امڑی : ایم رضوان ملغانی
سوز کے ساز پہ رقصاں آنسو بوڑھے نینوں کو تگنی کا ناچ نچائے ہوئے تھے ۔ کھارے مٹیالے یہ اشک پلکوں کو تر کئے رکھتے، آس اور امید کے دیئے روز جلتے ، پھر آدھی رات کے کسی سمے جب اس کے لخت جگر کی واپسی ہوتی ‘ وہ اس کے اکھڑے ہوئے تیور دیکھ کر جھٹ سے ان کو بجھا دیتی ۔ وہ جو اس کی کل کائنات تھا ۔
اس کاعبدالمنان عرف مانی اور مانی پہ اس کے کئے گئے سارے مان اس کی جوانی نے اچک لیے تھے۔
جب اس نے قد کاٹھ نکالا، چوڑی چھاتی، تگڑی جسامت، ہلکی داڑھی اور مونچھیں تو اسے لگا جیسے اب برے دن کٹ گئے ۔ بہار آئے گی، میگھ ملہار ہو گی، ٹھنڈا ساون اس کے آنگن میں بھی برسے گا، غم کی تپش رخصت ہو گی ، بیوگی کی چادر میں بکل مارے بیٹھی ‘ ڈری سہمی دبکی سی بیٹھی رہ جانے والی شاہینہ اب دنیا کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرے گی ۔ اور بتائے گی کہ اب وہ کسی سے نہیں ڈرتی اس کی اکلوتی اولاد اب اس قابل ہو گئی ہے کہ اسے باہر لے کرجاتے ہوئے اس کی انگلی پکڑ کر چلنے کی ضرورت نہیں پڑتی کہ وہ اب ماں کا ہاتھ پکڑ کر چلا کرے گا ۔ لیکن سارے ارمان دھرے کے دھرے رہ گئے ۔ وہ خوشی کی نوید بن کر آیا تھا … غم کا کالا سیاہ بادل بن گیا، جو ہر روز شاہینہ کے چھوٹے سے آسماں پہ چھاتا اور تیزابی بارش برساتا تھا۔
اس نے سوچ لیا تھا آج آئے گا تو اس سے ضرور بات کرے گی ۔ اوربات وہ ہمیشہ کرتی تھی ۔ پر آدھی ادھوری، بے ربط جملے، گھٹی گھٹی دبی دبی سی آواز جو اس کے خشک حلق سے نکلنے سے پہلے ہی دب کر رہ جاتی ۔ ادھورے فقرے، نصیحتوں کے انبار اس کے سامنے لگنے سے پہلے ہی کہیں کھو سے جاتے تھے ۔ یوں مانی اپنی ہی ترنگ میں اپنی بدمستی کے نشے میں چور ہو کر چند سمے کے اس جیون کے پرخار کانٹوں کو پھولوں کا بستر سمجھ کر گزار رہا تھا ۔ ببول کے کانٹے تھے جن پہ اس کے قدم تھے ۔ اسے نہیں خبر تھی ۔ شاہینہ سے کچھ بھی چھپا نہیں رہا تھا۔
ایک بار اس نے مانی سے کہا تھا۔
’’ ت …ت …تو …تو کیا سمجھتا ہے مانی مجھے کچھ نہیں پتا تیری سرگرمیوں کا ۔‘‘
’’ بس کر ، بس کر میں کون سا ڈرتا ہوں تجھ سے ‘ جو کر سکتی ہے کر لے ۔ ابا کچھ کر کرا کے گیا ہوتا میرے لیے تو میں کبھی اس کالے دھندے میں نہ لگتا ۔ آج کے بعد مجھے نصیحت مت کرنا ۔ اور یہ کیا تو ہر وقت بگھارے بینگن بنا کے تھالی بھر کر میرے سامنے رکھ دیتی ہے۔‘‘
وہ تھالی کو دیوار پہ دے مارتا ۔ سامنے والی دیوار پہ ایسی کوئی جگہ نہیں بچی تھی جہاں سالن کے تیل کے نشان نہ ہوں ۔ وہ ہر نشان کو دیکھ کر ہی یہ بتلا سکتی تھی کہ اس کے ہاتھ کے پکے کس سالن کی بے توقیری ، بے حرمتی کرنے کے بعد یہ نشان بنا ہے ۔ شاہینہ اس کے من پسند پکوان پکانے کی دھن میں اس قدر مگن ہو جاتی تھی کہ نہ دن دیکھتی ، نہ آگ اگلتا سورج ۔ اسے تو بس ٹوٹی ہوئی چپل گھسا کر روڈ کے دور تلک جا کر سبزی والے سے سبزی لے کر آنی ہوتی تھی۔
