الوداع پاکستان: ایمان فیضان

’’یقینا کامنوش ہو تم؟ ‘‘ اچانک پیچھے سے کسی نے آنکھوں پر ہاتھ رکھا توعالیہ نے سوچ کر پورے اعتماد سے کہا تب کامنوش نے فوراََ سے پیشتر ہاتھ اس کی آنکھوں سے ہٹا کر مسکراتا چہرہ اس کی آنکھوں کے سامنے کردیا۔
’’تمہیں ہر بار کیسے پتا چل جاتا ہے کہ یہ میں ہوں۔ ‘‘ننھی کامنوش اب حیران ہو کر اپنی سہیلی سے پوچھ رہی تھی۔
’’کیوں کہ ایسا صرف تم ہی تو کرتی ہو اور دوسرا یہ موٹے موٹے ہاتھ تمہاریہی ہیں گولو مولو سے۔ ‘‘ عالیہ بولی تو کامنوش اور مینا کھلکھلائی۔
’’چلو چیندرو(کھیل کا نام) کھیلتے ہیں۔‘‘ عالیہ مسکراکر بولی تو ان دونوں نے بھی رضامندی ظاہر کی۔
’’پہلے پگم کریں گے۔ ‘‘ مینا کے کہنے پہ تینوں نے پگم کیا۔
’’اللہ، رومبی باری زما دہ (پہلی باری میری ہے ) ۔‘‘ کامنوش خوشی سے چلا اٹھی اور چاک اٹھا کر چیندرو بنانے لگی ۔ پہلے سرے پہ ایک گول دائرہ بنایا اور اسکے نیچے ترتیب سے تین خانے بنائے پھر ٹیپی اٹھا کر پہلے خانے میں پھینکی اور ایک پیر سے ایک خانے سے دوسرے میں چلانگ لگاتے ہوئے چیندرو کھیلنے لگی ۔
’’آؤٹ ہو گئی تم،آؤٹ ہوگئی۔‘‘ ٹیپی کو پاؤں کی مدد سے دھکیلتے ہوئے جب وہ لائن کے اوپر آکے رکی تو اچانک مینا اور عالیہ خوشی سے چلائی جبکہ کامنوش منہ بسورتے ہوئے چیندرو سے باہر آکے کھڑی ہوگئی اب کھیلنے کی باری مینا کی تھی۔
’’ تم اتنے بھاری فراک کیوں پہنتی ہو؟ مطلب ہم گھر میں شلوار قمیص پہنتے ہیں ۔ کہیں جانا ہو تو پھر مما فراک پہناتی ہے لیکن پھر بھی وہ تمہارے فراک سے ہلکے ہی ہوتے ہیں ۔ تم گھر میں بھی اتنے بھاری فراک پہنتی ہو چاہے گرمی ہو یا سردی۔ ‘‘عالیہ نے اس کے کپڑوں کا جائزہ لیتے ہوئے پوچھا۔
’’میری ابئی بھی فراک پہنتی ہے، میری چاچی بھی فراک پہنتی ہے اور ان کی بیٹیاں بھی فراک پہنتی ہے ۔ مجھے کیا پتا کیوں پہنتے ہیں ہم فراک۔‘‘ کامنوش نے کہتے ہوئے کندھے اچکائے۔
’’ مجھے تمہارے کپڑے بہت پسند ہے اور یہ تم پہ سوٹ بھی کرتے ہیں۔‘‘ عالیہ مسکرا کر بولی۔
’’اچھا لیکن مجھے تو تمہارے کپڑے اچھے لگتے ہیں ۔ میں نے ابئی سے کہا تھا کہ میرے لئے پاکستانیوں جیسے کپڑے سیا کریں لیکن انہوں نے کہا کہ ہمارا فراک پہننے کا رواج ہے ۔ یہ حیادار لوگوں کے کپڑے ہیں ، اس میں سے جسم نہیں چھلکتا اور یہ اٹھتے بیٹھتے،سوتے جاگتے ہر طرح سے آرام دہ بھی ہوتے ہیں ۔ اس لئے ہم شلوار قمیص نہیں بناتے ۔ ‘‘کامنوش معصوم سی شکل بنا کے تفصیل بتانے لگی۔
