اکھ دا چانن : نورالعین خلیل
’’ریلیکس عائشہ ابتہاج ریلیکس…‘‘
عائشہ نے آنکھیں موندے دونوں ہاتھ اُٹھا کر گہرا سانس اندر کھینچااور پھر آہستہ آہستہ سانس خارج کرتے دونوں ہاتھ بھی نیچے لاتے پہلوؤں میں گرا دئیے ۔ ٹوسٹر کی گھنٹی بج چکی تھی۔ عائشہ نے آنکھیں کھولیں اورجلدی سے گرم گرم سلائس نکال کر پلیٹ میں رکھتے وہ کمرے میں موجود واحد پلنگ پر آبیٹھی تھی۔جبکہ خود کو تحریک دلاتے کئی جملے ہنوز دہرائے جا رہے تھے۔
’’دیکھنا ایک موٹا سا پروجیکٹ تمہارے ہاتھ آئے گا اور پھر موٹی سی رقم بھی…‘‘توس کا ٹکڑا منہ میں ہونے کی وجہ سے عائشہ کی آواز بھاری ہو گئی تھی۔
اُس نے پانی پی کر توس کو حلق سے نیچے اُتارا،ہاتھ جھاڑ ے پھر پلیٹ واپس اُس عارضی کچن میں رکھی جو کہ اِس ٹوٹے پلستر اور اُدھڑی دیواروں والے خستہ حال سے کمرے میں ہی لکڑی کے دو تختے ایل شیپ میںدیوار میں نسب کر کے بنایا گیا تھابلکہ فرض کیا گیا تھا ۔ کچن میں ایک طرف گیس سلنڈر پڑا تھا ۔ توا،کھانے کے برتن،آٹے والی پرات ،ایک فرائی پین اور ٹوسٹر…ٹوسٹر اُس کا اپنا نہیں تھا ۔ وہ پُرانے کرائے داروں کا تھا جو مالک مکان نے اُسے دے دیا تھا اِس تاکید کے ساتھ کہ وہ جاتے ہوئے واپس کر کے جائے۔
’’عائشہ! مثبت رہو۔اچھا سوچو ، اچھا پاؤ…‘‘ایک اور تحریک دلاتا جملہ۔
وہ چلتی ہوئی دروازے تک آئی ۔دروازے کے پیچھے موجود زنگ آلود کِلی پر سے چادر اور ہینڈ بیگ اتارا ۔ چادر اوڑھتے ہوئے دروازے کے پیچھے لگے شیشے میں اپنا عکس دیکھا ۔ چمکتا گندمی رنگ جس پر ناک میں پہنی چاندی کی لونگ بھلی لگتی تھی ۔ پنکھا ،بتی بندکرتے وہ باہر نکل گئی۔
باہر وہ جگہ جہاں سوائے پڑھنے اور کچھ ’’اپنی‘‘ خریداری کرنے کے علاوہ وہ کبھی بھی نہیں گئی تھی ۔ابا نے کبھی جانے ہی نا دیا تھا ۔شام میں دکان سے لوٹتے ہوئے ابا وہ سب لے آتے تھے جو عائشہ اور اُس کی ماں کو چاہئیے ہوتا تھا ۔ عائشہ اور اُس کی ماں کا کوئی کام انہوں نے تو حاشر پر بھی کبھی نا ڈالا تھا ۔ لیکن اب تو ابا بھی بستر سے لگ گئے تھے اور حاشر…حاشر اپنے سسرالیوں کے گھٹنے سے !تو ایسے میں اے زندگی تو بتا‘عائشہ ابتہاج باہر کیسے نا نکلتی؟
٭…٭
جون کی گرمی میں عائشہ دو بسیں بدلنے اور دس منٹ پیدل چلنے کے بعد آخرکار اُس منزل پر پہنچنے میں کامیاب ہوہی گئی تھی ‘جہاں پر اُس کو ایک دوست کے توسط سے انگریزی کتب کی پروف ریڈنگ کی جاب کے لیے انٹرویو دینا تھا ۔ عائشہ نے اُس چھے منزلہ عمارت کو گردن پیچھے گرائے آنکھوں کے آگے ہاتھ سے چھجا بناتے دیکھا تھا ۔ پھر ایک گہرا سانس بھرتی سیڑھیوں کی جانب چلدی۔
’’کراچی شہر کی اِس بھاگتی دوڑتی زندگی میں اماں ابا کے خون پسینے کی کمائی سے دلائی گئی ایم اے انگریزی کی تعلیم کام آہی گئی آخر‘چلو شکر ہے اُس رب کا ۔ کم از کم اُس نے تو نہیں چھوڑا نا مطلبی رشتے داروں کی طرح۔ ‘‘
انٹر ویو کامیاب گیا تھا او ر اُسے پندرہ روزہ ٹرائل پر نوکری دے دی گئی تھی کیونکہ اُس کے کریڈٹ پر ابھی کوئی کامیابی جو نہ تھی لیکن اِس جاب نے اُسے مطمئن ضرور کردیا تھا او ر قلبِ مطمئنہ سے بڑھ کر دنیا میں کیا کوئی چیز بہتر ہو سکتی تھی ؟اِس کا جواب اس وقت عائشہ ابتہاج سے پوچھا جاتا تو وہ کسی تین سال کے بچے کی طرح اپنا سر زور زور سے نفی میں ہلادیتی۔ وہ خود سے ہم کلام سیڑھیاں اُتر رہی تھی کہ کسی چیز سے ٹکرائی۔
’’آہ…‘‘عائشہ کی ہلکی سی کراہ نکلی ۔
اگلے ہی لمحے وہ اپنی تکلیف ضبط کرتی ہونٹ سختی سے بھینچ چکی تھی ۔سر اُٹھا کر مقابل کو دیکھا ۔ نووارد کوئی تیس سے بتیس سال کا خوش شکل نوجوان تھا ۔ جس کے تن پر سفید کُرتا پاجامہ تھا جبکہ آنکھوں پر نظرکا فریم لیس چشمہ لگا رکھا تھا ۔ ہاتھ میں غالباً ایک فائل تھی جس میں موجود کاغذات اِس تصادم کے نتیجے میں سیڑھی کے قدمچوں سے بغلگیر ہوئے پڑے تھے۔
’’آ…آئی ایم، سو سوری …میں نے آپ …کو دیکھا نہیں تھا۔ ‘‘
گھنی مونچھوں تلے بھینچے ہوئے ہونٹ لیے نووارد کی گھوری سے مرعوب ہوتی دھان پان سی عائشہ ابتہاج کے منہ سے لفظ ٹوٹ کر ادا ہوئے تھے۔
’’اکھ دا چانن مر جاوے تے … نیلا ،پیلا،لال برابر… ‘‘
نووارد کچھ کہتا جھک کر بکھرے کاغذات سمیٹنے لگا۔
’’ ایکسکیوز می،کیا کہا آپ نے ۔ ‘‘آواز اتنی آہستہ سی تھی کہ عائشہ کو سمجھ نہ آسکی۔
لیکن نووارد ’’ایکسکیوز می…‘‘کہہ کرعائشہ ابتہاج کے ایک طرف سے نکلتا سیڑھیاں چڑھ گیاتھا ۔ عائشہ بھی کندھے اچکا کر باقی ماندہ سیڑھیاں اُترتی عمارت کے احاطے سے نکل آئی۔
٭…٭
گھر آکر منہ ہاتھ دھویا پھر ایک پھلکا رات کی بچی دال کے ساتھ کھا کر اماں ابا کو نوکری ملنے کا بتانے کے لیے فون اُٹھایا ہی تھا کہ حنا اسلم کی کال آگئی ۔حنا اسلم جو ماں جائی نہ تھی اور نہ ہی کوئی قریبی رشتہ دار بلکہ دوستی کا حق ادا کرنے والی ایک دوست یاشاید اُس سے بھی بڑھ کر …حنا سے بات کر کے اماں کو فون ملاتے وہ اکلو تے پلنگ پر لیٹ چکی تھی۔
’’اسلام علیکم اماں،کیسی ہیں ؟ ابا کیسے ہیں؟گھر پہ سب ٹھیک ہے ناں؟‘‘
جیسے ہی اماں نے کال ریسیو کی عائشہ نے سوالات کی بوچھاڑ کردی۔
’’ ارے پگلی گھر سے باہر تو ہے نا کہ ہم…‘‘اماں نے ہنستے ہوئے کہنا شروع کیا۔
’’ہاں ٹھیک ہوں میں اور تیرے ابا بھی ’تو بتا کیسی ہے میری دھی؟کام وام ملا کہ نہیں ؟ دیکھ اگر کوئی مناسب سا کام نہیں ملا ناتو چپ چاپ واپس چلی آ سُن رہی ہے نا؟‘‘
وہ ماں تھیں‘ تشویش اور پریشانی فطری تھی ۔ کیوں نا ہوتیں پریشان آخر کو اتنا بڑا دل نکال کر بیٹی کو کراچی جیسے بڑے شہر بھیجا تھا۔
یہ سوال جواب عائشہ کے لبوں پر بھی ایک مسکراہٹ کھینچ لائے تھے۔وہی مطمئن سی مسکراہٹ۔
’’جی اماں سُن رہی ہوں اور اب آپ میری بات سُنیں ۔مجھے کام مل گیا ہے۔‘‘ عائشہ نے چہکتے ہوئے اماں کو بتایا۔
’’ماں صدقے میری دھی‘اللہ برکت ڈالے ۔کیسا کام ہے؟کتنے پیسے ملیں گے؟‘‘
یہ وہ سوال تھا جس کا جواب لینے عائشہ ابتہاج تن تنہا ملتان سے رخت ِسفر باندھے روشنییوں کے اِس شہر میں آمقیم ہوئی تھی۔
’’ اماں اتنی تنخواہ تو ہو گی میری کہ ابا کا علاج اور گھر کا خرچ سب آسانی سے ہو جائے گا۔ ‘‘
عائشہ نے اماں کوتسلی دی کیونکہ’’حمزہ اعتزاز پروف ریڈرز ‘‘ نامی حال میں شروع ہوئی اُس پروفریڈنگ فرم کے مالک کے مطابق اُس کی تنخواہ چالیس ہزار تھی جس میں باقی کے الاؤنسز ملا کر یہ رقم تقریباًپینتالیس ہزارہو جانی تھی۔
’’ چل ٹھیک ہے تو پریشان مت ہونا میری دھی ۔ مالک سب ٹھیک کرے گا۔لے اپنے اباسے بات کر ۔‘‘
وہ حوصلے کی ڈور جو اماں نے ملتان سے کراچی آتے عائشہ ابتہاج کے سنگ کی تھی اُس میں ایک اور تھپکی گانٹھتے فون ابا کے حوالے کر دیا گیاتھا۔
٭…٭
آج اُس کا آفس میں پہلا دن تھا ۔ دوکمروں (آفس اور ریکارڈ روم)اور ایک ہال پر مشتمل وہ ایک چھوٹا سا آفس تھا ۔ ہال کی دونوں دیواروں کے ساتھ رکھی گئی میزوں پر ورکرز بیٹھے کام میں مشغول نظر آتے تھے ۔ وہ اپنا بیگ سنبھالتی ایک گہرا سانس لے کر چلتی ہوئی سر حمزہ کے آفس تک آئی۔دستک دے کر اجازت لی۔
’’ یس کم اِن…‘‘
و ہ اندر داخل ہوئی تو حمزہ کسی سے فون پر بات کر رہے تھے ۔ اشارے سے اُسے بیٹھنے کا کہا ۔ وہ کرسی گھسیٹ کر وہیں میز کے قریب بیٹھ گئی ۔
آفس چھوٹا لیکن شاندار تھا ۔ حمزہ اعتزاز کی کُرسی کے عقب میں ایک بڑی سی کھڑکی تھی جس پر پڑے آف وائیٹ اور سبز پردے ایک جانب سرکا کر باندھے گئے تھے ۔آفس چیئر اور شیشے کی میز کے دوسری جانب دو کُرسیاں رکھی تھیں جن میں سے ایک پر عائشہ بیٹھی تھی ۔جبکہ داہنی طرف ایک سبز رنگ کا صوفہ رکھا تھا جس پر ملٹی کلر کے کشنز پڑے تھے ۔ دیواروں پر مختلف وال آرٹ آویزاں تھے۔ غرض کمرہ خوبصورت تھا اور ہر چیز سبز اور آف وائیٹ کے تھیم کے عین مطابق تھی ۔
’’ میں معذرت چاہتا ہوں مس عائشہ۔ایک ضروری کال تھی آپ بتائیںکیسی ہیں ۔‘‘
ریسیور کریڈل پر ڈالتے حمزہ نے کہا۔
’’ اِٹس اوکے سر‘میں ٹھیک ہوں ۔‘‘
عائشہ جو کہ مگن سی آفس کا جائزہ لے رہی تھی مسکراتے ہوئے بولی۔
’’ دیٹس گُڈ۔چلیں تو آپ کو آپ کا کام بتاتے ہیں لیکن اُس سے پہلے آپ کو یہاں کے سٹاف سے متعارف کروا دیتا ہوں‘آئیے۔ ‘‘اپنا موبائل اُٹھاتے حمزہ کمرے سے باہر نکلے تو عائشہ بھی پیچھے چلی گئی۔
حمزہ اعتزاز ہارورڈ کا ایک ہونہار طالبعلم ہونے کے ساتھ ساتھ باقی سرگرمیوں میں بھی بہت اچھا تھا ۔اعتزاز خالد ،حمزہ کے والد ایک مشہور کنسٹرکشن کمپنی کے مالک تھے لیکن کتابوں سے جُڑے رہنے کے شوق اور اچھی انگریزی نے حمزہ کی ہمت بندھائی اور اُس نے اپنے دوست سعد لکھانی کے ساتھ مل کر ایک چھوٹی سی پروف ریڈنگ کمپنی کھول لی تھی ۔ سعد لکھانی بزنس کا سٹوڈنٹ تھا جبکہ اُس کے والدانگریزی کے پروفیسر تھے ۔ بزنس اور شوق کا یہ ملاپ اعتزاز خالد کو منانے میں بھی کارگر ثابت ہواتھا۔
٭…٭
’’جیسا کہ آپ جانتی ہیں کہ آپ کی جاب پروف ریڈنگ کی ہے تو یہ رہا آپ کا پہلا مینوسکرپٹ (مسودہ)یہ ایک موٹیویشنل کتاب کا مینوسکرپٹ ہے۔‘‘
آج عائشہ کا آفس میں پہلا دن تھا۔حمزہ اعتزازنے اُسے اُس کا پہلا سکرپٹ دینے کے لیے اپنے آفس میں بلایا تھا۔
’’ سر ڈیڈ لائن کیا ہے ؟ ‘‘عائشہ نے میزسے سکرپٹ اُٹھاتے پوچھا۔
’’ پروف ریڈنگ آپ کو ایک ہفتے میں ہی مکمل کرنی ہوگی ۔بی کاز وی ہیو این ادر پروجیکٹ لائنڈاپ ۔ ‘‘لیپ ٹاپ آن کرتے حمزہ نے جواب دیا۔
’’ان شاء اللہ سر‘اب میں چلتی ہوں۔ ‘‘عائشہ اجازت لیتی کھڑی ہوئی۔
’’شیور۔‘‘
’’یا میرے خدا…‘‘لیپ ٹاپ پر کام کرتے حمزہ نے اِس بے یقینی اور صدمہ بھری آواز پرسر اُٹھا کر دیکھا تو بھونچکا رہ گیا۔
سامنے ہی عائشہ ابتہاج اور اُس کا پیارا دوست سعد لکھانی فرش پر نظریں جمائے کھڑے تھے ۔جہاں پر سعد لکھانی کا نظر کا فریم لیس چشمہ زمیں بوس ہوا کئی ٹکڑوں میں بٹا چند لمحے قبل عائشہ کے آفس سے نکلنے اور سعد کے اندر داخل ہونے پر ہوئے ایک زور دار تصادم کی روداد سُنا رہا تھا ۔ یہ سارا منظر بالکل ’’لمحوں کی خطا ‘‘ کے مصداق تھا۔
حمزہ فوراً کُرسی سے اُٹھتا اُن دونوں تک آیا ۔ ایک شرمندہ تو دوسرا آنکھوں میں غصہ اور حیرت لیے گنگ کھڑا تھا۔
’’ مس عائشہ آپ جائیں اور سعد تم اِدھر آؤ ۔‘‘
شرمندہ سی عائشہ کو حمزہ نے سر ہلاتے باہر جانے کو کہا ۔ وہ چلی گئی تو وہ سعد کو لے کر آفس کے دروازے سے آگے بڑھا اور کُرسی پر لا بٹھایا۔
’’ مجید آفس میں آؤ۔ ‘‘ حمزہ نے آفس بوائے کو بلا کر ریسیور کریڈل پر ڈالا ۔
سعد نے ایک ہاتھ مٹھی کی صورت لبوں پر رکھا ہوا تھا گویا اپنا غصہ ضبط کر رہا ہو ۔حمزہ کُرسی سے اُٹھ کر سعد کے سامنے میز پر آ بیٹھا۔ پھر پانی کا گلاس اُس کی جانب بڑھایا۔
’’پانی پیو…‘‘
’’یہ تمہاری ایمپلائی ہے ؟‘‘خالی گلاس میز پر رکھتے سعد نے پوچھا۔
’’ہاں‘نئی ہے۔‘‘
حمزہ نے کندھے اُچکاتے مختصر ساجواب دیا کیونکہ ابھی اُ س کا دوست غصے میں تھا۔
’’ کیا اس دنیا میں بھی نئی ہے جو اُسے اتنا نہیں پتہ اگر آگے سے کوئی آرہا ہو تو انسان کو ایک طرف ہٹ جانا چاہیے ؟‘‘
سعد نے تیز نظروں سے حمزہ کو گھورا ۔ جس پر حمزہ نے قہقہہ لگایا۔
’’ اُس نے میرا اتنا قیمتی چشمہ توڑ دیا اور تجھے ہنسی آرہی ہے ؟اینڈ بائے دا وے یہ وہی محترمہ ہیں جو کل مجھ سے سیڑھیوں پر ٹکرا ئی تھیں ۔نجانے کو ن سی دُنیا میں ہوتی ہیں یہ لڑکیاں جو یوں اِدھر اُدھر ٹکراتی پھرتی ہیں۔ ‘‘
سعد جو اپنے چشمے کے ٹوٹ جانے پرصدمے میں تھا اُس نے ’’ایک ‘‘لڑکی کے قصور پر دُنیا کی ’’باقی‘‘ لڑکیوں کو بھی رگید ڈالا۔
’’ تو پھر سُنومیاں صاحبزادے…‘‘
حمزہ دونوں ہاتھ آپس میں رگڑتے میز سے اُٹھ کر سربراہی کُرسی پر آبیٹھا ۔ سعد نے کُرسی سے ٹیک لگائے ابرو اچکائے ۔
’’ یہی محترمہ آپ کے والد گرامی کی ’’تھرٹی لٹل تھنکنگز‘‘ نامی کتاب کی پروف ریڈنگ کر رہی ہیں ۔‘‘
حمزہ نے اطلاع دی جس پر حمزہ کے مطابق سعد کو کوئی استعجاب یا بے یقینی والا ری ایکشن دینا چائیے تھا لیکن وہ ہنس دیا۔
’’ تو پھر مسٹر حمزہ اُسے کتاب دینے سے پہلے مبلغ پچاس روپے کا ایک اسٹامپ پیپر ضرور کروا لینا جس پر جلی حروف میں درج ہو کہ ’’مزکورہ کتاب یعنی تھرٹی لٹل تھنکنگز کے تین سو بیالیس صفحات ہیں ۔اگر آپ محترمہ نے یونہی لوگوں سے ٹکراتے پھرتے ایک بھی صفحہ ادھر اُدھر کیا تو نتیجے کے طور پر آپ کو ہرجانہ بھرنا ہوگا۔منجانب …آپ کا باس‘حمزہ اعتزاز۔ ‘‘
سعد لہک لہک کر بول رہا تھا اور حمزہ سے اپنی ہنسی کنٹرول کرنا مشکل ہوتا جارہا تھا ۔ سعد نے رُک کر ایک نظر حمزہ کو دیکھا اور پھر اُن دونوں کا ایک مشترکہ قہقہہ فضا میں گونجااور اُس قہقہے میں غصہ تحلیل ہو گیا تھا۔
٭…٭