مکمل ناول

الوداع پاکستان: ایمان فیضان

’’میرے بھائی میری بات پر غور کرو ۔ میں تو آج واپس چلا جاؤں گا‘ لیکن تم اپنا نہیں تو کم از کم اپنے بیوی بچوں کے بارے میں سوچو ۔ ان کی زندگی تو خطرے میں مت ڈالو، بے بے کے بارے میں سوچو ۔ وہ تمہارے یہاں ہوتے ہوئے میرے ساتھ پاکستان جانے کے لیے کبھی رضامند نہیں ہوگی ۔ لیکن اگر تم چاہو تو ہم سب مل کر وہاں ایک اچھی زندگی گزار سکتے ہیں۔‘‘ کریم اللہ کو بڑا بھائی ہونے کا یہ فائدہ تھا کہ ان کے سامنے ان کی بات کو مسترد کرنے کی سمیع اللہ میں ہمت نہیں تھی ۔ چاہے ان کی کسی بات پر اسے اعتراض کیوں نہ ہو وہ پھر بھی آگے سے کچھ نہیں بولتے تھے ۔ اب بھی ایسا ہی ہورہا تھا۔
’’دیکھیں گے لالہ جو اللہ کو منظور ہو۔‘‘ وہ بس اکتا کر اتنا ہی بول سکے۔
’’دیکھیں گے نہیں مجھے جواب چاہئے تمہارا ۔ تمہارے بچے ابھی چھوٹے ہیں ۔ ان کی تعلیم و تربیت اس جنگ میں اس طرح نہیں ہو سکتی ‘ جس طرح کسی پرامن ماحول میں کرسکتے ہو ۔ یہاں وہ خوف کے سوا کچھ نہیں سیکھ پائیں گے ۔ ان کا سوچو ‘ یہ یہاں یونہی ڈرے سہمے رہیں گے کہ کب گولی آئے گی اور جس طرح ان کی بہن کو ختم کرگئی ان کے سینوں کو بھی چیرتے ہوئے نکل جائے گی ۔ اپنے بارے میں سوچو آج تم نے اپنی ایک بیٹی کھوئی ہے کل کو خدانخواستہ تم اپنا بیٹا کھودو تو کیا تم اس کے بعد بھی جی سکو گے ؟ بے بے اور اپنی بیوی بچوں کے بارے میں سوچو کل کو اگر خدانخواستہ تمہیں کچھ ہوجائے تو کیا وہ سب اتنا بڑا صدمہ سہہ پائیں گے۔‘‘ وہ بول ہی رہے تھے کہ عصر کی اذان ہونے لگی پھر سمیع اللہ اٹھ گئے تو کریم اللہ بھی ایک ٹھنڈی آہ بھر کر اٹھے اور ان کے ہمراہ مسجد چلے گئے واپسی پہ پھر وہی بحث چڑگئی۔
’’اچھا تو کیا خیال ہے تمہارا پاکستان کے بارے میں؟‘‘ کریم اللہ نے خوبصورت پیڑوں پہ نظریں جمائے سوال کیا۔
’’پتہ نہیں۔‘‘ دوسری سمت سے بے تاثر سا جواب دیا گیا۔
’’یعنی تمہارا میری بات ماننے کا کوئی ارادہ نہیں، ٹھیک ہے۔‘‘ وہ انتہائی ٹھنڈے لہجے میں بولے۔
’’نہیں لالہ ایسا نہیں ہے کہ میں آپ کی ماننا نہیں چاہتا یا میرے لئے آپ کی بات کی اہمیت نہیں لیکن ایک لمحے کو آپ بھی سوچے ناں میں پاکستان آجاؤں گا تو ہماری زمینوں اور باغات کا کیا ہوگا ۔ آج قبضہ ہمارے پاس ہے لیکن ہماری غیر موجودگی میں ہمارے ہاتھ سے نکل جائے گا اور اپنے باپ دادا کی جائیداد کو میں بیچنا نہیں چاہتا آپ اس کا کوئی حل نکالیں‘ پھر میں پاکستان جانے کیلئے تیار ہوں۔‘‘ اس نے ٹھہر ٹھہر کر کہتے ہوئے اپنی بات مکمل کی۔
