بالی : ایم رضوان ملغانی
خوشحالی میں قحط قہر بن کر ٹوٹا تو زندگی کے بالن میں بھوک کا الاؤ دہکنے لگا ۔ حسین خوابوں کی ساری ڈوریں ٹوٹ گئیں ، اچھے دنوں کی آس کے بخیے ادھڑ گئے ۔ صداقت علی کے آنگن میں جہاں جیون سکھ کی بشارت ہوا کرتا تھا ۔ اب ہر ایک کے ناتواں وجود کے کاندھوں پہ دکھوں کی گھٹڑی لادے ہوئے تھا ۔
اس بار نے جس کی کمر سب سے زیادہ توڑی تھی وہ اماں برکتے تھیں ۔ اس واحد گھر کی ہی نہیں پوری بستی کی اماں برکتے جن کا وصف ہی نرالا تھا ۔ پت جھڑ کے موسموں سے انہیں کوئی سروکار نہ تھا ۔ پر اس بار جو آندھی چلی تھی اس نے انہیں مایوسی کی ایسی تصویر بنا دیا تھا ‘ جس پہ اشکوں کا ہار پرو کر ڈال دیا گیا ہو۔
اس گھر کا واحد کفیل مرد صداقت علی بھی وقت سے پہلے ڈھے گیا تھا ۔ بالکل اپنے گھر کی اس کچی دیوار کی طرح جو پچھلے سال سیلاب کے پانی سے متاثر ہو کر گری تھی ۔ وہ جو کبھی عزم و ہمت کی چٹان تھا ، اب شکست خوردگی کا پیراہن اوڑھ چکا تھا ۔
صداقت علی کی پہلی دھی ( بیٹی ) رضیہ نے جب ملکوں کی ہونے والی نوں (بہو) کی چادر پہ کچے سیپ سے پھول، بیل، بوٹے ٹانکے تو سب نے خوب بڑھ چڑھ کر واہ واہ کی تھی ۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ اپنے کام میں اس قدر مہان ہو گئی تھی کہ سب اس پہ جاں نثار کرنے لگے تھے ۔ وہ منہ مانگی اجرت وصول کرتی تھی ۔ اس کے طے شدہ داموں کے آگے کسی کی ایک دھیلا تک کم کرنے کی جرات نہ تھی، پھر گہن لگ گیا ۔ گاؤں والوں کو پیٹ کے ایندھن کے لالے پڑ گئے ۔ آیا ہوا کام بھی واپس ہونے لگا تھا اور سب کچھ ٹھپ ہو کر رہ گیا۔
دوسرے نمبر پر صفیہ تھی رضیہ سے تین برس چھوٹی، پیدا ہوتے ساتھ ہی بیماریوں کو تبرک کے طور پر اپنے ساتھ لائی تھی ۔ اس کی عمر بڑھاتا ہر سال اسے کسی نئے مرض میں مبتلا کر دیتا تھا ۔ ہر طبیب ہر معالج ہر حکیم ہر ڈاکٹر کو دکھایا تھا ۔ پیر فقیر بابے جوگی دم تعویذ سب کچھ کروا کے دیکھ لیا تھا ‘ وہ دن بدن سوکھ کے کانٹا ہوتی جا رہی تھی ۔ بیٹھی ہوتی تو کسی کبڑی عمر رسیدہ خاتون کا پتہ دیتی تھی ۔ اتنا تو اماں برکتے کی کمر میں خم نہ تھا جتنا بائیس سالہ صفیہ کی کمر میں تھا۔
رضیہ ، صفیہ کی محبتوں سے لبریز ایک دل جو ہمہ وقت انہی کے لیے دھڑکتا ہے ۔ حالات نے کئی پینترے بدلے ، شمیم کی ممتا اور پیار میں کمی نہ آئی ۔ بس اب وہ وسوسوں میں گھری رہتی تھی ۔ رضیہ کے جہیز کی پیٹی کو تالہ لگے کتنے سال ہو چکے تھے ۔ مہنگا ڈنر سیٹ تو کجا مٹی کی پرات اور پلاسٹک کی چنگیر تک نہ لی تھی رضیہ کے لیے کہ جسے رکھنے کے لیے وہ تالا کھولتی ۔ بظاہر وہ صبر اور شکر کے مرتبان میں قید تھی ۔ اس مرتبان کے اندر تو کوئی جھانکنے کی سعی کرتا جہاں اس جیتے جاگتے وجود نے لاتعداد ارمانوں کا گلہ گھونٹ رکھا تھا۔
٭……٭
’’ شاد پوراں ، ہا ہا ہا … ایسا ہوتا ہے شاد پوراں ۔ نجانے کس کم بخت نے اس وستی کا نام شاد پوراں رکھا تھا ۔‘‘ وہ اپنے گاؤں کو جاتی سڑک کے کونے پہ لگے سائن بورڈ پہ موٹے موٹے سے لکھے نام کو پڑھ کر طنزیہ ہنسی ہنس دیا ۔ آستینیں اوپر چڑھی ہوئیں، بٹن کھلے ہوئے، گھنگھریالے بالوں کو دیکھ کر لگتا تھا کہ شاید اس نے ہفتے پہلے اپنی خالی کھوپڑی میں تیل کی مالش کروائی تھی اور اب نہانا بھول گیا تھا۔
