مکمل ناول

الوداع پاکستان: ایمان فیضان

’’تم سبق پڑھ لو پھر تمہیں اپنا پورا گھر دکھاتی ہوں۔ ‘‘ اس نے کچھ لمحوں کے توقف کے بعد دوبارہ دھیرے سے کہا۔
’’سبق تو ختم کرلوں پھر بات کرتے ہیں تب تک خاموش رہو۔ ‘‘ گلالئی نے آہستہ سے اسے ڈپٹا۔
’’اچھا۔ ‘‘ جواباََ وہ منہ پھلا کر تھوڑی سی پیچھے ہو کر بیٹھ گئی اور دعا ہونے تک وہی بیٹھی رہی۔
’’اب تو آئو ناں تم ‘ پہلے تمہیںگھر دکھاتی ہوں ۔ اپنے سارے کھلونے بھی اوپر چھت پر جائیں گے ۔ پھر کھانا ہم ساتھ کھالیں گے وہاں ہمارے کمرے میں۔ ‘‘ وہ دھیرے سے گلالئی سے مخاطب ہوئی تو قریب بیٹھی شاہدہ چاچی نے اس کی بات سن لی۔
’’کامنوش بچے کیوں تنگ کررہی ہو گلالئی کو۔ ‘‘ انہوں نے مسکرا کر کہا۔
’’نہیں خیر ہے آنٹی مجھے عادت ہے اس کی۔ ‘‘ گلالئی کامنوش کو دیکھ کر ہنستے ہوئے بولی۔
’’مان لو اس کی بات جا کر گھر دیکھ آئو ورنہ چین سے نہیں بیٹھنے دے گی ۔‘‘ چاچی نے اس کی حمایت کی تو یکدم اس کا چہرہ جگمگایا۔
’’جی آنٹی۔ ‘‘ گلالئی مسکراکر کہتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئی تو کامنوش اس کا ہاتھ تھام کر اسے باہر لے گئی۔
’’پہلے میں تمہیں اپنا کمرہ دکھاتی ہوں، یہ رہا میرا کمرہ ۔ یہاں میرے سارے کھلونے پڑے ہیں باری باری دکھاتی ہوں تمہیں پھر چھت پر…‘‘ اس نے ڈرامائی انداز میں کمرے کا دروازہ دھکیلا تو وہ پورا کھلتا چلا گیا ۔ کامنوش کی طوطے کی طرح چلتی زبان اچانک رک گئی ۔ سامنے زین لالہ بیٹھے تھے اور ان کے ساتھ زہیب لالہ ہاتھ میں ٹی وی کا ریموٹ پکڑے بیٹھے ہوئے تھے ۔ کامنوش کے ساتھ گلالئی کو دیکھ کر دونوں نے نظریں دوسری جانب پھیر لی ۔ گلالئی فورا سائیڈ پہ ہوئی ‘ کامنوش کو اس نے ہاتھ سے اپنی طرف کھینچا ۔ ظہیر لالہ نے اٹھ کر کھلے دروازے کو بند کیا۔
’’ کامنوش کے ساتھ یہ لڑکی کون تھی؟ ‘‘زین لالہ نے حیران ہوکر ظہیر سے پوچھا۔
’’اس کی وہ سہیلی ہوگی شاید ‘ کیا نام ہے وہ ہر وقت جس کے قصیدے پڑھتی ہے آج کل یہ…ہاں، گلالئی…لیکن پتا نہیں اندازے سے کہہ رہا ہوں میں۔ ‘‘ ظہیر کے بجائے کمال نے بے تاثر لہجے میں کہا۔
’’اچھا اچھا…مگر یہ لوگ یہاں کمرے میں کیا کرنے آئے تھے۔‘‘ زین لالہ نے کہتے ہوئے ٹی وی کی طرف دیکھا۔
’’چھوڑو مڑہ زین ، فلم دیکھو ختم ہونے کو ہے ۔ بس یہی سینز اچھے ہیں اس فلم کے۔ ‘‘ زہیب لالہ نے اکتا کر ان کی توجہ فلم کی طرف مبذول کرنا چاہی اور وہ دوبارہ انہیں فلم کی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب ہوگئے۔
