بالی : ایم رضوان ملغانی
اماں برکتے جو مستقبل میں اس گھروندے کے باسیوں کو بھرے پیٹ سوتا دیکھ رہی تھی ‘ صداقت علی کی بات پہ چونک گئیں تھیں۔
’’ میں اپنی برکتے کو سونے کی والیاں لازمی دوں گا جہیز میں ‘ کیا سوچے گا میرا دوست کہ میدے کی اکو اک دھی تھی اسے بھی ہمارے گھر پیتل کے برتن دیکر ٹور دیا ناں۔ ‘‘
’’ کہاں سے لائے گا تو پیسے برکتے کے ابا ۔ ‘‘
’’ کچھ کر لوں گا برکتے کی ماں تو غم نہ کر ۔ ‘‘
’’ یہ دیکھ برکتے تیری سونے کی والیاں ایسی موٹی والیاں خالص سونا ہی سونا ۔ ‘‘
’’ ابا تیرے پاس اتنے پیسے آئے کہاں سے ۔ ‘‘
ابے نے کچھ نہ بتایا تھا کہ اس نے کیا کیا جتن کئے تھے ‘ کیسے کیسے کام کر کے اس نے پائی پائی اکھٹی کر کے یہ بالیاں بنوائی تھیں ۔اماں برکتے اپنے جھریوں بھرے کپکپاتے ہوئے ہاتھوں سے ماضی سے نکل کر ان بالیوں کو چھونے لگی تھی۔
٭……٭
شام کے سائے پھیلے تو بختو چرواہا بھی بکریوں کا ریوڑ ساتھ لیے جھوک سے چل نکلا ۔ بھری ہوئی جیب انسان کو پلوں میں اڑن کھٹولے پہ بٹھا دیتی ہے ‘ انسان ہواؤں میں اڑتا پھرتا ہے ، کئی سو منصوبے گھڑ لیتا ہے کہ وہ ان نوٹوں کو کب کہاں اور کیسے خرچ کرے گا ۔ کچھ ایسا ہی حال بختو چرواہے کا بھی تھا۔وہ گاؤں کا اکلوتا چرواہا تھا ‘ جس نے سارے گاؤں کی بکریاں چرانے کا بیڑہ اٹھایا تھا ۔ بکریاں خوب گھانس پھوس چر کر جب شام کو دودھ دیتی تھیں تو بکریوں کے ولی وارث اس کو بھی اس کی مزدوری دیتے تھے۔
لیکن اب اس کا گزارہ مشکل ہو گیا تھا ۔ لڑکا اس کا نکما تھا ‘ سر پہ بیٹی کا بوجھ الگ ۔ اس نے جو سوچا تھا وہ کر دکھایا ۔ ایک جھوکی سے اس نے صداقت علی کی بکری کا سودا کر لیا ۔ اسے کوئی ندامت کوئی شرمندگی نہیں تھی ۔ بس اسے اتنا پتا تھا کہ آٹے دان میں جو کل سے خالی پڑا ہے آٹا ڈل جائے گا۔
وہ گاؤں پہنچا تو سب کی بکریوں کو پتے پہ پہنچایا ۔ ادھر رضیہ جو سمے سے پہلے ہی بکری کے انتظار میں دروازے کے پاس آ کر کھڑی ہو جاتی تھی بکری کے نہ آنے پہ پریشان ہوئی تھی ۔ اس نے جھٹ سے چپل پیروں میں ڈالے اور بختو کے گھر کی راہ لی ۔ وہ ابھی دروازے کی دہلیز عبور کر کے اندر جانے ہی والی تھی کہ کچھ شناسا آوازیں اس کے کانوں میں پڑی تھیں۔
’’ یہ تو نے کیا کیا ابا ‘ اب کیا جواب دے گا تو چاچے صداقت کو اور میری سہیلی رضیہ اس کی تو جان تھی اس بکری میں۔ ‘‘ فرزانہ گلہ پھاڑ پھاڑ کر چیخ رہی تھی ۔
’’ چپ کر جا کم بخت دیوار سے دیوار لگی ہے سن لیں گے وہ لوگ۔ ‘‘ صغراں نے فرزانہ کے منہ پہ ہاتھ رکھ لیا۔
’’ اچھا کیا ہے میں نے ‘ جب نہیں ہو رہا گزارہ تو یہی کرنا پڑے گا ۔ آج ان کی بکری چرائی ہے ‘ کل کسی ہور کی چوری کروں گا ۔ ‘‘
؎بختو تو یوں ظاہر کر رہا تھا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں تھا رضیہ کے آنسو بھل بھل بہنے لگے تھے۔۔
٭……٭
رات کی چادر تن گئی ۔ سب واویلا، شور بین کرتے تھک چکے تھے ۔ صداقت علی نے بختو کا گریبان چیر دیا ، اسے گالیاں دیں ‘ برا بھلا کہا اور بختو پتھر کا بت بنے کھڑا رہا تھا ۔
’’ یہ کیا کیا تو نے بختو اب میں دودھ کہاں سے لاؤں گا۔ ‘‘
صداقت علی وہیں ڈھے گیا تھا ۔ بختو کا پتر صداقت علی کو ترحم بھری نگاہوں سے دیکھ کر گھر گھس گیا
٭……٭
فجر کی نماز کے بعد سارے شاد پوراں کے واسی سر جوڑے بیٹھے تھے ۔ سب نے بختو کو خوب لعنت ملامت کی تھی ‘ بختو جس نے آج تک حلال کا کھایا تھا ، ایک رات گزرنے کے بعد ہی سیدھا ہو گیا ۔ اسے اپنی غلط پہ افسوس تھا ۔ مولوی صاحب نے فیصلہ کیا تھا کہ بختو اب اپنی سب سے اچھی بکری صداقت علی کو دی گاکیونکہ بیچی ہوئی بکری واپس نہیں آ سکتی تھی۔
بختو کے پتر نے یہ فیصلہ سنا تو ہتھے سے ہی اکھڑ گیا ۔
’’ابا ، میں تجھے کسی صورت اپنی بکری ان کو نہیں دینے دوں گا ۔ تیری غلطی تھی تو نقصان بھر۔ ‘‘ اس نے بکری کی رسی مضبوطی سے پکڑ لی ۔
’’ بکواس کرتا ہے پیو کے آگے جانتا ہے نا کس لیے بیچی میں نے بکری ۔ اگر اتنا ہی اچھا بن رہا ہے تو جا کچھ کما کے لے کر آ ۔ ‘‘ بختو نے ایک ساتھ کئی تھپڑ اس کے گال پہ جڑ دیے تھے ۔
اس کے ہاتھ کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی تھی بکری چل کر بختو کے پاس آ گئی تھی ۔ بختو اسے لیے روانہ ہو گیا۔
’’ نہ بختو نہ … تو نے جو کیا مجبوری میں آ کر کیا ۔ میں یہ بکری تجھ سے نہیں لے سکتا بلکہ تو آج میرے ساتھ چل ‘ ملکوں کی حویلی ادھر شناختی کارڈ نمبر لکھوا ، مفت راشن اور آٹے کے لیے۔ ‘‘ وہ صداقت علی تھا اماں برکتے کا بیٹا اس نے بکری لینے سے انکار کر دیا تھا ۔ بختو رویا تو پھر روتا چلا گیا۔
صبح ناشتہ کرتے ہی وہ اور بختو روانہ تھے ۔ آدھا گاؤں ملکوں کی حویلی کی طرف رخ کئے ہوئے تھا ۔ صداقت علی کا زمین پہ پڑتا ہر قدم من بھر کا ہو رہا تھا۔
’’ تو ساجے مستری کا پتر ہے ‘ تیرے یہ ہتھ سونے کے ہیں ۔ میں نے اپنا سارا ہنر تجھے ورثے میں دے دیا ہے ۔ اب یہ تیرا کام ہے کہ تو سیمنٹ، بجری ریت سے بنے کھرے اور کھوٹے مسالے میں فرق کر سکے ۔ پتر جہاں تو اپنے ٹھیکے دار کے کم میں دو نمبری ہوتی دیکھے کم وہیں چھوڑ دینا ۔ تیری لگائی ایک اینٹ بھی تجھے اس دو نمبری کا حصّہ بنانے میں کافی ہو گی ۔ ‘‘ اسے یاد کے ایک کچوکے نے ڈسا ۔
