افسانے

بدنام : ایم رضوان ملغانی

بھنے ہوؤں کو مزید بھوننے کو ایک اور تپتے سورج کی کرنوں نے انگڑائی لی تھی۔ آٹھ بجے کا وقت اور ایسی حبس کہ ناکوں چنے چبواتی تھی ۔ اتوار کا روز تھا اور یہاں کا تو اتوار بھی بیکار تھا۔ بچوں کی آدھی فوج بجلی جانے اور پنکھوں کی گھر گھر کے بند ہونے کے ساتھ ہی اٹھ جاتی اور گلی میں دھما چوکڑی مچائے رکھتی ۔ اب بھی ایسا ہی عالم تھا ۔ میں کچن میں کھڑی چائے پاپوں کا بندوبست کر رہی تھی کہ بدرالدین آ گیا ۔ مجھے پنکھ لگ گئے ۔ سفید کرتے میں ملبوس عطر کی خوشبو میں نہایا ہوا سفید رومال سر پہ رکھے، کالی تسبیح کے دانوں کو گھماتا ہوا وہ ابا سے بہت خندہ پیشانی سے ملا تھا ۔ میں کچن میں کھڑے ہو کر ابا اور اس کی باتیں سن سکتی تھی ۔ وہ کہہ رہا تھا ۔
’’ مجھے فرح سے ضروری بات کرنی ہے۔ ‘‘اس کی آواز میں سوز کا ساز تھا ایک اداسی سی یا اکتاہٹ یا پھر کسی انجانے خطرے کا خوف جو مجھے اندر اندر کھا رہا تھا ۔
پھر وہ میری طرف ہی آیا تھا ۔ اس کا رویہ بہت سرد تھا ۔ پہلے کی سی گرمجوشی اور مجھ سے ملنے کی خوشی مفقود تھی ۔ بدرالدین کی آنکھیں جو مجھے دیکھ کر چمک اٹھتی تھیں ان آنکھوں میں سوائے بیزاری کے کچھ نہ تھا ۔ پھر اس نے کہہ دیا سب کچھ کہہ دیا اپنی بات مکمل کرنے کے بعد وہ مجھے ڈھیٹو ں کی طرح تکے جا رہا تھا ۔ کوئی ندامت کوئی افسردگی پشیمانی کچھ نہ تھا۔ بھاپ اڑاتی گرم چائے چھلکی تھی اور میری کلائی کو جلا گئی ۔ کوئی اور دن ہوتا تو وہ کئی سو جتن کر کے مجھے اس درد جلن سے نجات دلانے کی سعی کرتا پر اب وہ جم کر کھڑا تھا ۔ جیسے عجائب گھر میں رکھا کوئی مجسمہ، جیسے دیوار پہ ٹنگی بے رنگ پھیکی اور زندگی سے مایوس ایک فریم شدہ تصویر…
’’ میں آنے والے جمعے کو جماعت کے ساتھیوں کے ساتھ چار ماہ پہ جا رہا ہوں ۔ میرا انتظار نہ کرنا فرح، تمہارا اپاہج باپ مجھے گھر داماد بنا کر مجھ پر صرف تمہاری ہی نہیں تمہاری تین چھوٹی بہنوں اور دو چھوٹے بھائیوں کی زمے داری بھی لادنا چاہتا ہے ۔ یہ سب مجھ سے نہ ہو پائے گا ۔ میں محبت کے راستے میں تکلیفوں اور دشواریوں کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتا۔ مجھے اجازت دو اور اپنی محبت کی قید سے رہائی دے دو۔‘‘
میں نے منت سماجت کی ، خدا رسول کے واسطے دئیے، اسے اس کے پیاروں کے سروں کی قسمیں دیں ۔ اس نے کچھ بھی نہیں سنا وہ مٹی کا ساکت بت بنا کھڑا رہا ‘ ایسے جیسے اس میں کوئی جان ہی نہ ہو۔ میں اس کے قدموں میں گر گئی میں روئی، چیخی، تڑپی، کرلائی، سسکائی، لیکن اس کی ہٹ دھرمی پہ زرا آنچ نہ آئی ۔میں اتنے برس اس کے نام کا ورد کرنے والی اس سے یہ بھی نہ پوچھ سکی کہ وہ اللہ کے راستے میں اللہ کی بندی کو دھتکار کر جا رہا ہے ۔ کیا اس کی عبادات نوافل اور دعائیں قبول ہو جائیں گی؟