’’اچھا تو یہ بات ہے ۔ دیکھتے ہیں کوئی نہ کوئی حل نکل آئے گا ۔ آج واپس جانے سے پہلے میں شکیب اللہ سے ملاقات کروں گا۔‘‘ وہ کچھ سوچتے ہوئے بولے تو سمیع اللہ نے ثابت میں سر ہلایا۔
٭…٭
’’شکیب اللہ آئے گا بے بے سے اور تم سے ملنے ۔ ‘‘کریم اللہ نے اپنے سامان کی تھیلی اٹھاتے ہوئے کہا تو داجی نے گلے ملتے ہوئے جی کہا۔
’’کاکاجی آج رک جائیں ناں کل چلے جائیں گے۔‘‘ زین نے ان سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا۔
’’نہیں پھر آجاؤں گا بلکہ اب تو شاید تم لوگ پاکستان آجاؤ۔‘‘ انہوں نے پیار سے اس کے بالوں کو انگلیوں سے الجھا کر کہا۔
’’کب جارہے ہیں ہم پاکستان۔‘‘ کمال نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا۔
’’ہم پاکستان کیوں جائیں گے کیا ‘ زہیب بھائی کی شادی ہے؟‘‘ زین نے بھی حیرت سے پوچھا تو باقی بچوں کے چہروں پر بھی مسکراہٹ چھا گئی۔ ان کے داجی اور کاکاجی بھی ایک دوسرے کو دیکھ کر ہنسے۔
’’نہ بچے شادی تو تمہارے بغیر ہو بھی نہیں سکتی لیکن اگر تمہارے داجی نے چاہا تو تم پاکستان رہنے کیلئے آؤ گے ‘ جیسے ہم اور تمہارے بہن بھائی(ان کے بچے) رہتے ہیں۔‘‘
’’اچھا۔‘‘ اس نے سمجھتے ہوئے کہا تو کاکاجی نے اس کا ماتھا چوما اور پھر باقی بچوں سے ملنے کے بعد بے بے سے ملے اور چلے گئے ۔ سمیع اللہ ان کے ساتھ باہر نکل گئے جب کہ بے بے دروازے میں کھڑی ان پر دعائیں پڑھ کر پھونک رہی تھی۔
کریم اللہ کو نکلے دو گھنٹے ہو چکے تھے جب دروازے پر دستک ہوئی اور ان کی توقع کے مطابق شکیب اللہ آچکے تھے ان کو داجی نے بے بے کے کمرے میں بٹھا دیا۔
’’کیسے آنا ہوا شکیب اللہ ، باپ کے مرنے کے بعد پہلی بار آج تم اپنی اس ( سوتیلی) ماں سے ملنے آئے ہو۔‘‘
’’بس کیا بتاؤں بے بے ، مصروفیت ہی اتنی ہے ۔‘‘ وہ بات کے دوران مسلسل قالین پر انگلی کچھ الٹی سیدھی لکیریں بنانے کے طرز میں ہلا رہا تھا۔
’’کبھی کبھی چکر لگا لیا کرو ۔ میں یاد کرتی ہوں تم لوگوں کو ‘ میرے صرف دو ہی بچے تھوڑی ہے ۔ میرے تو نو بچے ہیں دو کریم اللہ اور سمیع اللہ اور سات تم بہن بھائی۔ ‘‘ وہ مروت سے بولتے ہوئے ان سے ملنے کے لیے نہ آنے کا گلہ کررہی تھی۔