’’جب میں تمہیں گفٹ کروں گی تب تو تمہیں پہننے ہی ہوگے ۔ میں مما سے کہوں گی تمہارے لیے بھی ایسے کپڑے بنادیں ۔ پھر اس عید پر ہم دونوں ایک جیسے کپڑے پہنیں گے ۔‘‘ عالیہ نے اپنائیت سے کہا تو کامنوش سن کر چہک اٹھی۔
’’تم بہت اچھی ہو۔‘‘
’’وہ تو میں ہوں۔ ‘‘جواباََ عالیہ بھی ہنسی پھر وہ دونوں مینا کو دیکھنے لگی جو بڑی مہارت سے ٹیپی کو لائن سے بچاتے ہوئے کھیل رہی تھی۔
٭…٭
’’ہماری گڑیا کیا کررہی ہے؟‘‘ وہ سہیل لالہ کے ساتھ کمپیوٹر میں گیم کھیل رہی تھی جب داجی کی آواز سن کر فوراََ صوفے سے کود کر ان کی طرف بھاگ گئی۔
’’داجی!داجی ۔ ‘‘وہ خوشی سے چہکتی ہوئی ان سے لپٹ گئی۔
’’سمیع اللہ یہ سارا دن تمہارے گھر آنے کا انتظار کرتی ہے۔ بار بار پوچھتی ہیں داجی کب آئیں گے اور جب آجاتے ہو اس کی خوشی کی انتہا نہیں رہتی اب دیکھ لو ناں اسے۔‘‘ چاچی نے ابھی ابھی دوکان سے آئے سمیع اللہ کی گود میں چڑھی ہنستی ہوئی کامنوش کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔ ؎
’’داجی کی ننھی پری ہے ناں یہ تب ہی تو انتظار کرتی ہے۔‘‘ داجی کا پری کہتے ہی کامنوش کھکھلا کر ہنسی۔
’’اتار دے اسے سارا دن شرارتیں کرتے نہیں تھکتی اس وقت گود میں چڑھ جاتی ہے۔ ‘‘ سعیدہ ان کے ہاتھ سے شاپرز لیتے ہوئے بولی تو داجی نے کمرے کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے کامنوش کی طرف دیکھا پھر دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر یوں ہنسے جیسے سعیدہ کا مذاق اڑارہے ہو۔
’’داجی! عالیہ نے اس عید پر پہننے کیلئے مجھے پاکستانیوں جیسے کپڑے بنا کے گفٹ کئے ہیں، میرے اور عالیہ کے کپڑے ایک جیسے ہوں گے۔‘‘ وہ خوشی سے بتارہی تھی۔
’’کپڑوں سے کیا فرق پڑتا ہے ۔ تم تو شروع سے میری پاکستانی پری ہو میری گڑیا تو پیدا ہی پاکستان میں ہوئی ہے۔ ‘‘ داجی نے اس کی بات سن کر کہا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ کامنوش اپنے لئے پاکستانی کا لفظ سن کر کتنا خوش ہوتی ہے۔
’’میں دکھاتی ہوں آپ کو اپنے کپڑے بہت پیارے ہیں ۔ بس اب ابئی میری بات مان جائیں ورنہ ان سے میں مانگوں گی تو وہ ہمیشہ کی طرح مجھے ڈانٹ دیں گی ۔ آپ کی بیوی اتنی نک چڑھی ہے کس پہ گئی ہے ۔ ‘‘وہ پرجوش لہجے میں کہتے کہتے آخر میں معصوم سی شکل بنا کر رازداری سے بولی تو داجی اس کی بات پہ ہنسے بنا نہ رہ سکے۔