٭…٭
’’عقل کی اندھی ہو کیا یا جان بوجھ کر ایسے پاگلوں والے کام کرتی ہو۔ ‘‘ گلالئی اسے سائیڈ پہ لے جا کر اس پہ برس پڑی وہ شرم سے پانی پانی ہورہی تھی۔
’’سوری ناں۔ ‘‘وہ اپنی حرکت پر شرمندہ تھی۔
’’کوئی سوری ووری نہیں ۔ سب یہی سمجھیں گے کہ گلالئی ایسی لڑکی ہے جان بوجھ کر مردوں کے کمروں میں گھسی ہے ۔ کسی کو کیا پتا کہ تم سے واسطہ پڑا ہے میرا۔‘‘ وہ کچھ بھی سننے کے لیے تیار نہیں تھی پلٹ کر جانے لگی۔
’’رک جاؤ ناں پلیز ، ایسے تو مت جاؤ ۔ میں سب کو بتادوں گی کہ میری غلطی ہے ۔ مجھے کیا پتا تھا کہ لالہ لوگ وہاں ہیں میں تو صبح سے تمہار ے ساتھ تھی۔ ‘‘ وہ منمنا کر بولی۔
’’کوئی ضرورت نہیں مجھ پہ احسان کرنے کا ‘ اندر سے میرا برقع لے آؤ یا چھوڑو میں خود لے لیتی ہوں۔ ‘‘ وہ اسے ڈانٹ کر وہی پہنچی جہاں سعیدہ آنٹی نے اس کا برقع رکھا تھا۔
’’ارے ارے گلالئی بچے کیوں جارہی ہو ایسی بھی کیا جلدی ہے ۔‘‘ وہ برقع پہن کر جانے ہی لگی تھی کہ سعیدہ نے اسے پکارا تو وہ ان کی جانب پلٹ گئی۔
’’نہیں آنٹی پھر آجاؤں گی کہیں جانا ہے ہمیں۔‘‘ اس نے سہولت سے جھوٹ بولا۔
’’اچھا بچے لیکن کھانا تو کھا کے جاؤ تم نے تو ابھی کھانا بھی نہیں کھایا ۔ یہ جو تمہارے ساتھ پھر رہی ہے اسے بھی اتنی عقل نہیں کہ تمہیں کھانے کا پوچھے ۔ یہ تو ایسے ہی بھانس کی طرح بڑی ہورہی ہے ‘ ذراسی عقل نہیں اس میں۔ ‘‘ گلالئی سے بات کرتے ہوئے آخر میں ان کی سوئی ہمیشہ کی طرح کامنوش پر آکر ٹکی۔
’’نہیں آنٹی بس یوں سمجھے آپ نے کہا اور میں نے کھالیا، میری طبیعت ٹھیک نہیں سر میں درد ہے ۔ گھر جا کر آرام کرنا ہے اگلی بار آؤں گی تو کھانا کھا کر ہی جاؤں گی انشاء اللہ۔‘‘ گلالئی نے انہیں مطمئن کرانا چاہا۔
’’اچھا تم جاکے آرام کرو میں کھانا تمہارے گھر بجھوادوں گی رک جاتی تو اچھا تھا۔‘‘ انہوں نے مان کر آخر میں پھر سے اسرار کیا۔
’’ٹھیک ہے آنٹی اللہ پہ امان …‘‘ گلالئی اتنا کہہ کر رکی نہیں تیز تیز قدم لیتے ہوئے بیرونی دروازے کی طرف بڑھنے لگی۔
’’اللہ پہ امان بچے مور تہ دی زما سلام وایہ (امی کو میرا سلام کہنا) ۔ ‘‘ سعیدہ اسے جاتے ہوئے دیکھ رہی تھی جبکہ کامنوش سر جھکائے موٹے موٹے آنسو بہاتی سیڑھیاں چڑھتی ہوئی چھت پر پہنچ گئی آج اس کی دوست اس سے ناراض ہوگئی تھی۔