یہ شاد پوراں کا گول چورنگی چوک تھا ‘ جہاں چھوٹی چھوٹی سی انواع و اقسام کی اشیاء کی دکانیں تھیں ۔ انہی میں ایک مٹھائی کی دکان کے شوکیس میں سجی برفی، جلیبی اور گلاب جامن کے تھالوں پر مکھیوں کا ٹولہ منڈلا رہا تھا ۔ اس بات سے قطع نظر مکھیوں نے کیا حشر بپا کر رکھا ہے‘ اسے رسیلے میٹھے شیریں اور نرم نرم سے گلاب جامن کو کھانے کا شوق چرایا تھا۔
’’ چاچا ایک گلاب جامن تو دے ۔‘‘ وہ ساری شرم بالائے طاق رکھتے ہوئے اندر گھس گیا اور ہاتھ پھیلائے بولا ‘ یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس کی جیب میں ایک پھوٹی کوڑی تک نہیں ہے ۔
’’ ایک چھوڑ دس گلاب جامن دوں گا ، یہ بتا پیسے ہیں تیری جیب میں ۔ ‘‘ چاچے بخشو نے دھوپ میں بال تھوڑی سفید کیے تھے وہ اس کی رگ رگ سے واقف تھا۔
’’ پیسے تو نہیں ہیں چاچا پر میں تجھے کل دے دوں گا ۔ ‘‘ اس نے مسکین سی شکل بنا لی ۔
’’ چل دفع ہو یہاں سے ‘ مفت خور کمینہ گلاب جامن کھائے گا ۔ آئندہ میری دکان میں گھسا تو خیر نہیں ہو گی تیری ‘ آ جاتا ہے ہڈ حرام سالا ۔ ‘‘چاچا بخشو کاٹ کھانے کو دوڑا ۔
ایک گلاب جامن کی مانگ نے اسے شرمندہ کر دیا تھا ‘پر اس پہ مطلق اثر نہ ہوا تھا ۔ پاس والی دکان سے بیلنس لوڈ کرواتا طیفا سب دیکھ سن رہا تھا ۔ اس نے دیکھا شاکا اب حمام کی جانب بڑھ گیا تھا ۔ حمام کے باہر دھرے لکڑی کے ٹوٹے پھوٹے سے بنچ پہ مڑے تڑے سے پرانے اخبار کو سیدھا کر کے پڑھنے لگا ۔ طیفا لوڈ کروا کے اسی کے پاس جا کر بیٹھ گیا
’’ عقل کر شاکے کیوں تو ہڈ حرامی پہ تلا ہوا ہے کوئی کم دھندا کر … ‘‘ اس نے بیٹھتے ساتھ ہی کہا ۔
وہ دونوں بچپن کے بیلی یار تھے ۔ ایک ہی سکول سے پڑھے تھے ۔ طیفا پڑھائی میں کمزور تھا لیکن شاکا تو بڑا پڑھاکو تھا پھر نجانے کس کی نظر لگی تھی شاکے کو بری سنگت نے بگاڑ دیا تھا۔
’’ مجھ اٹھ جماعتاں پاس کو کون کم دھندا دے گا تو وی نہ طیفے مخول کرتا ہے۔ ‘‘ وہ اس کی بات کو مذاق میں اڑاتا اخبار کی جانب متوجہ ہو گیا ۔ طیفے نے اس کی عدم دلچسپی دیکھی تو وہ اٹھ کر حمام میں چلا گیا۔
نصیبو کا گانا ’’ ڈھولا اذلاں توں ریشماں تیری، تیری ونجھلی سوکن میری ‘‘ اونچی آواز میں چل رہا تھا ۔ اکرم استاد گانے کے بول پیچھے پیچھے دہراتا ہوا اسماعیل درزی کا خط بنا رہا تھا ۔ بیچ بیچ میں کوئی ایک آدھ بات بھی وہ کر لیتے تھے ۔ دو چار لونڈے اپنی باری کے انتظار میں موبائلوں میں سر دیئے ہوئے تھے ۔ طیفا بھی وہیں جا کر بیٹھ گیا۔
’’ سنا ہے اس واری حکومت پنجاب نے مفت آٹے اور راشن کی تقسیم کا اعلان کیا ہے غریبوں ناداروں کے واسطے ۔ ‘‘
اکرم استاد نے پتے کی بات بتائی تھی ۔ صداقت علی جو حجامت بنوا کر نہانے چلا گیا تھا ‘ نہا کر نکلا تو اس خبر نے اسے جھومنے پہ مجبور کر دیا۔
’’ تو سچ کہہ رہا ہے اکرم استاد ۔ ‘‘ اس نے پوچھا ۔