’’ابئی مجھے میرے کپڑے دے دیں، خیر ہے ناں، میں نے داجی کو دکھانے ہیں۔ ‘‘وہ منت کرتے ہوئے بولی تو اس کی توقع کے خلاف ابئی نے اسے کچھ بھی کہے بغیر کپڑوں کی تھیلی اس کے ہاتھ میں تھمائی اور وہ بھاگ کر داجی کے پاس پہنچ گئی۔
٭…٭
کامنوش اب سکول بھی جانے لگی تھی اور سپارہ پڑھنے بھی جاتی تھی ۔ اس کے محلے کی سہیلیاں عالیہ اور مینا بھی اسی کے کلاس میں تھی اس لئے اسے سکول اور مدرسے کی عادت ڈلوانے میں داجی اور ابئی کو زیادہ محنت نہیں کرنی پڑی اور کچھ کامنوش کی طبیعت ایسی تھی کہ ہر جگہ گھل مل جاتی تھی ۔ شام کو سہیلیوں کے ہمراہ مدرسے جاتے ہوئے لوگوں کے بند دروازوں کو کھٹکھٹا کر چھپ جانا اسے بے حد پسند تھا ۔ چھٹی کے دن گلی میں میرگاٹی، پٹپٹونے (چھپن چھپائی) اور چیندرو کھیلتے کھیلتے اسے کئی گھنٹے بیت جاتے تھے ۔ گرمیوں کی کوئی بھی دوپہر اس کے گڑیا کا گھر اور مٹی کے کھلونے بنائے بغیر ادھورا رہتا ۔ ابئی اسے آوازیں دے دے کر تھک جاتی مگر وہ گھر نہ آتی ۔ جب تک باقی بچیاں اپنے اپنے گھر نہ چلی جاتی وہ ان کے ساتھ کھیلتی رہتی ۔ جب گھر آجاتی تو برآمدے میں لٹکے اپنے جھولے میں چڑھ کر ہر گزرتے فرد کو آواز دیتی ’’مجھے جھولا دو‘‘ انہی دنوں ان کے پڑوس میں ایک گھر خالی ہوا تھا ۔ چند دن بعد اس میں نئے لوگ آگئے تھے ۔ وہ چاچی کے ساتھ ان کے گھر گئی تو وہاں اس سے پانچ چھ سال بڑی ایک لڑکی تھی ۔ اس کا نام گلالئی تھا وہ اپنے ماں باپ کے ساتھ وہاں رہتی تھی ۔ گلالئی کے بہن بھائی نہیں تھے ۔ وہ اکلوتی تھی اس سے پہلی ہی ملاقات میں کامنوش کی پکی دوستی ہوگئی تھی ۔ اب وہ عالیہ اور مینا کو بھی ساتھ لے جا کر گلالئی سے کھیلنے ان کے گھرجاتی تھی ۔ وہ اپنی گڑیا کو بھی لے کر جاتی گلالئی اس کی گڑیا کے لیے کپڑے بناتی ، اس کے ساتھ مل کر اس کی گڑیا کو سجاتی سنوارتی تو اس کی خوشی کی انتہا نہیں رہتی۔
ان ہی طرح کے خوبصورت یادوں کو جمع کرتے کرتے کامنوش بڑی ہورہی تھی ۔ پلے گروپ میں اول آکر وہ اب ایک سیڑھی مزید چڑھ گئی تھی ۔ اس کے اول آنے پر پورے محلے میں مٹھائی بانٹ دی گئی ۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے کامنوش بی بی میٹرک کر چکی ہو ۔ وہ بے حد ذہین تھی اور پڑھاکو بھی ‘ہر وقت کتابوں میں گھسی رہتی ۔ جس نے بھی کہا ہے لاڈ پیار سے بچہ بگڑ جاتا ہے سراسر غلط تصور ہے ۔ کامنوش بے انتہا لاڈ پیار کے باوجود ہر جماعت میں اول آرہی تھی ۔ باتونی اور خوش مزاج ہونے کے ساتھ ساتھ اس کی طبیعت میں ایک الگ سی عاجزی تھی۔