’’ کیا سبق تو مجھے پڑھا گیا ابا ، صداقت کو صداقت کا درس دیتے ہوئے تو یہ کیوں بھول گیا کہ یہاں تو ہر انسان ٹھیکے دار بنا بیٹھا ہے ۔ دوسروں کی زندگیوں کو ڈنک مارنے کا ٹھیکہ ہر ایک نے اٹھا رکھا ہے۔ ‘‘ اس نے بختو کی جانب دیکھتے ہوئے سوچا۔
’’ میں نے خود دیکھا ہے ٹھیکے دار ، مزدور سیمنٹ کم اور ریت زیادہ ڈال رہے تھے ۔ آپ انہیں کچھ کہتے کیوں نہیں ہو ۔ ‘‘
ایک اور ماضی کے دن کی بھولی بسری یاد۔
’’او شاباشے تجھے لگتا ہے میں مزدوروں کو نکال باہر کروں گا ۔ ان کی بد دیانتی پہ وہ جیسا میں کہتا ہوں وہ ویسا کریں گے تو بھی چپ چاپ کم کر۔ ‘‘ ٹھیکے دار نے ترشی سے مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے کہا تھا ۔
’’ ٹھیکے دار صاحب یہ تو نری ہیرا پھیری ہے ۔ ‘‘ وہ بولا۔
’’ بکواس بند کر اپنی ، مجھے کم کرنا نہ سکھا ۔پورے بیس سال ہو گئے ہیں کم میں‘ تجھے میرے ساتھ کم کرنا ہے تو ٹھیک ورنہ دفع ہو یہاں سے ‘دو ٹکے کا مستری ہو کے مجھے کم سکھا رہا ہے۔ ‘‘
ٹھیکے دار نے دائیں ہاتھ کی انگلی میں قید سونے کی انگوٹھی کو گھماتے ہوئے کہا ۔
’’ میں کام پہ نہیں آؤں گا ٹھیکے دار صاحب میرا حساب برابر کر دو۔ ‘‘ صداقت علی نے منٹوں میں فیصلہ کر لیا تھا ۔ ٹھیکے دار نے کاٹن کے اکڑے ہوئے سفید سوٹ سے چند روپے نکالے اور اس کے منہ پہ دے مارے تھے۔
وہ اچھے دن تھے مہنگائی عروج پہ نہیں پہنچی تھی ۔ اسے اکا دکا کام مل جایا کرتا تھا ۔ کسی کی دکان بنانی ہے تو کسی کا غسل خانہ تعمیر کرنا ہے ۔ کسی کے گھر کی دیوار پکی کرنی ہے ‘ تو کسی کی چھت ۔ یہ کام کافی تو تھا لیکن بہت نہیں تھا ۔ گاڑی گھسیٹی جا رہی تھی بس جیسے جیسے سال بڑھتے گئے لڑکیاں بڑی ہوتی گئیں ۔ اخراجات بھی بڑھ گئے تھے ۔ اسے اس مدت میں دیگر ٹھیکے داروں کے ساتھ بھی کام کرنے کا موقع ملا لیکن وہ بھی دو نمبری تھے ۔
آخری جس ٹھیکے دار کے ساتھ کام کیا تھا اس نے وعدہ کیا تھا کہ وہ اس کی ساری مزدوری ایک ساتھ دے گا ۔ اس نے اس پہ بھروسہ کر لیا اور وہ اس کی دو ماہ کی اجرت ہڑپ کر گیا ۔ اس نے سوچ لیا کہ اب ٹھیکے پہ کام نہیں کرے گا ۔ اس دن کے بعد کام تو تھا لیکن وہی چھوٹا موٹا سا کام کبھی کسی کی دیوار بنا دی تو کبھی کسی کا فرش پکا کر دیا ۔ اس سب میں گزر بسر جان جوکھوں کا کام تھا۔
وہ حال میں لوٹا تو بختو اور وہ ایک لمبی سی قطار کا حصہ بنے کھڑے تھے ۔ ملکوں کا ایک پتر جو ولایت سے پڑھ کر آیا تھا شناختی کارڈ نمبر نوٹ کرتا جا رہا تھا ۔ ملک کا دوسرا لڑکا ان سے انگوٹھے لگوا رہا تھا۔
جب سب کے انگوٹھے لگ گئے تو سپیکر پہ اعلان ہوا۔
’’ شاد پوراں کے واسیوں آپ سب کے انگوٹھے لگ گئے ، نمبر درج ہو گئے ۔ جیسے ہی مفت آٹے کے تھیلے آئیں گے ہم اعلان کر کے آپ سب کو بلا لیں گے ۔ اب آپ سب اپنے اپنے گھروں کو جاؤ۔ ‘‘
سب پسینے سے شرابور ہوئے گھروں کو چل دیئے تھے۔
٭……٭
رشید کی دکان کا آدھا کام تو اس نے کر دیا تھا بس چھت ڈالنا رہتی تھی ۔ رشید سامان لاکر نہیں دیتا تھا کہ چھت ڈالی جائے ۔ خدا خدا کر کے ایک دن وہ ٹیئر گارڈر لے آیا تو اسے بھی بلوا لیا گیا ۔ ابھی آدھی چھت کا کام ہوا تھا کہ اس کا پاؤں پھسلا اور وہ دھڑام سے نیچے آ گرا تھا ۔ گلی میں گرتا تو الگ بات تھی ، یہ تو اس کے صحن کا پکا فرش تھا ۔ صداقت کابازو ٹوٹ گیا تھا ۔ پاؤں مڑنے سے پاؤں میں موچ آ گئی تھی۔
کچھ ہی دیر کے بعد جب ڈسپنسری سے پلستر چڑھوا کر رشید اسے گھر لے کر آیا تو شمیم پہلے ہی اس کی چارپائی صفیہ کی چارپائی کے ساتھ ڈال چکی تھی۔
٭……٭
وہ تپتی دوپہر کا ایک دن جب مسجدوں میں آٹے کے تھیلوں کے اعلانات ہو رہے تھے ۔ صداقت علی چارپائی پہ درد سے کراہ رہا تھا ۔ گرمی کی شدت سے بندھا پلستر اسے مزید تکلیف دیتا تھا ۔ اسے لگتا تھا کہ چوٹ بجائے ٹھیک ہونے کے بڑھ رہی ہے۔
’’ پتر پریشان نہ ہو ‘مجھے اپنا شناختی کارڈ پھڑا میں جاؤں گی اور آٹے کی بوری لے آؤں گی ۔ طیفا مجھے چنگ چی پہ بٹھا دے گا ۔ ‘‘ اماں برکتے نے کہا ۔
’’ نہیں اماں گرمی ویکھ رہی ہے ۔ شمیم ہو آئے گی ‘ تو بیٹھ جا۔ ‘‘ صداقت علی بولا۔
’’ شمیم کو صفیہ نے کہیں آنے جانے کے قابل چھڈا ہے بتا ‘ تو رہن دے شمیم کو میں جاواں گی۔ ‘‘ اماں نہ مانی ۔
’’ اچھا پھر اماں بختو لے آئے گا ۔ ‘‘ صداقت علی بولا نجانے کیوں ان دونوں ماں بیٹے نے بختو کو معاف تو کر دیا تھا لیکن ان کے دل میں سوئی گڑھ گئی تھی ۔
’’ میں نے کہہ دیا نا ں‘ میں جاؤں گی ۔ ‘‘ اماں برکتے کی ضد کے آگے صداقت نے گھٹنے ٹیک دیئے
٭……٭
مدت ہو گئی تھی گھر سے باہر قدم نکالے ہوئے جب سے ساجا مستری قبر کی منوں مٹی تلے دفن ہوا تھا اماں برکتے نے خود کو گھر کی چار دیواری تک محدود کر لیا ۔نہ کہیں آنا نہ کہیں جانا جو خود چلا آتا وہ ان سے پر تپاک انداز سے ملتیں تھیں ۔ سب کچھ اچھا لگ رہا تھا ‘لو کے تھپیڑوں سے بے نیاز اماں برکتے آٹے کے اس تھیلے کے بارے میں سوچ رہی تھیں اور اس قدر خوش کہ جیسے یہ بیس کلو کی تھیلی وہ سالہا سال کھائیں گی۔
چنگ چی والے نے چنگ چی روکی تو طیفے نے انہیں آرام سے نیچے اتارا ۔ اماں نے دوپٹہ درست کیا ۔ عینک جیب سے نکال کر آنکھوں پہ لگا لی اور لرزتے وجود کو سنبھالتے ہوئے خراماں خراماں بڑھنے لگیں۔
شامیانہ لگا ہوا تھا ۔ مرد و زن کا میلہ ایک ہی جگہ اکھٹا تھا ۔ ٹرکوں پر سے آٹے کی بوریاں اتاری جا رہی تھیں ۔ لوگ چیخ رہے تھے چلا رہے تھے ۔ دھکم پیل تھی اماں کو اتنی گرمی تو رکشے پہ نہ لگی جتنی یہاں آ کر محسوس ہوئی تھی ۔ ہونٹوں کی پیڑیاں منٹوں میں خشک ہو گئیں تھیں ۔ حلق سوکھ سوکھ جاتا تھا ۔ کیسی کسم پرسی کا عالم تھا ‘ کوئی یہ بھی نہ کہتا تھا کہ اس بڑھیا کو کرسی لا دو۔
وہ بھی نوجوان عورتوں کی قطار میں جا کر کھڑی ہو گئیں تھیں ۔ جہاں سب کھڑی تھیں کسی کو ترس نہ آیا کہ وہ اپنی باری چھوڑ کر انہیں آگے کر دے ‘ وہ سب ستائی ہوئیں تھیں کملائی ہوئی تھیں ۔ جیسے جیسے وقت گزرتا جا رہا تھا گرمی کا زور بھی بڑھتا جاتا تھا ۔پیچھے کھڑی شیداں کے پتر نے اماں کا کان پکڑ لیا اماں کراہ کر رہ گئی ۔ ابھی وہ اگر مزید کان کھینچتا تو اماں کی بالی دور جا گرتی ۔
اماں کا نمبر بس آنے ہی لگا تھا کہ اچانک ان کے پاس سے بجلی کی تیزی سے ایک نوجوان ان کے کان کو چیرتے ہوئے گزر گیا ۔ اماں جہاں کھڑی تھیں ‘ وہیں گر پڑیں۔ سارے لوگ جمع ہو گئے ‘ چرے ہوئے کان سے خون کا جھرنا بہہ رہا تھا۔
’’ ہائے میری والی لے گیا کم بخت ہائے میری والی ۔ ‘‘ اماں دھاڑے مار مار کر رونے لگی تھیں۔
وہ اتنی مہارت سے ہاتھ صاف کر کے گیا تھا کہ منٹوں میں رفو چکر ہو گیا ۔ لڑکے اس کے پیچھے بھاگے بھی لیکن وہ ہاتھ نہ آیا تھا۔
٭……٭
وہ کارروائی کر کے موٹر سائیکل پر بیٹھا اسے دوڑاتا ہوا گھر تک آیا تھا ۔ اس کاسانس پھولا ہوا تھا اس نے گھر گھستے ساتھ ہی مٹکے سے کئی گلاس پانی کے پیے تھے ۔ پانی پیتے ہوئے اس کے ہاتھ سے بالی چھوٹ گئی تھی اور گر پڑی تھی ۔
’’ یہ تو اماں برکتے کی بالی ہے یہ تجھے کہاں سے ملی۔ ‘‘ اس کی بہن فرزانہ نے پوچھا ۔
’’ میں نے ہاتھ صاف کیا ہے کان چیرا ہے بڑھیا کا ۔ ‘‘ شاکا چلایا ۔
اس کے چلانے کی آواز صداقت نے بھی سنی تھی ۔ نجانے اس میں کہاں سے اتنی قوت در آئی کہ وہ سارا بازو کا درد بھول بھال باہر نکل گیا جاتے ہوئے وہ کچن سے کچھ اٹھا کر بھی گیا ۔
چاقو کے پے در پے واروں سے شاکے کی سفید قمیص لہو لہان تھی وہ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر تڑپ رہا تھا۔
صداقت کے ہاتھ میں موجود چھری سے گرتے خون کے قطرے زمین میں جذب ہو رہے تھے
’’ سو بکریاں چراؤ ‘ میں سو بکریاں قربان کر دوں گا ، پر اماں کی بالیوں پہ ایسے کئی شاکے قربان۔ ‘‘
ختم شد