’’جی بے بے ان شا ء اللہ کیوں نہیں، کامنوش بیٹی کی میت پہ تین دن میں آیا تھا لیکن ظاہر سی بات ہے زنانے میں آکر آپ سے مل نہیں سکتا تھا ۔ اس لئے سوچا بعد میں چکر لگالوں گا ۔ ‘‘ وہ ان کا حکم بجا لاتے ہوئے بولے ۔ اتنے میں سعیدہ قہوہ اور اس کے ساتھ خشک میوے اور گڑ لائی، اب وہ گھونگٹ گرائے شکیب اللہ کے کپ میں سبز قہوہ انڈیل رہی تھی۔
’’ بچے کیسے ہیں لالہ؟ گھر میں سب خیر ہے؟ ‘‘سمیع اللہ نے مسکراتے ہوئے ان کی خیریت معلوم کی۔
’’سب ٹھیک ہے الحمدللہ ۔ کریم اللہ ملنے آیا تھا مجھ سے، اس حوالے سے بات کرنی تھی مجھے آپ لوگوں سے۔ ‘‘وہ پستہ چھیل کر منہ میں رکھتے ہوئے بولے۔
’’جی اچھا، لالہ نے کہا تھا مجھے۔‘‘ داجی پرسکون انداز میں بولے۔
’’کریم اللہ چاہتا ہے کہ تم، بے بے اور تمہارے بیوی بچے پاکستان شفٹ ہوجائیں ۔‘‘
’’ اگر تم جانا چاہو تو اس گھر اور اپنے باغات کی فکر بالکل مت کرنا تم جاتے ہوئے جو تالا لگا کے جاؤ گے ‘ جب واپس آکر دیکھو گے تو وہی تالا لگا ہوگا ۔ یہ گھر، تمہارے انگور اور انار کے باغات اورسڑک والی زمینیں بھی حتیٰ کہ تمہارے اور کریم اللہ کے سارے اثاثے میرے تحفظ میں ہوں گے۔‘‘ وہ انہیں مطمئن کرنے کی کوشش کررہا تھا۔
’’لیکن ہمارے جانے میں آپ کا کیا فائدہ ہوگا لالہ۔‘‘ داجی کچھ سوچتے ہوئے بولے۔
’’تمہارے زمینوں اور باغات کی آمدنی۔ جتنی بھی آمدنی ہوگی آدھی میں تمہیںاور کریم اللہ کو بھیجا کروں گا اور آدھے پیسوں پر میرا حق ہوگا۔ ‘‘ انہوں نے بلا تمہید کہا تو جواباََ سمیع اللہ اور بے بے دونوں خاموش رہے۔
پھر کچھ ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد شکیب اللہ چلے گئے جبکہ بے بے اور داجی کے مابین گفتگو جاری تھی۔
’’سمیع اللہ! بچے بس اب بات مان لو خدے کرے ناکام دے نو (اب اللہ کی طرف سے آئی مشکل ہے تو)۔‘‘
’’لیکن بے بے مجھے اس آدمی پر بالکل بھی بھروسہ نہیں ہے ۔ ‘‘ داجی شکیب اللہ کے بارے میں کہہ رہے تھے۔
’’لیکن بھروسہ کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ۔ میں اس گھر میں جہاں سے بھی گزرتی ہوں اپنی کامنوش کی یاد آتی ہے، مرتے وقت کتنی تکلیف سہی ہوگی میری بچی نے۔‘‘ ابئی بولتے ہوئے رونے لگی تو زین نے آکے خاموشی سے ان کے ہاتھ تھامے جبکہ داجی چپ سے ہوگئے۔
٭…٭
دو دن خاموشی سے گزر گئے تیسرے دن دوپہر کو دسترخوان پر کھانا کھاتے ہوئے داجی ایک لمحے کو رکے پھر بولے۔