٭…٭
’’کیوں لائی تھی تم اس لڑکی کو وہاں ‘ ذرا برابر عقل ہے تم میں یا جو تھوڑی سی عقل ہے تم میں وہ بھی گھاس چرنے گئی ہے یا تمہیںپتا نہیں کہ جہاں مرد بیٹھے ہو وہاں کسی غیر محرم لڑکی کا آنامنع ہے۔ کتنی بری بات ہے، کیا سوچ رہی ہوگی وہ لڑکی کہ یہ لوگ مہمانوں کو بلا کر ان کو تحفظ نہیں دے سکتے ‘ پرائی خواتین کے پردے کا خیال نہیں رکھ سکتے ۔ ہمیں بدنام کرنے پہ تلی ہو تم۔‘‘ وہ چھت پر بیٹھی گلالئی کی ناراضگی کے بارے میں سوچ رہی تھی کہ زین لالہ اسے ڈھونڈتے ڈھونڈتے چھت پہ آگئے اور آتے ہی اس کو ڈانٹنے لگے۔
’’سوری لالہ مجھے سچ میں معلوم نہیں تھا کہ آپ لوگ ہمارے کمرے میں ٹی وی دیکھ رہے ہو۔ ‘‘ وہ ڈرتے ڈرتے آہستہ سے بولی۔
’’کیا اس گھر میں نہیں رہتی تم کہ پتا نہیں تھا تمہیں؟ خیال رکھنا چاہیے ایسی باتوں کا۔ ‘‘ انہیں اس پر شدید غصہ تھا۔
’’آپ تو غصہ نہ کریں ناں مجھ پر، گلالئی پہلے ہی مجھے بے تحاشہ سنا کے گئی ہے اوپر سے ناراض بھی ہوگئی ہے مجھ سے۔ ‘‘ وہ پھر سے روہانسی ہو کر بولی۔
’’اچھا کیا اس نے جو تمہیں بے عزت کیا ‘ میرا دل کررہا ہے رکھ کے لگاؤں میں تمہیں دو تین۔‘‘ وہ اسے وہی چھوڑ کر سیڑھیاں اترتے نیچے چلے گئے۔
٭…٭
گلالئی کی اس سے ناراضگی اگلے ہی روز ختم ہوگئی تھی ۔ ظاہر سی بات ہے غلطی تو کامنوش کی بھی نہیں تھی ۔وہ تو اتفاقاََ لے گئی تھی اسے وہاں اور گلالئی اس سے زیادہ دیر ناراض بھی تو نہیں رہ سکتی تھی ۔ پکی سہیلی بن گئی تھی اس کی کامنوش اس کے گھر جاکر اس سے ڈھیر ساری باتیں کرتی عالیہ اور مینا سے زیادہ اب اسے گلالئی پیاری لگنے لگی تھی ۔
زندگی کے شب و روز گزر رہے تھے ۔ کامنوش اب بڑی ہورہی تھی اس کے اکیلے گھر سے باہر نکلنے پر پابندی لگ چکی تھی ۔ وہ اب پہلے کی طرح روز روز گلالئی کے گھر بھی نہیں جاسکتی تھی ۔ اب وہ برقع لینے لگی تھی ۔وہ پانچویں میں اول پوزیشن لے کر پاس ہوگئی ۔ اس کی سہیلیاں عالیہ اور مینا پرائمری سے ہائی سکول میں منتقل ہوگئی مگر وہ ابھی تک گھر میں موجود لوگوں کے تاثرات دیکھ رہی تھی ۔ ان کے خاندان کی کوئی لڑکی ہائی سکول میں نہیں گئی بلکہ پانچویں تک بھی بہت کم لڑکیوں نے پڑھا تھا ۔ جیسے تیسے اس نے گھر میں بات چھیڑ ہی لی۔ ایک ڈیڑھ مہینہ طویل بحث چلنے کے بعد اسے اجازت مل گئی تھی کچھ اس کے آنسوؤں کا کمال تھا اور کچھ اس کے لاڈلے پن نے اس کے لیے راستے کھول دیئے تھے ۔ وہ بھی اب ہائی سکول جانے لگی تھی ۔ ہائی سکول میں اس کی مزید سہیلیاں بھی بن گئی تھی وہ پوری کلاس میں سب سے زیادہ ذہین تھی ۔ پرائمری کی طرح یہاں بھی اساتذہ کی چہیتی بن چکی تھی۔
