افسانے

بی اے کی انگلش : عائشہ آصف

’’ جن کو کوئی ناپسند نہیں کرتا اصل میں وہ ہی سب سے بڑے منافق ہوتے ہیں،اصول پرست لوگوں کو ناپسند کرنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے۔‘‘
’’ حق بات کا دفاع نہ کر سکنے والا انسان سب سے بڑا منافق ہوتا ہے ۔‘‘
انگلش سپوکن اکیڈمی کے چھوٹے سے کلاس روم کی سب سے پچھلی رو میں بیٹھی حورعین نے زرا سا رخ موڑ کر دیکھا ۔
بلیو جینز پر فریش پنک شرٹ پہنے،پی ۔ کیپ سر پہ ٹکائے وہ کوئی لا پرواہ سا نوجوان تھا ۔ اس کی باتو ں کی گہرائی اس کے حلیے سے میچ نہیں کر رہی تھی ۔ ہلکی بڑھی شیو پر بے ترتیب بالوں میں ہاتھ پھیرتا وہ اضطراب کا شکار لگ رہا تھا ۔رمضان المبارک ہونے کی وجہ سے شام کو ہونے والی کلاسسز اب صبح آٹھ بجے ہو رہی تھیں،آج سے پہلے تو اسے یہ نظر نہیں آیا تھا شاید یہ کوئی نیا اسٹوڈنٹ تھا۔
سر اسد روم میں داخل ہوئے تو اس نے گردن سیدھی کر لی،مگر اس نوجوان کی باتوں نے اس کے دل کو جکڑا تھا۔
ہاتھ میں پکڑے موبائل فون کی بے رونق سکرین پر چند دن پہلے کے مناظر ابھرنے لگے۔
’’ کیا بنا تمہارے رزلٹ کا؟حسب توقع یا؟‘‘
ادھورے لفظوں میں گہرے طنز کی آمیزش تھی۔
’’ تمہیں کیا توقع تھی ؟‘ ‘ اس نے لرزتے لہجے میں پوچھا۔
’’ میری توقعات خیر تم رہنے ہی دو ۔ تم رزلٹ بتاؤ۔‘‘
’’ انگلش کلئیر نہیں ہو سکی ۔ ‘‘ سر جھکائے کسی مجرم کی طرح بولی۔
’’ اس بار بھی … ‘‘ لہجہ صاف مزاق اڑاتا تھا۔
اس کی شرمندگی سوا ہوئی۔
’’ خیر تمہارا مسئلہ پتا کیا ہے تم میری کسی بات کو سیریس لیتی ہی نہیں ہو،ذرا سی بی۔اے کی انگلش تم سے کلئیر ہو نہیں رہی اور خواب دیکھ رہی ہو تم میرے ساتھ انگلینڈ میں بسنے کے۔‘‘ لمحے بھر کو رک کے وہ دوبارہ گویا ہوا۔
’’یہاں میری زندگی کا ایک معیار ہے،جانتی بھی ہو،میرے دوست میرا حلقہ احباب اف ۔ ‘‘ آنکھیں میچ کر جیسے وہ کوفت کی انتہا پر تھا۔
احساس توہین سے اس کا چہرہ سرخ ہوا۔
’’ تم خود سوچو تم میرے سرکل میں کیسے سروائیو کر سکتی ہو جبکہ تم انگریزی کے چند جملے بھی صحیح تلفظ کے ساتھ ادا نہیں کر سکتی۔ ‘‘
دل کو چیرتے لفظوں پرشکوہ سسکی کی صورت نکلا۔
’’ سیپلی کی تیاری کرو اب اور کیا ہو سکتا ۔ ‘ ‘ بیزاری سے بات سمیٹتا وہ فون کاٹ گیا۔