٭…٭
’’تمہیں پتہ ہے گلالئی ، کل میری گڑیا کی شادی ہوگی ۔ ہم گڑیا کو پارلر سے تیار کروائیں گے ۔ مینا پارلر والی ہوگی ‘ میں گڑیا کی ماں ہوگی اور عالیہ میری گڑیا کی ساس ہوگی اور باقی سب مہمان ہوگے اور وہ گلی میں سمعیہ لوگوں کی سیڑھیوں سے نیچے جو جگہ ہے وہ ہمارا شادی ہال ہوگا۔ ‘‘ کامنوش نے آتے ہی اسے اپنی گڑیا کی شادی سے آگاہ کیا۔
’’اچھا، پھر تو بہت مزا آئے گا۔‘‘ گلالئی اس کی معصومیت پر ہنستے ہوئے بولی۔
’’تم آؤ گی ناں شادی پر میں تمہیں دعوت دینے آئی ہوں ۔ بالکل اسی طرح جس طرح سچ مچ کی شادی میں ہم سب لوگوں کو بلانے ان کے گھر جاتے ہیں۔ ‘‘ کامنوش نے اسے آنے کی دعوت دی۔
’’نہیں۔‘‘ جواباََ وہ مایوس سا چہرہ بنا کر بولی۔
’’کیوں؟ ‘‘کامنوش نے سوال کیا۔
’’کیوں کہ تم سب چھوٹی ہو ۔ میں بڑی ہوں ‘اس لیے میں گلی میں نہیں کھیل سکتی ۔ میں تمہاری طرح گھر سے باہر بھی نہیں نکل سکتی ۔ صرف سکول جاتی ہوں اور بس۔ ‘‘اس نے مایوس ہو کر کہا۔
’’اچھا یہ تو بہت برا ہوا ۔ تم تو میری خاص مہمان تھی لیکن اگر میں گلی کے بجائے تمہارے گھر کو شادی ہال بنادوں تو تب تو تم میری گڑیا کی شادی میں مہمان بن سکتی ہو۔ ‘‘ وہ پہلے تھوڑی سی مایوس ہوئی پھر اچانک خوش ہو کر بولی۔
’’ہاں یہ ہوسکتا ہے۔ ‘‘ گلالئی نے اس کی آنکھوں میں دیکھ کر بچوں کے سے انداز میں کہا۔
’’تو پھر ٹھیک ہے ہم شادی چھت پر کریں گے ۔ تم سیڑھیاں چڑھ کر اوپر چھت پر آئوگی میں تمہارے استقبال میں پہلے سے وہاں کھڑی ہوں گی ‘ پھر جب تم آئو گی ہم گلے ملیں گے جس طرح مہمانوں کو خوش آمدید کہا جاتا ہے۔ ‘‘ اس نے ایک ہی سانس میں کہتے ہوئے گلالئی کو پورا منصوبہ سمجھا دیا۔
’’اوکے۔ ‘‘ گلالئی نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’گلالئی!دیبنوا راشہ بچے (ادھر آئو بچے)۔‘‘ گلالئی کی ماں نے اسے پکارا۔
’’ ہنہ امی درزم(جی امی آئی)۔ ‘‘ گلائی یہ کہتے ہوئے رکی نہیں اور کچن کی طرف بھاگی جہاں اس کی ماں کام کر رہی تھی جبکہ کامنوش وہی سیڑھیوں میں بیٹھی گملوں میں لگے خوش رنگ پھولوں کو دیکھتے ہوئے گلالئی کے واپس آنے کا انتظار کررہی تھی۔
’’اچھا تو اور کیا حال ہے۔ ‘‘ تھوڑی دیر بعد گلالئی واپس آکر اس کے ساتھ بیٹھ گئی۔
