افسانے

بیوہ کا سرمایہ : فرحان حیدر

محمود آباد گاؤں میں تقریباً سو کے قریب گھر آباد تھے ۔ گاؤں کے زیادہ تر لوگوں کا پیشہ کھیتی باڑی تھا ۔ محمودآباد میں ایک رسم رائج تھی جب بھی اس گاؤں میں کوئی عورت بیوہ ہوتی تو عدت ختم ہونے کے بعد اس کی دوسری شادی کروا دی جاتی ۔ بیوہ کو گاؤں کے سردار کے فیصلے کے سامنے سر کو جھکانا پڑتاچاہے وہ اس فیصلے پر راضی ہوتی یا نہ ہوتی ‘اس کے پاس کوئی دوسرا چارہ نہ ہوتا۔ شادی کس سے کرنی ہے اس کا فیصلہ بھی سردار کرتے تھے۔
انہی گھرانوں میں سے ایک رشیدہ کا گھر بھی تھا۔ بارہ سال پہلے رشیدہ بی بی بیوہ ہوئی تھی ‘اس کے شوہر کا انتقال گردے فیل ہونے کی وجہ سے ہوا تھا ۔ اس کا دوسرا نکاح اس کے دیور جمیل سے کروا یا گیا۔ رشیدہ اور جمیل (دیور) دونوں اس نکاح پر دل سے راضی نہیں تھے یہ ہی وجہ تھی کہ جمیل کبھی رشیدہ کے بیٹے سکندر کو قبول نہیں کرسکا ۔ سکندر اس کے بھائی کا بیٹا تھا اور اسے وہ عزیز ہونا چاہئے تھا لیکن رشیدہ سے شادی کی صورت میں وہ اسے خود پر بوجھ لگا تھا۔
جمیل کریانے کی دکان چلاتا تھا ۔ جمیل کی سکندر سے زیادہ نہیں بنتی تھی اس کو سکندر میں کوئی دلچسپی نہیں تھی ۔ سکندر نے گھر میں گھٹا ہوا ماحول دیکھا تھا ۔ ہفتے میں سکندر کو دو یا تین بار جمیل سے کسی نہ کسی وجہ سے مار پڑجاتی تھی ۔ جمیل کی دکان کا جب بھی حساب کتاب پورا نہ ہوتا وہ سکندر پر الزام لگادیتا کہ کہ اس نے میرے پیسے چوری کیے ہوں گے ۔ جمیل سکندر کی پڑھائی کا خرچہ تو دیتا تھا مگر رشیدہ کو اس کیلئے بڑی منتیں کرنی پڑتی اور باتیں سننی پڑتیں ۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جمیل کی دلچسپی جو برائے نام رشیدہ اور سکندر میں تھی ختم ہورہی تھی ۔ سکندر کا بچپن آہستہ آہستہ جمیل کے ہاتھوں قتل ہورہا تھا ۔ سکندر میں گھر کے ماحول کی وجہ سے خوداعتمادی نام کی کوئی چیز نہ رہی وہ ہر وقت ڈرا ڈرا اور سہما سہما رہتا تھا۔ وہ گھر میں بھی خود کو غیر محفوظ محسوس کرتا ہر وقت دل کو ایک دھڑکا لگا رہتا ۔ سکندر گلی میں کھیلنے جاتا تو چپ چاپ واپس آجاتا اس کی دلچسپی ہر چیز سے ختم ہورہی تھی ۔
جمیل کے دل میں دوسری شادی کی شدید خواہش پیدا ہورہی تھی ۔ ایک دن جمیل گھر میں داخل ہوا تو سخت لہجے میں رشیدہ سے مخاطب ہوا ۔
’’ بتادینا اپنے اس نالائق ہڈحرام بیٹے کو اور خود بھی کان کھول کر سن لو میں جمعے کو دوسری شادی کر رہا ہوں … رہنا ہو تو رہ سکتے ہو اس گھر میں نہیں تو چلے جاؤ اب اس کا میٹر ک بھی پورا ہوگیا ہے ۔ اس کی عمر کے لڑکے اب کما رہے ہیں ‘ اس کو بھی کام پہ لگاؤ کہیں بھگوڑا آوارہ…‘‘ اس کے لہجے میں بیزاری تھی۔
’’ وہ تو چھوٹا ہے ابھی کیا کام کرے گا ۔ میں تمہاری بیوی کی خدمت کروں گی اور تمہاری بھی ۔ اس کو پڑھنے لکھنے کا شوق ہے ‘ اس کو آگے شہر میں کالج میں داخلہ لینے دو ۔ اس کے سارے دوست لے رہے ہیں ۔‘‘ رشیدہ کے ہاتھ جمیل کے سامنے جڑے ہوئے تھے ۔