بے جان ہاتھ فون سمیت اس کی گود میں آ گرا ۔ وہ اسے بتانا چاہ رہی تھی اسے صرف اس کی محبت کی زبان سمجھ آتی ہے ۔ وہ زبان جو ان کے درمیان پچھلے پانچ سالوں سے حائل تھی نہ کہ یہ زبان جو وہ اسے سکھانا چاہ رہا تھا ۔ اس نے اس کے ساتھ مل کر جو خواب دیکھے تھے وہ کسی زبان کے محتاج نہیں تھے پھر یہ سب شرطیں کیوں؟
مگر ہمیشہ کی طرح اپنی سنا کر وہ جا چکاتھا اور وہ اس کے تصور کے ساتھ شکوہ کناں رہی۔
’’ مس حورعین ۔ ‘‘ سراسد کی آوازپر وہ حواسوں میں لوٹی۔
ساری کلاس خالی ہو چکی تھی۔سخت خفت محسوس کرتے وہ سر جھکائے شرمندہ سی کلاس سے نکلی،اگلی کلاس کے لیے داخل ہونے والے لڑکوں میں وہ بھی شامل تھا۔
٭…٭…٭
وہ ہمیشہ سے اوسط درجے کی طالبہ رہی تھی ۔ اسکول کی سطح تک جیسے تیسے وہ اچھے نمبر لیتی رہی مگر کالج میں قدم دھرتے ہی انگریزی کے مضمون میں بری طرح اٹک گئی ۔ کتاب پرجوکچھ لکھا ہوتا ،فوٹو کاپی کی طرح ذہن میں نقش ہو جاتا مگر جہاں خود سے کوئی مضمون لکھنا پڑتا وہ ڈگمگا جاتی ۔ انگلش کے ’’ ٹینسسز اور گرائمر‘‘ اس کے سر پر سے گزر جاتے ۔ ہزار ہا کوششوں کے بعد بھی وہ بی اے کی انگلش کلئیر نہیں کر پائی جس پر اس کے منگیتر مہران نے اسے بے نقط سنائی تھیں۔
پانچ سال پہلے اس کی منگنی اپنے کزن مہران سے مشترکہ پسندیدگی کی بنا پر ہوئی تھی جب وہ اپنے چچا کے پاس انگلینڈ جا رہا تھا ۔ نوجوانی کی دہلیز پر ہی وہ محبت کے اولین خوابوں کی ڈور کے ساتھ بندھ گئی تو پڑھائی لکھائی کی طرف دلچسپی اور بھی کم ہوتی گئی ۔ ایف اے کے بعد اس نے تعلیم کو خیرآباد کہہ دیا۔
مزید اس کے والدین کے نزدیک بھی بیٹی کا وقت سے اپنے گھر کا ہو جانا زیادہ اہمیت رکھتا تھا ۔ مگر جب شادی کی بات چھیڑی گئی تو اس کے منگیتر کی طرف سے بات دو سال کے لیے ٹال دی گئی ۔ وہ چونکہ مزید تعلیم کا ارادہ ترک کیے ہوئے تھی اسی لیے سلائی کڑھائی میں مصروف ہو گئی ۔ دو سال کا عرصہ گزرنے کے بعد جب دوبارہ شادی کا تذکرہ کیا گیا تو مہران نے سیدھی سیدھی بی اے کی ڈگری کی ہی کی شرط عائد کر دی ۔ حورعین کے والدین نے جب مہران کے والدین سے بات کی تو انہوں نے دونوں بچوں کی رضامندی پر بات چھوڑ دی ۔ بیٹی کی خوشی کی خاطر حورعین کے والدین صبر کا گھونٹ بھر کے رہ گئے ۔ یوں اس نے دو سال کے وقفے کے بعد پڑھائی کا سلسلہ دوبارہ جوڑ لیا مگر انگلش دو بار کوشش کے بعد بھی تا حال کلئیر نہ کر سکی تھی۔
٭…٭…٭