’’تم لوگ تیاری کرو ہم پاکستان جارہے ہیں۔‘‘
’’کیا کہا آپ نے داجی! ہم کاکا جی کے گھر جائیں گے؟ ‘‘ ظہیر نے کہا تو داجی نے اثبات میں سر ہلایا۔
’’ہمارے سکول کا کیا ہوگا؟ ‘‘ سہیل نے ہاتھ روکتے ہوئے پوچھا۔
’’وہاں سکول بھی ہوں گے اور مدرسے بھی تمہاری پڑھائی کا حرج نہیں ہوگا ان شاء اللہ۔‘‘ داجی نے اسے دیکھے بنا کہا۔
’’کریم اللہ کو ابھی سے پیغام پہنچادو تو اچھا ہوگا۔‘‘ بے بے نے سمجھاتے ہوئے کہا۔
’’کریم اللہ لالہ کو بھی بتا دیا ہے اور شکیب اللہ کے ساتھ بھی سارے معاملات طے کرلیے ہیں، بے فکر رہیں آپ۔ ‘‘ داجی کہتے ہوئے اٹھ گئے۔
’’میں تقریباََ ساری تیاری کرچکا ہوں ۔ ہم پرسوں یہاں سے روانہ ہوجائیں گے ، آپ لوگ سامان وغیرہ سمیٹ لیں۔‘‘ داجی کہہ کر اٹھ گئے۔
مقررہ دن پر سامان کو ٹرک میں لاد کر یہ لوگ بھی گھر کو تالا لگا کے نکلے ، پہلے کابل سے جلال آباد پہنچے پھر تورخم میں بارڈر کراس کرنے کے بعد کریم اللہ لالہ کو ڈھونڈنے لگے ۔ اب یہ لوگ پاکستان کے حدود میں داخل ہوچکے تھے ۔ بارڈر کراس کرنے کے بعد تورخم اڈے پہ یہ لوگ کریم اللہ کے لیے رکے ہوئے تھے ۔ یہاں ہر عمر سے تعلق رکھنے والے افراد مزدوروں کی صورت دکھائی دے رہے تھے ۔ بہت ساری گاڑیاں آ اور جا رہی تھیں ۔ کچھ افراد وہیل چیئر پہ تھکے ہوئے مسافروں کو بٹھا کر سفر طے کروارہے تھے۔ ٹرک بھر بھر کر پھل اور سبزیاں افغانستان سے پاکستان درآمد ہورہی تھی ۔ حیرت ہوتی ہے کہ اتنے بارود برسنے کے باوجود بھی افغانستان کی زمین ایسے میٹھے پھل اتنی زیادہ مقدار میں فراہم کرتی ہے۔
تھوڑی دیر بعد اسی اڈے کے ہجوم میں انہیں کریم اللہ ملے پھر ان کو ساتھ لیتے ہوئے ان کا ٹرک جمرود کے راستے پشاور اور پھر پشاور سے نوشہرہ پہنچ گیا۔
٭…٭
’’ پخیر راغلی پخیر راغلی مونر بنو ستاسو لاری تہ کتل (ہم تو آپ کا راستہ تک رہے تھے) ۔ ‘‘گھر کے اندر داخل ہوتے ہی بڑی گرمجوشی سے انکا استقبال کیا گیا ۔
بے بے بار بار گھر کا جائزہ لے رہی تھی ۔ چار کمروں پر مشتمل کرایے کا یہ گھر ان کے افغانستان والے گھر سے بالکل مختلف تھا ۔ تقریباََ دس مرلوں میں بنے اس گھر میں صحن برائے نام ہی تھا ۔ دھلے ہوئے پکے فرش چمک رہے تھے ۔ دیواروں پر وال پیپرز لگے تھے اور چھت پر سیلنگ ہوئی تھی ۔ دیکھنے میں کافی اچھا لگتا تھا یہاں زندگی گزارنے کی ہر سہولت دستیاب تھی ۔ یہاں جدید طرز پہ بنا کچن ان کے باورچی خانے سے کہیں زیادہ صاف ستھرا اور پرکشش تھا مگر دل تو کابل کے اس کشادہ گھر میں اٹکا ہوا تھا ۔ باورچی خانے میں انگھیٹی اور چولہے سے تھوڑے فاصلے پر بچھی چٹائی یاد آرہی تھی اور اب تو بیرونی دروازے پہ لگا تالا ذہن میں منڈلارہا تھا جو وہاں سے آتے ہوئے لگایا تھا۔
’’بے بے اتنی پریشان کیوں بیٹھی ہو،جب سے آئی ہو باتیں ہی نہیں کررہی ہو۔‘‘ کریم اللہ کی بیوی شاہدہ نے پیار سے بے بے کے قریب بیٹھتے ہوئے پوچھا۔
’’کچھ پرایا پرایا لگ رہا ہے آج یہ گھر۔‘‘ بے بے اسی پریشانی سے بولی۔
’’بے بے یہ آپ کا اپنا گھر ہے اور آپ تو یہاں پہلے بھی آتی رہی ہیں۔ سعیدہ اور سمیع اللہ یہ بات کریں تو سمجھ میں آتی ہے آپ کو کیسے پرایا لگ رہا ہے یہ گھر ، ان کا گھر اپنا لگتا ہے آپ کو اور ہمارا گھر پرایا لگ رہا ہے۔ ‘‘ شاہدہ کچھ خفا سی ہوئی۔
’’تو ہے ناوہ میرا اپنا گھر، وہاں میں دلہن بن کے آئی تھی ۔ اپنے دو بیٹوں کو جوان کیا ، ان کی شادیاں کروائی اور اب تو تمہارے بچوں کی بھی شادیوں کی عمر ہے ۔ پہلے میں آتی تھی تو واپس اپنے وطن جانے کی امید ہوتی تھی لیکن اب تو کوئی امید نظر نہیں آرہی ہے ۔ میرا دل یہاں نہیں لگ رہا ہے۔ ‘‘ بے بے نے اس کی جانب دیکھ کر کہا۔
’’بے بے ہمارا گھر زیادہ پیارا ہے ۔‘‘ کریم اللہ کی سب سے چھوٹی بیٹی سیما آکر دادی کی گود میں چڑھ کر بولی تو بے بے سمیت، شاہدہ، ان کے قریب بیٹھی سعیدہ اور سیما کی بڑی بہنیں بھی مسکرائی۔
’’لوری کور دی نصیب شہ ماتہ دہ پردی محل نہ خپلہ جونگڑہ گرانہ دہ (بیٹی یہ گھر تمہیںنصیب ہو لیکن مجھے پرائے محل سے اپنی جونپڑی عزیز ہے)۔‘‘ بے بے نے اس کا گال چومتے ہوئے کہا۔
٭…٭
انہیں پاکستان آئے ہوئے تقریباََ ایک سال ہو چکا تھا ۔ اللہ نے سعیدہ کو ایک چاند سی بیٹی سے نوازا ۔ بے بے نے اپنی پوتی کا نام کامنوش کے نام پر رکھا ۔ جس کا خون بے قصور کابل کی پہاڑیوں میں بہہ چکا تھا مگر اللہ اگر ایک بار چھین سکتا ہے تو دوبارہ نواز دینے پر بھی قدرت رکھتا ہے ۔ کامنوش ماشاء اللہ اپنی مرحوم بہن کی طرح ہی خوبصورت تھی ۔ پورے گھر میں جشن کا سماں تھا ۔ جہاں ہر چہرے پر خوشی اور طمانیت تھی وہاں دلوں میں ان سے بچھڑی ہوئی وہ معصوم روح بھی بسی ہوئی تھی ۔ انہی خوشی کے دنوں میں ہی بے بے ایک مرتبہ رات کو سوئی ضرور مگر صبح اٹھ نہ سکیں۔ جہاں کامنوش نے اپنی آمد سے لبوں پہ مسکراہٹیں بکھیر دی تھی وہی بے بے نے دنیا سے بچھڑتے ہوئے کئی آنکھوں کو اشک بار کردیا تھا ۔ کچھ دنوں پہلے والا جشن اب سوگ کی صورت اختیار کر چکا تھا ۔ بے بے کو نوشہرہ میں ہی دفنادیا گیا اپنے وطن،اپنی سرزمین سے کافی دور مٹی تلے لیٹی بے بے نے کب چاہا تھا کہ وہ پرائے دیس میں دفنا دی جائے۔
٭…٭
’’ابئی! سب گلی میں کھیل رہے ہیں آپ مجھے باہر کھیلنے کیوں نہیں چھوڑتی؟ مجھے بھی عالیہ اور مینا کے ساتھ کھیلنا ہے۔ ‘‘ چار سالہ کامنوش رونی صورت بنائے اپنی ماں کے سامنے کھڑی بول رہی تھی۔
’’نہیں تم گھر میں ہی کھیلو اپنی سہیلیوں کو کہو یہی آ کر تم سے کھیلیں۔‘‘ ابئی اس کی طرف دیکھے بنا بولی۔
’’مگر کیوں؟ گھر میں کون کھیلتا ہے؟‘‘ وہ اب باقاعدہ رونے لگ گئی تھی۔
’’ابئی، چھوڑیں جانے دیں ناں اسے۔‘‘ برآمدے میں چٹائی بچھائے الیکٹرک ہیٹر کو کھولے اس کی تاروں کو جوڑنے میں لگا زین بولا۔
’’ابئی ، اب تو لالہ نے بھی سفارش کردی ہے میری اب تو جانے دیں مجھے۔ ‘‘ زین کی سفارش پر اس کی رونی صورت میں جیسے جان آگئی تھی۔
’’کہہ دیا ناں میں نے نہیں جاؤگی تم ایک بات کی سمجھ نہیں آتی۔‘‘ بولتے ہوئے ابئی کی آنکھیں بھیگ گئی تھی۔
’’ابئی ، ضد چھوڑیں ‘اسے جانے دیں ۔جاؤ تم جاکر کھیلو لیکن آدھے گھنٹے کے اندر اندر گھر آجانا۔‘‘ زین اب ہیٹر چھوڑ کر یہ مسئلہ سلجھارہا تھا۔
’’مننہ لالہ(شکریہ بھائی)۔ ‘‘ کامنوش فوراََ سے پہلے بھاگ کر باہر نکل گئی۔
’’زین میں ایک بیٹی کھو چکی ہوں دوسری کھونا نہیں چاہتی ۔ تم شاید بھول چکے ہو مگر مجھے یاد ہے وہ بھی کھیلنے گئی تھی۔ ‘‘ ابئی غصے میں بولتے ہوئے نم آنکھوں کو صاف کرتی زین کے ساتھ ہی آکر بیٹھ گئی تھی۔
’’او مڑہ ابئی وہ کابل تھا ‘یہ پاکستان ہے ۔ وہاں جنگ تھا یہاں امن ہے ۔ آپ بے فکر رہیں ہماری گڑیا کو کچھ نہیں ہوگا ۔ وہ یہاں محفوظ ہے ‘بس آپ دعا کریں ہمارے بھی ملک میں امن آجائیں تاکہ ہم اپنی گڑیا کو بھی چکر لگوائیں ناں کابل کا۔‘‘ زین مسکرا کر انہیں سمجھانے لگا تو وہ پھر سے اٹھ بیٹھی۔
٭…٭

پچھلا صفحہ 1 2 3 4 5 6اگلا صفحہ

Related Articles

2 Comments

  1. بہت پیارا ناول تھا مگر دل اُداس کر دیا۔ تھوڑی بہت جملوں کی غلطی تھی مگر وقت کے ساتھ قلم میں پختگی آ ہی جائے گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے