مکمل ناول

الوداع پاکستان: ایمان فیضان

فرش پہ بچھے گہرے سرخ رنگ کے خوبصورت قالین پہ اپنا بستر بچھاتے ہوئے مسلسل اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے ساتھ والے کمرے سے زین لالہ اور گلالئی کے لڑنے کی آوازیں اس کی سماعتوں سے ٹھکرا کر اسے مزید خوفزدہ کئے جارہی تھی ۔
’’میں افغانستان نہیں جائوں گی چاہے کچھ بھی ہوجائے۔‘‘ گلالئی کی آواز میں رندھی بے بسی اس کو بہت تکلیف دے رہی تھی۔
’’آہستہ بولو،داجی لوگ سورہے ہوں گے۔‘‘ اب کی بار مدھم آواز میں ٹوکنے والے زین لالہ تھے۔
’’اپنے داجی اور ابئی کی فکر ہے اور میرا کیا میں، میری امی اور بابا کا کیا۔ میں انہیں یوں اکیلا چھوڑ کر تمہارے ہمراہ نہیں جاؤں گی۔‘‘ گلالئی کے لہجے میں آنسوؤں کی آمیزش بالکل صاف سنائی دے رہی تھی۔
’’جانا تو تمہیں پڑے گا ۔ میں نے شادی اس لیے نہیں کی کہ بیوی کو کہیں بھی چھوڑ دوں ، تم میری ذمہ داری ہو اور میرے ساتھ ہی جاؤگی کہ یوہ سترگہ دی خاندی او بلہ جاری ام بم حئی(چاہے تمہارا ایک آنکھ روئے اور دوسرا ہنسے پھر بھی جاؤگی) سونے دو مجھے تم سے بحث فضول ہے۔‘‘
’’اگر ایسا ہے تو پھر ٹھیک ہے میں بھی دیکھتی ہوں کس میں اتنی ہمت ہے ۔ ‘‘ آج بھی بنا کسی نتیجے پہ پہنچے لڑائی اختتام پذیر ہونے والی تھی ۔ وہ نہیں جانتی تھی ایسا کب تک چلنے والا تھا اور مستقبل میں کیا ان کا مقدر تھا وہ تو بس یہ سوچ سوچ کر ہی ہلکان ہورہی تھی کہ وہ بہت جلد پاکستان کو چھوڑ کر جانے والی ہے ۔ یہاں سے وابستہ ہر چیز، ہر جگہ،ہر انسان جن سے روح کا رشتہ تھا جن کے درمیان آج تک اپنائیت تھی ، اب جاتے ہوئے ہر بندہ اجنبی لگ رہا تھا۔
’’کامنوش بچے او کامنوش! قہوے کا پانی چڑھا دو میں تھوڑی دیر میں باورچی خانے آکے دیکھتی ہوں۔‘‘ ابئی کی آواز پہ وہ چونک کر اپنے خیالوں سے باہر نکل آئی۔
’’جی قہوہ میں بنا دوں گی آپ بے فکر رہیں ۔‘‘اس نے پلٹ کر اتنا تیز کہا کہ ابئی تک آواز پہنچ جائے۔
٭…٭
’’یاللہ خیر، سب کمرے میں آؤ کوئی باہر نہیں نکلے گا ظہیر، سہیل، کمال بچے اندر آؤ۔‘‘ گولیوں کی آوازیں کان میں پڑتے ہی وہ بھاگی اور تین سالہ کامنوش کو گود میں اٹھا کر باقی بچوں کو بھی اندر کرنے لگی۔
’’زین کیا کہا تم سے اندر آؤ بچے ‘باہر بارود برس رہے ہیں جلدی آؤ۔‘‘
’’ابئی دروازہ بند کررہا ہوں۔‘‘ زین گھر کے بیرونی دروازے کی کنڈی لگانے لگا تھا۔