’’ ہاں صداقت چاچا میں کیوں کوڑی (جھوٹی) خبر پھیلاؤں گا ۔ ملکوں کا منشی آیا تھا بال بنوانے وہی بتا رہا تھا کہ ملک صاحب نے بھی وستی والوں کے لئے مفت راشن اور آٹے کی بات چلائی ہے ۔ جلد ہی ملک صاحب کی حویلی میں ٹرک آئیں گے ‘ جس نے بھی آٹا راشن لینا ہو اپنا شناختی کارڈ نمبر اور کچھ ضروری معلومات لے لکھوا کر اندراج کروا لیں۔ ‘‘ اکرم استاد نے تو ساری معلومات ہی فراہم کر دی تھیں ۔ صداقت علی کو گیلے بالوں کا ہوش تھا نہ کنگھی کا وہ بنا بٹن بند کئے بال سیدھے کئے حمام سے چلتا بنا ۔
وہاں اکرم استاد نے خبر سنائی تھی یہاں باہر بیٹھے شاکے نے بھی یہ خبر شہ سرخی کی صورت میں اخبار کے پہلے صفحے پہ پڑھی تھی۔
’’ حکومت پنجاب کا انتہائی احسن اقدام وزیراعظم نے مفت آٹے کی تقسیم کا اعلان کر دیا اب کوئی بھوکا نہیں سوئے گا ۔ ‘‘
شاکے نے جھٹ سے اخبار کو جیب میں ڈالا اور بھاگ کھڑا ہوا۔
٭……٭
وہ خوشی سے نہال لمبے لمبے ڈگ بھرتا گھر کی جانب روانہ تھا ۔ بیتے دنوں کی ساری تلخ یادیں سختیاں بھول بھال گئیں تھیں ۔گھر آیا تو معمول کے یاسیت زدہ لمحوں نے استقبال کیا ۔ صفیہ کھانس کھانس کے کراہے جا رہی تھی ۔ شمیم نجانے کب سے اس کے سر پہ کھڑی اس کے حلق میں پانی کے دو گھونٹ اتارنے کے لیے ہلکان ہوئے جاتی تھی ۔رضیہ متفکر سے انداز میں گہری سوچوں میں ڈوبے ہوئے تندور میں لکڑیاں جھونک رہی تھی ۔اماں برکتے روزانہ کی طرح سائے میں چارپائی بچھائے قرآن کریم کی تلاوت کر رہی تھیں۔
سامنے لگا سٹینڈ والا پنکھا برائے نام پروں کو ہلا رہا تھا ان کے اطمینان کے لئے یہی بہت تھا کہ پنکھے کے پر تو ہل رہے ہیں۔
وہ اماں برکتے کے پاس آ کر بیٹھ گیا۔اماں نے قرآن پاک بند کر کے غلاف میں ڈالا اور اسے دیکھنے لگیں تھیں۔
’’ خیر تو ہے پتر ‘ بڑی جلدی میں حمام سے نکل آیا ،کنگھی وی نہیں کیتی ۔ جا شمیم کنگھی شیشہ لے آ چھوڑ دے نماڑی کو کھنگ (کھانسی) رکے گی تو آپے پانی مانگے گی ۔ ‘‘ شمیم اداسی سے کمرے کی جانب بڑھ گئی واپس پلٹی تو شیشہ کنگھی اس کے ہاتھ میں تھا۔
’’ اماں بات ہی ایسی بتائی ہے اکرم نے کہ میں تو سب چھوڑ چھاڑ دوڑا چلا آیا ۔ ‘‘ اس نے شمیم سے کنگھی شیشہ لے کر پاس ہی رکھ دیا ۔ شمیم کی آنکھیں ترس گئی تھیں کہ کبھی شوہر کو اس روپ میں دیکھے ساری فکروں سے آزاد ۔ وہ بھی پاس ہی چارپائی پہ بیٹھ گئی تھی۔
’’ کیسی بات پتر ہمیں بھی بتا دے۔ ‘‘ اماں برکتے اب دید کی عینک اتار کر ڈبیا میں ڈال رہی تھیں۔
’’ اماں ، شمیم سنو غور سے ‘ حکومت نے مفت آٹے راشن کی تقسیم کا اعلان کر دیا ہے ۔ اب کوئی بھوکا نہیں سوئے گا ۔ ‘‘ صداقت علی کے لہجے میں عجب سی گرم جوشی تھی۔
ادھر تندور جل اٹھا اٹھا تھا رضیہ نے پیڑے بنائے تھے ۔آج پھر دو روٹیاں کم پڑ رہی تھیں۔
’’ چل خیر ہے میں آج نہیں کھاؤں گی۔ ‘‘
’’ جھلی دھی فکر کی لوڑ نہیں اب حکومت ہم غریبوں کا ساتھ دے رہی ہے۔ ‘‘ صداقت علی نے تندور کے پاس کھڑی رضیہ کو دیکھا تو سمجھ گیا تھا وہ اٹھا اور بیٹی کے پاس آ کر اس کے سر پہ ہاتھ رکھ کے بولا ۔
’’ اور تو اماں آئندہ میں تیرے منہ سے سونے کی والیاں بیچنے کی بات نہ سنوں ‘ میرے مرحوم نانے کی خون پسینے کی کمائی ہیں۔ ‘‘ صداقت علی نے نعرہ مار کر کہا ۔