’’ آس اور امید دو الگ چیزیں ہیں،آس لفظ آسرا سے نکلا ہے اس لیے آ س انسانوں سے لگائی جاتی ہے،جبکہ امید اللہ سے لگا ئی جاتی ہے ۔ اور اللہ سے امید لگانے والے کبھی نا مراد نہیں رہتے۔‘‘
آج بھی حورعین کے کانوں سے اس کے الفاظ ٹکرائے تھے ۔ اس بار گردن موڑ کر دیکھنے پر وہ اسے نظر نہیں آیا تھا ۔ یقینا وہ بات کرتا کاریڈور سے باہر نکل گیا تھا ۔ سر اسد روم میں داخل ہوئے تو وہ ایکٹو ہو کر بیٹھ گئی ، کل والی خفت وہ بھولی نہیں تھی مگر اس انجانے لڑکے کے الفاظ اس کا دھیان بھٹکا رہے تھے ۔ وہ بھی تو ایک انسان سے آس لگا کر بیٹھ گئی تھی،اس کے ہر حکم پر باندی کی طرح سر جھکاتی،اور ہر حکم بجا لاتی ۔ ذہنی رو پھر بھٹکی،موبائل اسکرین پر چند دن پرانے الفاظ ابھرنے لگے۔
’’ تم ایسا کرو کوئی اکیڈمی جوائن کر لو جہاں لینگویج کورس کراتے ہیں اس سے تمہیں تیاری میں بھی ہیلپ ملے گی۔‘‘
وہ افطاری بنا رہی تھی جب موبائل اسکرین پر اس کا میسج چمکا ۔ سارے دن کے انتظار کے بعد یہ لمحے بھر کو چمکنے والی روشنی اس کی متا ح حیات تھی کنکھیوں سے اسکرین پر جگمگاتے نام کو دیکھتی اور ان کھلے پیغام میں مرضی کے لفظ پروتی وہ جلدی جلدی کام نبٹا رہی تھی۔
’’ صبح والے رویے پر معذرت کی ہو گی۔‘‘
’’ نہیں کہاں بزی ہو پوچھا ہو گا۔‘‘
’’ یا شاید محبت بھرا کوئی پیغام ہو۔‘‘
دل نے مسکرا کر ہاتھوں میں جیسے برق بھر دی۔
تمام کاموں سے فراغت کے بعد وہ جلدی سے بستر پر آئی ۔ دھڑکھتے دل سے اس نے میسج کھولا تو جیسے سارا وجود بے جان ہو گیا ۔ اس کے پاس بات کرنے کو جیسے اور کوئی مو ضوع ہی نہیں رہ گیا تھا ۔ بد دلی سے اس نے موبائل سائڈ پر ڈال دیا تھا۔ گہرا سانس لے کر وہ لیکچر کی طرف متوجہ ہوئی،سر اسد دو بار اسے ٹوک چکے تھے۔
٭…٭…٭
اکیڈمی سکپ کر کے آج وہ بک سینٹر کی طرف آیا تھا۔
امی کی خاطر ڈگری کا حصول کر رہا تھا ورنہ اسے کچھ خاص دلچسپی نہیں تھی ۔ بہتر ہے گیس پیپرز سے تیاری کر لی جائے ۔ اپنی ٹیکسی کو سائیڈ پر پارک کر کے وہ نکلا تو شدید دھوپ نے استقبال کیا ۔ رمضان المبارک کا آخری عشرہ کافی گرم تھا،اور روزے بھی ا ب محسوس ہوتے تھے۔
’’ آپ کے پاس بی اے کی انگلش کے گیس پیپرز ہیں؟‘‘
وہ جو وال فین کے آگے ہلکا سا گریبان کھولے پسینہ سکھا رہا تھا ذرا سا چونکا ۔گردن گھما کر دیکھا ۔سبز دوپٹے کو نماز کے انداز میں باندھے صاف رنگت اور بے تحاشہ بڑی آنکھوں والی لڑکی بڑی آس سے پوچھ رہی تھی ۔بک سینٹر والا جو اس کا دوست بھی تھا اس کا جواب وہ جانتا تھا ، آخری گیس پیپرز فولڈ کیے اس کی سائیڈ پاکٹ میں موجود تھے۔
’’ آپ یہ لے لیجیئے۔ ‘‘ وہ گیس پیپرز جیب سے نکال کر اس کی طرف بڑھاتا بولا۔
ایک دم ہی وہ پلٹی تھی ۔ اس کی بڑی بڑی آنکھوں میں چمکتی نمی دیکھ کر وہ حیران ہوا ۔ گیس پیپرز نہ ملنے پر یقینا وہ رونے والی تھی ۔گیس پیپرز لیتے شکریہ کہتے حورعین نے نظر اٹھائی تو چونک گئی ۔ یہ وہی نوجوان تھا اکیڈمی میں جس کے انداز بیاں سے وہ متاثر ہوئی تھی ۔اس کے چونک جانے پر وہ لڑکا بھی جیسے حیران ہوا تھا ۔ آنکھوں سے چھلکنے کے قریب آنسوؤں کو دھکیلتی وہ جلدی سے نکل آئی۔
’’ تیرا س بار بھی پاس ہونے کا ارادہ نہیں ۔ ‘‘ رضا نے مزاق اڑایا۔
’’ مجھ سے زیادہ شاید اس کو ضرورت تھی ۔‘‘ کھوئے کھوئے سے لہجے میں بولا۔
اس لڑکی کی آنکھوں کی اداسی اسے ڈسٹرب کر رہی تھی ۔
’’ ویسے بھی امی کی خوشی کی خاطر کر رہا ہوں ورنہ میرا تو کوئی شوق نہیں،میرے لیے میری ٹیکسی ہی کافی ہے ۔ ‘‘ زہن کے پردے سے اس کی آنکھوں کو جھٹک کر وہ ہنستے ہوئے بولا۔
’’ اچھا تیرے گھر کا کیا بنا۔‘‘
’’ کیس چل رہا ہے،اچھے کی امید ہے۔‘‘
ایک دم سنجیدہ ہوتے بولا،رضا کچھ اور بھی کہتا مگر اس کے فون پہ کوئی اہم کال آئی تھی،سرعت سے فون اٹھاتا وہ شاپ سے باہر آیا تھا ۔کال سن کر وہ سن کھڑا تھا ۔ بعض لوگوں کا سایہ ہی کسی کے لیے اتنا خوش قسمت ثابت ہوتا ہے،شکرانے کے آنسوؤں سے بھرتی آنکھوں کے پار سبز دوپٹے کے ہالے میں مقید چہرا لہرایا تھا۔
٭…٭…٭
کیا سوچتا ہو گا وہ لڑکا،ایک تو اس کے پیپرز بھی لے گئی اوپر سے ادائیگی بھی نہیں کی ۔ ماتھے پر ہاتھ مارتی وہ گھر کے اندر داخل ہوئی ۔ بنا ادائیگی کیے وہ کیسے اس لڑکے سے گیس پیپرز لے کر آ گئی تھی ۔ نہ جانے اس کی پرسنیلٹی کا اثر تھا یا اس کی باتوں کا کہ وہ لمحہ بھر بھی اس کے سامنے ٹھہر نہیں سکی تھی ۔ گھر میں غیر معمولی خاموشی تھی۔
’’ کیا ہوا سب خیریت ؟ ‘‘ ابو کے پاس بیٹھتے وہ بولی۔
وہ خاموشی سے اس کے سر پہ ہاتھ رکھ کے باہر چلے گئے ۔سوالیہ نظروں سے امی کی طرف دیکھا وہ نظریں چرا گئیں ۔ لمحے کے ہزارویں حصے میں وہ معاملے کی تہہ تک پہنچی ۔ لب بھینچے مٹھی میں فون دبا کر چھت پر چلی آئی۔
’’ آپ کی بابا سے کیا بات ہوئی ہے ۔ ‘‘ چھوٹتے ہی پوچھا۔