’’نہیں دروازہ کھلا چھوڑ دو تمہارے بابا نے آنا ہے ۔ وہ باہر ہے تم فوراََ آؤ اندر ۔‘‘ وہ پریشانی کے عالم میں چیختے ہوئے باتیں کررہی تھی ۔ خوف نے اس کے دل کو اپنے حصار میں لے رکھا تھا۔
’’تم لوگ بہن کا خیال رکھو ‘ میں آتی ہوں۔ ٹی وی لگا کے دیکھ لو تم لوگ اور ہاں بہن کا دھیان رکھو ۔ یہ باہر نہ نکلنے پائے۔ ایسا کرتی ہوں کمرے کا دروازہ میں باہر سے ہی بند کرلیتی ہوں اور تم لوگ ڈرو نہیں کچھ نہیں ہوگا، تھوڑی دیر میں سب پہلے جیسا ہوجائے گا۔ ٹی وی لگاؤ۔‘‘ وہ بچوں کو ہدایات دے کر پلٹ رہی تھی۔
’’مگر ابئی ‘ داجی کب تک آجائیں گے مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے۔‘‘ سہیل کی آواز پردوبارہ متوجہ ہوئی جو کمرے کے ایک کونے میں سہما ہوا بیٹھا تھا۔
’’باہر جنگ ہورہا ہے اور داجی باہر ہے اگر انہیں کچھ ہوگیا تو۔‘‘ زین بولتے ہوئے رورہا تھا۔
’’نہیں میرے بیٹے کچھ نہیں ہوگا داجی کو ‘ وہ آجائیں گے اور تم لوگ اللہ سے دعا کرو ناں کہ وہ خیر خیریت سے گھر آجائیں، اللہ سب ٹھیک کردے گا اللہ پہ بھروسہ رکھو وہ سب کی دعائیں سنتا بھی ہے اور قبول بھی کرتا ہے۔‘‘ وہ بچوں کو تو سینے سے لگا کر تسلی دے سکتی تھی مگر اپنے دل کا کیا کرتی جسے ڈر اور بے چینی گھیرے ہوئے تھی۔
’’ابئی تم بھی ہمارے ساتھ بیٹھو ناں ہمیں بہت ڈر لگ رہا ہے۔ ‘‘ظہیر خوف کو آنکھوں میں سمائے بولا۔
’’ارے میرے بچے ڈرتے تو کمزور لوگ ہیں اور میرے بچے تو سب ہی بہت بہادر ہیں اور یہ جنگ یہ تو ہماری زندگی ہے ۔ اس کی تو اب ہمیں عادت ڈال لینی چاہئے اور تم دیکھنا شام تک سب پہلے جیسا ہوجائے گا ۔ اتنی دیر تک نہیں چلنے والی یہ گولیاں۔ تھوڑے سے یہ لوگ ٹھنڈے پڑے گے تو داجی بھی گھرآجائیں گے ان شاء اللہ … نہیں، نہیں،نہیں روتے میرے بچوں بہادر ہو تم لوگ۔‘‘ وہ ان کے ساتھ نیچے بیٹھ چکی تھی۔
’’میں بھی بہادر ہوں اور میرا داجی بھی۔‘‘ کامنوش اپنی توتلی زبان میں بولی تو ماں اور بھائیوں کے اترے ہوئے چہروں پر مسکراہٹ لانے میں کامیاب ہوئی۔
’’ہاں ناں میرا بچہ تم تو سب سے زیادہ بہادر ہو۔‘‘ وہ بیٹی کو پیار کررہی تھی جب اچانک کانوں کے پردوں کو چیر دینے والی درززز… کی ایک تیز آواز آئی ‘ پانچوں بچے کانوں پہ ہاتھ رکھے ڈر کے مارے فورا ماں سے لپٹے جو خود اب خوف اور بے بسی سے رورہی تھی۔
٭…٭
پوری رات گولیوں کی آوازیں آتی رہی ۔ صبح فجر کے وقت جاکر فضا میں کچھ خاموشی چھاگئی ۔ بچے پوری رات کے جاگے ہوئے تھے، سوگئے مگر ان کے داجی ابھی تک گھر نہیں آئے تھے ۔ ابئی ان کی ان ہی کی طرح ڈری سہمی بچوں کو سوتے ہوئے دیکھ کے آنسو بہا رہی تھی ۔ ایسے مشکل وقت پہ گھر میں شوہر کی غیر موجودگی واقعی اسے بہت تکلیف دے رہی تھی اگر بے بے یعنی اس کی ساس گھر پہ ہوتی تو بھی اسے ڈھارس ہوتی کیونکہ وہ ایک مضبوط اعصاب رکھنے والی خاتون تھی مگر وہ اپنے بڑے بیٹے کریم اللہ کے پاس پاکستان گئی تھی ۔ وہ اس کے سسر کی دوسری بیوی تھی اور ان کے دو ہی بیٹے بڑے کریم اللہ اور چھوٹے اس کے شوہر سمیع اللہ تھے کریم اللہ کی چھ بیٹیاں اور تین بیٹے تھے اور سمیع اللہ کے چار بیٹے اور سب سے چھوٹی ایک بیٹی تھی ۔ کریم اللہ ایک سال پہلے بیوی بچوں کو لے کر پاکستان چلے گئے تھے جبکہ سمیع اللہ اپنے آبائی گھر کو یوں ویران چھوڑ کر جانے کیلئے رضامند نہیں تھے ان کی کابل میں اچھی خاصی زرخیز زمینیں تھی جس کی رکھوالی وہ خود کرنا چاہتے تھے ۔ اسے لگتا تھا ان کے جاتے ہی ان کے حصے کی ساری جائیداد اور اس گھر پر بھی ان کے سوتیلے بھائی قبضہ جمالیں گے اور ان دوبھائیوں کے ہاتھ خالی رہ جائیں گے اور ان معاملات میں سب سے زیادہ تکلیف اس کی بے بے کو ہوتی اور وہ انہیں یہ تکلیف نہیں دینا چاہتا تھا۔
٭…٭
اگلے دن مکمل خاموشی تھی مگر وہ بچوں کو باہر نکلنے نہیں دے رہی تھی ۔ بچے مسلسل داجی کا ہی پوچھ رہے تھے اس کا اپنا بھی دل پریشان تھا مگر بچوں کو تسلی دے رہی تھی۔
’’داجی آگئے ، ابئی ! میرے داجی آگئے،داجی…‘‘ بچوں کی آوازوں پر وہ دوڑ کر صحن میں آئی ۔ بچے اپنے داجی سے لپٹ کر خوشی سے چہک رہے تھے ‘ ننھی کامنوش بھائیوں کی دیکھا دیکھی ان کا دامن تھامے ’’داجی داجی ‘‘کئے جارہی تھی ۔ انہوں نے گود میں اٹھا کر اس کا ماتھا چوما ۔ ایک اذیت بھری رات کے بعد بچوں کے چہروں کو یوں پھول کی کلیوں کی مانند کھلتا دیکھ کر اس کے دل میں ایک سکون کا لہراتر گیا۔
’’رات یہاں ساتھ والی پہاڑی پہ دھماکہ بھی ہوا تھا۔آواز سنی ہوگی تم لوگوں نے ۔‘‘ تھوڑا سانس لینے کے بعد داجی نے چار پائی پہ بیٹھ کر پانی پیتے ہوئے بتایا۔
’’اللہ خیر، کیوں نہیں سنی کوئی زیادہ جانی نقصان تو نہیں ہوا؟‘‘ ابئی دل پہ ہاتھ رکھے بے چین ہوکر پوچھ رہی تھی۔
’’زیادہ نہیں ‘سننے میں آرہا ہے کل سے دس بارہ مہاجرین مارے گئے ہیں۔‘‘ بولتے ہوئے ان کے لہجے میں گہرا دکھ تھا۔
’’اللہ یہ بھی کسی کے باپ، بھائی ہوں گے ‘ کسی کے گھر اجڑے ہوں گے ان کی موت سے، یاللہ تو ہم سب مسلمانوں پہ اپنا رحم کر۔‘‘ اس نے آنسو پیتے ہوئے دعا کی۔
