ابو سوتہ: ام ہانی
سدرہ معاذ کے کمرے میں اکیلی بیٹھیں اس کی تصویریں دیکھ رہی تھیں ۔ اس دن معاذ کی سالگرہ تھی ۔ ایک دن پہلے اسی گھر سے دوسروں کے کاندھوں پہ سوار ہو کر اپنے ابدی سفر کے لیے نکلا تھا ۔ان کے گھر کو سونا کر گیا تھا ۔ ہنستا مسکراتا معاذسال کے اندر اندر ان سے جدا ہو چکا تھا ۔ اس کی پچھلی سالگرہ کی تصویریں موبائل میں دیکھتے ہوئے وہ یہی سوچ رہی تھیں کہ وہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھیں کہ سال بعد وہ ان کے ساتھ نہیں ہو گا۔ زندگی اتنی بے اعتبارہے ، وہ کل تک ان کے ہاتھوں میں تھا اور اب ہاتھوں سے نکل چکا تھا ۔ ان کے انہی ہاتھوں میں اس نے جان دی تھی ۔ وہ اپنے ہاتھوں کو غور سے دیکھنے لگیں۔
’’ امی ۔‘‘
سعد نے ان کے کاندھے پہ ہاتھ رکھا تو وہ چونکیں ۔ سعد کو غور سے دیکھا ۔ چہرے پہ ہلکی بڑھی شیو اب داڑھی کی شکل اختیار کر چکی تھی ۔ اس کے نقوش میں انہیں معاذ کی شبیہہ دکھائی دی تو انہوں نے اس کا چہرہ ہاتھوں میں تھام لیا ۔ وہ تو بنا بنایا معاذ تھا ۔ اس سے پہلے انہوں نے کیوں غور نہیں کیا کہ وہ ہو بہو معاذ جیسا ہے ۔ شاید وہ ٹھیک کہتا تھا کہ انہیں کبھی معاذ سے فرصت ہی نہیں ملی کہ وہ ان تینوں پہ توجہ دیتیں ۔
’’ آپ کب سے بھیجا کے کمرے میں بیٹھی ہیں ۔ چلیں نیچے چلیں ۔‘‘ اس کی متورم آنکھیں بتاتی تھیں کہ وہ چھپ چھپ کر روتا رہا ہے ۔
’’ سعدی ، بھائی تم سب سے بہت پیار کرتا تھا ۔ آخری وقت میں بھی اس کو تم تینوں کی فکر تھی ۔ اس نے جاتے جاتے بھی تم لوگوں کا نام لیا ۔ تم تینوں کو یاد کیا ۔ ‘‘ سعد کی آنکھیں لال ہو رہی تھیں ۔
’’ اپنا دل اس کی طرف سے صاف کر لو بیٹا ۔ وہ جان دیتا تھا تم تینوں پر ۔‘‘سعد نے سر ہلایا ۔
’’ جانتا ہوں امی ۔ کاش کہ میں آخری وقت میں ان کے ساتھ ہوتا تو ان سے اپنے ایٹی ٹیوڈ کی معافی ہی مانگ لیتا ۔ شاید میں نے کبھی سوچا ہی نہیں تھا کہ وہ اتنی سی عمر لکھوا کر لائے ہوں گے اور اتنی جلدی چلے جائیں گے ۔‘‘
سدرہ نے گہری سانس بھری ۔وہ دو دن سے رو رو کر تھک چکی تھیں ۔
’’ بس ، ایک سانس سے دوسری سانس کا نام ہی زندگی ہے ۔ ایک سانس اندر اور دوسری باہر نہ ہو تو زندگی کہیں نہیں ہوتی ۔‘‘ اس کا سر اپنے شانے سے لگا لیا۔ سعد ہچکیوں سے رونے لگا ۔ انہوں نے اسے رونے دیا ۔ خود وہ بت بنی سامنے کی کھڑکی سے باہر دیکھ رہی تھیں ۔
٭…٭…٭
معاذکے بعد اس گھر میں رہنا مشکل ہو گیا تھا ۔ سدرہ نے بلال سے کہا کہ وہ یہ گھر بکوا دیں اور رقم ان کے اکاؤنٹ میں ڈلوا دیں ۔
’’ ایک بار پھر سے سوچ لو سدرہ ۔ گھر بیچ کر کہاں جاؤگی پھر ؟‘‘
’’ جہاں بھی جاؤں بھائی جان۔ اس گھر میں نہیں رہا جاتا مجھ سے ۔ ایسے لگتاہے کہ کوئی مسلسل ہمارے ساتھ ہے ۔ ہمارے گھر میں چل پھر رہا ہے ۔‘‘سدرہ نے خوف سے جھرجھری لی ۔
جب سے معاذ فوت ہوا تھا سدرہ رات بھر جاگتی رہتی تھیں ۔ انہیں نیند ہی نہیں آتی تھی ۔ فرحانہ کو انہوں نے نمرہ کے ساتھ سلانا شروع کر دیا تھا اور خود مونس کے کمرے میں شفٹ ہو گئی تھیں ۔ ان سے اکیلے اپنے کمرے میں سویا ہی نہیں جاتا تھا ۔
’’ اگر گھر بیچنا ہے تو بھلے بیچ دو ۔ گھر تمہارا ہے ، تمہارے نام ہے ۔ تم رکھو یا بیچو وہ تمہاری مرضی ۔ لیکن کہیں اکیلے رہنے کا خیال دل سے نکال دو ۔ ہمارے اوپر والا پورشن یوں بھی رینٹ پہ ہے ۔ تم سب وہاں شفٹ ہو سکتے ہو ۔ کیونکہ یہ بات تم بھی جانتی ہو کہ ہمارا گزارا بچوں کے بنا ممکن نہیں ہے ۔اور تمہیں بچوں سمیت میں اکیلا نہیں چھوڑ سکتا ۔ معاذ تھا تو تحفظ کا احساس تھا ۔ باقی تینوں ابھی چھوٹے ہیں ۔‘‘
’’لیکن بھائی جان ۔‘‘
’’ بلال ٹھیک کہہ رہے ہیں سدرہ ۔ ہمارے اوپر والا پورشن بالکل مناسب رہے گا۔ جب تک گھر کا سودا ہوتا ہے ۔ اوپر کا پورشن ہم سیٹ کر لیتے ہیں ۔ گھر بعد میں بکتا رہے گا ۔‘‘ سدرہ سوچ میں ڈوب گئیں ۔
گھر کا سودا ہونے سے پہلے ہی بلال صاحب نے ان کا سامان اپنے اوپر والے پورشن میں شفٹ کروا لیا تھا ۔وہ سب اوپر کی منزل پہ شفٹ ہو گئے تھے ۔ سدرہ اکثر ٹیرس پہ نکل کر اپنے گھر کو دیکھا کرتی تھیں ۔
’’ بھول جاؤ اب ۔ تم وہاں سے آگے نکل آئی ہو ۔‘‘ سحر نے ٹیرس کی گرل سے ٹیک لگا کر کھڑی سدرہ کے قریب کھڑے ہو کر کہا ۔
’’ آگے نکل آئی ہوں لیکن پیچھے اپنا جگر کا ٹوٹا چھوڑ آئی ہوں ۔‘‘ ان کا لہجہ بھرا گیا تھا ۔ اسے گئے ہوئے مہینہ ہو چکا تھا ۔
’’ تمہارے باقی بچوں کو تمہاری ضرورت ہے سدرہ ۔‘‘انہوں نیایک گہراسانس لیا ۔
’’ انہی کے لیے تو جی رہی ہوں ورنہ تو شاید ۔‘‘
’’مرنے والوں کے ساتھ کوئی نہیں مرتا ۔ سب کو اپنے حصے کا وقت پورا کرکے ہی جانا ہوتا ہے ۔‘‘
’’ وہ اتنی جلدی نہ جاتا اگر وہ ابو سوتہ ۔‘‘
’’ سدرہ ۔‘‘ سحر نے انہیں ٹوکا ۔
’’ ابو سوتہ نام کا کوئی وجود نہیں ہے۔ تم ایک ڈاکٹر ہو کر یہ بات کیوں نہیں سمجھ پا رہی ۔ تم نے اس کا روحانی علاج بھی کروا کر دیکھ لیا ۔ پھر بھی تم اسی ایک بات پہ اٹکی ہوئی ہو ۔‘‘ سدرہ نے رخ موڑ کر بھابھی کو دیکھا ۔
’’ ولسن ڈیزیز ایسی نہیں ہوتی ۔ اس کے مریض ٹھیک ہو جایا کرتے ہیں ۔ ان کی ایسی حالت کم ہی ہوتی ہے ۔ ‘‘
’’ ہاں ٹھیک ہو جاتے ہیں مریض ۔ کم کی ہی حالت ایسی ہوتی ہے لیکن ہوتی تو ہے ۔ وہ عورت جس نے مجھے اس کا بتایا تھا اس کی بیٹی بھی تو مر گئی تھی ۔ ہمارا معاذ بھی انہی کم لوگوں میں سے ہے جو اس بیماری سے بچ نہیں پاتے سدرہ ۔ ‘‘
سدرہ نے نفی میں سرہلایا ۔
’’ یہ بیماری نہیں تھی ۔ میرا دل کہتا ہے کہ یہ بیماری نہیں تھی ۔ یہ کچھ اور تھا جو بس ہمیں سمجھ نہیں آسکا ۔‘‘ سحر نے تاسف سے سر ہلایا ۔ انہیں لگا تھا کہ اس بارے میں وہ کبھی سدرہ کا ذہن نہیں بدل سکتیں ۔ وہ اپنے اندر یقین رکھتی تھیں کہ معاذ کو بھلے یہ بیماری تھی مگر اس کے ساتھ کوئی اور معاملات بھی چل رہے تھے ۔خود وہ اسی ایک بات پہ یقین رکھتی تھیں کہ ابو سوتہ ایک hallucination سے زیادہ کچھ نہیں تھا ۔
٭…٭…٭
معاذ کی وفات کے چار سال بعد:
ڈاکٹر سدرہ اپنے ہاسپٹل میں کوئی مریض دیکھ رہی تھیں جب انہیں سحر کی کال آئی تھی ۔
’’ سدرہ ! تمہیں پھوپھو نسرین یاد ہیں ۔ ‘‘ سدرہ نے ذہن پہ زور ڈالا ۔ اپنے خاندان کے دور پرے کے رشتے داروں کے نام یاد رکھنے کے معاملے میں وہ خاصی بری تھیں ۔ سحر اتنی ہی اس معاملے میں اچھی تھیں ۔
’’ کونسی پھوپھو نسرین ؟‘‘ بہت سوچنے پہ بھی انہیں یاد نہیں آیا ۔
’’ ڈیڈی کی کزن جو مظفر آباد میں رہتی ہیں ۔ جن کوڈیڈی ہر مہینے مدد کے لیے پیسے بھیجتے تھے ۔‘‘ یکدم سدرہ کو یاد آگیا اور شرمندگی بھی ہوئی ۔
’’ ہاں ہاں یاد آگئیں ۔ کیا ہوا انہیں ؟ ‘‘
’’ ان کی بہو میرے پاس آئی ہے آج چیک اپ کے لیے ۔ان کو کچھ ہارمونل پرابلم ہے۔‘‘
’’ تو ؟‘‘
’’ ان کا ایک بیٹا ہے جو میڑک میں پڑھتا ہے ۔ وہ بیمار ہے ۔ اسے بھی ساتھ لائی تھیں ۔ پہلے مجھے ہی بتانے لگیں کہ اسے کچھ مسئلہ ہے ۔ پوچھنے لگیں کہ میں کوئی اچھا ڈاکٹر بتاؤںتاکہ وہ اس کا علاج کرو اسکیں ۔‘‘
’’ اچھا ۔‘‘ سدرہ ساتھ ساتھ مریض کی دوائی لکھ رہی تھیں اور موبائل ایک ہاتھ سے تھام کر سن رہی تھیں ۔
’’ اس لڑکے کو بھی وہی symtomsہیں جو معاذ کو تھے ۔‘‘ سدرہ کا چلتا ہاتھ وہیں رکا ۔
’’ مجھے لگتا ہے اسے ولسن ہی ہے ۔‘‘ سدرہ سے بولا نہیں گیا ۔
’’ پھوپھو کی بہو کہہ رہی ہے کہ ان کا پہلے بھی ایک بیٹا بچپن میں اسی قسم کے مرض میں مبتلا تھا ۔ سدرہ تم سن رہی ہو ؟‘‘
’’ ہوں ۔‘‘ وہ جیسے چونکیں ۔
’’ مجھے لگتا ہے کہ یہ بیماری تم لوگوں کی فیملی میں پہلے سے موجود ہے ۔‘‘ سدرہ بالکل ساکن تھیں ۔
’’ تم سن رہی ہو نا ؟‘‘
’’ کیا میں اس لڑکے سے مل سکتی ہوں ؟‘‘
’’ ہاں تم یہیں میرے آفس میں آجاؤ ۔ وہ اندر ہی بیٹھے ہوئے ہیں ۔‘‘ سدرہ نے جلدی سے مریض کو فارغ کیا اور سحر کے آفس کی طرف تیزی سے بھاگیں ۔
ان کے آفس میں داخل ہوتے ہی نظر سامنے پڑی تو ایک مونس کا ہم عمر لڑکا بیٹھا تھا جس کی حالت کم و بیش معاذ کی شروع حالت سے ملتی جلتی تھی ۔
وہ کچھ دیر وہیں کھڑی اسے دیکھتی رہیں ۔
’’ آپ نے اس کے ٹیسٹ نہیں کروائے ؟‘‘ پھوپھو کی بہو کچھ ضروری ٹیسٹ دکھانے لگی جو کروائے تھے ۔ ان میں سے کسی ٹیسٹ میں کاپر کا لیول نہیں درج تھا ۔
’’ میں اس بچے کے دوبارہ ٹیسٹ لکھ کر دیتی ہوں ۔ آپ وہ کروا لیں ۔‘‘ سحر جلدی سے انہیں ٹیسٹ لکھ کر دے رہی تھیں اور سدرہ اسی طرح کھڑی اس لڑکے کو دیکھ رہی تھیں ۔
’’ آپ کا یہ بیٹا خود سے باتیں بھی کرتا ہے ؟‘‘ سدرہ پہلی بار بولیں تو انہوں نے نفی میں سر ہلایا ۔
’’ نہیں لیکن میرے چھوٹے بیٹے کو یہ مسئلہ تھا ۔ وہ خود سے بڑبڑاتا تھا جب اس کی حالت بہت خراب ہو گئی تھی ۔ اس کے ہاتھ پاؤں مڑجاتے تھے ۔‘‘
’’ تھاکیا مطلب ؟‘‘ سدرہ نے ان کی بات کاٹ کر سوال کیا ۔
’’ دو سال بیمار رہ کر فوت ہو گیا بیچارہ ۔‘‘ سدرہ کی سانس رک گئی ۔ کچھ دیر وہ بالکل بول نہیں سکیں۔
’’ کیا آپ کے بیٹے کو ولسن ڈیزیز تھی ؟‘‘سحر نے پوچھا تو پھوپھو کی بہو نے شانے اچکائے ۔
’’ معلوم نہیں ۔ بس ڈاکٹرکہتے تھے کہ وہ بیمار ہے ۔ اس کے ذہن پہ اثر ہے ۔مجھے تو لگتا تھا کہ اسے کوئی ہوائی مخلوق کا سایہ ہے ۔ بڑی عجیب سی حرکتیں کرتا تھا ۔‘‘
’’ کیا وہ کچھ چیزیں بھی دیکھتا تھا ۔ کوئی عجیب چیزیں جو آپ کو دکھائی نہیں دیتی تھیں؟‘‘
پھوپھو کی بہو کچھ دیر کے لیے خاموش ہوئیں اور پھر سر ہلایا ۔
’’ کچھ لوگ دکھائی دیتے تھے اسے ۔ جن کے نام بھی وہ لیتا تھا ۔‘‘ سدرہ نے بے چینی سے پوچھا ۔
’’ کیا نام ؟ ‘‘
’’ شیوہ ‘ راجو اور لاکھی ۔‘‘
’’ وہ ان سے کیا باتیں کرتا تھا ؟‘‘
’’ وہ کہتا تھا کہ یہ مجھے ڈراتے ہیں ۔ دھمکاتے ہیں کہ یہ مجھے مار دیں گے ۔‘‘ سدرہ وہیں ڈھے گئیں ۔ سحر نے ایک دکھ سے انہیں دیکھا ۔
’’میں کوشش کروں گی کہ آپ کے اس بچے کا بروقت علاج ہو سکے ۔ آپ اسے ان ڈاکٹر کے پاس لے جائیں۔یہ ہمارے بچے کے ڈاکٹر تھے ۔ ان ڈاکٹر سے میں خود بھی بات کرلوں گی ۔ اللہ کرے کہ اس بچے کی بیماری زیادہ نہ پھیلے اور یہ ٹھیک ہو جائے ۔ ‘‘ سحر نے ایک چٹ پہ کچھ ٹیسٹ اور معاذ کے ڈاکٹر کا ہی نا م پتا لکھ دیا ۔
پھوپھو کی بہو سر ہلاتی ، شکریہ ادا کرتی بیٹے کو پکڑ کر چلی گئیں ۔
’’ سدرہ ۔اب تو مان لو کہ وہ بیماری ہی تھی ۔ ‘‘ سدرہ خاموش بیٹھی تھیں ۔
’’ ہمیں بچوں کے ٹیسٹ ایک بار پھر سے کروانے ہوں گے کیونکہ اس بات کو گزرے چار سال ہو چکے ہیں ۔ بھلے ان کی جینز میں ایسا کچھ نہیں ہے لیکن احتیاط لازمی ہے ۔‘‘ سدرہ نے سرہلایا اور اٹھ گئیں ۔اندر کہیں معاذ کی آواز ابھری تھی ۔
’’ امی ابو سوتہ کہتا ہے وہ مجھے ٹنڈ منڈ کرکے مار دیں گے ۔‘‘ ایک آنسو ان کی آنکھ سے گر کر ان کی آستین میں جذب ہو گیا ۔
ختم شد