وہ اپنی بات کہہ چکنے کے بعد کچن سے ایسے نکلا تھا جیسے کسی بوتل میں قید کوئی جن ڈھکن کھل جانے پہ غائب ہو جائے ۔ وہ اب پھر سے صحن میں آ گیا تھا وہ ابا سے کچھ کہہ رہا تھا۔
’’مجھے معاف کر دینا چاچا میں آپ کی اور آپ کی بیٹی کی امیدوں پہ پورا نہیں اتر سکا ۔ ‘‘معافی مانگنے والوں کے لہجے ملتجی ہوتے ہیں اور اس کے لہجے میں سب کچھ تھا ۔ التجا نہیں تھی۔
میں بھاگ کر باہر آئی تب تک وہ جا چکا تھا۔اہنے قدموں کے نشان چھوڑ کر ‘ میں نے اس کے ان دو قدموں کے نشانوں کے گرد دائرہ بنا دیا ۔ میں روز سیمنٹ کے جگہ جگہ سے اکھڑے فرش کو دھوتی ہوں اور دھونے سے پہلے اس دائرے کو چھو کر اس کے قدموں کی خاک چومتی کہ چار ماہ جب تک وہ لوٹ کر نہیں آ جاتا اس کے قدموں کے نشانوں کو چھو چھو کر ہی خود کو تسلی دیتی رہوں گی۔
’’ وہ نہیں لوٹنے والا فرح، نہیں لوٹنے والا… مٹا دے اس دائرے کو ، دھو ڈال اس کے قدموں کی خاک کو ۔ مت کر خود کو جنونی اور پاگل میری بچی میری لاڈلی صبر کر لے۔ ‘‘ابا روز ایک ہی بات کو کئی کئی بار دہراتا اور میں اپنی ہی جون میں جئیے جاتی۔
ابا کو معذوری کی وہیل چیئر پہ پڑے بہت برس بیت گئے تھے ۔ گھر کا واحد اکلوتا کمانے والا خود کفیل مرد اب ہمیں کیا کما کر دیتا جو خود محتاجی کے پھٹے پہ زندگی کے گنے چنے دن کاٹ رہا تھا ۔قحط اور بھوک کا بالن روز اول کی طرح دہک رہا تھا ۔ کچن کی دیوار پہ نصب لکڑی کی سبیل پہ دھرے ڈبوں کے ڈھکنوں پہ کائی سی جمنے لگی ۔ پتی، چینی، نمک، مرچ سے لے کر گھی، آٹا،چاول، دالوں، تک ہر شے کا کال پڑتا پھر کچھ دن یہ ڈبے بھرے رہتے اور پھر سے خالی ہو جاتے ۔کریانے والوں کے رجسٹروں پہ حساب کتاب کے کھاتے کھل گئے تھے۔ جوں جوں دن گزرتے جاتے اور نئے مہینے کی تاریخ قریب آنے لگتی ویسے ویسے دل کی دھڑکن بے ترتیب ہونے لگتی۔
’’ کیا ہوتا اگر میں نے چار حرف پڑھ لیے ہوتے یوں ساری زندگی کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلانے والے شکیل احمد کی بیٹی آج ادھار پہ ادھار نہ چڑھا رہی ہوتی ۔ ‘‘
جیون کے وینٹی لیٹر پہ سانس لیتے ہمارے وجود ہمارا گوشت پوست جو اندر اندر گھل رہا تھا ہمارے چہرے چہروں کا ماس، اتنا کمزور پڑ رہا تھا کہ ہماری رگیں دکھتی تھیں ۔ ہمارے اجسام، ان جسموں کی شریانوں میں دوڑتا خون، جو کبھی بھی حرکت کرنا چھوڑ سکتا تھا ۔ ہماری آنکھیں ان آنکھوں کی ویرانی اور سرخی کئی رتجگوں کا شاخسانہ تھی ۔ ایک زرد سا سویرا روز ابھرتا اور آنگن میں یوں پھیلتا کہ سارے گھر کو زرد کر جاتا ۔ رنگا رنگی رعنائی اور خوبصورتی جو اس گھر کے بام و در سے جھلکتی تھی اب ناپید تھی۔
اماں کو ہم سے بچھڑے ابھی کچھ ہی عرصہ ہوا تھا ۔ وہ زندہ رہ کر بھی ابو کی مشکلات میں اضافے کا باعث بننے اور صبر کا امتحان لینے کے سوا کچھ نہیں کر رہی تھیں ۔ ٹی بی کی مریضہ جو دن رات خون کی الٹیاں کرتی تھیں ۔ اور اپنے مرنے کی دعائیں رو رو کر کرتی تھیں ۔ ایک معمولی سے پرائیوٹ سکول میں مالی کے طور پہ کام کرنے والے کی بیوی ایڑیاں رگڑ رگڑ کر نہیں مرنا چاہتی تھی ۔ اس لئے ابو نے بھی اماں کا علاج کروانا چھوڑ دیا تھا ۔ اور ڈاکٹروں نے بھی جواب دے دیا تھا۔
’’شکیل احمد میں مر گئی تو میری ان بچیوں اور بچوں کی دیکھ ریکھ میں کمی نہ کرنا ، انہیں بہت اچھا نہ سہی اتنا گزارے لائق ضرور کھلانا پلانا کہ ان کے مڈل کلاس سے بھی نچلے درجے کے جسموں کے موافق ہو وہ خوراک، انہیں ان کے کسی بھی جائز حق سے محروم مت کرنا ، فرح کی آنکھوں میں میں نے بدرالدین کے لیے محبت دیکھی ہے ۔ اچھا نیک شریف بچہ ہے اور سب سے بڑھ کر تمہارے بہت پرانے دوست کا بیٹا ہے ۔ اگلے برس اٹھارہ کی ہو جائے گی فرح اسے اس کے ساتھ بیاہ دینا ۔ ‘‘
ابا کو اماں کی کہی آخری باتیں اور فریادیں من و عن یاد تھیں ۔ جب بھی ابا مجھے یہ سناتے میری روح تک چھلنی چھلنی ہوتی جاتی ۔ بدرالدین کا نام سنتے ہی مجھے کچھ ہونے لگتا ۔ کم مائیگی کا احساس ، تہی داماں ہونے کی کاری ضرب اور میں یہ بھی سوچتی کہ ہم بھری دنیا سے دھوکے کھا لیں ۔ دھوکوں کی مہریں اپنی پیشانیوں پہ ثبت کیوں نہ کروا لیں کسی بہت اپنے کے دئیے گئے دھوکے کی مہر سب سے نمایاں اور جلوہ گر رہے گی ۔ اس ستم نے میری کمر ڈھا دی تھی ۔ لیکن میں کب تلک ایک ہی روگ کو پالتی رہتی آخر ہمت مجتمع کر کے مجھے کچھ نہ کچھ کرنا ہی تھا اور اس کچھ نہ کچھ کے چکر میں میرے قدم شاہی مارکیٹ کی موبائلوں والی گلی کی طرف بڑھ گئے تھے۔
٭…٭
دکان کا شٹر آدھا نیچے گرا ہوا تھا ۔ شاہی موبائل ریپیرنگ سینٹر دکان کے اوپر موٹے موٹے حروف میں نمایاں تھا۔
’’ مراد شاہ اور عذیر بڑے دل جگر والے لوگ ہیں ۔ خدا ترس اور مہربان جتنے پیسے ادھار مانگو گی دے دیں گے۔ ‘‘میرے کانوں میں دکان والے کا جملہ گونجنے لگا جو مجھے ادھار دیتے دیتے تنگ آگیا تھا۔
’’ بھائی صاحب یہ دکان کیوں بند ہے۔ ‘‘میں نے ساتھ ہی موجود کریانے والی دکان سے ا ن کی بابت پوچھا۔
’’ بہن جی دونوں نماز پہ گئے ہیں بس آتے ہی ہوں گے۔ ‘‘اس نے تہذیب اور شائستگی سے جواب دیا۔
چادر کی بکل میں اپنا چہرہ چھپائے میں انگلیاں مروڑتے ہوئے ان کے آنے کا انتظار کرنے لگی تھی ۔ پھر دور سے ہی مجھے ایک باریش نوجوان آتا دکھائی دیا ۔ سر پہ ٹوپی جمائے وہ دکان کی طرف ہی آ رہا تھا۔
’’ یہ بہن کب سے کھڑی ہیں عذیر بھائی۔ ‘‘ کریانے والے بھائی نے ٹانگ اڑانا ضروری سمجھا۔