رشیدہ کا دل رونے کو چاہ رہا تھا ۔ اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ آج جی بھر کے روئے، اس کے آنسو آنکھوں میں قید تھے اس کا دل غم سے چور تھا ۔ اس کی زندگی کا کل سرمایہ سکندر تھا ۔
جمیل کو یہ سودا برا نہ لگاا وروہ خاموش ہوگیا ۔ اس نے دوسری شادی کرلی ‘ اس کی بیوی عامرہ اس سے بھی زیادہ ظالم تھی ۔ وہ رشیدہ اور سکندر کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتی تھی ۔ رشیدہ سارا دن عامرہ کی خدمت میں مصروف رہتی کہ وقت آنے پر جمیل اس کو سکندر کے داخلے کے لئے پیسے دے دے گا ۔ وہ سکندر کے مستقبل کی خاطر چپ تھی ۔اور سکندر اس شرط سے بے خبر تھا ۔ میڑک کا رزلٹ آنے والا تھا ‘ کالج میں داخلے کھل گئے تھے۔
’’ سکندر ،سکندر رک تو سہی میری بات سن ۔ ‘‘ سکندر گلی میں جارہا تھا کہ پیچھے سے اس کے دوست آصف نے اسے آواز دی ۔
’’میں تیری طرف ہی آرہا تھا تجھے پتہ ہے کالج میں داخلے ہورہے ہیں ۔ ہم بھی پڑھیں گے شہر میں ‘وسیم بھی لے رہا ہے داخلہ ۔ پرسوں ہم جارہے ہیں تو بھی آجانا ہمارے ساتھ تو نے بھی تو داخلہ لینا ہے ناں۔ ‘‘ سکندر خاموشی سے آصف کی بات سن رہا تھا ۔
’’ ہاں کل تک بتاؤں گا ‘ابھی تو گھر جارہا ہوں اماں پریشان ہورہی ہوگی ۔‘‘ سکندر نے اسے ٹالنے کے لیے کہا۔
وہ دکھی دل لے کر گھر کی طرف چل دیا ۔ سکندر کا دل رورہا تھا ۔ وہ اپنے ایک خواب کا جنازہ کندھے پر اٹھائے جارہا تھا ۔ وہ دل کو سمجھا چکا تھا کہ وہ یتیم ہے اس کا کوئی نہیں اس کا یہ خواب کبھی پورا نہیں ہوگا ۔سکندر نے رشیدہ کو کچھ بھی نہیں بتایا تھا ۔ رشیدہ کو دوسرے دن آصف سے پتہ لگا تھا کہ داخلے ہورہے ہیں ۔ شام کو رشیدہ نے جمیل سے پیسوں کا مطالبہ کیا ۔ وہ سوچوں میں مگن سر ہلاتا اپنے کمرے میں چلا گیا۔
’’ عامرہ جو پیسے میں نے تجھے دیے تھے اس میں سے کچھ رشیدہ کو دے دے سکندر کا داخلہ ہوجائے گا ۔ تجھے پھر دے دوں گا سمجھ رہی ہے نا ں تو…‘‘ ’’ بھری دوپہر میں آپ اس لیے جلدی آگئے دکان سے جمیل صاحب ۔ مجھے لگا میرے لیے آئے ہو… ناں میں کیوں دوں پیسے ‘میری بہن کی شادی ہے میں کیوں دوں آپ کو کیا ہوگیا ہے جمیل صاحب ، عقل کو ہاتھ ماریں زیادہ ہمدردی نہ دکھائیں ایک پیسہ نہیں دوں گی ۔‘‘ چند دن پہلے جمیل نے اسے شادی کے لیے دس ہزار دیے تھے۔
’’ اوہ دے دے ناں ‘تھوڑے دنوں کی بات ہے پھر دے دوں گا تجھے ۔ ‘‘ جمیل کے دل میں بھتیجے کے لیے پیار جاگ رہا تھا۔
یہ دیکھ کر عامرہ کافی غصے میں آگئی ۔ ان دونوں میں کافی دیر بحث ہوتی رہی ۔ اس بحث نے لڑائی کی شکل اختیار کرلی اور عامرہ بیگ میں کپڑے رکھنے لگی تاکہ وہ میکے جاسکے ۔ ان دونوں میں شادی کے بعد پہلی بار لڑائی ہوئی تھی ۔
جمیل غصے میں گھر سے باہر نکل گیا ۔ گلی میں جمیل کا سامنا سکندر سے ہوگیا ۔ اسے دیکھ کر جمیل کو غصہ آگیا کہ اس کی وجہ سے عامرہ سے پہلی دفعہ جھگڑا ہوا تھا۔ اس نے گلی میں ہی سکندر کو مارنا شروع کردیا ۔
’’ تیری وجہ سے ہوا ہے سب ‘ تو ہے ہی منحوس …‘‘ وہ اسے مارتا جاتا اور کہتا جاتا۔