کتنے مہینے ہو گئے تھے ۔ اسے یاد نہیں پڑتا تھا کہ کب اس کی جوتی کے پنجوں والے حصے اس قدر ٹوٹ چکے تھے کہ اس کے پیروں کے دونوں انگوٹھے پاؤں زمین پہ پڑنے سے اب ٹوٹی چپل سے نکل کر دھول اڑاتی سڑک کی خاک چھانتے تھے ۔ اس کا انگوٹھا تو جوتی نام کی شے کو بھول ہی چکا تھا ۔ گھسی ہوئی جوتی کے تلوے گھس چکے تھے ۔اسے کچھ یاد نہیں رہتا تھا، وہ کون تھی ؟ شاہینہ تھی بھی کہ نہیں یا صرف مانی کی ماں بن کر زندہ تھی ۔ سکھی سہیلیوں کے نام پہ جو چند عزیز تھیں وہ ان کی صورت بھول گئی تھی ۔ رشتے داروں نے تو اسی روز ہی ناطہ تعلق توڑ دیا تھا جب وہ شاہینہ شاہ نواز سے شاہینہ رفیق بنی تھی ۔ پھر اس بھری پری دنیا میں ماسوائے مانی کے اس کا تھا ہی کون اور مانی کی دنیا میں سب کچھ تھا صرف اس کی گنجائش نہیں تھی ۔ وہ دن رات کسی نہ کسی طرح اپنے جگر گوشے کا دل جیتنے کی کوششوں میں لگی رہتی تھی ۔ وہ دل جو کٹھور ہو چکا تھا ۔ جس دل پہ اب ماں کی کوئی بات اثر نہیں کرتی تھی۔ وہ نجانے کس سیاہ کو سفید کرنے کی مشق کر رہا تھا ۔ اور یہ مشق ایک عرصے سے جاری و ساری تھی۔
٭……٭
’’ دو ماں بیٹیاں ہیں صرف اور اتنے بڑے گھر پہ ڈیرہ جمائے بیٹھی ہیں ۔ کھلی چھوٹ ہے تجھے … آج کے آج جا اور ان کا سامان گلی میں نکال پھینک ، زیادہ زبان چلانے کی کوشش کریں تو لگانا ایک الٹے ہاتھ کی ‘ عمر شمر کا لحاظ مت کرنے بیٹھ جانا ماں جتنی ہو گی تو کیا ہوا ماں تو نہیں ہو گی ، جا میرا شیر۔‘‘
پیٹھ تھپک کر تھپکی دی گئی ۔ اگلے کا سر فخر سے بلند ہو گیا ۔ گردن میں سریا کیسے نہ آتا ۔ بابو بھائی نے کبھی کسی کو اتنی جلدی ان معاملات میں نہیں الجھایا تھا جتنی جلدی بھروسہ اور اعتماد وہ اس پہ کر چکے تھے ۔ باقی سب بابو بھائی سے شکوہ کناں ضرور تھے کہ ایسا بھی کیا دیکھ لیا تھا اس نے کل کے آئے لڑکے پہ کہ اسے گھروں پہ قبضے کروانے کے لئے بھیجنا شروع کر دیا تھا۔ پر کوئی بھی یہ شکوہ زباں پہ نہ لاتا کہ سب کو اپنی جان پیاری تھی۔
’’ فکر کی کوئی بات نہیں بابو بھائی بہت کچھ سیکھا ہے آپ سے شکایت کا موقع نہیں دوں گا ۔ ‘‘اس نے اک ادا سے کہا تھا اور گلے میں جھولتے لاکٹ کو گھما کر کالر اوپر کئے تھے ۔ ڈبی سے سگریٹ نکال کر لمبے کش لیتا دھوئیں کے مرغولے چھوڑ کر وہ چلتا بنا تھا۔ اکیلا تن تنہا وہ پسٹل میں کئی گولیاں بھر کر پہلے مشن پہ نکل کھڑا ہوا تھا۔
٭……٭