عذیر نے دکان کا شٹر مکمل اوپر کیا اور میں جو گرمی سے مری جا رہی تھی ۔ اندر گھستے ہی فوراً کولر سے گلاس اٹھا کر بھرنے لگی ۔ پانی پی چکنے اور عذیر کی جانب متوجہ ہونے پہ اس نے مجھ سے آنے کی وجہ پوچھی۔
’’بھائی میں شکیل احمد کی بیٹی ہوں ۔ ابا جب سے معذوری کی پہ سوار ہو کر چلنے پھرنے سے قاصر ہوئے ہیں ۔ گھر کا چولہا بجھنے کے قریب آ گیا ہے ۔ مجھے پانچ ہزار ادھار دے دیں میں جلد ہی لوٹا دوں گی۔ ‘‘
یہ کہنا ہی تھا کہ عذیر بھائی فکر مند سے ہو کر مراد شاہ کے آنے کا انتظار کرنے لگے ۔ مراد بھائی بھی کچھ ہی دیر میں آ گئے اور میں نے ان سے بھی یہی کہا جو عذیر سے کہہ چکی تھی۔
’’ بہن جی یہ لیں پانچ ہزار روپے ساتھ ہی ایک گھر میں کام کام کرنے والی کی ضرورت ہے آپ وہاں کام کر لیں ۔ ‘‘مراد شاہ نے پیسے پکڑاتے ہوئے ایک مشورہ بھی دے ڈالا تھا۔ میں پیسے لئے گھر کا پتا وغیرہ پوچھ کر چلتی بنی تھی۔
٭…٭
وہ رات شکیل احمد کے گلشن کے باسیوں کے لئے بڑی کرموں والی تھی ۔ میں گھر آئی تو اپنے ساتھ ڈھیر سارے شاپر بھی لائی ۔ تازہ سبزیاں، پھلوں کا انبار ، جیم اور کھٹی میٹھی چٹنی کا جار یہ چٹنی سفیر کو بڑی پسند تھی۔ ہر وقت کہتا تھا۔
’’ باجی کھٹی میٹھی چٹنی کب لاؤ گی۔ ‘‘
یہ ساری چیزیں دیکھ کر میرے بہن بھائیوں کے چہروں پہ کلیاں کھل گئی تھیں ۔ رونق بحال ہو گئی تھی ۔ انہی کے دم سے تو اس گھر میں کچھ زندگی کا احساس ہوتا تھا۔ ورنہ بدرالدین کے جانے کے بعد تو… خیر دن اچھے کٹ گئے تھے۔
اور پھر میں نے اس گھر کا پتہ بھی معلوم کر لیا تھا وہاں بھی جانے لگی تھی ۔ جب دوزخ کی بھوک کی آگ کو بجھانا ہو تو جھوٹے برتن مانجھنے، لیٹرین کے فلش صاف کرنے اور مالکوں کی جوتیاں سیدھی کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتی ۔ چند ٹکے صرف چند ٹکے انسان کو کمتری اور برتری کے سارے اسباق بھلا دیتے ہیں۔
میرے ساتھ بھی یہی ہوا تھا ۔ سب کچھ اچھا چل رہا تھا پھر اچانک خطرے کی بو سونگھ چکی تو وہاں سے چلتی بنی ۔ وہ مالکن کا سب سے بڑا بیٹا تھا ۔ ہر وقت اپنے کمرے میں سیگریٹ کے دھوئیں چھوڑتا اور مرغولے بناتا ۔ اس کے کمرے سے انتہائی غلیظ بو آتی جب بھی اس کے کمرے کی صفائی کی باری آتی میری جان جانے لگتی تھی ۔ لیکن کسی نہ کسی طور میں یہ سرحد بھی پار کر لیا کرتی تھی ۔ اس روز اس نے میری کلائی پکڑی اور کہنے لگا۔
’’ ان پیسوں سے کچھ نہیں ہوتا ہو گا تیرا میری راتیں رنگین نہیں کر سکتی نہ کر میرے دن کے اجالوں میں روشنی کی نئی کرنیں بھرنے آ جایا کر کب سے یہ بستر ٹھنڈا پڑا ہے ۔ میری دلبر … ‘‘
اس کا یہ کہنا تھا کہ میں نے ایک تھپڑ اس کے گال پہ رسید کر دیا ۔ اور اس چند ٹکوں کی نوکری کو لات مار کر گھر آ بیٹھی ۔ ابا نے بہت پوچھا میرے پاس ان کے کسی سوال کا کوئی جواب نہیں تھا۔ بتاتی بھی کیسے بات عزت کی تھی ۔ سامنے باپ تھا ۔ جو پہلے ہی وہیل چیئر کے سہارے زندہ تھا میری یہ بات سن کر وہ سر دھڑ بھی الگ کر بیٹھتا تو میں کہاں جاتی۔
٭…٭
ایک اجالا پھر سے تاریکی میں بدل گیا تھا ۔ بھوک اور افلاس کے پنجے شکیل احمد کے آنگن میں پھر سے گڑ رہے تھے ۔ ایک بار جب آپ دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانا سیکھ لیتے ہیں تو پھر ساری حیا ساری شرم گھاس چرنے چلی جاتی ہے ۔ محتاجی محتاج کو در در پہ ٹھوکر کھانے پہ مجبور کر دیتی ہے ۔ لیکن میں در در بھٹکنے کے بجائے چند دنوں بعد پھر اسی شاہی موبائل ریپیرنگ سینٹر کے اندر موجود تھی۔
’’ مراد بھائی میں بہت آس سے آئی ہوں۔ میں پائی پائی چکا دوں گی مجھے چند ہزار اور دے دیں ۔ ‘‘ انہوں نے بھرائی آواز سن کر میری جانب سوالیہ نظروں سے دیکھاتو میں نے ساراقصہ کہہ سنایا ۔ ساری بات سن کر انہوں نے پھر سے نیلے نیلے تین نوٹ مجھے تھما دئیے گئے ۔
ابو کے سوالات کی پٹاری کھلنے لگی تھی ۔ پہلی بار کسی سہیلی کا کہہ کر ان کو چپ کروا چکی تھی اب کہ انہیں ساری حقیقت بتانی ضروری تھی ۔ یہ سب کچھ سن لینے کے بعد وہ پھوٹ پھوٹ کر روئے تھے۔
’’میں اس دنیا کا سب سے بد بخت باپ ہوں مجھے زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں مجھے مر جانا چاہیے۔ ‘‘
بڑی مشکل سے انہیں چپ کروایا ۔
’’ ابو بدرالدین آئے گا تو سب ٹھیک ہو جائے گا میں پھر سے اس کی منت کروں گی وہ میرے کہے کی لاج رکھے گا ۔ وہ اپنے رب کو منا کر آئے گا راضی کر کے آئے گا تو اس کا دل نرم پڑ چکا ہو گا ۔ اللہ والوں کے دل بڑے نرم ہوتے ہیں اس کا بھی ہو چکا ہو گا وہ میری بات مان لے گا ۔ ‘‘
میں نے ایک آس سے کہا اور گاڑی پھر سے اسی گام پہ چلنے لگی ہانپتی کانپتی جس کا انجن ناکارہ ہو چکا تھا اور مفلسی کا دیو اس کو مزید کچوکے لگا رہا تھا۔
٭…٭
جیسے جسے میرا اس دکان میں جانا زیادہ ہوا ویسے چہ مگوئیاں باتیں اور بولیوں میں اضافہ ہوتا چلا گیا ۔ بدنامی کا لیبل میری پیشانی پہ سجنے کو بے چین ہونے لگا۔
’’اس کا تو کوئی چکر چل رہا ہے ‘مراد اور عذیر کے ساتھ ورنہ کون اس مہنگائی میں کسی کی اتنی مدد کرتا ہے۔ ‘‘
’’بالکل ایسا ہی ہے ہمارے اپنے گھروں کے خرچے پورے نہیں ہوتے اور یہ دونوں اس دو نمبر لڑکی پہ لٹائے جا رہے ہیں۔ ‘‘
’’شکیل احمد سے بات کرنی پڑے گی اپنی لڑکی کو نکیل ڈال کے رکھے ۔ شریفوں کا محلّہ ہے ساتھ ہی تبلیغی مرکز ہے۔ ‘‘
میرے ساتھ ساتھ ان بھلے مانس نوجوانوں کے کرداروں کو بھی داغ دار کیا جانے لگا۔
٭…٭
ابو نے جب سے محلے والوں کی باتیں سنی تھیں میرے گھر سے باہر نکلنے پر پابندی لگا دی تھی ۔ میں خود بھی اس صورتحال میں گھر میں دبک کر رہنا چاہتی تھی ۔ لیکن سودے سلف کے لئے باہر جانا ہی پڑتا تھا ۔ ایک روز گلی کی نکڑ پہ کھڑے لونڈوں کی باتیں سنیں تو ان کا سر پھاڑ دینے کو جی چاہا۔