گاؤں کے لوگ گلی میں جمع ہو گئے ۔ لوگوں نے سکندر کو جمیل سے چھڑوایا ۔ سکندر کے جسم اور گالوں پر تھپڑوں کے نشان بن چکے تھے ۔ رات کو سکندر رشیدہ کی گود میں لیٹا ہوا اپنے خواب کے ٹوٹنے پر رو رہا تھا اور رشیدہ اپنی قسمت کو رو رہی تھی ۔ ان دونوں کے درمیان خاموشی کی گہری دیوار حائل تھی ۔ رشیدہ کے آنسو اس کی گود میں سر رکھے سکندر کے چہرے پر گر رہے تھے ۔ اسی طرح رات گزر گئی ۔ دو دن تک سکندر یوں ہی خاموش رہا رشیدہ اس کے بولنے کا انتظار کرتی رہی ۔
’’ اماں ، میں باہر جارہا ہوں ۔‘‘ اس دن سکندر اٹھا اورشیدہ سے بولا۔
رشیدہ خوش ہوگئی کہ شکر ہے سنبھل گیا ۔
’’ میرا صابر بچہ جا تو آئے گا ناں تو تجھے میٹھا پراٹھا بنا کر دو ں گی جا کھیل کر آجا۔‘‘ اس نے سکندر کو پیار کیا۔
رشیدہ توے پر پراٹھا ڈال کر بیٹھی تھی کہ اس کا دروازہ زور سے کھلا ۔ تین بچے بھاگتے ہوئے اندر داخل ہوئے۔
’’ خالہ ، خالہ شیداں سکندر نے بڑی نہر میں چھلانگ مار لی ہے وہ نہیں مل رہا۔‘‘ ایک بچہ پھولی سانسوں کے ساتھ بولا تھا۔
رشیدہ کے سامنے دو بار یہ جملہ دوہرایا گیا تھا ۔ رشیدہ پر ایک صدمہ سا طاری ہوگیا ۔ رشیدہ اٹھ کر بھاگی ۔توے پر روٹی جل کر راکھ ہوگئی اوراسے لگا وہ ایک دفعہ پھر سے بیوہ ہوگئی ہے۔
دو دن بعد سکندر کی لاش ملی ۔ غسل کے بعد جنازے کا وقت آیا تو گاؤں کے سب سردار جنازے میں شرکت کے لیے آئے ۔ جوان موت پر سارا گاؤں سوگوار تھا ۔ رشیدہ میں تھوڑی سی ہمت آئی اس کا ایک ہاتھ کمر پر تھا بال بکھرے ہوئے تھے ، آنکھیں سوجی ہوئی تھیں ۔
’’ میں دوسری بار اجڑ گئی ہوں ‘ میرا ایک سرمایہ تھا جینے کا وہ چھن گیا ۔ میں بیوہ ہوئی تو مجھے زبردستی جمیل کے پلے باندھ دیا گیا۔ وہ مجھے پسند نہیں کرتا تھا، میں اس سے عمر میں بھی بڑی تھی ۔میری وجہ سے وہ یہ بھی بھول گیا کہ سکندر اس کا خون ہے، اس کے بھائی کی اولاد ہے۔ میں نہیں چاہتی کل کوئی اور رشیدہ اجڑے ، کل کوئی اور سکندر مرے … جب تک بیواؤں کی زبردستی شادیاں ہوتی رہیں گی ان سے پوچھے بغیر ‘ تب تک اسی طرح سکندر مرتے رہیں گے ۔ آج ایک عہد کرے گا پورا گاؤں میرے بیٹے کے جنازے پر کھڑا ہوکر اور سردار صاحب آپ بھی اس گاؤں میں بیوہ کی شادی سے پہلے اس سے پوچھا جائے گا تب اس کی زندگی کا فیصلہ کیا جائے گا ۔ ‘‘
سارا گاؤں رشیدہ کی بات غور سے سن رہا تھا ۔ سب کو ندامت محسوس ہو رہی تھی ۔ جمیل بھی اپنے کیے پر پشیمان ہورہا تھا ۔ اللہ نے اسے نیکی کی جو توفیق دی تھی بیوہ اور یتیم کی صورت میں وہ بری طرح ناکام ہوچکا تھا ۔ اللہ کے عذاب کا انتظار کرنے کے سوا اس کے پاس کوئی چارہ نہ تھا ۔ رشیدہ کی باتوں کا سردار سمیت سب لوگوں پر اثر ہوگیا تھا ۔ بیوہ کی زبردستی شادی والی رسم کو ختم کرنے کاعہد سکندر کی میت کو سامنے رکھ کر کیا گیا تھا ۔ یہ رسم سکندر کی موت کے ساتھ ساتھ ہمیشہ کے لیے ختم ہوگئی۔

اختتام

Related Articles

4 Comments

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button

You cannot copy content of this page