چھپا کے چھئی : فرزانہ کھرل
’’میں تم سے محبت کرتا ہوں… ‘‘وہ اس کا چہرہ وارفتگی سے تک رہا تھا۔
’’مگر میں تم سے محبت نہیں کرتی۔’’ مہوش حیات نے اس کی آنکھوںمیں آنکھیں ڈال کر انکار کردیا۔
’’ہونہہ، غرور تو دیکھو‘ انکار کررہی ہے ۔ مکر رہی ہے محبت سے … وہ بھی ہمایوں سعید کے اظہار پہ۔‘‘ عدن نے ریموٹ کافی غصے سے اٹھایا … پھر ایک جھٹکے سے ٹی وی بند کردیا۔
’’ہاہ… ہاہ … یہی اظہار محبت مجھ سے کبھی کرکے تو دیکھے قسم سے اپنا دل نکال کر اس کے بائیں پہلو پہ نہ ٹانک دوں تو میرا نام بدل دینا ۔‘‘ چت لیٹے ہوئے اس نے بیڈ پر دونوں بازو دائیں بائیں پھلائے … اور ایک ایسی ٹھنڈی آہ بھری کہ کمرے میں چھائے ساون کے حبس اور گھٹن پہ بھی کپکپی طاری ہوگئی۔
’’ہمایوں سعید نہ ہوا ۔ حمزہ عباسی ہوگیا جس پہ تم پتا نہیں پچھلے کتنے سالوں سے لٹو ہو … ‘‘ امن نے چھوٹی سی ناک کو سکیڑ کر مزید چھوٹا کیا اور اکتاہٹ بھری نظر عدن پہ ڈالی ۔ ساتھ ہی کتاب کو زور سے بند کیا۔
’’اگر میں حمزہ عباسی پہ لٹو ہو گئی تو میری بہن کا حق مارا جائے گا اور پھر امرت اور نمرت کی رقابت پہ لا محدود اقساط کا ڈرامہ شروع ہو جائے گا …لہٰذا…‘‘
’’ ارے لڑکیوں! باہر آنے کا کوئی ارادہ نہیں۔ عدن! ذرا مجھے سکنجبین تو بنا دینا ۔‘‘ باہر سے آتی اپنے نام کی پکار پہ عدن نے اٹھنے میں لمحے کی تاخیر نہیں کی اور جلدی سے پاؤں میں چپل اڑس کر دروازے کی جانب لپکی۔
’’سوری خالہ میں ذرا ڈرامہ دیکھ رہی تھی ۔ ‘‘وہ ان کی چارپائی کے پاس سے گزرتی کچن کی طرف بڑھی۔
’’ کتنی دفعہ کہا ہے بہن کے پڑھنے کا ٹائم ہوتا ہے ۔ اس وقت یہ خرافات مت دیکھا کر ۔‘‘ مدحت کہنیوں کے بل ذرا اوپر ہو ئیں۔
’’ گھر میں کمروں کا کال نہیں ۔ مدحو خالہ اصل میں اس کی بھی نیت ڈراما د یکھنے کی ہوتی ہے ۔ چپکے سے کتاب اٹھا کر بہانے سے ٹی وی والے کمرے میں آٹپکتی ہے۔‘‘ وہ کچن سے باہر آکر لیموں کے پودوں کی طرف جانے لگی۔
’’اس گھر میں انسانوں کا کال ہے۔‘‘ مدحت بڑبڑائیں اور سوئی جاگتی آنکھوں سے جامن کی چھدری شاخوں پربیٹھی اونگھتی فاختہ کو دیکھا۔
’’میرے لیے بھی بنانا۔‘‘ امن نے برآمدے میں آکر ہانک لگائی ۔ عدن نے جھٹ سے دو تین لیموں اور توڑے، صحن گدلا گدلا سا ہو رہا تھا۔ جابجا خشک پتے۔
’’ پتا نہیں ہوا کہاں چھپ جاتی ہے ۔‘‘ امن نے بالکل ساکن شاخوں کو دیکھ کر خود کلامی کی ۔ وہ سیڑھیاں اترتی جامن کے درخت کو مسلسل تکتی جارہی تھی جو پکے جامنوں سے بھرا ہوا تھا ۔ پھر ایک لٹکتی شاخ کو مضبوطی سے پکڑ کر جھٹکا دیا۔
ٹھک ٹھک… پکے فرش پہ جامنوئوں کا ڈھیر لگ گیا۔
’’اس دفعہ پھل اچھا آیا ہے۔ کسی رشتہ دار کی طرف تحفتاََبھیج دیتے ہیں ۔‘‘ عدن نے چھوٹی ٹیبل خالہ کی چارپائی کے ساتھ رکھتے ہوئے کہا۔
’’کہاں کے رشتہ دار … کون سے رشتہ دار، ایک اکلوتا بھائی جو کراچی کو سمندر کا دوسرا کنارہ سمجھتا ہے ۔ باقی لے دے کر تمہاری پھوپھو، بچتی ہے ۔ جسے میری شکل دیکھ کر اختلاجِ قلب ہونے لگتا ہے ۔ سالوں ہو گئے کبھی یہاں کا رخ نہ کیا ۔ کبھی مرے ہوئے اکلوتے بھائی کی بچیاں بھی یاد نہیں آئیں۔ان کی خشک آواز شکوئوںسے مزید چٹخ رہی تھی۔
’’توبہ ہے مدحو خالہ آپ بھی نا بات کو کہاں سے لے جاتی ہیں۔‘‘عدن نے ٹیبل پر سکنجبین سے بھرا جگ رکھا ۔
’’رشتے دار نا سہی … محلے میں ہی حاجی صاحب سب یا حافظہ ساجدہ کی طرف بھیج دیں گے۔‘‘ اس نے کانچ کا گلاس خوش ذائقہ مشروب سے بھر کے خالہ کو پکڑایا۔
انہوں نے کچھ بھی کے بنا خاموش نظروںسے اپنی سروقد خوشنما سی بھانجی کو دیکھا … تین اکیلی بے سہارا عورتیں جہاں کوئی اپنا بھی آیا نہ گیا ۔ واحد آمدنی پندرہ ہزار دکانوں سے ملنے والا ماہانہ کرایہ ۔ ایسے میں کون تعلقات استوار رکھتا ہے ۔ حاجی صاحب کے دو قابل لائق فائق کماؤ بیٹے ادھر سے جانے والے جامن اور لیموئوں کو کہیں کسی خواہش کی پیش رفت نہ سمجھیں اور ان کی وجہ سے جو گلی محلے کے حضرات اس گھر کی طرف بے باک نظروں سے نہیں دیکھتے ۔ ان کی نظروں میں جو احترام ختم ہو گیا تو انہوں نے بے ساختہ جھر جھری لی۔
’’کیا ہوا پسند نہیں آئی۔ ” عدن نے انہیں جھر جھری لیتے دیکھ کر پوچھا ۔ مگر انہوں نے اپنے دھیان میں سنا ہی نہیں تھا حافظہ ساجدہ نے کیسے دوبیٹے کھاتے پیتے گھرانوں میں بیاہ لیے ویسے تو بہن کا راگ الاپتے الاپتے اس کی زبان کیسی ہری رہتی ہے ۔ اب تیسرے بیٹے کی منگنی بھی اس خاندان میں کی ہے جہاں سے بہو تین ٹرک جہیز کے لائے گی … شاخوں نے ہلکے سے ہلکورے لیے، چھپی ہوانے پتوں کو چھوا ‘ حبس اور گھٹن نے سر نیہوڑاکر فرار کی راہ اختیار کی۔ او نگتی فاختہ کوئل کی کو کو ہے ہڑ بڑا کے جاگی۔
’’ یا ہو … ‘‘ اس کے پر جوش نعرے پہ مدحت کے دھیان میں دراڑیں پڑیں ۔ صحن میں پھیلی ہلکی گرد اور خشک پتے ہوا کے سنگ شیر و شکر ہو رہے تھے ‘ عدن بھاگ کر کچن سے بڑی ٹوکری لے آئی جس میں دونوں بہنیں ہنستے کھلکھلاتے جامن بھرتی جارہی تھیں۔ مدحت کا موڈ بھی خوش گوار ہو گیا۔
’’اللہ مالک ہے ۔ امو… عدو …ذرا پچھلے صحن کا چکر بھی لگا آئو … انار بھی اچھے خاصے ٹوٹ کے گرے ہوں گے اور پتہ نہیں ٹماٹروں کا کیا حال ہے۔ پتا نہیں ان دونوں نے سنا بھی کہ نہیں۔‘‘ ایک دم چلنے والی ٹھنڈی سبک ہوا ۔ پہلی محبت کی طرح انہیں ارد گرد سے بے نیاز انوکھی کہانیاں سنا رہی تھی ۔ جو بہت پرانی ہیں مگر ہرانسان کو اپنی باری پہ نئی لگتی ہیں۔
٭…٭…٭
’’میں نے کون سی کے ٹو جیسی بات تمہارے گوش گزار کی ہے جو گھنٹہ بھر سے منہ میں گھنگھنیاں ڈالے بیٹھی ہو ۔‘‘ مسعود صاحب نے چشمہ درست کرتے ہوئے ذرا کے ذرا آصفہ بیگم کو دیکھا۔
’’ کے۔ ٹو ہی سامنے لاکھڑا کرتے … یا پھر میرے سر پہ ہی دے مارتے … جو ذرا سا بھی چوں چرا کرتی مگر …‘‘ انہوں نے پل بھر کو گہرا سانس بھرا۔ پھر شوہر پہ قاتلانہ نگاہ ڈال کر گویا ہوئیں۔
’’ مگر ایسے میرے زخموں پہ نمک چھڑکنے والی بیدرد بات‘ منہ بھر کے نہیں کرنی تھی۔ ‘‘
’’لاحول ولا قوۃ… آصفہ بیگم! کبھی سیدھی بات کو ٹیڑھا کر کے سمجھنے والی عادت نہ گئی ۔ اور خدانخواستہ کون سے زخموں پہ نمک پاشی ہوئی ہے ۔ کیسے نادیدہ زخم ہیں جو ہمیں تو پچھلے اٹھا ئیس برسوں سے نظر نہ آئے جہاں کبھی بھولے بھٹکے سے بات حنان یا اس کی بچیوں کی ہو ۔ خود ہی کند چھری سے خود کو ذبح کر کے زخموں کا واویلا شروع کر دیتی ہو۔ ‘‘ مسعود صاحب نے تاسف سے اپنی بیگم کو دیکھا۔ ضبط اور غصے کے مارے جن کا چہرہ لال بھبھو کا ہو رہا تھا۔
’’ میں حنان کو کبھی معاف نہیں کر سکتی میری جان سے پیاری سہیلی کے ارمانوں کا خون کیا تھا اس نے ۔دو دفعہ دل توڑا اس نے۔‘‘ ان کی ناصرف آواز بلکہ وجود بھی ارتعاش کی زد میں تھا۔ پھر بھی ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ شوہر پہ کس طرح چڑھائی کریں۔
’’ایسی کون سی ایلفی تمہاری سہیلی نے ایجاد کی تھی کہ پہلی دفعہ دل ٹوٹا پھر جوڑ لیا۔ ‘‘ مسعود کے لہجے میں ہلکی سی شگفتگی در آئی۔
’’آج بتا ہی دو …‘‘مسکر اہٹ زیر لب ہی دبائی۔
’’ اب گڑے مردے مت اکھاڑو اذان کے ابا … بھائی نے بھی تو خونی رشتوں پہ سالی کو ترجیح دی تھی ۔ وہ دن بھول گئے ۔ کیسے منہ بھر کے تمہارے سامنے کہا تھا … آپارشتہ سو بار ختم کرلومیں مدحت کو غم زدہ نہیں چھوڑ سکتا ۔ میرا اور اس کا رشتہ اسی دن ہو گیا تھا۔ ‘‘ دکھ سے پھٹی ان کی آواز بلند ہو رہی تھی۔
’’ تم سے کیا رشتہ ختم کیا ۔ سمجھو سب سے ہی ختم کرگیا ۔ مدحت سے ‘ بچیوں سے … کیسی بددعا لگی تھی اسے کسی کا بھی ہوکے نہ رہ سکا… پھر رونا کیسا۔‘‘ مسعود صاحب آبدیدہ ہو گئے ۔ عینک اتار کر آنکھوں میں اتری نمی صاف کی ۔ آنسو لڑیوں کی صورت آصفہ کی آنکھوں سے بھی بہہ رہے تھے ۔ مسعود کے دل کو کچھ ہوا۔
’’ اصل میں وہ تمہاری سہیلی کو بیوہ نہیں کرنا چاہتے تھے ۔ احسان مانوان کا۔‘‘ انہوں نے ماحول کی افسردگی دور کرنے کے لیے گفتگو کا رخ دوسری طرف موڑا۔
’’ وہ تمہارے دل کی کلی‘ دو دفعہ دل جوڑ کے کیسے شاداں و فرحاں زندگی گزار رہی ہے ۔ نہ وہ تمہارے بھائی کی محبت میں جو گن ہوئی اور نہ ہی محبت میں اس کے نام پہ زندگی گزارنے کا خود سے عہد باندھا ۔‘‘ اب وہ کھل کے مسکرارہے تھے ۔
’’صحراوں کی خاک چھانتی و نجلی لے کر کسی بیلے کو آباد کرتی پھر مانتے کہ وہ محبت کی ماری تھی۔ مگر ان محترمہ نے کیا خوب شوہر کا گھر آباد کیا کہ ماشاء اللہ سے سات بچے محبوب کے ہجر میں پیدا کر لیے۔‘‘ مسکراہٹ ان کے ہونٹوں کے کناروں سے پھوٹی پڑھی جارہی تھی۔
’’ آپ سے تو خدا ہی پوچھے ۔ اور ہاں …‘‘ وہ اٹھتے اٹھتے کچھ یاد آنے پہ دوبارہ بیٹھ گئیں۔
’’ یہ اپنی بے تکی خواہش اذان کے سامنے مت رکھنا ۔ سمجھو نہ تم نے کچھ کہا۔ نہ میں نے کچھ سنا۔‘‘ مسعود نے انہیں بغور دیکھا۔
’’ رشتوں کی پہیلیاں اب ہمارے زمانوں کی طرح گنجلک نہیں رہیں ۔ آج کل کے بچے تو پورا پزل حل کرلیتے ہیں۔‘‘ انہوں نے اپنے خیالات کی کھچڑی میں جو تڑکہ لگایا تھا اس کی خوشبو کم از کم آصفہ نہیں سونگھ سکتی تھی۔ عافیت اثبات میں سر ہلانے میں ہی تھی سو انہوں نے بھی زور و شور سے ہلا دیا۔
’’ اور ہاں…‘‘ وہ چلتے چلتے رکیں۔
’’صحرائوںکی خاک مجنوں نے چھانی تھی اور بیلا رانجھے نے آباد کیا تھا میری سہیلی کی جنس تو مت بدلیں۔‘‘ وہ کڑھتی… بڑبڑاتی پیر پٹختی بیڈ روم سے باہر چلی گئیں۔ مسعود کا دماغ ایک نئی کہانی کے تانے بانے بننے میں لگا ہوا تھا جس میں ان کے پسندیدہ کرداروں نے ان کی مرضی کے رنگ بھرنے تھے یا پھر کوشش کرنے میں کیا حرج تھا۔
٭…٭…٭
’’کیا خیال ہے آپ کا۔ ‘‘ اس نے اٹک اٹک کر پڑھا۔ اس کی انگلش اب اچھی ہوتی جارہی ہے۔ یہ اس کا ذاتی خیال تھا۔
’’اب میں نہ صرف اسپیلنگز اچھے کرلیتی ہوں بلکہ حروف پہچاننے لگی ہوں ۔ آمو !ذرا پڑھ کر بتاتا یہ کس نے میرا خیال پوچھا ہے ؟ ‘‘ اس کا لہجہ یہ بات کرتے ہوئے تجسس جیسی روشنی سے چمکا تھا ۔
امن نے سر اٹھا کر ایک گہری نظر اس پر ڈالی ۔ کچھ ڈھونڈتی ہوئی کچھ کھوجتی ہوئی وہ لانبی لانبی ہری مرچیں کاٹ کر مدحت کے سامنے بڑی بڑی سینی (ٹرے) میں رکھتی جارہی تھی اور خالہ کے ہاتھ ان میں تیزی سے مسالا بھرتے جارہے تھے۔
’’اچھا دیکھ ناں ۔ ‘‘ عدن نے اپنی کرسی گھسیٹ کر اس کے قریب کی اور موبائل اس کی آنکھوں کے سامنے کیا ۔
میسج پڑھتے ہی امن کے لب مسکرائے ۔ مسکراہٹ ہنسی میں بدلی‘ہنسی قہقہوں کے رنگوں میں گوڈے گٹوں سمیت بھیگی ۔ مدحت نے ہاتھ روک کر اسے گھورا ۔ عدن اس کے یوں لوٹ پوٹ ہونے پہ غصے سے لال پیلی ہونے لگی۔
’’کہیں حاجی صاحب نے تو خیال نہیں پوچھ لیا ۔ جو باؤلوں کی طرح ہنستی جارہی ہے۔‘‘ مدحت نے عدن کا غصہ دیکھ کر امن کو گھور کے دیکھا۔
’’خالہ خیال بھلا کس نے پوچھنا تھا ۔ کمپنی کا مسیج ہے کہ کیا کہتے ہیں ستارے اور محترمہ کی انگلش اب آسمان سے باتیں کرنے لگی ہے واہ جی واہ۔‘‘ امن نے صاف اس کا مذاق اڑایا تھا ۔
مارے خفت کے عدن کا چہرہ سرخ ہوا۔ وہ ایک دم اٹھی اور بھاگتی ہوئی پچھلے صحن میں چلی گئی۔
’’لو اچھی خاصی بیٹھی تھی۔ خواہ مخواہ ہم نے اس کی پڑھائی پہ چوٹ کر کے اسے ہرٹ کیا ہے۔‘‘ مدحت کے چہرے پہ فکر مندی کے آثار نمایاں تھے۔
’’خالہ میں روزانہ اسے انگلش پڑھانے کی کوشش کرتی ہوں مگر یہ دھیان ہی نہیں دیتی اس کی توجہ تو بس ٹی وی کی طرف لگی رہتی ہے ۔ اور پھر یہ کس خوش فہمی میں گھری اس کے میسجز کے انتظار میں رہتی ہے ؟ اوپر سے آپ نے بھی ماموں کی سرسری سی خواہش کو کس قدر اس کے پلو سے باندھ رکھا ہے ۔ بس ایک دفعہ کے ذکر کے بعد کبھی انہوں نے بات کی ؟ پچھلے چار سالوں سے جبران نے بھی اپنی شکل نہیں دکھائی۔ سال بعد ماموں بس دکانوں کے کرائے کی وصولی کر کے دے جاتے ہیں اور آپ دونوں بہن بھانجی پتا نہیں امید کے کن بنجر پودوں کو پانی دینے پر جتی ہوئی ہیں ۔ ‘‘
ابھی امن شاید اور بھی کچھ کہتی ‘مدحت آنکھیں پھاڑے اپنی اٹھارہ سالہ بھانجی کو ہونق چہرے کے ساتھ دیکھ رہی تھیں ۔ جس نے اس قدر سفاکی سے حقیقت کے چہرے سے پردہ اٹھایا تھا ۔ اک ذراسی امید اور رتی بھر خواب کا شائبہ تک ان کے دامن سے نوچ ڈالا تھا ۔
’’کبھی کبھی جان بوجھ کر بھی ہم اپنے گمان کو تقویت دیتے رہتے ہیں خیال کو آسروں کو جھنڈ میں بھٹکا دیتے ہیں۔‘‘
’’ تم اتنے وثوق سے کیسے کہہ سکتی ہو کہ میں جبران سے کوئی امیدیں باندھ کے اس کے انتظار میں بیٹھی ہوں ۔ ‘‘ امن اچانک ہی سامنے آکر پھٹ پڑی تھی۔
’’مجھے کسی گنجے سے شادی نہیں کرنی ۔ بھلے ماموں بارات لے کر آجائیں ۔ نکاح خواں کو بھگا دوں گی … وہ تو بس میں ہمیشہ خالہ کا سوچ کر خاموش رہی ہوں کہ ان کی پریشانیوں میں اضافہ نہ ہو ۔ ‘‘ وہ امن سر پر کھڑی دل کی ساری بھڑاس نکال چکی تھی ۔
’’ ہیں … ہیں… لڑکی عقل کے ناخن لو تم کسی انڈسٹریلیٹ کی بیٹی نہیں نہ کسی ناول کی ہیروئن ہو کہ رشتوںکی قطار تمہارے آگے پیچھے ہاتھ باندھے کھڑی ہو ۔ تم بس عدن حنان ہو ۔ اپنی اوقات میں رہو ۔ ‘‘ مدحت کو خوب تپ چڑھی۔ وہ اپنا کام ختم کر چکی تھیں سو تھال امن کے حوالے کیا۔
’’بس ٹھگنا اور گنجانہ ہو ۔‘‘ وہ پھر اپنی سابقہ نشست پر پھیل کے بیٹھ گئی۔ وہ ایسی ہی تھی اس کا غصہ منٹوں میں غائب ہو جاتا۔
’’اب کہو ناک لمبی نہ ہو … رنگ بھی کالا نہیں ہونا چاہیے۔‘‘امن نے ٹھنڈے پانی کا گلاس اس کے ہاتھ میں تھما کر مسکراتے ہوئے کہا۔
’’ ہاں یہ تو میں ضرور کہوں گی۔ ‘‘ اس نے گلاس پکڑ کر ایک ہی سانس میں خالی کیا۔
’’باوقار … برد باد … سچا ‘حکم صادر کر کے فیصلے اپنے حق میں کروانے والا ۔ ‘‘ وہ آنکھیں بند کر کے گویا اپنے خیالات بیان کر رہی تھی۔
’’ پھر تو اسی گھر کے جامن ساری زندگی کھاتی رہنا ۔ ‘‘ مدحت نے گہرا سانس بھر کے کہا۔
’’اللہ نہ کرے۔‘‘ پھر خود ہی زیر لب بر بڑائیں۔
’’اچھا ٹھیک ہے اب زرا مجھے واش بیسن تک لے چل، مسالحہ اب ہاتھوں میں جلن کر رہا ۔ ‘‘ مدحت نے اس کے سادہ سے نقوش کو پتا نہیں کس سوچ کے تحت دھیان سے دیکھا ۔ وہ اپنے الجھے سے بے ترتیب بالوں کو کیچر میں جکڑ کے فوراََ کھڑی ہو گئی ۔ وہ اپنی خالہ کی خدمت کے لیے ہمہ وقت تیار رہتی تھی۔
آج سالن پکانے کی باری امن کی تھی۔ لہٰذااس نے اب دو گھنٹے مدحت کو ڈائجسٹ پڑھ کے سنانا تھا ۔
نمکین سی دوپہر کی خاموشی میں اترتے سائے‘ دم سادھے پرندوں کی سرگوشیاں سن رہے تھے اور دھیرے دھیرے سفر نا پتے ہوئے درختوں کی چھاؤں سے لپٹنے کو بے چین وقت کی سوئیوں کے ساتھ سرکتے ہوئے اپنی تپش چھاؤں کے سپرد کرنا چاہتے تھے۔
٭…٭…٭