’’ایک بات پوچھوں تم سے۔ ‘‘ گلالئی کے بیٹھتے ہی کامنوش نے کہا۔
’’ایک سے کیا ہوتا ہے دو تین پوچھو۔ ‘‘ گلالئی اس کی طرف دیکھے بغیر بے دھیانی سے بولی۔
’’میں اپنی ماں کو ابئی کہتی ہوں ۔ تم امی کہتی ہو میری چاچی کی بیٹیاں انہیں اماں کہتی ہیں ، عالیہ مما کہتی ہے ، مینا مورے کہتی ہے ۔ ہم سب الگ الگ نام کیوں لیتے ہیں اس طرح باپ کو بھی میں داجی کہتی ہوں ، تم بابا کہتی ہو ، کوئی ابو کہتا ہے ، کوئی ابا کہتا ہے ، کوئی پاپا کہتا ہے ایسا کیوں ہے؟ کیوں ایک ہی نام سے نہیں پکارتے حالانکہ ہم سب پختون ہے ہم ایک ہی زبان بولتے ہیں اس کے لفظوں کی ادائیگی میں تھوڑا بہت فرق ہوتا ہے لیکن پھر بھی وہ ایک ہی الفاظ ہوتے ہیں۔‘‘
’’پتہ نہیں؟ یہ مجھے بھی نہیں پتا لیکن ہاں ہمیں جو لفظ سکھایا جاتا ہے ہم اسی سے مخاطب کرتے ہیں اور جسے جو لفظ پسند ہو وہ اپنے بچوں کو وہی سکھائے گا ۔ مجھے ایسا بھی لگتا ہے کہ تم نے جتنے بھی نام لیے اس میں سے جس طرح مما پاپا اکثر انگریز لوگ کہتے ہیں ۔ اس طرح ان ناموں میں سے کچھ اردو کے کچھ ہندکو کے ، کچھ پنجابی کے ، کچھ پشتو کے ہیں ۔ مطلب ہماری ساری زبانیں مکس ہوگئی ہے ۔ ہم پشتون ہیں لیکن پشتو کے کچھ الفاظ ایسے بھی ہیں جو آج تک ہم نے سنے بھی نہیں یعنی کہ ہم ایک زبان میں دوسری کو مکس کرتے ہوئے نئی زبانیں بناتے ہیں ۔ یا پتا نہیں اصل حقیقت کیا ہے لیکن مجھے ایسا لگتا ہے۔ ‘‘ گلالئی نے اس کے سوال کا سنجیدگی سے جواب دیا۔
’’تم کونسی کلاس میں ہو گلالئی؟ ‘‘ کامنوش نے اپنے پچھلے سوال پر مزید بحث کئے بنا نیا سوال کیا۔
’’آٹھویں میں۔‘‘ اس نے حیران ہو کر کہا۔
’’اچھا، میرے زین لالہ بارہویں میں ہیں، سہیل لالہ دسویں میں، ظہیر لالہ نویں میں اور کمال لالہ ساتویں میں۔‘‘ وہ اپنے بھائیوں کے بارے میں تفصیلا بتانے لگی۔
’’اور تم‘ تیسری میں؟ ‘‘ گلالئی نے تصدیق چاہتی نگاہوں سے اس کو دیکھ کر کہا تو اس نے اثبات میں سر ہلایا۔
’’تم سکول کیوں جاتی ہو؟ ‘‘ اس کے بے تکے سوال پر گلالئی عجیب سی نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی ۔ کبھی کبھی گلالئی کی چھوٹی سی سہیلی ایسا سوال کردیتی تھی کہ اسے سمجھ نہیں آتا تھا کہ اب اسے کیا کہے۔
’’اس لئے پوچھ رہی ہوں کہ مجھے ابئی کہتی ہے تم پانچویں کے بعد نہیں پڑھوگی ۔ جب لڑکیاں بڑھی ہوجاتی ہے تو پھر وہ سکول نہیں جاتی۔ ‘‘ گلالئی کے تاثرات سمجھ کر وہ خود ہی بول پڑی۔
’’اچھا، تو کیوں بڑی لڑکیاں سکول نہیں جاسکتی ‘ جب بڑے لڑکے جاسکتے ہیں تو بڑی لڑکیاں کیوں نہیں۔ ‘‘ گلالئی اس کی باتوں میں دلچسپی لے رہی تھی۔
’’پتا نہیں لیکن ابئی کہتی ہے کابل میں لڑکیوں کے زیادہ پڑھنے پر پابندی ہے ۔ اس لئے ہم سب افغان لڑکیاں دنیاوی تعلیم بس تھوڑا بہت ہی حاصل کرتی ہیں۔ میرے کاکاجی کی بیٹیوں نے بھی بس پانچویں تک ہی پڑھا ہے ‘ پھر باری باری ان کی شادیاں ہوگئی ۔ ان کے بیٹوں کی بھی شادیاں ہوگئی ۔ ان کا ایک بیٹا اور ایک بیٹی رہتی ہیں جس کی ابھی شادی نہیں ہوئی۔‘‘
’’اچھا، ایسا ہے ۔ لیکن تم نے تھوڑا نہیں پڑھنا ۔ تم بہت زیادہ پڑھو اور پھر تمہیں دیکھ کر باقی افغانی بھی اپنی بچیوں کو زیادہ پڑھائیں گے اور یوں تمہاریہاں لڑکیوں کی تعلیم عام ہونے لگے گی۔ ‘‘ گلالئی لہجے میں اس جیسی معصومیت لا کر اسے سمجھا رہی تھی۔
’’کیا سچ میں ایسا ہوسکتا ہے۔ ‘‘ وہ خوشی سے اچھل کر بولی تو گلالئی نے بھی مسکرا کر اثبات میں سر ہلایا۔
٭…٭
ربیع الاول شروع ہوچکا تھا ۔ نوشہرہ کی ہر مسجد سے دیر تک نعت شریف کی آوازیں آتی ‘ لوگ گھروں میں بھی میلاد کی محفلیں منعقد کررہے تھے ۔ ان دنوں ابئی نے بھی گھر میں ختم قرآن رکھی تھی ۔ محلے والوں کو سپارہ پڑھنے کیلئے بلایا تھا ۔ کامنوش خوشی سے پورے گھر میں گھوم رہی تھی کیونکہ اس کی سہیلی گلالئی بھی آئی تھی ۔ وہ اسے سپارہ پڑھنے ہی نہیں دے رہی تھی گھر کے ایک ایک فرد کو انگلی سے پکڑ کر اس سے ملوانے کیلئے لا رہی تھی۔
’’کیا ہوگیا ہے تمہیں کامنوش ؟ کیا بچوں والی حرکتیں کررہی ہو ۔ کوئی چھوٹی بچی تو ہو نہیں اب تم جو تمہاری اوٹ پٹانگ حرکتیں برداشت کرتی رہوں ۔ تمیز سے رہو ‘ اب اگر تم نے گلالئی کو یا کسی اور کو تنگ کیا تو اچھا نہیں ہوگا۔ گلالئی کو ہم تم سے بہتر جانتے ہیں اس لئے بخش دو سب کو۔ ‘‘ ابئی نے کچن میں بلا کر اس کی کلاس لی تو وہ منہ بسورتی مہمانوں کے کمرے میں جا کر گلالئی کے ساتھ ہی قالین پہ بیٹھ گئی۔
’’تقریباََ سب سے ملوادیا میں نے تمہیں ۔ بس جویریہ اور شبنم رہتی ہے ‘ ان کو بھی لے آؤں گی ‘ ابئی کی نظروں سے بچا کر، بے فکر رہو تم۔ ‘‘ وہ دھیرے سے گلالئی کے کان میں بولی مگر اس نے کوئی جواب نہیں دیا تو اس کا منہ مزید سکڑ گیا۔
خوب صورت ناول
بہت پیارا ناول تھا مگر دل اُداس کر دیا۔ تھوڑی بہت جملوں کی غلطی تھی مگر وقت کے ساتھ قلم میں پختگی آ ہی جائے گی۔