’’سنا ہے پروفیسر صاحب کے بیٹے سے تعلقات تھے ۔ اس کے روز دن کو کام کے بہانے اس کے ساتھ رنگ رلیاں منانے جاتی تھی ۔ اور جاتی بھی کیوں نہ وہ شریف النفس آدمی نیک گھرانے کا بچہ شکیل احمد کے گھر کا راشن بھی تو ڈلوا رہا تھا ۔ بھئی اپنے باپ کی دوستی کی لاج بھی تو رکھنی تھی ۔ اور یہ اس پہ ڈورے ڈال رہی تھی ۔ وہ تو اچھا ہوا وہ خود اس کے لچھن دیکھ کر پیچھے ہٹ گیا۔‘‘
اور پھر میرے صبر کی ہمت نے جواب دے دیا اینٹ سے دو لڑکوں کے سر پھوڑ دیئے تھے اور وہ دونوں ہسپتال جا پڑے تھے۔
٭…٭
اس سارے عرصے میں ہاتھ پھیلانے کی عادت جوں کی توں برقرار رہی تھی۔ جب بھی گلی سے گزرتی اور کچھ بھی لینا درکار ہوتا تو انکی دکان کا رخ ضرور کرتی اور کچھ نہ کچھ رقم ادھار کے طور پہ لے آتی اچھنبے کی بات تو یہ تھی۔ پندرہ ہزار کا قرضہ چڑھ جانے کے بعد بھی ان دونوں نے مجھ سے ایک روپیہ تک نہیں مانگا تھا۔
٭…٭
کیوں نہیں مانگا تھا؟
یہ میں بتاتا ہوں۔
میں کون ہوں؟
میں بدرالدین ہوں فرح کے ابا کے دوست کا بیٹا‘ جسے انہوں نے ہمیشہ سگی اولاد سے بڑھ کر چاہا ۔ اور میں نے بھی ان کی محبت، شفقت اور انسیت کے سارے قرض اتارے ۔ مجھے فرح سے محبت ہو گئی وہ بھی مجھے دل و جان سے چاہنے لگی تھی ۔پھر کچھ ہی عرصہ گزرا تھا کہ میرے من میں ایک شک کا بیج پڑ گیا تھا ۔ میں نے اس شک کے پودے کو اس قدر توانا کر دیا تھا۔ کہ مجھے فرح کے کردار کا پرچہ لینا پڑ گیا ۔ اس پرچے کو میں نے اکرام (دکان والا ) مراد اور عذیر نے مل کر تیار کیا ۔
فرح کو اس گھر بھیجنے کا منصوبہ بھی میرا اپنا تھا ۔ میں اچھی طرح سے جانتا تھا کہ ان کا لڑکا کس قماش کا ہے ۔ شروع سے لے کرآخر تک سب میری چال سازی تھی ۔ فرح کو شاہی موبائل ریپیرنگ سینٹر آنے کے لئے تیار کرنا، وہ پیسے جو عذیر اور مراد دیتے رہے تھے وہ میں خود ان دونوں کو دے کر گیا تھا ۔ کیونکہ ایک روز میں نے فرح کو اس کی سہیلی کے بھائی کے ساتھ ہنسی مذاق کرتے دیکھا تو میرا خون کھول اٹھا تھا ایسا روز ہونے لگا تھا ۔ روز کسی نہ کسی بہانے وہ لڑکا آن موجود ہوتا اور فرح اس کے ساتھ ہنسی ٹھٹھے میں مصروف ہوتی تھی ۔
پھر میں نے اس کے کردار کو جانچنے کی نیت سے یہ سارے جال بنے تھے ‘ یہ جانے بغیر کہ اس سب میں وہ کس قدر بدنام ہو جائے گی ۔ دو کوڑی کی ہو کر رہ جائے گی ۔ اس کی عزت تار تار ہو جائے گی ، وہ کسی کو منہ دکھانے لائق بھی نہیں رہے گی ۔ یہی تو ہوا تھا ۔ میں چار ماہ لگا کر لوٹا تو سب الٹ پلٹ تھا فرح کو لے کرسب کی زبانیں زہر اگل رہی تھیں ۔ کیا میں اتنا دلیر تھا کہ سب کو یقین دلاتا کہ میری فرح ایسی نہیں ہے؟
میری فرح بہت نیک ہے…
حیا کا پیکر ہے…
اسکی پاکیزگی اسکی پارسائی کا میں گواہ ہوں…
سب کچھ بیکار جا رہا تھا ۔ کاش میں نے اپنی فرح پہ یقین کیا ہوتا شک کا بیج نہ بوتا تو آج وہ میری ہوتی ‘میں نے ایک بیوقوفی کرنے کے بعد دوسری کم عقلی یہ کی کہ اسے بھی سب کچھ سچ سچ بتا دیا تھا ۔ وہ اب میرا نام تک نہیں سننا چاہتی وہ کہتی ہے۔
’’بدرالدین تمہارے نام کا ورد میری زبان کو ہمیشہ تر کیے رکھتا تھا ۔ تمہارے آگے ساری دنیا مجھے ہیچ لگتی تھی ۔ تمہارے لیے میں دہکتے کوئلوں پہ ننگے پاؤں چلنے کو تیار تھی ۔ صحرا کی تپتی ریت میں دھنس جانے کو تیار تھی ۔ اور تم ہی نے مجھے نیک نامی اور بدنامی کے ترازو میں تولنا چاہا ۔ وہ لڑکا میرے بھائیوں جیسا تھا، دل کا مریض تھا ۔ تمہارے تبلیغ پہ جانے کے ایک ماہ بعد اس کا اِنتقال ہو گیا وہ مجھ سے ایک سال تین ماہ چھوٹا تھا ۔ فاخرہ روز اس لیے بھیج دیتی تھی کہ اس کا دل بہل جاتا تھا ۔ اس کے دل میں سوراخ تھے ۔ تمہارے لگائے الزامات کے بعد تو اس کے پورے وجود میں چھید ہو جاتے ۔ شکر وہ تمہارے آنے سے پہلے اس دنیا سے رخصت ہو گیا ۔ بدرالدین تم نے اپنی محبت پہ شک کیا ۔ اس محبت پہ جسے تمہارے ساتھ کی ضرورت تھی ۔ تم ایک بار مجھ سے تو پوچھتے میں تمھیں بتاتی لیکن تم …تم اپنے رب کو منانے گئے ، رب کی بندی کے لئے شک کی دیوار دل میں کھڑی کر کے، رب کی بندی کو ٹھکرا کر میں جانتی ہوں بدرالدین میں جانتی ہوں ۔ تمہاری یہ تبلیغ ضائع گئی، تمہاری نمازیں، تمہاری عبادتیں، تمہارا خشوع وخضوع ،تمہاری تسبیحات ، تلاوتیں سب ضائع گئیں۔ تم ہار گئے ، تم فرح کو ہار گئے تم رب کے آگے ہار گئے ۔ میں جیت گئی میری نیک نامی جیت گئی میرے باپ کا وقار اور سر بلندی جیت گئی ۔ دنیا والوں کے سامنے بدنام ہوئی ہوں ۔ یوم حساب کے دن خدا کے حضور نام والی بھی میں ہی کہلاؤں گی ۔ پھر جب میں اور تم آمنے سامنے ہوں گے تو میں تم سے پوچھوں گی ۔ جب تم اپنے رب سے نظریں بھی نہیں ملا سکو گے ۔تم نے ایک کے بعد ایک وار کیا تم نے میرے عزیزوں کو میرے لئے استعمال کیا میں جو کسی کے آگے ہاتھ نہیں پھیلاتی تھی ۔ ہاتھ پھیلاتی رہی، اللہ کے بجائے بندوں کے آگے سوالی بنی جھکی ، بدلے میں مجھے کیا ملا اس بدنامی کے طوق کے سوا تم لاکھ معافیاں مانگو میں تمھیں کبھی معاف نہیں کروں گی۔‘‘
وہ ٹھیک تھی میں اس قابل نہ تھا کہ وہ مجھے معاف کرتی ۔ ہم کچے ذہنوں کے کچے لوگ اکثر کچھ ایسے مناظر دیکھ کر مشتعل ہو جاتے ہیں ۔ خود سے نتیجے اخذ کر لیتے ہیں ۔ خود سے مفروضے قائم کر لیتے ہیں اور اس کا نتیجہ بہت بھیانک ہوتا ہے ۔ دیکھ تو لیا آپ سب نے…!
ختم شد

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

You cannot copy content of this page