افسانے

ازالہ ممکن ہے : راضیہ سید

رات آدھی سے زیادہ بیت گئی تھی لیکن انیقہ کی آنکھوں سے نیند کوسوں دور تھی ۔ نگاہوں کے سامنے بار بار وسیم کا چہرہ آرہا تھا ۔ کتنے ہی لوگوں میں اس نے انیقہ کی خوش لباسی کا نوٹس لیا تھا اور اس کی بارہا تعریف بھی کی تھی ۔ اسی ستائش اور تعریف کی تو وہ کئی سال سے منتظر تھی ۔ یہ سب کچھ تو وہ اپنے شوہر سے سننا چاہتی تھی لیکن دانیال کے پاس اتنا وقت ہی کہاں تھا کہ اس کی اس خواہش کو پورا کر سکے۔
وسیم دانیال کا چچا زاد تھا ۔ خاندان کی شادیوں میں ایک دو مرتبہ انیقہ کی اس سے ملاقات ہوئی تھی ۔ اس نے اپنے خوبصورت لہجے، مسکراہٹ اور رکھ رکھائو کی وجہ سے اس کے قریب آنے کی کوشش کی ۔ اپنی تعریف سننا کسے ناپسند ہوتا ہے ۔ انسانی فطرت ہے کہ وہ خود کو اہمیت دینے والے افراد کو دل میں جگہ دے دیتا ہے ۔ بعض اوقات تو انسان یہ جانتا بھی ہے کہ مقابل مبالغہ آرائی سے کام لے رہا ہے لیکن اس کا دل اس سب کی نفی کرنے پر کبھی آمادہ نہیں ہوتا سو انیقہ کی دلی کیفیت بھی یہی تھی۔
دانیال کا قرابت دار ہونے کی وجہ سے وسیم کو انیقہ تک رسائی مشکل نہ تھی ۔ لاشعوری طور پر وہ اس کی فون کال کی منتظر رہتی تھی ۔ گھر میں کام کے لئے نوکر چاکر تھے ، انیقہ کو صرف کھانا بنانا ہوتا تھا کیونکہ دانیال باہر کے کھانوں سے چڑتا تھا اور کک کے ہاتھ کا کھانا بھی اسے ناپسند تھا ۔ دانیال بہت اچھا شوہر اور محبت کرنے والا باپ تھا۔ ان کے ۲ ہی بچے تھے جنہیں بورڈنگ میں داخل کروا دیا گیا تھا۔
کاروباری مصروفیات نے دانیال کو بہت مصروف کردیا تھا اور وہ چاہتے ہوئے اپنی فیملی کو وقت نہ دے سکتا تھا ۔ ان دونوں کی ازدواجی زندگی کے اسی خلا کو وسیم کی بھونرا صفت طبیعت نے بھانپ لیا تھا ۔ انیقہ خود پر اتنی توجہ نہ دیتی تھی لیکن اب نک سک سے تیار ہونے لگی تھی ۔ خوبصورت اور نازک اندام تو وہ پہلے بھی تھی پر اب صنف مخالف کی طرف سے ستائش نے اسے اور بھی پر کشش بنا دیا تھا۔
ابھی بھی وہ وسیم کی کال سن رہی تھی وسیم کہہ رہا تھا۔
’’ انیقہ ، دانیال تمہارے قابل نہیں مانا کہ وہ بہت بڑا بزنس مین ہے لیکن تم سے عمر میں بڑا اور قدرے سانولے رنگ کا ہے ۔ کہاں تم مکھن ملائی جیسی اور کہاں وہ سانولا ۔ اب مجھے کہنا تو نہیں چاہیے کہ حور کے پہلو میں لنگور لیکن تم خود ہی بہتر سمجھ سکتی ہو کہ میری اور تمہاری شخصیت، پسند نا پسند، عادات سب آپس میں کتنا میل کھاتی ہیں ۔ تم کہو تو ہم کہیں باہر بھی مل سکتے ہیں خود پر جبر نہ کرو میں تو خود تمہیں دیکھنے کے لئے ترس جاتا ہوں ‘لیکن قسمت کی ستم ظریفی کا کیا کروں ؟ تم خود سوچو وہ بیرون ملک ہر وقت کارروبار میں مصروف ہے اور تم یہاں اس کے بچے سنبھالنے رہ گئی ہو ۔ آخر اس کی بھی کوئی ذمہ داری ہے کہ نہیں ؟ تم اس کے انتظار میں بوڑھی ہو جائو گی ۔ اپنی جوانی کے ان لمحات کو ضائع مت کرو کچھ بھی ہو جائے تم مجھے گھر آنے دو ۔ میں تو گھر کا بندہ ہوں کسی کو شک بھی نہیں ہو گا کم ازکم میں اطمینان سے دل کی بات تو تمہارے روبرو کر سکوں گا ۔ ہوٹل وغیرہ میں تو بندہ پابند ہو جاتا ہے۔‘‘
وسیم کی ان باتوں سے انیقہ زہنی کشمکش کا شکار ہو گئی اور دانیال کی غیرموجودگی میں وسیم کو گھر پر مدعو کر لیا۔
وسیم کی پسندیدہ رنگ کی ساڑھی پہن کر میچنگ جیولری کے ساتھ وہ تیا رتھی ۔ وسیم کی گاڑی کے ہارن کے ساتھ ہی وہ پورچ میں آئی ۔ دونوں ڈرائینگ روم میں بیٹھے ابھی باتیں کر رہے تھے کہ اچانک دانیال بھی وہاں آگیا ۔ اسے گھر کے ملازم صدیق نے دانیال کے آنے کی خبر دے دی تھی وہ تین دن کے لئے پشاور گیا ہوا تھا اس لیے اسے اسلام آباد آنے میں زیادہ دیر نہ لگی تھی ۔
انیقہ دانیال کو دیکھ کر گھبرائی تو دوسری طرف وسیم نے دانیال کو دیکھ کر پینترا ہی بدل لیا۔
’’دانیال بھائی آئیے میں ابھی ابھی آیا ہوں اچھا ہوا آپ سے ملاقات ہو گئی ۔ انیقہ مجھے اکثر گھر بلاتی رہتی تھی کہ دانیال نہیں ہوتے، بچے دور ہیں تو انہیں ایک ساتھی اور ہمدرد کی کمپنی کی ضرورت ہے ۔ بھابھی تو اتنا اچھا کھانا بناتی ہیں کہ انگلیاں چاٹنے کو دل کرتا ہے اور جاذب نظر اتنی کہ دو بچوں کی ماں تو کسی صورت نہیں لگتیں ۔ دانیال بھائی اچھا میں چلا آپ لوگ باتیں کریں اور ہاں انیقہ بھابھی دانیال بھائی اب آگئے ہیں اپنی بوریت کا بہانہ بنا کر مجھے بار بار کال کر کے تنگ مت کرنا ۔ ‘‘ وسیم یہ کہہ کر چلتا بنا۔
دانیال اور انیقہ دونوں اپنی اپنی جگہ شرمسار تھے اور ایک دوسرے سے نظریں ملانے کے قابل بھی نہ رہے تھے ۔ انیقہ کو اپنے شوہر کی بے لوث محبت اور پیار یاد آرہا تھا ۔ شوہر کے سامنے وسیم کا یہ ناقابل فہم انداز اسے عرش سے فرش پر گرانے کے لئے کافی تھا ۔
انیقہ صوفے پر بیٹھ کر رونے لگی وہ بھی تو دانیال سے بہت پیار کرتی تھی ہاں وسیم کے ساتھ وقتی لگائو نے اسے اپنے محور سے بھٹکا دیا تھا۔
دانیال نے آنسو بہاتی انیقہ کے بالوں میں ہاتھ پھیرا اور اس کے ساتھ ہی بیٹھ کر اس کی دلجوئی کرنے لگا ۔
’’ دانیال مجھے معاف کر دیں میں نے آپ کو دھوکہ دیا ہے ۔ میں لائق سزا ہوں ۔ آپ نے ہمہ وقت میری ضروریات کا خیال رکھا بچوں سے محبت کی اور آپ کو یہ صلہ دے رہی تھی۔‘‘
’’نہیں انیقہ تم معذرت خواہ مت ہو تم اکیلی قصور وار نہیں ہو میری بھی غلطی ہے کہ میں نے بزنس کو وقت دیا، تم نظر انداز ہوئیں اور پھر تم نے دلچسپی کا الگ مرکز ڈھونڈ لیا ۔ ہم دونوں کو پہلے ایک دوسرے سے معافی مانگنا ہو گی اور نئے سرے سے ایک دوسرے کے ساتھ مخلص ہونا ہو گا ۔ جانتی ہو انیقہ میں یہ بات اب سمجھ پایا ہوں کہ بیوی کو دولت سے بھی زیادہ شوہر کے وقت اور اس کی طرف سے توجہ کی ضرورت ہوتی ہے ۔ شوہر کا خوش مزاج رویہ بیوی کو کبھی بوڑھا نہیں ہونے دیتا ۔ دانستہ یا نادانستہ طور پر میں نے تم پر توجہ نہ دی اور تم جو ایک معصوم کلی تھی گلاب بننے سے پہلے ہی مرجھا گئیں ۔ ‘‘ دانیال خاموش ہوا تو انیقہ نے صرف اتنا ہی پوچھا ۔
’’کیا آپ مجھے کبھی معاف کر سکیں گے یقین مانیں میں واقعی آپ سے بہت پیار کرتی ہوں میں ایسا کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتی تھی میں نہیں جانتی تھی کہ میری نادانی سے آپ کو اتنی پشیمانی ہو گی۔‘‘
’’ نہیں انیقہ ہم دونوں کو ایک دوسرے کو معاف کرنا ہو گا بلکہ خود سے بھی معافی مانگنا ہو گی، میں تم سے ہرگز خفا نہیں، آج کا دن تو ہم دونوں کے لئے ماضی بن گیا ۔ کوئی نقصان نہیں ہوا کیونکہ اس نقصان کا ازالہ ممکن ہے ہم دونوں ضمیر کی خلش سے بچ گئے ہیں اس سے بڑی نعمت کیا ہو گی ۔ میں جانتا ہوں کہ ہم دونوں کو ایک دوسرے کی نظروں میں معتبر ہونے کے لئے وقت درکار ہے لیکن کوشش کرنے سے ہم بند گلی کے مسافر بننے سے بچ جائیں گے۔‘‘
انیقہ نے دانیال کو دیکھا تو مسکراتے ہوئے ہاتھ باندھے اس سے اپنی غلطیوں کی معافی مانگ رہا تھا۔

ختم شد

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے