افسانے

آدھا برگر : ایم رضوان ملغانی

کم سنی میں یتیمی کی گلٹی گلے کا پھندہ بن گئی ۔
ماں نے اس تنکے سے وجود کوذمے داریوں کے ملبے تلے دبا دیا ۔ وہ اس عمر میں بجلی، گیس کے بلوں میں الجھی جب اسے ریاضی کی مساوات اور انگریزی کی نظمیں یاد کرنی تھیں۔ دال، آٹا، چینی، چاول، نمک،مرچ کے نرخ معلوم کر کے کانوں سے دھوئیں اڑانے لگی، جب اسے رنگوں، پرچوں، اور کاپیوں کے دام معلوم کرنے تھے ۔ شو مئی قسمت کپڑے لتے سے لے کرسوئی دھاگے تک سارا بوجھ اسی کے کاندھوں پہ آن پڑا ۔ کتابوں، سے لدے بستے کی زپ کب کی بند ہو چکی تھی ۔ نمی جو خود ابھی پندرہ برس کی تھی ۔ پہلے بھی کوئی آٹے کا کنستر نہیں تھی ۔ لیکن اب ٹین کے خالی ڈبے سی ہو گئی تھی۔ کمزور، لاغر اور ہڈیوں کا ڈھانچہ سی ۔
سال سال کے وقفے سے ہوئے درجن بھر بہن بھائی تھے ۔ اور ماضی کا قصہ بنے پرائیویٹ سکول کے معمولی سے مالی کا یہ آنگن اب اپنی کیاری میں کلیاں نہیں کھلاتا تھا ۔ یہاں کانٹے اگتے تھے۔ اور انگلیوں کی پوروں کو زخمی کرتے تھے۔
’’ چھوڑ دے پڑھائی لکھائی جتنا پڑھنا تھا پڑھ لیا ۔ کوئی کام کر لے نمی۔ ‘‘ ایک بار کہا تھا ماں نے اسے دوسری بار کہنے کی ضرورت نہیں پڑی۔
اخبار میں ایک اشتہار دیکھ کر اس نے کاغذ جمع کروا دئیے تھے ۔ وہ خشک، پھیکا، زندگی کی جلترنگ سے ماورا ایک دن جب اماں کا کھڑکا سا موبائل بھیں بھیں کرنے لگا۔
’’ اماں کتنی بار تمھیں اس کی گھنٹی آہستہ کر کے دی ہے ۔ پھر یہ کامی اور نومی کے بچے چھیڑ چھاڑ کر کے اسے تیز کر دیتے ہیں ۔ کانوں کے پردے چیرتی ہے یہ آواز۔ ‘‘اس نے کلس کر کہا ماں ہوتی تو سنتی ۔ وہ فون سننے کی غرض سے باہر چلی گئی تھی۔
’’ تیرے لیے فون ہے نمی تو نے کسی پارلر کے کورس کے لئے کاغذ جمع کروائے تھے؟‘‘ اماں نے فون اسے پکڑاتے ہوئے کہا اس نے جھٹ سے فون لے لیا ۔ ساری بات سبھاؤ اور تسلی سے سنی۔
اگلے ہی دن مقررہ وقت سے پہلے تیار ہو کر نکل گئی ۔ دو بسیں بدل کر کوچنگ سینٹر پہنچی اور وہاں پہلی رو کی پہلی کرسی پہ بیٹھ کر اس نے تعارفی کلاس لی۔
تین ماہ کا مفت کورس، بھنوؤں کی تراش خراش سے لے کر فیشل، مینی کیور، پیڈی کیور، پارٹی میک اپ، برائیڈل میک اپ سب کچھ انہوں نے سکھانا تھا اور آخر میں سند بھی اسے دی جانی تھی ۔ جس کے ذریعے وہ اچھے سے اچھے پارلر میں اپنی خدمات کے ذریعے پیسے کما سکتی تھی ۔ اس نے آغاز کر دیا تھا۔
دنوں کے پہیے دوڑنے لگے ۔ بسوں کے دھکے، گرمی کے تھپیڑے، منزل تلک پہنچنے کی آرزو نے عجب حال کیا تھا ۔ وہ روز خواب دیکھتی کہ سٹیج پہ کھڑی سرٹیفکیٹ لے رہی ہے ۔ پھر وہ دن بھی آیا اس کا خواب سچ ثابت ہوا اسے سند مل گئی ۔ ستاروں پہ کمند ڈالنا یہ نہیں تھا تو تاروں بھرے آسمان کو چھونے کی پہلی سیڑھی تو تھی ۔ ایسی سیڑھی جس پہ چڑھنے کے لئے نہ کسی کے سہارے کی ضرورت تھی نہ کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کی ضرورت ۔ سفید پوشی کا بھرم رکھنے کے لئے خود کفیل ہونا سب سے پہلی شرط ہوتی ہے ۔ وہ اس پہ پوری اتر رہی تھی ۔ تین ماہ گزرنے کے بعد اپنی ڈگری کے بلبوتے پر اسے ایک نامی گرامی پارلر میں ملازمت مل گئی تھی۔
٭…٭
بھوک کے نیزوں سے اپنے بہن بھائیوں کو بچانے کی غرض سے وہ جنوں کے گام پہ چل نکلی تھی ۔ ایسا کار جنوں جو اسے باراں باراں گھنٹے کھڑا کیے رکھتا وہ تھکتی نہیں تھی۔یا شاید تھکن سے چور ہو کر بھی بتاتی نہیں تھی۔
’’ تم ابھی نئی نئی ہو نائمہ یہ سب سیکھنے میں وقت لگتا ہے بیٹھ جایا کرو، آرام کر لیا کرو۔ ‘‘ پارلر کی اونر شکیلہ باجی کہتیں ۔
لیکن اس کی کمر میں سریا آ گیا تھا۔ وہ لوہے کا مجسمہ ہو گئی تھی۔
’’ نہیں باجی بیٹھ جاؤں گی تو سیکھوں گی کیسے۔ ‘‘
پھر وہ روزانہ کئی کئی گھنٹے کھڑے رہ کر باجی کو کسٹمرز بھگتاتے دیکھتی رہتی ۔ ان کے کام کا انداز کسٹمرز ڈیلنگ سب کچھ وہ سیکھ رہی تھی ۔ شروع شروع میں وہ صرف بھنوئیں بناتی یا ویکس کرتی پھر جب اس کا ہاتھ پکا ہو گیا تو باجی نے رسک لے لیا اور منگنی کے فنکشن کے لیے تیار ہونے آئی دلہن اس کے حوالے کر دی ۔ اس نے ثابت کر دیا کہ وہ کہنہ مشق ہے ۔ جلد سیکھنے اور کر دکھانے کی صلاحیت ہے اس میں پھر اتنی جان کنی کے بعد اسے بھی بڑے بڑے کام ملنے لگے۔
اسی طرح ایک دن ایک لڑکی ہئیر کٹنگ اور بال ڈائی کروانے کی غرض سے آئی تو اس کے کام پہ فدا ہی ہو گئی ۔
وہ رابیل یوسف تھی ۔ شہر کے سب سے بڑے تاجر کی بیٹی جن کے کپڑوں کی دکانیں کہاں کہاں تک پھیلی ہوئیں تھیں ۔ اس دن کے بعد اس کا آنا جانا معمول بن گیا ۔ شکیلہ باجی اس امیر کبیر لڑکی کو ہاتھ سے جانے نہیں دے سکتی تھیں ۔ باقی ورکرز دل مسوس کر رہ جاتی تھیں ۔ نمی کی قسمت پہ رشک کرتی کہ اتنے برس ہاتھوں کی اس مشق کے بعد بھی ان کے نصیب میں ایسی مالدار آسامی نہیں آئی تھی ۔ جو سروسز لینے کے بعد دگنی رقم نمی کے ہاتھ پہ رکھ کے جاتی تھی۔
نمی کی کم گوئی، سادگی، بانکپن اور نرم لہجے نے رابیل کو اسیر کر دیا اسی اسیری میں وہ دونوں ایک دوسرے کی پکی سہیلیاں بن گئیں۔
٭…٭
تنگ گھٹن زدہ، مرمت اور سیوریج کے کام کو ترسی ہوئی ان گلیوں میں جہاں راتوں کو کتے موتتے اور دن کے اجالوں میں آدم زادے جگہ جگہ پانوں کی پیکیں پھینکتے وہاں اس مر سڈیز کا آنا اس کی ماں کو شرماتا اور حیثیت یاد دلاتا ۔
’’ ہم دو وقت کی روٹی اچار کی پھانک اور ٹماٹر پیاز کی چٹنی سے کھانے والے لوگ ہیں ۔ ہمیں ان لذت کے میناروں، برانڈ کے خبطیوں، کرسی پہ ٹانگ پہ ٹانگ جمائے بیٹھے کھانے والوں کی یاریاں زیب نہیں دیتیں تو آصفہ کی سہیلی بن کے رہ جو تیری طرح دسترخوان پہ بیٹھ کے دال ساگ کھاتی ہے ۔ اسے چھوڑ دے۔ ‘‘ اماں اکثر کہتی اور وہ اکثر من و عن یہ جملہ دہرا کر رابیل کے کانوں میں انڈیلتی۔
’’ میں تنگ آ گئی ہوں پر تعیش زندگی کے وقار تلے میں بونی ہوتی جا رہی تھی ۔ مجھے تمہاری غریبی عیب نہیں لگتی نمی نہ ہی اپنی امیری گھمنڈ میں ڈالتی ہے ۔ بس تم اپنی ماں کی باتوں میں آ کر مجھے چھوڑنا مت۔ ‘‘ اس نے رابیل کے کہے کی لاج رکھی اور ساتھ نبھایا۔
نمی نے بھی خلوص اور رواداری کے تقاضے پورے کئے ۔ اس تمام عرصے میں نمی نے کبھی اپنے وقار اور خوداری پہ آنچ نہیں آنے دی۔
’’ یہ میرے کپڑے ہیں‘ میں بہت برینڈ کانشئیس ہوں ۔ لے تو لیتی ہوں پر ہر سیزن میں فیشن بدلتا ہے۔ایک بار سے زیادہ نہیں پہن سکتی یہ تم رکھ لو۔ ‘‘
’’ یہ کچھ پیسے ہیں میں جانتی ہوں تم خود کبھی نہیں کہو گی تم لے لو کام آئیں گے ۔ ادھار سمجھ کر رکھ لو۔ ‘‘
’’ اشرف ہمارا خانساماں جب بھی گروسری کے لئے جاتا ہے ۔ ایک چیز کے دو ڈبے اٹھا لاتا ہے جیم، کیچپ، مایونیز اور کریم کے پیکس ہیں تم لے جاؤ تمہارے چھوٹے بہن بھائی خوش ہو جائیں گے۔‘‘
یہ سلسلہ ایک تواتر سے چلا اسی تواتر سے وہ رابیل کی ان خدمات کو ٹھکرا کر اپنی خودداری کا بول بالا کرتی رہی ۔ اس نے ماں کی بات پہ عمل نہ کرتے ہوئے اس سے دوستی کر لی تھی۔ پر اپنے ظرف پہ کبھی کاری ضرب نہیں پڑنے دی تھی ۔سلسلہ چل سو چل تھا۔ رابیل یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھی ۔ اس کی ہم پلّہ کئی سہیلیاں تھیں ۔ رابیل ان سے دور بھاگتی وہ سب اس ہی کی طرح بلکہ بڑھ چڑھ کر اپنی شان میں زمین و آسمان کی قلابیں ملاتی، اپنے ٹھاٹ بھاٹ اور اعلیٰ لائف سٹائل کے چرچے مشہور کرتیں، رابیل ان سب پہ اپنی برتری کا رعب نہیں ڈال سکتی تھی ۔ پھر اس نے آسان ہدف چنا نمی کی صورت میں چھ مہینے سب ٹھیک رہا اور پھر…
٭…٭
وہ دونوں ایک دوسرے کی سنگت میں خوش اور شاداں تھیں ۔ مہینے میں ایک بار رابیل اسے شہر کے پوش علاقے ڈی ایچ اے کے پارک میں لے جاتی تھی ۔ جہاں وہ خوب موج مستی کرتیں اور انواع و اقسام کے ذائقوں سے لطف اندوز ہوتی تھیں ۔ بل کی ادائیگی کی باری آتی رابیل ہی کا پرس کھلتا کیونکہ اسے نمی کے حالات کا ادراک تھا۔
ایک شام سیر و تفریح کے بعد نمی رابیل سے پیسے لے کرٹک شاپ سے کچھ لینے گئی تو اس کی نظر بینچ پہ بیٹھے خوبصورت جوڑے پہ پڑی ۔ وہ ان دونوں کو پہلے بھی کئی بار بانہوں میں بانہیں ڈالے دیکھ چکی تھی ۔ وہ ہر بار اسی ہٹ کے پاس بیٹھے ملتے ۔ میز پہ پلیٹ میں ایک برگر ہوتا وہ دونوں آدھا آدھا برگر کھاتے اور خوب ساری باتیں کر کے اٹھ جاتے ۔
لڑکی کی ڈریسنگ اس کا شاہانہ انداز چمکتی دمکتی گلو کرتی سکن، اس کی امارت کا پتا دیتی تھی۔وہ نازک سی کانچ کی گڑیا تھی۔
پھر اس سرمئی شام نمی نے دیکھا پلیٹ میں پڑا لڑکی کے حصّے کا آدھا برگر جوں کا توں پڑا تھا ۔ وہ دونوں کسی بات پہ بحث کر رہے تھے ۔ پہلے صرف باتوں کی حد تک محدود جنگ شدت اختیار کرتی چلی گئی تھی ۔ اس قدر کہ نوجوان نے اپنے چہرے کو زور زور سے پیٹنا شروع کر دیا ۔ لڑکی کا چہرہ غم و غصے سے لال پیلا ہو رہا تھا ۔ کافی تلخ کلامی کے بعد وہ لڑکی اسے اکیلا چھوڑ کر چلی گئی ۔ وہ خوبرو نوجوان وہیں نیم پاگل پن کی حالت میں بیٹھا رہ گیا ۔ شکست خوردہ سا، پر ملال رنجیدہ اور آزردہ۔
اس کے بعد اکثر و بیشتر وہ اکیلا اسی مقام پہ پایا جاتا ۔ ایک زنگر برگر پلیٹ میں لئے بیٹھا نجانے کیا کیا سوچتا رہتا ۔ آدھا برگر کسی طرح کھا چکنے کے بعد باقی بچا آدھا برگر واپس کر دیتا،اور جب سورج ڈھلنے لگتا وہ اٹھ جاتا یہ اس کے آنے کی روٹین میں شامل تھا۔
’’ رابیل مجھے اس لڑکے کی حالت ٹھیک نہیں لگتی ۔ دن ڈھلے جب سورج غروب ہو رہا تھا وہ لڑکی اسے چھوڑ کر گئی تھی ۔ یہ روزانہ اسی وقت آدھا برگر واپس کر کے اٹھ جاتا ہے۔ ‘‘
نمی کہتی اور رابیل نمی کی کسی بات پہ کان نہ دھرتی ۔ وہ اس سے اکتا رہی تھی بیزار ہو رہی تھی ۔ رابیل کو نمی میں خامیاں دکھنے لگی تھیں ۔ غریبی امیری کے فرق کا سنپولیا پل رہا تھا ۔ وہ اکیلی بل بھر بھر کے تھک چکی تھی ۔ اسے سمجھ آ گئی تھی بعض حقیقتیں کبھی نہیں بدلتیں ان میں ایک سچائی نمی کا مفلس ہونا تھا۔
٭…٭
جب انسان کی گردن اکڑ جائے برتری کا غرور سر چڑھ کر بولنے لگے ۔ دوسرا پست، چھوٹا، ہیچ اور نیچ لگنے لگے تو رشتے کی ڈوری کٹنے لگتی ہے ۔ ایسا ہی تو ہوا تھا وہ اسے کم حیثیت لگنے لگی تھی ۔ جو ایک برگر کے پیسے تک نہیں بھر سکتی۔ پھر اس نے چال چلی۔
’’ نمی آج تم ایک شرط لگاؤ، اس ٹک شاپ جاؤ اور اس نوجوان کا بچا آدھا برگر شاپ کیپر سے لے کر آؤ جو ابھی ابھی وہ واپس کر کے گیا ہے ۔ تم اس سے کہو تمہارے پاس پیسے نہیں ہیں اور تم نے اپنی دوست سے شرط لگائی ہے کہ تم ہر حال میں بنا پیسوں کے وہ آدھا برگر لے کرآؤ گی‘ جلدی جاؤ۔ ‘‘ اسے کچھ سمجھ نہیں آئی تھی۔
’’ یہ کیسی شرط ہے رابیل میں نہیں جاؤں گی۔ ‘‘ اس نے ڈٹ کر کہا۔
’’ نہیں تم جاؤ گی میں دیکھنا چاہتی ہوں تمھیں اس بازی میں جیت ہوتی ہے کہ مات۔ ‘‘ رابیل نے عجیب سے لہجے میں کہا۔
حکمیہ لہجہ طنز کے نشتر سے بھرا ہوا ۔ نمی بھانپ گئی تھی۔ چٹنی سے روٹی کھانے والی کی اوقات سامنے آنے والی تھی ۔ آئینہ دکھایا جا رہا تھا۔
وہ دوڑتی ہوئی گئی ۔ اس کے انگوٹھے والی سینڈل ٹوٹ گئی تھی ۔ اس نے دونوں پیروں کو آزاد کر دیا ۔ ٹھنڈی گھاس پہ چلتے پاؤں جیسے سلگتے کوئلوں پہ دہک رہے تھے ۔ سانسیں دھونکنی کی مانند چل رہی تھیں ۔ اندر اندر مان کے پرخچے اڑ رہے تھے ۔ دوستی کی عمارت پاش پاش ہو رہی تھی ۔وہ پہنچ گئی تھی۔ ٹک شاپ والے نے اس کا حلیہ دیکھا تو بھانپ گیا۔
’’ چل چل نئے نئے طریقے اپنا لئے ہیں بھیک مانگنے والیوں نے کسی اور دکان پہ جا کر یہ ڈھیر ہوشیاری کرنا ۔ یہ ڈبل روٹی پکڑ اور چلتی پھرتی نظر آ۔‘‘
خشک، بھر بھری، باسی سی ڈبل روٹی اسے پکڑا دی گئی تھی ۔ اس کی چال میں پہلے کی سی تیزی نہیں تھی ۔ بے یقینی کے بھنور میں رقصاں گرنے والی تھی کہ اسی نوجوان نے اسے تھام لیا۔
’’ میں نے یہ تھری پیس سوٹ ٹائی، بیلٹ اور بوٹ سب کچھ لنڈے سے لیا ۔ مجھے یہ سب لینے اور پہننے کی ضرورت کبھی محسوس نہ ہوتی اگر میں اس جاگیر دار کی بیٹی سے عشق کرنے کی حماقت نہ کر بیٹھتا ۔ مجھ معمولی سے کلرک کو اس کے شایان شان دکھنے کے لئے یہ سب کرنا پڑا ۔ اس نے کہا وہ کم میں گزارہ کر لے گی ۔میں نے کہا میں تمھیں پورا برگر نہیں کھلا سکتا اس نے کہا وہ آدھے پہ اکتفا کر لے گی ۔ پھر ہم روزانہ بانٹ کر کھانے لگے ۔ آدھا اس کا آدھا میرا ۔ پھر اس آدھے آدھے کے چکر میں وہ ہمت ہار بیٹھی ۔ اسے مجھ میں سو عیب دکھنے لگے۔ اسے اپنے وعدوں کا پاس نہ رہا ۔ وہ مجھے میری اصلیت حقیقت بتا کر چلی گئی ۔ ہم لاکھ لڑ بھڑ لیں ہم لوگوں کی سوچ نہیں تبدیل کر سکتے۔ ‘‘اس نے رنج سے کہا تھا۔
’’ میں نے یہ سب آپ سے نہیں پوچھا میں تو بس ایک شرط کو پورا کرنے کی…‘‘ اس نے نمی کی بات کو پورا نہیں ہونے دیا وہ کہنے لگا۔
’’ میں سب جانتا ہوں آپ بھی میری طرح ایک امیر کبیر لڑکی کی دوستی کے جھانسے میں آ کر اس سے وفا کی طلب گار ہو بیٹھیں ۔ سب بھلا دیں میرا ہاتھ تھام لیں ۔ ‘‘ اس نے دوستی کا ہاتھ بڑھایا تھا نمی اسے جھٹک نہیں سکی تھی۔
رابیل اس شام کے بعد اسے کبھی نہیں ملی تھی ۔ نہ ہی ان دونوں نے کبھی اس پارک کا رخ کیا تھا۔
وہ دونوں ہر مہینے کے پہلے ویک اینڈ عام سے پارک میں ٹھیلے والے سے انڈے والے دو برگر لیتے اور مزے سے کھاتے ۔ اسے خریدنے کے لئے امین اکبر کو جمع تفریق نفع نقصان کے حساب نہیں کرنے پڑتے تھے ۔ اس کے پیسے بھرنے کے لئے نمی کو سوچ بچار کا شکار نہیں ہونا پڑتا تھا ۔وہ دونوں امیری غریبی کے فرق کی ناؤ میں سوار ہوئے بغیر ایک جیسے ہوتے ہوئے اس تعلق کو استوار کر رہے تھے۔
نمی نے ماں کو امین اکبر کے بارے میں سب بتا دیا تھا۔ماں کو اس کی پسند پہ اعتراض نہیں تھا۔
ایک شرط، اور آدھے برگر نے ان دونوں کو ایک کر دیا تھا۔

ختم شد

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button

You cannot copy content of this page