’’ میری ان سے کیا بات ہونی ہے،وہ خود ہی بہت بد تمیزی سے بات کر رہے تھے ۔ ایک تو صبح ہی صبح فون کر کے شروع ہو گئے اوپر سے عید کے بعد شادی پر زور دے رہے ہیں۔ اتنے شارٹس نوٹس پر ہو سکتی شادی،خود ہی بتاؤ؟‘‘
’’ شارٹ نوٹس؟‘‘
پچھلے پانچ سالوں سے وہ اس کے نام پہ بیٹھی تھی اور وہ اسے شارٹ نوٹس کہہ رہا تھا ۔ وہ اسے روکنا چاہتی تھی،بتانا چاہتی تھی کہ اس کے بابا حق پر تھے اور وہ ان کے بارے میں ایسے بات نہ کرے مگر ہمیشہ کی طرح وہ سنا رہا تھا اور وہ سن رہی تھی۔
’’ تم بس اپنے پییپرز کی تیاری کرو،ڈگری پر فوکس کرو۔ ‘‘ ڈگری کی اہمیت،تعلیم کی اہمیت،ہمیشہ کی طرح اس کا لیکچر شروع ہوچکا تھا۔
’’ جو حق بات کا دفاع نہ کر سکے وہ سب سے بڑا منافق ہے ۔‘‘
کوئی اس کے کان کے پاس بولا۔ گھبرا کر اس نے فون بند کر دیا۔
’’ منافق ہی نہیں،بزدل اور بے حس بھی۔‘‘ بند فون کو مٹھی میں بھینچے وہ خود سے محو کلام تھی۔
٭…٭…٭
سارے راستے اس کی امی اسے چچا کو معاف کرنے اور دل بڑا کرنے کا درس دیتی آئی تھیں ۔ پچھلے چار سالوں سے وہ چچا کے خلاف اپنے مرحوم باپ کی جائیداد کا کیس لڑ رہا تھا ۔بلآخر فیصلہ اس کے حق میں ہوا تھا ۔ آج وہ اپنے چچا کے گھر جا رہا تھا سارے فاصلے مٹانے،اور رشتوں کو دوبارہ جوڑنے ۔ اس سارے عرصے میں اس کی چچا زاد صبا نے بہت ساتھ دیا تھا ۔ دن رات وہ اسے امید دلاتی رہی تھی،دوسری طرف اپنے ماں باپ کے سامنے اس کے حق کے لیے ڈٹی رہی تھی،مگر نہ جانے کیوں دل اس بات پر بضد تھا کہ’’ وہ سامنے آئی ہی تھی کہ فیصلہ اس کے حق میں ہو گیا۔‘‘
وہ بھیگتی آنکھوں کا منظر اس کی دل میں کھب گیا تھا،شاید نہیں یقینا وہ پہلی نظر کی محبت کا شکار ہو گیا تھا۔
٭…٭…٭
’’ صبا ۔ ‘‘ برتن دھوتی صبا پلٹی۔
کچن کے دروازے میں وہ کچھ ہچکچائی سی کھڑی اس کی طرف دیکھ رہی تھی ۔صبا کی نظر اس کے ہاتھ میں پکڑی کتابوں پر گئی تو گہرا سانس لے کر رہ گئی۔
’’ کمرے میں چلو آتی ہوں۔‘‘
وہ سیپلی کی تیاری کے لیے اپنی دوست صبا کی طرف آئی تھی جس نے بی اے میں فرسٹ ڈویژن لی تھی اس کے علاوہ بچپن کی دوست اور ہمسائی ہونے کے ناطے اس کی رازدار بھی تھی ۔ صبا دوپٹے سے ہاتھ صاف کرتے کمرے میں داخل ہوئی تو دیکھا وہ صوفے کے ایک کنارے پر ٹکی گود میں دھری کتابوں پر ہاتھ پھیرتی گہری سوچوں میں گم تھی۔
’’ تمہارے رزلٹ کا سن کر افسوس ہوا ۔‘‘ اس کے قریب بیٹھتے صبا حقیقتا افسوس سے بولی۔
اس کا جھکا ہوا سر ذرا سا اٹھا۔
’’ اب ؟ ‘‘ صباحت کی سوالیہ نظریں کتابوں پر تھیں۔
’’ سیپلی کی تیاری۔‘‘ وہ ججھکتے ہوئے بولی۔
’’ رہنے ہی دیں حورعین باجی آپ کے بس کا روگ نہیں ۔ ‘‘ صباسے چھوٹی فرح کمرے میں داخل ہوتے ہوئے شرارتی انداز میں بولی۔
’’ فرح۔‘‘ حورعین کے خفت سے سرخ پڑتے چہرے کو دیکھ کے صبا نے چھوٹی بہن کو ٹوکا۔
بڑی بہن کی گھرکی پر وہ زبان دانتوں تلے دبا گئی۔
’’ سوری۔‘‘
صبانے اسے گھورا۔
’’ تم نے میرے سامنے تیاری کی تھی اور بہت اچھی کی تھی بس قسمت نے ساتھ نہیں دیا مگر خیر تم دل چھوٹا نہ کرو دوبارہ تیاری کرو۔‘‘ صبا نے حوصلہ بڑھایا۔
’’ اس بار بھی میری پڑھائی میں تھوڑی مدد کر دو۔‘‘
’’ تھوڑی نہیں بہت زیادہ کروں گی اگر تم انگریزی کے مضمون کو ہوا سمجھنا چھوڑ دو۔ اور ڈگری کا حصول صرف اپنی ذات کے لیے کرو نا کہ کسی شرط کے لیے۔‘‘
کنکھیوں سے چھوٹی بہن کی طرف دیکھ کر آہستگی سے کہا ۔ فرح خود کو لا پرواہ ظاہر کیے درپردہ کان ان کی طرف لگائے ہوئے تھی۔
’’ فرح تم ہمارے لئے ذرا چائے بنا دو گی ۔ ‘‘ حورعین کی جھجھک محسوس کر کے اس نے چھوٹی بہن کو اٹھایا۔
’’ افطاری کے بعد چائے کی بڑی طلب ہوتی ہے ۔ ‘‘
’’ جا رہی ہوں مگر حوریہ باجی سوچ لیں ایک بار کہ ’’ گریز ‘‘ کی اصل وجہ یہ ہے بھی کہ نہیں۔‘‘ کتابوں کی طرف اشارہ کرتی وہ معنی خیزی سے بولی۔
’’ کیامطلب ۔‘‘ دونوں چونک گئی تھیں۔
جواباً وہ کندھے اچکا کر چلی گئی۔
صبا نے حورعین کی طرف دیکھا ۔ وہ نظریں چرا کر لب کچلنے لگی جبکہ دل جیسے اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبتا جا رہا تھا۔
٭…٭…٭
بے دلی سے اس نے موبائل سائڈ پر ڈال دیا ۔ گہرا سانس لے کر تکیے پر نیم دراز ہوئی تو آنکھوں کے کنارے بھیگنے لگے ۔ وہ محبت کی بات کرنا اور سننا چاہتی تھی ۔ وہ اسی طرح ہر روز اس کے دل کو ٹھیس پہنچاتا،اس کی عزت نفس کو مجروع کرتا جا رہا تھا اور وہ خاموش تماشائی کی طرح اس کی ہر بات سہہ جاتی۔کیا محبت کی خاطر ؟مگر یہ محبت یک طرفہ تو نہیں تھی ۔ وہ بھی تو اس کے ہمراہ تھا ۔ دعوے تو اس نے بھی کیے تھے ۔ بلکہ اعتراف میں پہل تو اس کی طرف سے ہوئی تھی ۔ وہ تو محبت کے لفظ تک سے نا آشنا تھی ۔ کچی عمر کے پکے خواب آسانی سے پیچھا تو نہیں چھوڑتے پھر وہ کیوں راہ بدل رہا تھا؟
’’ جان لیں گریز کی وجہ یہ ہے بھی کہ نہیں…‘‘
الفاظ کانوں میں گونجے تو وہ لیٹے سے اٹھ بیٹھی ۔ دل جیسے مسلا جا رہا تھا ۔ دل پہ ہاتھ رکھے وہ گم صم سی بیٹھی تھی۔
آج تک اس نے مہران سے کوئی بحث نہیں کی تھی جو کہتا وہ بلا چوں چراں مان لیتی ۔ اس کی ہر جلی کٹی چپ چاپ سن لیتی کہ کہیں وہ ناراض نہ ہو جائے ۔ اس کو خوش رکھنے کے چکر میں ’’داسی‘‘ بن گئی تھی ۔ حالانکہ اس کے متوقع ساس سسر کی طرف سے لیا دیا رویہ اور مہران کا یوں شادی کی بات کو مسلسل ٹالنا یہ سامنے کی باتیں وہ محسوس نہ کر سکی تھی ۔ آج فرح کی بات نے اسے جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا ۔وہ صحن میں نکل آئی ۔ آج دوسری طاق رات تھی ۔ پورا آسمان سیاہ ستاروں سے بھرا تھا‘ مطلع بے حد صاف تھا ۔ خوبصورت نور سے بھری چاندنی پورے صحن میں پھیلی تھی ۔ ادھورا چاند بھی اپنی تکمیل کے لیے رواں تھا ۔ قریبی مسجد سے درود و ثنا کی آوازیں بلند ہو رہی تھیں۔کتنا مکمل منظر تھا۔
’’ اپنے رب سے امید لگانے والا کبھی نامراد نہیں رہتا ۔ ‘‘ کہیں قریب سے ہی آواز ابھری تھی۔
بندوں سے امید لگا کر دیکھ لیا تھا شاید اس لیے وہ دنیا کے لیے بھی اجنبی ہوتی جارہی تھی ۔ اب اپنے رب سے امید لگانی تھی ۔ اس کے ماں باپ پریشان تھے اور اس کے سسرال والے لا پرواہ ۔ اسے امید کا سرا تھامنا تھا اور رب کے فیصلے کا انتظار کرنا تھا ۔تھک کر نگاہیں آسمان سے پلٹیں۔
’’ گریز کی اصل وجہ…‘‘
یہ الفاظ دماغ کے ساتھ جیسے چپک گئے تھے ۔ دکھتے سر کو کنپٹیوں سے دباتی وہ سوچوں کو جھٹکنے کی کوشش کر رہی تھی کہ اچانک بجلی کا کوندا سا ذہن میں لپکا ۔ وہ سرعت سے کمرے میں آئی بستر پر بیٹھ کر موبائل کی اسکرین روشن کی ۔ اس نے آج تک مہران کی کوئی کھوج نہیں کی تھی مگر اب وہ اس کا فیس بک اکاؤنٹ چیک کر رہی تھی ۔ بہت ساری تصاویر،وائرل ویڈیوز،ہیش ٹیگز ۔ ایک ایک کر کے وہ ہر پوسٹ کے نیچے کمینٹس پڑھ رہی تھی ۔ ہر پوسٹ پر ایک چیز مشترک تھی اور وہ تھی لیزا رائے نامی لڑکی کے کمینٹس جن پر جوابی کمینٹس فرض سمجھ کر دیے گئے تھے۔
تصاویر تو اور بھی بہت ساری لڑکیوں کے ساتھ تھیں مگر کمینٹس میں صرف ایک ہی نام واضع تھا ۔ کتنی ہی دیر مختلف زاویوں سے وال کو چیک کرنے بعد’’ لیزا رائے‘‘ ذہن نے تھک کر دہرایا تو وہ بری طرح چونکی۔
’’ لیزا رائے،مہران رائے۔‘‘
دل زور سے دھڑکا تھا۔
٭…٭…٭
’’ کہانی کی ابتدا کچھ بھی ہو مگر انجام محبت ہی ہونا چاہیے ۔ ‘‘ وہ جذب سے بولا۔
’’ بھلا وہ کیوں۔‘‘ اس نے حیرت سے پوچھا۔
’’ کیونکہ محبت ہی وہ واحد چیز ہے جو آپ کی محرومیوں کا مداوا کر سکتی ہے ، اس آفاقی جذبے میں ہر درد کا مرہم موجود ہے۔‘‘
’’ اور جو اگر کوئی اس سے ہی محروم ہو؟‘‘
آنکھوں کے سامنے کچھ لہرایا ۔ (مہران کی عیسائی بیوی اسے چھوڑ کر اب جا چکی تھی)
’’ پھر وہ ہر چیز سے محروم ہے ۔ ‘‘ اس کی آنکھوں میں دیکھ کر بولا۔
’’ اگر کوشش کے بعد بھی محبت نصیب نہ ہو تو ؟ (کبھی مہران نے اس کا ہاتھ جھٹکا تھا،اب اسے اس کے پچھتاوے اور ندامت سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا)
وہ جیسے تسلی کرنا چاہتی تھی۔
’’ محبت کے لیے کوشش تو نہیں کی جاتی ، کوشش تو ’’حصول‘‘ کے لیے کی جاتی ہے ، محبت تو بس کی جاتی ہے جواب میں خود بخود مل جاتی ہے ۔ ‘‘ اس کی طرف جھک کے شرارت سے بولا۔
وہ جھینپ گئی۔
’’ اور ڈگری کا حصول؟‘‘ اعلیٰ ڈگری کے حصول پر لیکچر دیتے کسی کے خیالات کو ذہن سے جھٹکتے وہ اسے چھیڑنے سے باز نہیں آئی تھی۔
’’ ہممم… ‘‘
’’ میرے گیس پیپرز تو تم لے اڑی تھی،بھلا میں کیسے پاس ہو سکتا تھا ۔ ‘‘ وہ بھی کہاں باز رہنے والا تھا۔
وہ کھلکھلا کے ہنس دی تھی۔
’’ ویسے عید مبارک۔‘‘
’’ آپ کو بھی ۔ ‘‘ اطمینان اور سکون اس کے رگ و پے سراعیت کر گیا تھا۔
سچ ہے اپنے رب سے امید لگانے والے کبھی نا مراد نہیں رہتے،جیسے وہ نہیں رہی تھی۔
پچھلی عید اور اس عید میں یہی فرق تھا۔
مہران کی انگلینڈ میں شادی کا پتا چلتے ہی اس کے ابو نے اس کی منگنی توڑ دی تھی۔
اس کی پیاری دوست صبا اپنے چچا زاد بھائی کا رشتہ لے آئی تھی جسے فورا قبول کر لیا گیا ۔ وہ جو سمجھتی تھی بے دام کی غلامی سے نکل کر وہ ہجر کے صحرا میں بھٹکتی رہ جائے گی ۔ اس کی امید نے اسے بھٹکنے نہیں دیا تھا ۔ رہی بات تیمور کی تو اولین چاہتوں کی ساعتوں کو سینے میں دبا کے اس نے اپنی ماں کی رضا میں ہامی بھر لی تھی اور اس کے رب نے اس کی امید کو بھی رائیگاں نہیں جانے دیا تھا ۔ حورعین کو دیکھ کر جہاں وہ حیران ہوا تھا وہیں وہ بھی ہکا بکا رہ گئی تھی ۔ لیکن ایک بات کہ ڈگری دونوں کی ہی مکمل نہیں ہو سکی تھی کیونکہ حورعین کے والد نے عید کے مبارک دن پر ہی ان کا نکاح طے دیا تھا ۔
یوں عید اور امید دونوں نے مل کر ان کی زندگی کو چار چاند لگا دیے تھے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

You cannot copy content of this page