’’داجی میں بہت بہادر ہوں بالکل آپ کی طرح ‘ پھر بھی دھماکے کی آواز نے مجھے ڈرا دیا تھا۔‘‘ کامنوش اپنی ازلی معصومیت سے گویا ہوئی۔
’’اچھا، اگر آپ بہادر ہے تو پھر ڈری کیوں بہادر تو کبھی نہیں ڈرتے۔‘‘ وہ اس کے جیسے لہجے میں اس سے بات کررہے تھے۔
’’نہیں میں اتنا نہیں ڈری ۔ ابئی اور لالہ لوگ زیادہ ڈر رہے تھے بلکہ رورہے تھے میں تو ابئی کی گود میں بیٹھی صرف آپ کو یاد کررہی تھی۔‘‘ وہ اپنی توتلی زبان میں باپ کو پچھلے رات کا واقعہ سنارہی تھی۔
٭…٭
اس وحشت ناک رات کو گزرے تقریباََ ایک مہینہ ہوچکا تھا ۔ زندگی اپنے معمول پر آگئی تھی ۔ ابئی دن بھر اپنے گھر کے کاموں میں مصروف رہتی ، داجی ہمیشہ کی طرح باہر کے کام نبٹا رہے تھے اور اپنے کھیتوں اور باغات کو بھی دیکھ رہے تھے ۔ بچے سکول چلے جاتے کامنوش چونکہ چھوٹی تھی اس لئے گھر پر ہی ہوتی ، کبھی محلے کی بچیوں کے ساتھ گلی میں کھیلتی بے بے کو داجی نے واپس بلا لیا تھا تاکہ اگر خدانخواستہ آئندہ ایسا کوئی موقع آئے تو بچوں کے پاس ان کی دادی بھی موجود ہو۔
وہ بھی ایسا ہی ایک عام سا دن تھا ۔ بچے سکول چلے گئے ‘ داجی نے انگور کے ٹریلے پاکستان بھیجنے تھے ، تب ہی صبح جلدی نکل گئے ۔ بے بے اور ابئی گھر کے کاموں میں مصروف تھیں جبکہ کامنوش باہر محلے میں کھیل رہی تھی ۔ تھوڑی دیر بعد ابئی نے کامنوش کو بلانے کے لیے دروازے میں سے جھانکا مگر باہر کامنوش نہیں تھی ۔ اسے لگا کسی کے گھر گئی ہوگی تھوڑی دیر میں آجائے گی‘ اس لئے واپس گھر کے اندر آئی مگر تھوڑی دیر بعد کامنوش تو گھر نہیں آئی ۔ البتہ کانوں میں گولیوں کی آوازیں آنی ضرور شروع ہوئی اور پھر ان ناگوار، ڈرا دینے والی آئوازوں میں اضافہ ہوتا گیا ۔ ابئی دروازے سے باہر جھانک کر کامنوش، کامنوش چلا رہی تھی، بے بے اسے حوصلہ دیتے ہوئے خود بھی رورہی تھی۔
’’میرے بچے سکول سے نہیں آئے، میری کامنوش کھیلنے گئی ہے مجھے اسے گھر لے کرآنا ہے بے بے۔‘‘ وہ نیلے رنگ کے شٹل کاک کا برقع ہاتھ میں پکڑے باہر جانے پر بضد تھی مگر بے بے اسے روکے ہوئے تھی۔
’’آجائیں گے ‘ سب آجائیں گے ۔ کامنوش کسی بچی کے ساتھ ان کے گھر گئی ہوگی ۔ تم مت نکلو باہر، باہر گولیاں چل رہی ہے۔ ‘‘ بے بے کی آنکھوں سے آنسو سیلاب کی طرح بہہ رہے تھے جبکہ ابئی چیخ چیخ کر رورہی تھی ۔ وہ اپنی افغان روایات کے مطابق ساس، سسر، دیور اور نندوں سے چہرے کا پردہ کرتی تھی مگر آج وہ سب کچھ بھلائے بے بے کے کندھے پہ سر رکھے چلا چلا کر اپنے ایک ایک بچے کا نام لیتے ہوئے رورہی تھی۔