ان دنوں وہ نویں جماعت میں تھی جب گھر میں زین لالہ کی شادی کی باتیں ہورہی تھی ۔ ابئی ان کی شادی کریم اللہ کی چھوٹی بیٹی سیما سے کرانا چاہتی تھی مگر بچپن سے اس کے خالہ کے بیٹے سے اس کی نسبت طے ہو چکی تھی اس لئے داجی نے ابئی کے اس خیال کو مسترد کیا اور پھر زین لالہ بھی چاہتے تھے کہ ان کی شادی کسی پاکستانی لڑکی سے ہو ۔ اسی لئے انہوں نے ابھی تک شادی بھی نہیں کی تھی ۔ حالاں کہ ان کے ہاں انیس بیس سال کی عمر میں شادی ہوجاتی ہے لیکن اب ابئی نے ان کے لئے لڑکی ڈھونڈنی شروع کردی تھی کیوں کہ ابئی کے مطابق تو ابھی تک سہیل کی بھی شادی ہوجانی چاہئے تھی۔
’’ابئی! کیوں ناں آپ زین لالہ کے لئے گلالئی کا رشتہ مانگ لیں ۔ لالہ ویسے بھی کسی پاکستانی لڑکی سے شادی کرنا چاہتے ہیں اور گلالئی کو تو ہم جانتے ہی ہیں میری سہیلی ہے۔‘‘ ابئی دھوپ میں چٹائی بچھائے مٹر چھیل رہی تھی جب کامنوش آکے ان کے ساتھ بیٹھ گئی اور چھوٹی سی پتیلی میں پڑے مٹر کے دانوں سے کھیلتے ہوئے بولی۔
’’بچے تم چھوڑو ان باتوں کو زین نے تو ایسے ہی بے تکی سی ضد پکڑی ہے ۔ کیا کوئی پاکستانی یہ جانتے ہوئے کہ ہم یہاں مسافر ہیں ہمیں اپنی لڑکی دے گا؟ ‘‘ ابئی اس کی بات کو رد کرتے ہوئے بولی۔
’’لیکن اب تو ہم یہاں سے کہیں نہیں جانے والے۔ ‘‘ وہ کندھے آچکا کر بولی۔
’’کامنوش ٹھیک ہی تو کہہ رہی ہے سعیدہ، تم نے آج تک کسی پاکستانی لڑکی کا ہاتھ مانگا بھی تو نہیں یہ تو تم نے خود سے طے کرلیا ہے کہ پرائے وطن میں کوئی تمہیں لڑکی نہیں دے گا۔‘‘ پودوں کو پانی دیتی شاہدہ چاچی ان کے جانب آکر بولی۔
’’لیکن شاہدہ…‘‘ وہ مٹر چھوڑ کر ان کی طرف متوجہ ہوگئی تھی۔
’’کوئی لیکن ویکن نہیں ابھی یہ کام وام ختم کرکے ہم جارہے ہیں ان کے گھر، تیاری کرلو۔ ‘‘ چاچی نے دوٹوک بات کی تو ابئی کچھ الجھی الجھی سی نظر آئیں۔
’’ابئی آپ زیادہ سوچیں مت اب ہم یہاں مسافر نہیں ہیں۔یہ ہمارا اپنا ملک ہے ہم یہاں سے کہیں جا تو نہیں رہے ہمارا اپنا کاروبار ہے یہاں ‘یہ گھر ہم لے چکے ہیں ۔ کیسے چھوڑ کے جائیں گے ہم اپنا سب کچھ۔‘‘ کامنوش انہیں سمجھانے لگی۔
٭…٭
سہ پہر کو ابئی اور چاچی گلالئی کے گھر اس کی ماں سے رشتے کی بات کرنے گئیں۔ جبکہ کامنوش صحن میں ٹہلتے ہوئے مسلسل دعائیں کررہی تھی اسے کوئی امید نہیں تھی کہ گلالئی کے والدین مان جائیں گے ۔ اس کے باوجود ابئی کو وہاں جانے کے لیے رضامند کیا … یہ پاکستانی اور افغانی ہونے کا تضاد اس کے دل میں خدشات پیدا کررہا تھا ۔ اگر گلالئی کا رشتہ زین لالہ سے طے ہوجائے تو سب سے زیادہ خوشی کامنوش کو ہی ہوگی کیونکہ وہ بچپن سے گلالئی کے بہت قریب رہی تھی۔ تھوڑی دیر بعد جب دروازے کی آواز اس کے کانوں سے ٹھکرائی تو وہ دوڑ کر باہر گئی۔
’’کیا ہوا؟ ‘‘ اس نے شٹل کاک کا برقع اتارتی ابئی سے پوچھا۔
’’کیا مطلب کیا ہوا؟ ‘‘ ابئی نے حیران ہو کر کہا۔
’’مطلب جس کام کے لئے آپ لوگ گئے تھے اس کا کیا بنا؟ ‘‘ دوبارہ اس نے تھوڑی سی وضاحت کرکے پوچھا۔
’’ارے ما بچہ ایسے تھوڑی نہ ہوتا ہے ۔ یہ کوئی فلم یا ڈرامہ تو نہیں ہے یہ حقیقی زندگی ہے ۔ آج تو ہم صرف سرسری سی بات کرنے کے لیے گئے تھے ، اگلی بار جائیں گے اگر انہوں نے اگلی بار بھی جواب نہیں دیا تو پھر جائیں گے ۔ انہیں منانے کی کوشش کریں گے کسی سے ان کی بیٹی مانگ رہے ہیں کوئی سودا کرنے نہیں گئے تھے ہم، جب بیٹی مانگنی ہو تو عزت سے مانگتے ہیں اور پھر سامنے والوں کے جواب کا تب تک انتظار کرتے ہیں جب تک وہ انتظار کرانا چاہیں اور یہ تو قسمت کی باتیں ہیں کہ کسی کی لاڈوں پلی ہمارے نصیب میں ہے بھی یا نہیں۔ ‘‘ ابئی کے بجائے چاچی نے تفصیلا اسے بتایا تو وہ بات کو سمجھتے ہوئے اپنے کمرے میں چلی گئی۔
٭…٭
بستر پر لیٹ کر آنکھیں بند کئے کامنوش آج کے دن ملنے والی خوشیوں کو سوچ رہی تھی ۔ آج کا دن کامنوش کے لئے بہت اہم تھا کیوں کہ آج اس کے بورڈ کا رزلٹ آنا تھا لیکن اسے رزلٹ سے زیادہ گلالئی لوگوں کے جواب کا انتظار تھا ۔ رزلٹ کا تو اسے پتا تھا کہ اسے پاس ہو ہی ہوجانا ہے ۔ آج چوتھی دفعہ ابئی لوگ ان کے گھر گئے تھے ۔ اس سے پہلے جب دوسری دفعہ یہ لوگ گئے تھے تو انہوں نے سوچنے کا وقت مانگا تھا پھر تیسری دفعہ گلالئی کی ماں نے ہاں کردی تھی لیکن اتنا کہا تھا کہ بہتر ہوگا مرد حضرات آپس میں بیٹھ کر یہ معاملات طے کریں ۔ اسی لیے آج داجی اور کاکاجی بھی ان کے ہمراہ گئے تھے ۔ طویل بات چیت کے بعد آخرکار سب کا منہ میٹھا کرادیا گیا ۔