وہ ابھی نکلا ہی تھا کہ فون کی گھنٹی بج اٹھی تھی ۔ اس نے جلدی سے فون پینٹ کی جیب سے نکالا ۔ سکرین پہ ’’ ابو کی بیوی‘‘لکھا ہوا آیا تھا ۔ اس نے فون کاٹ دیا تھوڑے وقفے سے فون پھر بج اٹھا تھا۔
’’ کیا ہے کیوں بار بار فون کر رہی ہے مجھے۔ ‘‘اس نے اکتائے ہوئے لہجے میں بیزاری سے کہا ۔
’’ ماں ہوں تیری ‘ کبھی تو اماں کہا کر۔ ‘‘شاہینہ نے ٹھہر ٹھہر کر کسی طور جملہ مکمل کیا ۔
’’ کتنی بار کہا ہے تجھے ابے کی بیوی ہے تو صرف ‘ میری کچھ نہیں لگتی تو۔ ‘‘اس نے چلا کر کہا۔
’’ مر گیا ہے تیرا باپ مانی۔ ‘‘شاہینہ نے روتے ہوئے کہا ۔
’’ افف، پھر تیرے ڈرامے شروع ہو گئے ‘ جلدی بتا کیا کام تھا۔ ‘‘اس نے نخوت سے کہا ۔
’’ یہ بتا آج بڑے گوشت کا پلاؤ پکا لوں تیرے لیے شوقین ہے ناں تو۔ ‘‘شاہینہ نے لاڈ سے پوچھا
’’ یہ سوال کمرے کی سامنے والی دیوار کو دیکھ کر ہی پوچھ رہی ہے تو ناں ۔ پھر سے دیکھ ادھر کوئی جگہ باقی بچی ہے خالی جہاں تھالی مار کر نشان چھوڑ سکوں اور تجھے بتا سکوں یہ اوقات ہے تیرے کھانے کی میرے آگے۔ ‘‘اس نے اکھڑ کر کہا۔
ادھر دوسری جانب فون پہ موجود شاہینہ کو گرمی سے چکر آنے لگے تھے ۔ وہ فٹ پاتھ پہ ذرا سی چھاؤں کی آڑ میں لیٹی بھکارن بڑھیا کے پاس بیٹھ گئی۔
’’ کیوں کرتا ہے دل کو چیر کر رکھ دینے والی باتیں ۔ ماں ہوں تیری جاں نثار کرتی ہوں تجھ پہ اور تو مجھے رلاتا ہے ۔‘‘ شاہینہ نے زارو قطار رونا شروع کر دیا۔
فون بند ہو چکا تھا ۔ بھکارن اٹھ بیٹھی تھی۔
’’ پتر تھا تیرا ہک ہا جانتی ہوں وہی ہو گا ۔ شکر کر تیرا پتر تیرے ساتھ تو ہے ۔ مجھے دیکھ میرا پتر مجھے بیوی کے کہنے پہ یہاں پھینک گیا ۔ بھیک منگواتا ہے مجھ سے ‘ کہتا ہے تیری بیماری بوجھ ہے مجھ پر کما کر لائے گی تو ہی تیرا علاج کرواؤں گا ۔ ‘‘
شاہینہ کو اس کی حالت دیکھ کر بہت ترس آیا ۔ اس نے چھوٹے سے پرس میں موبائل ڈالا اور مڑے تڑے سے ہزار کا نوٹ نکال کر اس بھکارن کی جھولی میں ڈال دیا۔
’’ جس کے لیے چاول پکانے تھے اس نے تو ٹکا سا جواب دے دیا ہے تو یہ رکھ لے ۔ دیکھ اس سے دوا دارو لے لینا ‘ میرے اب یہ کسی کام کے نہیں پیسے ، میں تو باسی روٹی کے ٹکڑے پہ اچار کی پھانک رکھ کر کھانے والی بڑھیا ہوں ۔ ‘‘شاہینہ کا یہ کہنا ہی تھا کہ بھکارن کی آنکھیں چمک اٹھیں اس نے گندے میلے کچیلے سے تکیے کے نیچے سے ٹفن نکالا اور کھول کر شاہینہ کے سامنے رکھ دیا ۔ شاہینہ نے کھول کر دیکھا تو روٹی میں لسوڑے کا اچار تھا۔
شاہینہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی اور رغبت سے روٹی کے ساتھ اچار لگا کر کھانے لگی تھی۔
’’ مائیں تو اولاد پہ جان نثار کرتی ہیں اور اولاد جان کہ وار کرتی ہے ۔‘‘ اسے کھاتا دیکھ کر بھکارن نے وجد کی کیفیت میں کہا ۔
اس کی اس بات پہ شاہینہ کا دل لرز اٹھا تھا ۔ وہ کھارے آنسوؤں کو بہنے کی کوشش کرنے لگی لیکن آنسو تھے کہ بھل بھل بہتے چلے گئے تھے۔
٭……٭
دن کے اجالے کی پہلی واردات تھی ۔ اسے ہر صورت میں جیت کر نکلنا تھا ورنہ کیا منہ دکھاتا بابو بھائی کو ، ٹھان کے نکلا تھا نامراد لوٹا تو گولی مار دے گا خود کو ‘ بابو بھائی کے سامنے نہیں جائے گا ۔پھر جب کوئی اپنی جان اپنے ہی ہاتھوں گروی رکھوا کر نکلا ہو وہ بھلا کیسے شکست تسلیم کر سکتا ہے ۔ اس پہ تو بس جیت کی دھن سوار ہوتی ہے ۔ بہت حسین اور بڑی ہاؤسنگ سوسائٹی میں قطار در قطار وسیع و عریض کوٹھیاں تھیں ۔ ہر کوٹھی کے باہر گھر کے بڑے کے نام کی تختی لگی ہوئی تھی ۔ لیکن اس کے مطلوبہ گھر کے باہر لگی تختی پہ ’’ ستارہ بیگم ہاؤس ‘‘ لکھا تھا ۔ اسے تعجب نے آن گھیرا ۔ بجائے اس کے وہ زیادہ دیر سوچتا اس نے زور زور سے دروازہ پیٹنا شروع کر دیا۔
دروازہ گھر کی کسی ملازمہ نے کھولا تھا ۔رف سے حلیے میں کم عمر سی لڑکی جو شاید کچن میں برتن دھو رہی تھی ۔ اس نے پسٹل نکال کر اسے پرے دھکیلا تھا ۔ پستول دیکھ کر ہی اس کے حواس معطل ہو چکے تھے۔
’’ ستارہ بیگم باہر نکل تیری در پدری کا پروانہ لایا ہوں تیرے لیے۔ ‘‘اس نے اندر گھس کر چیخنا چلانا شروع کر دیا تھا۔
’’ کون ہو تم اور کیوں گھسے چلے آ رہے ہو یوں ہمارے گھر میں ابھی 15 پہ کال کرتی ہوں ۔ ‘‘وہ ستارہ بیگم کی اکلوتی بیٹی ماہم تھی۔
’’ خبردار جو ڈھیر ہوشیاری میرے سامنے دکھائی تو ‘ ایک ہی گولی تیرے بھیجے میں ماروں گا اور کام تمام کر دوں گا تیرا۔ ‘‘
اس نے اسے دھکا دیا تھا وہ صوفے پہ جا گری تھی ۔ ستارہ بیگم کچن میں کچھ کھانا بنانے میں جتی ہوئیں تھیں ۔ سارے گھر میں بریانی کی مہک تھی۔
’’ میں جانتی تھی تم آؤ گے بابو بھائی نے بھیجا ہے ناں تمہیں ۔ ‘‘ستارہ بیگم کچن سے نکلی تھیں ان کا انداز بالکل نارمل سا تھا جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔
ماہم کی تو کاٹو تو بدن میں لہو نہیں کی سی کیفیت تھی ۔ کہاں وہ اس کو پولیس کی دھمکیاں دے رہی تھی ۔ اور کہاں وہ پستول کی نال دیکھ کر ہی سہم سی گئی تھی۔
’’باتوں میں نہ الجھا مجھے مائی اور صرف ایک گھنٹہ ہے تیرے پاس نکل جا اس گھر سے…‘‘
اس نے کمال بدتمیزی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا تھا‘کیوں کہ دنیا کے ہر دو نمبر دھندے کا پہلا اصول اخلاقی گراوٹ ہے۔
’’بالکل میرے سلطان جیسے ہو ۔ وہی رنگ روپ ، وہی نین نقش ، وہی قد کاٹھ … وہ بھی تمہاری طرح بات کرتا تھا مجھ سے ۔‘‘ وہ اس کے پاس آئی تھیں اور ہاتھوں کے پیالے میں اس کا چہرہ لے کرکہا تھا۔
’’ عجیب ڈرامہ چل رہا ہے ۔ اماں وہ قبضہ مافیا گروپ کا بندہ ہے ‘ آپ اس کو سلطان بھائی سے ملا رہی ہیں ۔ سلطان بھائی آوارہ اور بدقماش نہیں تھے ۔ ‘‘ماہم سے یہ سب دیکھا نہیں جا رہا تھا ۔ اس نے ماں کے بازو سے پکڑا اور کچن میں لے جا کر ان سے کہا تھا۔
’’ کیا کھسر پھسر کر رہی ہو دونوں ماں بیٹیاں جلدی چلتی بنو یہاں سے ۔‘‘ اس نے پھر سے چلا کر کہا تھا ۔اور آرام دہ صوفے پہ ڈھے سا گیا تھا۔
’’یہ بھی نہیں ہے آوارہ اور بدقماش بنا دیا گیا ہے۔ ‘‘ستارہ بیگم نے کہا۔
’’آپ یہ بات اتنے وثوق سے کیسے کہہ سکتی ہیں؟ بات کرنے کا طریقہ دیکھا ہے آپ نے اس کا؟ ‘‘ماہم کو ستارہ بیگم کی باتیں مزید الجھا رہی تھیں۔
’’تم اپنے کمرے میں جاؤ میں اس سے خود نمٹ لوں گی۔ ‘‘ستارہ بیگم نے ایسے ظاہر کیا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔
’’امی گن ہے اس کے پاس اگر اس نے کچھ ایسا ویسا…‘‘اس بات کے خوف سے ہی ماہم کو جھرجھری سی آ گئی تھی۔
’’ایسا کچھ نہیں ہو گا میں سب سنبھال لوں گی تم جاؤ۔‘‘ ستارہ بیگم کا حوصلہ قابلِ دید تھا۔
بریانی کو دم آ چکا تھا ‘ ستارہ بیگم نے نیا سیٹ نکالا ۔ بریانی ڈش آؤٹ کی اور کومل سے ڈائننگ ٹیبل پہ کھانا رکھنے کو کہا۔
’’ میں کہہ رہی ہوں نا تم سے کچھ نہیں کہے گا وہ تمہیں ‘ تم جاؤ اور یہ سب کچھ رکھ آؤ۔ ‘‘ستارہ بیگم نے ڈرتیکانپتی گرتی پڑتی سی کومل سے کہا تھا۔
کومل نے حکم عدولی نہیں کی تھی اور میز پہ کھانا چن دیا تھا ۔اشتہا انگیز سی خوشبو جب اس کے نتھنوں کو چھو کر گزری تو وہ خود پہ قابو نہ رکھ سکا اور ستارہ بیگم کی تائید میں کرسی کھسکا کر میز کے گرد بیٹھ گیا ۔ ایک نوالے کے بعد وہ خود کو روک نہیں سکا تھا ۔ بریانی پہ ٹوٹ ہی تو پڑا تھا۔
’’ مائی تیرے ہاتھ میں تو بڑا ذائقہ ہے۔ ‘‘اس نے تعریف کی تھی۔
’’تمھاری ماں کے ہاتھ میں بھی ہو گا۔ ‘‘ستارہ بیگم نے جان بوجھ کر اس کی ماں کا تذکرہ چھیڑا تھا۔
’’نام نہ لے اس کا ‘ وہ صرف ابے کی بیوی ہے میری کچھ نہیں لگتی ۔ روز دال سبزی پکا کر رکھ دیتی ہے ۔ میں روز دیوار پہ مار دیتا ہوں ۔ ذرا ذائقہ نہیں اس کے ہاتھ میں۔ ‘‘اس نے اپنی بدتمیزی کا قصیدہ سنایا۔
ستارہ بیگم کو بالکل برا نہیں لگا تھا وہ کھل رہا تھا یہی کافی تھا۔
’’ماؤں کے ہاتھ کے لذیذ ذائقے زبان پہ چکھنے کے لیے پہلے اسے نرم گفتار بنانا پڑتا ہے ۔ ادب والی بولی اور مٹھاس بھرے جملوں سے سجانا پڑتا ہے ۔ جس ماں کے لیے تم نے جس زبان سے ہمیشہ زہر اگلا اسی زباں پہ تم ذائقہ محسوس کر سکو یہ تمہاری بھول ہے ۔ یہ ذائقے صرف ان زبانوں کے لیے ہیں جو شیریں ہیں ۔ ماؤں سے ہمکلام ہوتے وقت لفظوں کو تول تول کر بولو ورنہ زبان کے چسکوں سے محروم رہ جاؤ گے۔‘‘
اسے حیرت کے جھٹکا لگا تھا وہ یہ سب کیسے جانتی ہیں۔
’’تم سوچ رہے ہو گے میں یہ سب کیسے جانتی ہوں اگلی بار آؤ گے تو سب بتا دوں گی۔ ‘‘ستارہ بیگم نے شگفتگی سے کہا اور گلاس میں پانی ڈال کر اسے پیش کیا۔
اتنے میں کومل ماہم کو باہر کی ساری کار گزاری کے حوالے سے آگاہ کر چکی تھی۔ ماہم نے سر پکڑ لیا تھا۔
’’ بول دینا اپنے بابو بھائی سے مکان خالی کروانا ہے اور میرے گھر پہ قابض ہونا ہے تو خود آ کر مجھ سے بات کرے ۔ تم جیسے کل کے بچوں کے میرے سامنے لا کر کھڑا نہ کرے۔ ‘‘وہ جانے لگا تو ستارہ بیگم نے کہا نکلتے ہوئے اسے کئی طرح کے خیالات نے جکڑا ہوا تھا ۔ بہت سے سوالات تھے جو ذہن کے دریچے پہ دستک دے رہے تھے۔
٭……٭
بابو بھائی نے اسے بہت بھروسے کے بعد اس کارروائی کے لیے بھیجا تھا ۔ لیکن وہ نامراد لوٹا تو غصہ تو بنتا تھا ۔ بابو بھائی نے اسے دھندے سے فارغ کر دیا تھا ۔ وہ ایڑیاں رگڑتا منتیں ترلے کرتا اس کی فریاد کسی نے نہیں سننا تھی ۔ وہ چپ چاپ وہاں سے نکل گیا تھا۔
’’شہاب عرف شابی یہ تو نے اچھا نہیں کیا میرے ساتھ۔ ‘‘بابو بھائی منہ ہی منہ میں بڑبڑایا تھا۔
٭……٭
’’کہاں ہے تو ابے کی بیوی ‘ کہاں ہے تو … آ دیکھ ، آ دیکھ پھر تیری وجہ سے مجھے باتیں سننا پڑی ہیں ۔ میں جہاں بھی جاتا ہوں لوگ تیرے بارے میں پہلے سے جانتے ہیں ۔ میں ان کو بتانا چاہتا ہوں کہ جس عورت کو وہ نیک پارسا اور فرشتہ صفت سمجھتے ہیں وہ ڈھونگی ہے گناہوں کی پوٹلی ہے وہ، بدکار عورت ہے ۔ ‘‘وہ زور زور سے چیخ رہا تھا۔
شاہینہ میں اتنی قوت کہاں سے آئی تھی کہ کچن سے نکلتے ساتھ ہی اس نے اس کے گال پہ رکھ کے تھپڑ دیا تھا۔
’’ خبردار اب اگر تو نے مجھے بدکار کہا تو ‘ منہ نوچ لوں گی میں تیرا ۔ ‘‘شاہینہ نے کہا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
’’ساری زندگی تو نے مجھ سے نفرت کی صرف اسی لیے کہ میں ایک بدکار عورت ہوں ۔ کیا ہوتی ہے بد کاری تو جانتا بھی ہے ؟ بول بتا چپ کیوں کھڑا ہے مانی ، کچھ کہتا کیوں نہیں۔ ‘‘ شاہینہ نے اس کا گریبان پکڑ لیا تھا ۔ وہ کچھ نہیں بولا تھا بس پھوٹ پھوٹ کر رو دیا تھا ۔ شاہینہ نے اسے خود سے لپٹانا چاہا تھا لیکن وہ اگلے ہی لمحے میں خود کو کمرے میں قید کر چکا تھا۔
’’ کھانا کھا لے مانی ، کھانا کھا لے … دیکھ آج میں نے تیرے لیے قیمہ کریلے بنائے ہیں ۔ کھول نہ دروازہ مانی ، کھول دے ‘ کھول دے ۔ ‘‘
وہ کتنی ہی دیر تلک دروازے کے پاس ٹیک لگائے، چنگیر میں روٹی سالن لیے بیٹھی رہی تھیں کہ کبھی تو دروازہ کھلے گا شاہینہ کو کیا پتہ تھا ‘ وہ بھرے پیٹ سے اندر بیٹھا تھا۔
٭……٭