٭…٭
اس دن کے مقابلے جنگ اتنی دیر نہیں چلی فقط ایک ڈیڑھ گھنٹہ جاری رہنے کے بعد خاموشی چھاگئی ۔ گولیوں کی آواز تھم گئی ‘ تھوڑی سی خاموشی پاکر وہ اور بے بے دونوں برقعے پہن کر باہر نکل گئی اور گھر گھر کامنوش کو ڈھونڈنے لگی مگر وہ نہیں ملی ۔ آنسو مسلسل ان کی آنکھوں سے رواں تھے ۔ جن بچوں کے ساتھ وہ کھیل رہی تھی ان کا کہنا تھا وہ سب جنگ شروع ہونے سے قبل ہی خوش قسمتی سے گھر آگئے تھے ۔ یہ لوگ تھک ہار کر گھر پہنچے تو چاروں بچے اور ان کے داجی گھر پہ موجود تھے ایک کامنوش نہیں تھی۔
’’کہاں تھے آپ لوگ اور کامنوش کدھر ہے؟‘‘ داجی نے کچھ حیرانی سے سوال پوچھا جس کا جواب دونوں میں سے کسی نے نہیں دیا۔
’’بے بے ، آپ دونوں رو کیوں رہی ہیں ۔ کدھر ہے کامنوش اسے ساتھ لے کر نہیں گئے تھے کیا آپ؟‘‘ انہوں نے اب کی بار بے بے کو مخاطب کرکے پوچھا مگر جواب فقط آنسوئوں سے دیا جارہا تھا۔
’’میں کچھ پوچھ رہا ہوں جواب چاہئے مجھے۔‘‘ داجی نے چلا کر کہا تو ابئی مزید رونے لگ گئی۔
’’وہ گلی میں کھیل رہی تھی ۔ پھر گولیوں کی آوازیں آنے لگی ‘ سعیدہ اسے ڈھونڈنے لگی تو وہ گلی میں نہیں ملی ۔ اب ہم نے ہر گھر میں دیکھ لیا نہ وہ راستے میں ہے نہ گھروں میں۔‘‘ بے بے نے ہچکیوں سے اپنی بات مکمل کی اور داجی سوچے سمجھے بغیر بھاگ کر باہر نکل گئے ۔ بچوں کے دلوں کو پریشانی نے گھیر رکھا تھا وہ سب حیرانی سے ایک دوسرے کو دیکھے جارہے تھے۔
٭…٭
داجی کو کامنوش کی تلاش کے لیے نکلے تقریباََ آدھا گھنٹہ بیت چکا تھا ۔ گھر میں ماتم کا سا سماں تھا ‘ سب دعائیں کررہے تھے کہ وہ خیرخیریت سے مل جائیں ۔ کب سے ابئی ہر آہٹ کو کامنوش کے قدموں کی آواز سمجھ کر اوپر دیکھتی اورماحول کا جائزہ لینے کے بعد پھر سے گھٹنوں میں سر دے کر رونے لگ جاتی تھی ۔ بے بے کا بھی تقریباََ یہی حال تھا ۔ زین، سہیل، کمال اور ظہیر بھی بس رونے کو تھے۔
’’داجی!‘‘ حیرت میں ڈوبی کمال کی آواز پر سب اٹھ کھڑے ہوئے ۔
داجی کے قدموں کی آواز کو کون نہیں پہچانتا تھا مگر اس وقت ان قدموں میں وہ وقار نہیں تھا ۔ قدم بہت بے دلی سے اٹھتے ہوئے قریب آرہے تھے ۔ وہ گود میں سوئی ہوئی کامنوش کو پکڑے رورہے تھے ۔ انہوں نے کامنوش کو چارپائی پہ لٹایا جو گولی لگنے کے باعث ابدی نیند سوچکی تھی۔
’’نہیں، نہیں یہ میری کامنوش… ہاں، ہم اسے ہسپتال لے کر جاتے ہیں یہ ٹھیک ہوجائے گی۔‘‘
ابئی چیخ چیخ کر رورہی تھی ۔ داجی ایک کونے میں کھڑے آنسو پینے کی کوشش میں ناکام رورہے تھے ۔ بے بے کامنوش کو دیکھ کر اپنا سر پیٹے جارہی تھی، بچوں کے آنسو تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے ۔ تھوڑی دیر میں بہت سارے لوگ جمع ہوگئے تھے ۔ میت کا گھر تھا ہر آنکھ اشک بار تھی ۔ صبح تک کھیلتی کودتی شرارتیں کرتیں چہکتی ہوئی کامنوش کو اب کفن پہنایا جاچکا تھا ۔ ابئی اور بے بے ساتھ بیٹھی چیخ چیخ کررورہی تھی ۔ پھر اسے دفنانے کے لیے لے جایا گیا ۔ اس معصوم کا خون وطن کی مٹی میں بہہ چکا تھا، چار بھائیوں کی اکلوتی اور لاڈلی بہن کامنوش اس دنیا میں نہیں رہی تھی۔
٭…٭
’’اب تو مان جاؤ سمیع اللہ ، چھوڑو اپنی ضد اور پاکستان آجاؤ۔ ‘‘پلنگ کے سرہانے بیٹھے کریم اللہ اپنے چھوٹے بھائی کے سامنے ہاتھ جوڑ کر بولے ۔ جواباََ گہری خاموشی تھی۔
’’ تم کب تک یوں وحشت اور خوف کے درمیان زندگی گزاروگے ۔ آخر کب تک گولیوں کی آوازیں تمہیں کامنوش کی یاد دلاتی رہے گی ۔ یہ بارود کب تک تمہارے سینے پر برستے رہیں گے ۔ گولی کی ہر آواز تمہیں تمہارے باقی بچوں کے حوالے سے خوفزدہ کرتی رہے گی ۔ یہ خوف تمہیں اندر ہی اندر کھا جائے گا ‘ختم کردے گا ۔ ‘‘کریم اللہ بولتے جارہے تھے اور باقی سب آنکھوں میں آنسو لئے انہیں سن رہے تھے۔
’’میرے بھائی ، اس رسک بھری زندگی سے اچھا ہے ‘وہاں میرے پاس نوشہرہ آکر آزادی سے جیو۔ تمہارے بچے بھی پڑھ لکھ لیں گھے اور تم میرے ساتھ ہوجاؤ گے تو امید ہے کاروبار مزید بڑھ جائے گا۔‘‘
’’دیکھتے ہیں۔‘‘ سمیع اللہ یہ کہتے ہوئے اٹھ کر کمرے سے نکل گیا۔
’’یہ نہیں مانے گا۔‘‘ اس کے جاتے ہی بے بے آہستہ سے بولی۔
’’مجھے اندازہ ہے ۔ یہ جانا نہیں چاہتا لیکن آپ منائیں ناں اسے بے بے، آپ کی بات کو بہت اہمیت دیتا ہے۔‘‘ کریم اللہ اب ماں سے محو گفتگو تھے۔
’’ تمہاری بات ٹال رہا ہے تو میری بھی نہیں مانے گا ۔‘‘ بے بے دھیرے سے بولی تو سعیدہ جو گھونگٹ گرائے بے بے کے ساتھ میٹرس پہ بیٹھی بے آواز رورہی تھی ‘اٹھ کر باہر نکل گئی۔
٭…٭

1 2 3 4 5 6اگلا صفحہ

Related Articles

2 Comments

  1. بہت پیارا ناول تھا مگر دل اُداس کر دیا۔ تھوڑی بہت جملوں کی غلطی تھی مگر وقت کے ساتھ قلم میں پختگی آ ہی جائے گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے