افسانے

امڑی : ایم رضوان ملغانی

وہ دس برس کا تھا جب پہلی بار اس کے باپ نے اس کی ماں کو بیلٹ سے پیٹا تھا ۔ اتنی بری طرح سے پیٹا تھا کہ ان کے سارے جسم پہ نیل کے نشان تھے اور یہ پہلی بار تھی کہ وہ ان کو چھڑا نہیں سکا تھا ۔ سراج الدین مارتا جاتا کہتا جاتا ۔
’’شاہینہ میں نے کون سی کثر چھوڑی تجھ سے محبت میں کہ تو نے ایک غیر سے تعلق قائم رکھا ‘ تُو اس کے ساتھ رابطے میں رہی ، وہ تیرا خالہ زاد ہے تو میں بھی تو تیرا تایا زاد ہوں ، کیوں تو نے اس کے ساتھ راہ رسم بڑھائی کیوں تو بدکار بن گئی کیوں ۔ ‘‘
وہ چلاتے جاتے کہتے جاتے مارے جاتے ۔
’’ میں نے کچھ نہیں کیا مانی کے ابا ، کچھ نہیں کیا … وہ خود مجھے کالیں کرتا ہے ‘ گندے گندے میسج کرتا ہے ۔ میں نے کچھ نہیں کیا مجھ سے قسم اٹھوا لے ۔‘‘ اس نے قرآن کریم پہ ہاتھ رکھنے تک کی بات کی تھی پر سراج الدین کو ترس نہ آیا اس نے نظر الفت پھیر دی تھی۔
شاہینہ بن پانی کے مچھلی کی طرح تڑپتی ‘ کلس کر رہ جاتی ۔ سراج الدین نے اپنے اندر کا زہر مانی کی رگوں میں منتقل کرنا شروع کر دیا ۔ مانی کو اسی دن سے اس سے نفرت ہو گئی تھی ۔ وہ اس کی کسی بھی بات پہ کان نہیں دھرتا تھا نہ یقین کرتا تھا ۔ اسی مغالطے میں رہ کر مانی نے اپنی زندگی تیاگ دی تھی۔
مائیں اولاد کی پہلی درسگاہ ہوتی ہیں ۔ اولاد اگر پہلی درسگاہ ہی سے فیض نہ اٹھائے تو ان کا حال مانی جیسا ہوتا ہے۔
اس نے ہر بار اسے یہ بتانے یہ سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ رفیق صرف اور صرف اس کا کزن تھا ۔ وہ اسے شادی سے پہلے پسند کرتا تھا ۔ جبکہ یہ پسندیدگی صرف اسی کی طرف سے تھی ۔ شاہینہ نے دل تو سراج الدین کو ہی دے رکھا تھا ۔ شاید اسی انکار کے سبب رفیق ان دونوں کا ہنستا بستا گھر اجاڑنے کے چکروں میں تھا ۔ وہ ہر بار اس سے یہ کہتا تھا۔
’’ دیکھ شاہینہ تو سراج الدین سے طلاق لے لو‘ معمولی سے کلرک نے تجھے کیا دے دینا ہے ۔ میری زمینیں ہیں ، جائیدادیں ہیں ، بنگلے ، کاریں ، کوٹھیاں ہیں ۔ میں رانی بنا کر رکھوں گا تجھے۔ ‘‘
’’ بکواس بند کر اپنی آئندہ مجھے فون مت کرنا۔ ‘‘وہ کہتی ، وہ نہ مانتا ۔ پھر اس نے خود سے پیغامات گھڑ کے اسے بھیجنا شروع کر دئیے۔
’’شکر ہے تو مان گئی ہے ۔ دفتری کام کے سلسلے میں جب سراج الدین دوسرے شہر جائے تو تو مجھے بلا لینا میں ڈھیر سارے تحفے لاؤں گا اور رات بھی تیرے ساتھ …‘‘
اس نے جانتے بوجھتے پیغام ادھورا چھوڑ کر بھیجا تھا ۔ جب وہ یہ پیغام پڑھ رہی تھی ‘ تب سراج الدین بھی آس پاس تھا ۔ اس کی ہوائیاں سی اڑنے لگی تھیں ، ہاتھ پاؤں پھولنے لگے تھے ۔ پسینے سے شرابور ہو چکی تھی ۔ سراج پہلے ہی اس پہ شک کرتا تھا ۔ اس نے اس سے موبائل چھینا اور پیغام پڑھ لیا ۔ تب ہی اس نے شاہینہ کو بیلٹ سے پیٹا تھا ۔ وہ پیغام مانی نے بھی پڑھا تھا۔
’’رنگ رلیاں منانا چاہتی ہے تو اپنے پرانے عاشق کے ساتھ تیری تو میں…‘‘موٹی موٹی گالیوں سے روز خاطر مدارات ہوتی اور شاہینہ نے چپ سادھ لی۔
مانی اسی دن سے آوارہ ہو گیا ۔ سکول میں جی نہ لگاتا آوارگی کرتا رہتا ۔ پندرا سال کا ہوا تو سراج الدین کو دل کی بیماری لگ گئی اور وہ مہینے کے اندر اندر اوپر والے کی امان میں چلا گیا ۔ مانی اپنے باپ کی موت کا زمے دار شاہینہ کو ٹھہراتا تھا ۔ اس نے کبھی بھی شاہینہ کو ماں کہہ کر نہ پکارا ۔ وہ ہمیشہ ابو کی بیوی کہہ کر پکارتا ‘ اس کی نفرت تحقیر کی کوئی حد نہیں تھی ۔ اور شاہینہ کی محبت کی کوئی حد نہیں تھی۔
٭……٭
بابو بھائی شہر کا سب بڑا ڈان تھا ۔ ایک نام نہاد غنڈہ ، دوسروں کی جائیدادوں پہ اپنی ملکیت جمانے کی کوشش میں ہر حد پار کر جانے والا ایک لچا ، لفنگا ۔ اس کے پرانے پالتو پلے نے خبر دی تھی ۔
’’ایک لڑکا سب سے ناراض نالاں اور اکھڑا اکھڑا سا رہتا ہے ۔ باپ مر گیا ہے ‘ ماں کو وہ گھاس نہیں ڈالتا ۔ کوئی کم دھندہ بھی نہیں کرتا ، کہو تو آپ کی خدمت میں پیش کروں حضور ! ‘‘
بابو بھائی کو پاگل کتے نے کاٹا تھا جو انکار کرتا ۔ بس محض پندرہ برس کی عمر میں وہ گروہ میں شمولیت اختیار کر چکا تھا ۔ اس کے دن رات کہاں گزرتے تھے ، وہ کہاں اٹھتا بیٹھتا تھا ۔ یہ سب بتانے کا وہ شاہینہ کو تو قطعاً پابند نہیں تھا۔
پھر شاہینہ نے سن گن لینا شروع کی تو اس نے جانا کہ وہ غلط لوگوں کے ہاتھ لگ چکا ہے ۔ وہ کہتی نہیں تھی لیکن اشارہ ضرور دیتی تھی کہ وہ سب جان گئی ہے۔
٭……٭
ستارہ بیگم کا ستارہ چمک رہا تھا ۔ وہ نوے کی دہائی کی شہر کی سب سے ٹاپ ایکٹریس ماڈل اور ہوسٹ تھیں ۔ ملکی اور بین الاقوامی اخبارات اس کی خبروں اور تصاویر سے بھرے رہتے تھے ۔ خبریں جو چٹخارے دار تھیں ، جن میں مسالہ زیادہ اور سچائی کم تھی ۔ تصویریں جو از حد بولڈ تھیں اور یہ اس کی اپنی چوائس تھی ۔ اسی نوے کی دہائی کے ابھرتے ہوئے غنڈے بابو بھائی نے اس کے ساتھ راہ رسم بڑھانے کی کوشش کی تھی جسے اس نے ٹھکرا دیا تھا۔
’’ میں قبضہ مافیا کے منہ نہیں لگتی آپ مجھ سے دور رہیں۔ ‘‘اس نے ایک پارٹی میں شراب کے نشے میں دھت ہو کر اس کے پاس آنے کی کوشش کی تھی۔
وہ ان دنوں نیا نیا اس فیلڈ میں آیا تھا اور اپنے استاد کے لیے کام کرتا تھا ‘ مانا کہ خوبرو نوجوان تھا ۔ لیکن اس کی حرکتیں اس کے سارے گنوں کو کھا گئیں تھیں ۔ ستارہ نے اسے لال جھنڈی دکھائی تو اس نے نت نئے حربے اختیار کئے لیکن وہ کامیاب نہ ہوا پھر ستارہ نے زچ ہو کر اس کے بڑے بھائی سے بات کی تھی ۔ بڑا بھائی شہاب عرف شابی جو اس سے تین سال ہی بڑا تھا لیکن عادات اور خصلت میں بہت نیک اور شریف النفس انسان تھا ۔ پانچ وقت کا نمازی اور پرہیز گار ستارہ نے اس سے مدد طلب کی تو اس نے اسے شادی کی آفر کر دی تھی۔
’’ میں چاہتا ہوں آپ مجھ سے شادی کر لیں ۔ پھر بابو کی جرات نہیں ہو گی کہ وہ اپنی ہونے والی بھابی کو تنگ کرے ۔ ‘‘ ستارہ کے پاس ناں کی کوئی معقول وجہ نہیں تھی ۔ اس نے اس شرط کے ساتھ بنا کسی تردد کے رشتے پہ ہامی بھر لی تھی ۔
’’ میں کبھی انڈسٹری کو نہیں چھوڑوں گی نہ ہی آپ مجھے ایسا کرنے کو کہیں گے ۔ ‘‘
شہاب نے یہ شرط بھی قبول کر لی تھی ، لیکن پھر جب سلطان ہوا تو راہیں اور منزلیں دشوار ہوتی چلی گئیں ۔ وہ کامیاب اور مشہور اداکارہ ہونے کے ساتھ ساتھ کامیاب ماں بھی تھیں۔ اوپر تلے دو بچوں کی پیدائش کے بعد بھی اس کے فگر میں بگاڑ نہیں آیا تھا ۔ وہ روز اول کی طرح سلم اور سمارٹ تھی ۔ جب سلطان نے سکول جانا شروع کیا اور بچوں نے اسے تنگ کرنا شروع کر دیا تو اس کے لیے نیا امتحان کھڑا ہو گیا۔
’’تیری ماں تو… ‘‘
ایک موٹی سی گالی کوئی دیتا تو سلطان سامنے والے کو دبوچ لیتا ‘ اسے لاتوں ، مکوں اور گھونسوں سے مارتا ، اس کا بھرکس نکال دیتا ۔ پھر یہ سلسلہ تواتر کے ساتھ چل پڑا ۔ کبھی کوئی گھر سے اخبار لے کر آ جاتا اور اس کی ماں کی تصویر اسے دکھاتا ‘ جہاں وہ ایک غیر اور نامحرم کی بانہوں میں جھولتی دکھائی دیتی تھی۔
وہ اکھڑا اکھڑا سا اکتایا اکتایا سا رہنے لگا ، سب سے بیزار اور کنی کترانے لگا ۔ وہ پہلے سب کے ساتھ خوش باش رہتا لیکن پھر اس نے چپ سادھ لی ۔ ایک روز شہاب کے بار بار پوچھنے پہ اس نے بتایا ۔
’’آپ امی سے کہیں وہ انڈسٹری چھوڑ دیں۔ ‘‘
شہاب کے اوپر تو جیسے پہاڑ آ گرا تھا ۔ سلطان نے شروع سے آخر تک سب بتا دیا تھا کہ کیسے شاگرد اسے سکول میں زچ کئے رکھتے ہیں ۔ وہ سب کی طرح طرح کی باتیں اور بولیوں کو سن سن کر تھک چکا ہے۔
’’ستارہ میں کبھی نہیں چاہتا تھا کہ تم سے یہ سب کہتا ، لیکن سلطان کی حالت دیکھ کر میں یہ سب کہہ رہا ہوں ۔ دیکھو تم اس انڈسٹری کی واحد اداکارہ ہو ‘ جس پہ کبھی کوئی سکینڈل نہیں بنا ۔ تم نے یہ نام وقار بہت محنت کے بعد کمایا ہے ۔ پر تم ایک ماں بھی تو ہو۔ ‘‘شہاب نے ٹھہر ٹھہر کر بات مکمل کی تھی۔
شہاب کے کسی بھی لفظ پہ ستارہ کو کوئی شبہ نہیں تھا وہ کر بھی نہیں سکتی تھی ۔ اس نے وہی کیا جیسا اس نے اس سے کہا تھا ۔ اس نے انڈسٹری چھوڑ دی تھی ۔ سلطان کی شخصیت کے اندر جو توڑ پھوڑ تھی وہ ہنوز برقرار رہی تھی ۔ وہ بری طرح سے بکھر چکا تھا ۔ ستارہ نے اسے سمیٹنے کی بہت کوشش کی تھی پر وہ ہاتھوں سے نکل گیا تھا ۔ اس کی سنگت اور صحبت اچھی نہیں تھی ۔ وہ چھوٹی سی عمر میں شرابی بن گیا تھا ۔ اور پھر ایک رات چند دوستوں کے ساتھ کسی بات پر الجھنے لڑنے بھرنے پہ فائرنگ کا تبادلہ ہوا تھا ۔ ایک گولی اس کے سینے کے پار ہو کر اسے ختم کر چکی تھی ۔ سلطان اپنی بھری پری جوانی میں دنیا سے رخصت ہو گیا تھا ۔ اور ستارہ بیگم کی دنیا اجاڑ گیا تھا ۔ شہاب نے سلطان کے جانے کے بعد اس کا کہیں زیادہ خیال رکھنا شروع کر دیا تھا ۔ دن رات کی محنت مشقت اور دوڑ دھوپ سے اس کی انڈسٹری نے اتنی ترقی کی تھی کہ اپنی انڈسٹری کے نام پہ انہوں نے ایک سوسائٹی خرید لی تھی ۔ جس کا نام ستارہ ہاؤسنگ سوسائٹی رکھا تھا ۔ اور اس سوسائٹی کی سب سے پہلی کوٹھی تعمیر کر کے باہر اسی کے نام کی تختی لگوا دی تھی ۔ بیٹی اور بیوی کا مستقبل سیکیور کر کے وہ کچھ ہی عرصہ رہے تھے اور چل بسے تھے۔ تب تک بابو بھائی اس قدر اپنے پنجے گاڑ چکا تھا کہ وہ آدھے شہر میں ناجائز تجاوزات کر چکا تھا ۔ اس نے آدھے شہر کے شرفاء کو یرغمال بنا کر ان کی محنت سے کمائی گئی جمع پونجیوں پہ قابض ہونا شروع کر دیا تھا ۔ اگلا ہدف یہ ہاؤسنگ سوسائٹی تھی ۔ اس سوسائٹی کا پہلا بنگلہ ستارہ کے نام پہ تھا ۔ مرنے والا مر چکا تھا ۔ پیچھے وہ اپنے لخت جگر کو پہلے ہی قبر میں اتار کر گئے تھے وہ ہوتا تو شاید یہ سب یوں نہ ہوتا لیکن ستارہ بیگم نے بھی ہمت نہیں ہاری تھی۔
٭……٭
وہ اس رات کمرے میں پھوٹ پھوٹ کر روتا رہا تھا ۔ باہر بیٹھی شاہینہ دروازے سے ٹیک لگائے وہیں سو گئی تھی ۔ مانی واش روم جانے کی غرض سے اٹھا اور مامتا کو یوں دیکھ کر اس کا دل پسیجا تھا ، لیکن اگلے ہی پل وہ پھر سے کٹھور ہو چکا تھا ۔ وہ ماں کے اوپر سے پھلانگ کر گیا اور پھلانگ کر ہی واپس کمرے میں گھس گیا تھا ۔ شاہینہ ٹھنڈے فرش پہ آڑھی ترچھی پڑی رہ گئی تھی ۔ صبح جاگا تو شاہینہ وہیں سدھ پڑی تھی۔ اس نے کئی بار اسے پکارا۔
’’ابو کی بیوی …‘‘
’’ابو کی بیوی …‘‘
’’ابو کی بیوی …‘‘
لیکن کوئی جواب نہیں آیا تھا ۔ پھر اس نے ’’اماں، اماں،اماں ‘‘کہہ کر پکارنا شروع کر دیا تھا ۔ وہ چیخ رہا تھا چلا رہا تھا پوری طاقت اور قوت سے کہ اب آواز بھی نہیں نکلتی تھی ۔ شاہینہ نہیں اٹھی تھی‘وہ مر چکی تھی ۔ شاہینہ مر چکی تھی۔
پچھتاوے کے ناگ نے اسے ڈسا تھا۔ پر اب کچھ بھی پہلے جیسا نہیں ہو سکتا تھا۔
٭……٭
’’ مائیں جب مر جاتی ہیں تب سمجھ لگتی ہے ۔ پہلے تو ہم بس اپنی انا اور اپنے بھرم میں جی رہے ہوتے ہیں ۔ ‘‘
اس نے کہا ۔ ماہم نے پانی کا گلاس اسے دیا اور کرسی کھینچ کر بیٹھنے کو کہا تھا ۔ وہ ماں کے مر جانے کے بعد دوسری بار یہاں آیا تھا ۔ اپنے جرائم کی داستان وہ پچھلی بار سنا کر گیا تھا اور ستارہ بیگم کو خوب رلا کر بھی گیا تھا ۔ سلطان اور وہ شکل و صورت عمر میں ہی برابر نہیں تھے بلکہ وہ مزاج میں بھی سلطان کے ہم پلہ تھا ۔ سلطان نے بھی سنی سنائی باتوں پہ یقین کر کے اس کے کردار کے پرخچے اڑائے تھے اس نے بھی یہی کیا تھا۔
ستارہ بیگم آج بھی کچن میں ہی مصروف تھیں۔
’’قیمہ کریلے بنا رہی ہیں امی تمہیں پسند ہیں ‘ سلطان بھائی کو بھی پسند تھے۔ ‘‘ماہم نے کہا تو اسے کچھ ہوا تھا ۔ وہ مسکرا بھی نہیں سکا تھا ہلکی سی ٹیس اٹھی تھی۔
’’ہمیں یہ حق کبھی نہیں پہنچتا کہ ہم ماؤں کو جج کریں ، ان کے کردار کی دھجیاں بکھیرتے پھریں ، انہیں مجرم نہ ہوتے ہوئے بھی مجرم قرار دیں۔ ‘‘
ماہم نے دکھتی رگ پہ پھر سے ہاتھ رکھ دیا تھا ۔ ستارہ بیگم نے باہر نکل کر اسے ڈانٹا تھا۔
’’کچھ مت کہیں ‘ اسے بولنے دیں، صحیح کہہ رہی ہیں ۔ یہی تو کیا تھا میں نے، میں اپنی ماں کو ابو کی عینک لگا کر دیکھتا رہا ۔ میں جان ہی نہیں سکا کہ میری ماں کا دامن تو نکھرا، اجلا، صاف شفاف ہے ۔ پر مجھے تو ماں کو بدکردار ہی سمجھنا تھا۔‘‘
’’سلطان بھائی نے بھی یہی کیا تھا ۔ میری ماں کبھی کسی غلط قسم کی سرگرمی میں ملوث نہیں رہی تھیں ‘ لیکن سلطان نے محض انڈسٹری سے وابستہ ہونے کو گالی سمجھا تھا۔ ‘‘
ماہم کہہ رہی تھی۔
’’اب ان سب باتوں کا کوئی فائدہ نہیں ‘ کیوں گڑے مردے اکھاڑ رہی ہو ۔ آؤ کھانا رکھو میز پہ۔ ‘‘اس بار ستارہ بیگم نے درشتی سے کہا تھا۔
ماہم نے حکم بجا لایا تھا ۔ ابھی وہ کھانا کھا ہی رہے تھے کہ بابو بھائی اندر داخل ہوا تھا۔
’’یہاں تو کھانے پینے چل رہے ہیں ۔ ششکے ‘ ششکے واہ مانی واہ خوب نبھائی تو نے وفاداری ہیں۔ ‘‘
بابو بھائی نے اس کا گریبان پکڑ لیا تھا۔
’’چھوڑ دو اسے بابو تم جانتے ہو تم کس کے گھر میں کھڑے ہو ۔ ‘‘ستارہ بیگم گرجی تھیں۔
’’اچھے طریقے سے جانتا ہوں ‘ بہت حساب کتاب رہتا ہے اس کی طرف میرا ۔ ‘‘بابو بھائی نے پسٹل نکالی تھی۔
’’دیکھو تمہیں گھر چاہیے تم لے لو ‘ پیسے چاہیے وہ بھی لے لینا ، لیکن اسے چھوڑ دو۔ ‘‘ستارہ بیگم نے نم ہوتے لہجے سے کہا ۔ آواز گلو گیر تھی۔
’’آپ ایسا کچھ نہیں کریں گی ‘ یہ گھر کبھی بابو بھائی کے حوالے نہیں کریں گی۔ ‘‘مانی نے چیخ کر کہا تھا۔
’’تیری تو میں ایسی کی تیسی…‘‘بابو بھائی نے گن نکال کر لوڈ کر دی تھی اور اس کی کنپٹی پہ رکھ دی تھی۔
’’بھابی ہوں میں تمہاری ‘ تمہارے بھائی کی بیوی ہوں کچھ تو رحم کرو ۔ کیوں اتنے سفاک بن گئے ہو۔ ‘‘ستارہ بیگم نے ہاتھ جوڑے تھے ۔ بابو بھائی نے طیش میں آ کر دھکا دیا اور ستارہ بیگم دور جا گری تھیں۔
اتنے میں مانی اور بابو بھائی گتھم گتھا ہو گئے تھے ۔ ماہم اور ستارہ بیگم چیختی چلاتی رہیں تھیں۔
پھر…پھر … پھر …
گولی کی آواز گونجی تھی ۔ بابو بھائی کی سفید رنگی قمیض سے خون بہہ رہا تھا بابو بھائی گر پڑا تھا۔
٭……٭
چار حرف جو میں نے چار جماعتوں میں پڑھے تھے ۔ انہی کے طفیل یہ ٹوٹے پھوٹے سے لفظ اس کاپی کے ورقے پہ لکھ رہا ہوں ۔ بھلا ہو سپاہی مختار کا مدد کر دیتا ہے ‘ جو بھی چیز مانگتا ہوں لا دیتا ہے ان بند سلاخوں کے پیچھے ۔ یہاں ویسے تو سب کچھ بڑا برا ہے ‘ پر رات اور دن میں جو کھانا کھانے کو دیا جاتا ہے ۔ قسمے اس کھانے کو دیکھ کر الٹیاں آنے لگتی ہیں ۔ پھر اماں کی پکائی ساری سوغاتیں یاد آتی ہیں جو وہ میرے لیے بڑی چاہ سے پکاتی تھی اور میں دیوار پہ دے مارتا تھا۔
میں اندھا، گونگا،بہرا ہو گیا تھا ۔ ابے نے اماں کی بد کرداری کا جو لاوا میرے اندر ڈالا تھا وہ پک پک کر باہر نکلتا تھا ۔ ہر بار میں اپنی ماں کی تذلیل کرتا ، ہر بار اس کے اماں کہنے پہ اسے یاد دلاتا کہ وہ صرف ابو کی بیوی کے میری کچھ نہیں لگتی ۔ پر اب نہیں ہیں ‘تو سوچتا ہوں اک وہی تو میرا سب کچھ تھیں ۔ یہاں مچھر کاٹتا ہے ، پنکھا نہیں چلتا ، بچھو ہوتے ہیں ڈر لگتا ہے ۔ وہ ہوتی تو مجھے اس حال میں کیسے دیکھتی ۔ میں اپنے اس حال کا خود زمہ دار ہوں ۔ جب اسے پتا چلا کہ میں بابو بھائی کا بندہ بن گیا ہوں تو روز مجھے سمجھاتی، روز خدا رسول کے واسطے دیتی پر میں تو اسے سب کچھ مانتا تھا۔
بابو بھائی کے گناہ،گناہ نہیں لگتے تھے ۔ ماں کے وہ گناہ، گناہ لگتے تھے جو شاید اس نے کبھی کئے بھی نہیں تھی ۔ستارہ جی روز آتی ہیں ۔ وہ کہتی ہیں مجھے ماں کہا کرو مانی ، وہ جن کو میں نے مائی کہا تھا ۔ وہ پوری کوشش کر رہی ہیں میری سزا کو کم کروا دیں گی اور اس جیل سے رہائی دلوا دیں گی ۔اور میں سوچتا ہوں میں اس جیل سے رہا ہو کر کدھر جاؤں گا؟ کس کے پاس جاؤں گا؟میری تو ماں ہی نہیں رہی…!
مائے نی میں کنوں آکھاں
درد وچھوڑے دا حال نی
مائے نی میں کنوں آکھاں

ختم شد

پچھلا صفحہ 1 2

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

You cannot copy content of this page