ہو رہے ہیں۔‘‘ آصفہ نے اندر آتے ہی دونوں کو بغور دیکھا۔ وہ ایک دم بہادر ہوا ۔آریا پار!
’’ کل حنان ماموں کے گھر چکر لگانے کا سوچ رہا تھا ‘تو اگر آپ کو کچھ بھجواناہو تو۔‘‘ وہ اتنا کہہ کر نچلاہونٹ دانتوں تلے دبا کر چپ ہو گیا۔
’’ میں کیوں بھجواؤں گی اور اب تمہیں ادھر جانے کی قطعاََ ضرورت نہیں ہے ۔ جو ہوا ‘سو ہوا ‘سمجھوتم ادھر کبھی رہے ہی نہیں ۔‘‘ وہ قطعی لہجے میں درشتی سے بولیں۔ کتنی دیر تک دونوں باپ بیٹے سن سے بیٹھے رہے۔

پچھلا صفحہ 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12اگلا صفحہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے