ابو سوتہ: ام ہانی
سدرہ نے بے یقینی سے اسے دیکھا ۔
’’ کون ابو سوتہ ؟‘‘ ’’ معاذ نے ارد گرد دیکھا اور پھر سے ماں کو دیکھا۔
’’ اب چلے گئے ۔‘‘
’’ کون معاذ کسی کی بات کر رہے ہو ؟‘‘ وہ قریبا چلا اٹھی تھیں ۔
’’ ابو سوتہ ، وہ بہت … ‘‘ اس نے رک کر پھر اردگرد یکھا اور بات جاری رکھی ۔
’’ ڈراؤنا ہے ۔ اور اس کے دوست بھی۔‘‘
’’ وہ کون ہے معاذ ۔ اور کیا چاہتا ہے ؟‘‘
’’ وہ کہتا ہے کہ ہم تمہیں ٹنڈ منڈ کر دیں گے ۔‘‘ سدرہ کی خوف سے آنکھیں پھیل گئیں ۔
’’ اس نے مجھے بیمار کیا امی ۔‘‘ سدرہ نے بے یقینی سے سر نفی میں ہلایا ۔
’’ اس نے مجھے ایسے ٹیڑھا میڑھا کر دیا ۔‘‘ سدرہ نے سر زور زور سے نفی میں ہلایا ۔
’’ نہیں بیٹا ۔ ایسا کچھ نہیں ہے ۔ آپ بس بیمار ہو ۔ آپ کو کچھ مسائل ہیں جن سے آپ کو ایسی چیزیں دکھائی دیتی ہیں ۔‘‘ بطور ڈاکٹر وہ اتنا تو جانتی تھیں کہ اس بیماری میں مریض کو hallucinations کا مسئلہ ہوتا ہے ۔ و ہ ایسی ایسی چیزیں دیکھتا ہے جو اس کا ذہن اسے دکھانا چاہتا ہے اور ان کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی۔
’’ وہ مجھے ٹنڈ منڈ کر رہا ہے ۔‘‘ اس نے اپنے بازو سامنے کئے جو ٹیڑھے ہو چکے تھے ۔ اپنی ٹانگیں اٹھائیں جو مڑ چکی تھیں۔سدرہ کا دل کٹ گیا ۔
سدرہ نے پیار سے اس کے ٹیڑھے بازو ؤں کو چوما ۔ اس کے منہ سے بہتی رال کو صاف کیا جو کبھی کبھار بولنے کے دوران بہنے لگتی تھی ۔ یہ ان کا ہونہار معاذ تھا جو یونیورسٹی کاٹاپر تھا ۔ جو حسین نوجوان تھا ۔ جو باپ کا بزنس سنبھال رہا تھا ۔ اب وہ اسے سنبھال رہی تھیں ۔
’’ وہ کہتا ہے کہ ہم تمہیں ٹنڈ منڈ کریں گے اور پھر مار دیں گے ۔‘‘ سدرہ بے اختیار رو دیں کیونکہ ان کا چھ فٹ کا بیٹا ان کے سامنے ٹنڈ منڈ ہی پڑا بچوں کی طرح رو رہا تھا ۔
’’ امی وہ مجھے مار دیں گے ۔‘‘ سدرہ نے بلکتے ہوئے معاذ کا چہرہ اپنے ہاتھوں میںلیا ۔
’’ نہیں میرے بیٹے ۔ ایسا نہیں ہو گا ۔‘‘
’ ’ وہ کہتے ہیں امی ۔ وہ یہی کہتے ہیں ۔‘‘
’’ انہیں بولو کہ مجھے ایسا کردیں اور تمہاری جان چھوڑ دیں ۔‘‘ معاذ یکد م رونا بھول کرماں کو دیکھنے لگا ۔
’’ نہیں امی ۔آپ اتنی تکلیف نہیں برداشت کر سکیں گی۔میں بہت زیادہ تکلیف میں ہوں ۔ آپ سوچ بھی نہیں سکتیں ۔ ‘‘ سدرہ دم بخود رہ گئیں ۔ نجانے وہ کتنی تکلیف میں تھا جو وہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھیں ۔
’’آپ کی ابھی میرے بہن بھائیوں کو ضرورت ہے ۔ وہ چھوٹے ہیں ۔ آپ کو ان کے لیے جینا ہے ۔ ان کا خیال رکھنا ہے ۔ میرا وقت شاید اتنا ہی تھا ۔‘‘ سدرہ کے رونے میں مزید اضافہ ہو گیا ۔
’’ امی آپ بہادر ہیں اور بہادر لوگ ایسے نہیں روتے ۔ ‘‘ اس نے ماں کے آنسو صاف کیے ۔ سدرہ نے جلدی سے آنسو پونچھے اور خود کو سنبھالا ۔ انہیں اپنے بچوں کے لیے مضبوط دکھنا تھا ۔
’’ یخنی پیو بیٹا ‘ طاقت ملے گی ۔ ایسی باتیں مت سوچا کرو ۔ کوئی تمہیں کچھ نہیں کر سکتا۔یہ سب اس ذہن کا اختراع ہے اور کچھ نہیں ۔‘‘ اسے اٹھا کر ٹیک دیتے ہوئے انہوں نے زیر لب اس پہ آیات دم کیں اور اسے یخنی پلانے لگیں ۔
معاذ کو اپنے کمرے میں سلا کر وہ باہرآئیں اورکال ملانے لگیں ۔
’’ کیا کل آپ یہاں آ سکتے ہیں؟‘‘ان کے چہرے پہ ہنوز خوف طاری تھا ۔
٭…٭…٭
حضرت صاحب اگلی صبح ہی ان کے گھر آ گئے تھے ۔ ان کے ساتھ ان کے تین شاگرد بھی تھے ۔ سدرہ انہیں ساری تفصیلات بتانے کے بعد معاذ کے پاس اس کے کمر ے میں لے گئیں ۔ کمرے میں جانے سے قبل انہوں نے اپنے شاگردوں کو کچھ ضروری ہدایات دیں ۔وہ لیٹے ہوئے معاذ کو بغور دیکھتے کمرے کا جائزہ لینے لگے ۔ اس کمرے میں انہیں کچھ بھی غیر معمولی نہیں لگا تھا ۔ پھر وہ کچھ پڑھنے لگے اور پڑھتے ہوئے انہوں نے سدرہ کو وہاں سے بھیج دیا ۔ کچھ ہی دیر میں ان کے شاگرد بیری کے پتے سے پکا پانی وہیں لے آئے جس سے ان سب نے مل کر معاذ کو غسل دیا تھا ۔ حضرت صاحب نے رقیہ پڑھ کر دم کیا اور کمرے کے چار اطراف میں آیات پڑھ پڑھ کر دم کیں ۔ کچھ قرآنی آیات کے نسخے بھی تھے جو انہوں نے اس کے کمرے میں چاروں دیواروں پہ آویزاں کر دیے۔
معاذ کو غسل دے کر وہ باہر نکل آئے ۔ اب وہ سکون سے سو رہا تھا ۔
’’ بہن میں اب بھی یہی کہوں گا کہ بچے پہ کوئی جادو یا آسیب نہیں ہے ۔ لیکن پھر بھی میں نے روحانی علاج شروع کر دیا ہے ۔‘‘
’’ اگر اس کے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہے تو وہ ابو سوتہ کون ہے ؟اسے کیوں دکھائی دیتا ہے ۔ اس سے کیسے بات کرتا ہے ۔ کیوں اس کے پیچھے پڑا ہے؟‘‘ ان کی بات پہ حضرت صاحب کچھ دیر کے لیے خاموش ہوئے ۔
’’ آپ نے خود ہی تو بتایا کہ اسے جو بیماری تشخیص ہوئی ہے اس میں مریض کے ذہن پہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اسے کچھ نا کچھ دکھائی دیتا ہے جو دراصل دھوکا ہوتا ہے۔تو یہ ابو سوتہ بھی ایک دھوکا ہے ۔‘‘
’’ وہ تو ٹھیک ہے لیکن وہ اسے یہ تک کہتے ہیں کہ ہم تمہیں مار دیں گے ۔ تمہاری جان لے لیں گے ۔ کیا آپ کو نہیں لگتا کہ یہ جنات ہیں ۔ معاذ جیسے بتا رہا تھا و ہ کہیں سے اس کے ذہن کا اختراع نہیں لگتا تھا ۔ وہ اتنا پریقین تھا جیسے وہ حقیقت میں ہوں ۔‘‘
حضرت صاحب خاموش رہے ۔
’’ میرا اتنے سال کا تجربہ کہتا ہے کہ اس کے ساتھ ایسا کوئی معاملہ نہیں ہے ۔ یہ صرف اور صرف بیماری ہے اور وہ ٹھیک ہو جائے گا اگر اس کا ٹھیک طرح سے علاج کیا جائے ۔‘‘
’’ علاج تو ہو ہی رہا ہے مگر میں مطمئن نہیں ہوں ۔ اسی لئے میں نے روحانی علاج شروع کروانا بھی ضروری سمجھا کیونکہ معاذ کے ساتھ بیٹھ کر مجھے لگتا ہے وہ کسی اور مخلوق سے باتیں کرتا ہے ۔وہ بہت کچھ دیکھتا ہے جو ہم نہیں دیکھ سکتے ۔ ‘‘ کل رات والے واقعے کے بعد ان کے آنکھوں سے وہ منظر نہیں جاتا تھا ۔
’’ اگر آپ کی تسلی نہیں ہوتی تو میں ایک بزرگ کا پتہ دیتا ہوں ۔ آپ اس بچے کو وہاں لے کر جا سکتی ہیں ۔ ان کے پاس موکلات ہیں جن سے وہ اس بات کا بھی پتا لگوا سکتے ہیں کہ کیا وہ واقعی جنات کے قبضے میں ہے ۔ ‘‘ انہوں نے اپنے موبائل میں سے ایک نمبر نکال کر انہیں لکھوایا ۔ سدرہ نے اسی وقت تہیہ کر لیا کہ وہ ان بزرگ کے پاس بھی انہیں لے کر جائیں گی ۔ اگر جسمانی علاج کے لیے ہم طرح طرح کے ڈاکٹرز کے پاس جا سکتے ہیں تو روحانی علاج کے لیے کیوں نہیں جایا جا سکتا ۔
اگلے ہی دن ہسپتال سے چھٹی لے کر معاذ کو ان بزرگ کے پاس خوشاب لے گئیں جنکا پتہ حضرت صاحب نے دیا تھا ۔ سحر بچوں کے پاس ٹہر گئی تھیں ۔ بلال صاحب بھی سدرہ کے ساتھ ہی خوشاب گئے تھے ۔ سعد بھائی کی بگڑتی حالت کی وجہ سے اب خاموش ہو گیا تھا ۔ اس نے ماں سے شکوے شکایات ترک کر دیے تھے ۔
ان بزرگ نے اکیلے میں معاذ کی جانچ کی تھی ۔ دو گھنٹے اس کا باقاعدہ معائنہ ہوا تھا اور اس پہ پڑھ پڑھ کر پانی دم کیا تھا ۔ آیات دم کی تھیں ۔
کچھ دیر وہ جیسے ایک کونے میں اکیلے بیٹھ کر موکلات سے بات بھی کرتے رہے او ر پھر جب اٹھ کر آئے تو سر نفی میں ہلایا ۔
’’ کوئی جن جادو نہیں ہے ۔ کسی نے کچھ نہیں کروایا ۔ یہ بچہ اس حوالے سے بالکل ٹھیک ہے ۔ ‘‘
’’ پھر یہ سب کیا ہے ؟‘‘
’’ اس کو ذہنی مسئلہ ہے بی بی ۔ ہر مسئلہ جنات اور جادو سے نہیں جوڑ دینا چاہئے ۔ یہ وہم ذہن سے نکال دیں کہ کسی نے کچھ کروایا ہوا ہے ۔ ‘‘سدرہ کو اس حوالے سے فی الوقت تسلی ہو گئی اور وہ اسی دن اسے لے کر واپس گھر لوٹ آئی تھیں۔
اسی رات سوتے میں معاذ ایک دم اٹھ کر بیٹھ گیا ۔ اس کے منہ سے کچھ عجیب سی آوازیں بلند ہو رہی تھیں اور وہ ایسے بات کر رہا تھا جیسے اس دنیا میں نہ ہو ۔ اس کی آوازیں سن کر سدرہ کی آنکھ کھل گئی ۔سر کو جھٹکے دیتا ہوا وہ منہ سے عجیب سی آوازیں نکال رہا تھا ۔
’’ ٹنڈ منڈ کر دیں گے ۔‘‘ معاذ نے بازو جو پہلے سے ہی ٹیڑھے تھے کو مزید ٹیڑھا کیا تو سدرہ کی چیخ نکل گئی ۔
’’ مار دیں گے ۔‘‘ معاذ نے اپنا سر پیٹنا شروع کر دیا
’’ معاذ ۔‘‘سدرہ اس کی طرف لپکیں ۔
وہ وہیں نڈھال ہو کر تکیے پہ گر گیا ۔ اور سر کو زور زور سے ہاتھوں سے کوٹنے لگا ۔
’’ معاذ کیا ہو رہا ہے تمہیں ؟‘‘
’’امی میرا سر…‘‘ وہ پٹخ پٹخ کر سر بستر پہ پھینک رہا تھا ۔
سدرہ نے اس کی دوائی نکال کر ایک ڈوز مزید دے ڈالی کہ شاید اسے آرام آجائے ۔ لیکن وہ نجانے کتنی دیر ہی درد سے چلاتا رہا تھا ۔ سدرہ تب تک اس پہ دعائیں اور آیات پڑھ پڑھ کر پھونک رہی تھیں ۔خاصی دیر بعد وہ سو گیا تو سدرہ بھی لیٹ گئیں لیکن انہیں پھر نیند نہ آ سکی ۔
اگلے دن ہی سدرہ معاذکو ہسپتال چیک اپ کے لیے لے گئیں ۔
’’ it appears to be delusional and nothing else ۔ ‘‘
معاذ کے ڈاکٹر نے صاف کہا تھا۔
’’ وہ کسی ابو سوتہ کو دیکھتا ہے ڈاکٹر ۔‘‘
’’ ہوتا ہے کہ اکثر ایسے مریض پورے پورے کریکٹر بنا لیتا ہے اور ان سے پوری کہانی جوڑ لیتا ہے ۔ بہتر ہے کہ اسے کچھ دن کے لیے مزید آپ ہاسپٹل ایڈمٹ کر دیں ۔ ہم اس کے سارے ٹیسٹ رپیٹ کرنا چاہتے ہیں۔ ‘‘انہوں نے دوبارہ سے معاذ کو ایڈمٹ کر لیا تھا ۔ اس کے ٹیسٹ نئے سرے سے ہوئے تھے ۔ اس کا جگر پہلے سے زیادہ خراب ہو چکا تھا اور ذہنی حالت تو سب کے سامنے ہی تھی ۔ جو جو ادویات ممکن تھیں وہ دی جا رہی تھیں لیکن حالت میں سدھار نہیں آ رہا تھا ۔
٭…٭…٭
اسے ہسپتال میں داخل ہوئے دو ہفتے ہو چکے تھے اور وہ اسی طرح اٹھ اٹھ کر چلاتا تھا۔
’’ ابو سوتہ مجھے مار دے گا ۔ وہ مجھے ساتھ لے جائے گا ۔‘‘
اس کی ان بے معنی باتوں پہ ڈاکٹرز کان نہیں دھرتے تھے ۔وہ اس کی باتوں کو مکمل نظر انداز کر کے بس اسے ادویات دیے جاتے ۔ سکون آور ٹیکے لگائے جاتے ۔ لیکن سدرہ سہم جاتی تھیں ۔ وہ اب زیادہ تر ادویات کے زیر اثر سویا رہتا۔سوتے میں بھی اکثر بڑبڑاتا رہتا ۔
اس دن صبح فجر کے بعد کا وقت تھا جب اس نے سدرہ سے پانی مانگا تھا ۔ سدرہ فجر کی نماز کے بعد وہیں جائے نماز پہ بیٹھے بیٹھے ہی بیٹھی اونگھ رہی تھیں کہ اس کی آواز سے ان کی آنکھ کھل گئی ۔ انہوں نے اسے بٹھا کر پانی پلایا ۔ وہ اب انسان کم اور ہڈیوں کا ڈھانچہ زیادہ لگتا تھا ۔ کوئی بھی پہچان نہیں سکتا تھاکہ یہ وہی معاذ تھا جو ان کے گھر کی رونق ہوا کرتا تھا ۔ جس کے حسن پہ سب ماشاء اللہ کہا کرتے تھے۔
’’ امی ، چھوٹوں کا خیال رکھنا ۔‘‘ بہت رک رک کر اس نے یہ کہا ۔
سدرہ جانتی تھیں کہ وہ چھوٹے بہن بھائیوں کی کتنی پرواہ کرتا تھا ۔انہوں نے ڈبڈبائی آنکھوں سے اسے دیکھتے سر ہلایا اور دکھی سا مسکرادیں ۔
’’ روئیں نہیں۔ ہر انسان اپنا وقت لکھوا کر آتا ہے۔میرا وقت پورا ہے ۔‘‘ ٹوٹ ٹوٹ کر اس نے جملے مکمل کئے ۔
سدرہ کا دل کٹ گیا۔ اپنے آنسو تو اس کے لئے پونچھ لئے لیکن اس ماں کے دل کا کیا کرتیں جو بچے کو اس قدر تکلیف میں دیکھ کراندر ہی اندر تڑپ رہا تھا ۔
’’ مجھے قرآ ن سنا دیں ۔‘‘ سدرہ نے موبائل میں رقیہ شرعیہ لگا کر اس کے تکیے کے پاس رکھ دیا۔
’’ امی ۔‘‘ سدرہ اس کے لہجے کی تکلیف پہ چونکیں ۔
’’ امی ۔‘‘ اس کی آنکھیں باہر کو ابل رہی تھیں ۔
’’ معاذ ۔‘‘ وہ اس کے ہاتھ ملنے لگیں ۔اس کے جسم کو جھٹکے لگ رہے تھے ۔ ٹانگیں وہ بستر پہ رگڑ رہا تھا ۔
’’ امی ۔ ‘‘ اس نے ماں کا ہاتھ اتنا زور کا دبایا کہ سدرہ تڑپ اٹھیں ۔یکدم اس کی تڑپ تھم گئی ۔سدرہ کے ہاتھ پہ اس کی گرفت ڈھیلی پڑی ۔ اب وہ گہرے سانس لے رہا تھا ۔
ایک … دو… تین اور یکدم جیسے اس کی سانس ٹھہر گئی ۔ سدرہ کی سانس بھی وہیں ساکن ہو گئی ۔
’’ معاذ ۔‘‘ ان کی پھٹی آنکھیں ساکت رہ گئیں ۔
معاذ کی پتلیوں میں اب کوئی حرکت نہیں تھی۔وہ رمق جو زندگی کی خبر دیتی ہے اس کی نظروں میں دم توڑ چکی تھی ۔ اس کی پتلیاں ساکن تھیں۔ سانس بھی ساکن تھی ۔ جسم بے جان تھا۔
’’ معاذ ۔‘‘ انہوںنے جلدی سے اس کی نبض دیکھی ۔ وہ ٹھہر چکی تھی ۔ ناک کے سامنے ہاتھ رکھا ،ہوا نہیں تھی ۔
’’ معاذذذ… ‘‘ وہ چیخ پڑیں ۔
زندگی ختم ہوجائے تو اسے آواز دینے کا فائدہ نہیں رہتا اور زندگی ختم ہو چکی تھی ۔
٭…٭…٭