افغان روایات کے مطابق جہیز نہیں لیا جاتا نہ ہی شادی پر لڑکی والے کسی قسم کا کوئی بھی خرچہ کرتے ہیں ۔ الٹا رشتہ پکا ہونے پر لڑکے والے لڑکی کے والدین کو ان کی ڈیمانڈ کے مطابق پیسے دیتے ہیں جس سے لڑکی کے کپڑے وغیرہ اور کچھ ضروری سامان خریدا جاتا ہے ۔ رشتہ دو ہی صورتوں میں طے ہوتا ہے یا لڑکی والوں کو پیسے دیئے جاتے ہیں یا وٹہ سٹہ ہوتا ہے ۔ وٹہ سٹہ کی صورت میں کوئی رقم نہیں دی جاتی ہے ۔ چونکہ زین کی شادی کسی وٹہ سٹہ کے تحت نہیں ہورہی تھی اس لئے داجی نے گلالئی کے والدین کو دس لاکھ روپے کی پیشکش کی جو کہ انہوں نے لینے سے انکار کیا کیونکہ وہ پاکستانی تھے ان کا ایسا کوئی رسم نہیں تھا ۔ تب ہی وہ بیٹی کے بدلے پیسے لینے کو اپنی توہین سمجھتے تھے لیکن باقی شادی افغان رسم و رواج کے مطابق ہی ہونی تھی یعنی کہ جہیز نہیں لیا جائے گا اور شادی کا سارا خرچہ لڑکا اٹھائے گا ۔ لڑکی والوں کی جانب سے ایک آنہ خرچ نہیں ہوگا ۔ شادی کے دن لڑکے والے اور ان کی جانب سے مدعو ہوئے سارے مہمان لڑکی کے گھر آتے ہیں ۔ لڑکی والے اپنی طرف سے بھی جتنے چاہے مہمانوں کو مدعو کرتے ہیں ۔ شادی کا کھانے پہ جتنا بھی خرچہ آتا ہے سارے اخراجات لڑکا اٹھاتا ہے پھر کھانا کھانے کے بعد شام کو لڑکے والے جو صبح سے لڑکی کے گھر پہ ہی ہوتے ہیں بارات لے کر رخصت ہوجاتے ہیں۔
کامنوش یہ سوچ سوچ کر خوش ہورہی تھی کہ اس کے بچپن کی سہیلی گلالئی اس کی بھابھی بننے والی تھی ۔ صرف کامنوش ہی نہیں سب گھروالے بے حد خوش تھے کیونکہ انہیں امید نہیں تھی کہ کوئی پاکستانی انہیں اپنی بیٹی دے گا ۔ آج یہ بھی ثابت ہوگیا تھا کہ یہ لوگ یہاں مسافروں کی طرح آئے تھے جنگ اور بدامنی سے بے حال ہوکر یہاں سکون کی تلاش میں آئے تھے لیکن اس تمام عرصے میں انہوں نے پاکستانیوں کے دلوں میں جگہ بنالی تھی کیوں کہ کسی پرائے کو کوئی بیٹی نہیں دیتا ۔ بیٹی دینے سے پہلے لڑکے اور اس کے گھر والوں کے بارے میں مکمل تحقیق کی جاتی ہے ان کی خامیوں کو ڈھونڈا جاتا ہے ۔ آج کامنوش کو پاکستان پہلے سے زیادہ اپنا لگ رہا تھا ان خوبصورت لوگوں میں رہ کر انہیں محبت اور اپنائیت ہی ملی تھی ان کے مابین نفرت کا بیج بونے والا کوئی نہیں تھا۔

پچھلا صفحہ 1 2 3 4 5 6اگلا صفحہ

Related Articles

2 Comments

  1. بہت پیارا ناول تھا مگر دل اُداس کر دیا۔ تھوڑی بہت جملوں کی غلطی تھی مگر وقت کے ساتھ قلم میں پختگی آ ہی جائے گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے