ابو سوتہ: ام ہانی

سحر نے میڈیکل اور ڈاکٹرز کے بنے ہوئے مختلف گروپس میں بھی معاذ کی حالت پوسٹ کی کہ شاید کہیں سے کوئی مدد مل سکے ۔ تبھی ایک عورت نے انہیں خود سے میسج کیا تھا ۔
’’میں نے آپ کی پوسٹ پڑھی تھی میم ۔ جو آپ بتا رہی ہیں شروع شروع میں ایسی حالت میری بیٹی کی بھی تھی ۔لیکن پہلے میں یہ پوچھنا چاہوں گی کہ کیا آپ کی فیملی میں کسی اور کی بھی ایسی حالت ہوئی ہے کبھی ؟‘‘
سحر نے میسج پڑھ کر ذہن پہ زور دیا ۔ ایسا تو کبھی ان کے خاندان میں نہیں ہوا تھا ۔
’’ نہیں ، ہماری فیملی میں ایسا کسی کے ساتھ نہیں ہوا ۔‘‘بطور ڈاکٹر وہ سمجھ رہی تھیں کہ وہ ان سے یہ پوچھنا چاہتی تھی کہ کہیں یہ مرض موروثی تو نہیں ہے ۔
اس عورت کا تعلق کینیڈا سے تھا اور وہ پاکستانی نزادتھی ۔ اس کی بیٹی اب اس دنیا میں نہیں تھی کیونکہ اس کی بیماری آخری اسٹیج پہ پتا چل سکی تھی اور اب اس بات کو گزرے ہوئے بھی آٹھ سال ہو چکے تھے ۔ لیکن ان کے خاندان میں اس جیسی بیماری دو اور لوگوں کو بھی ہو گئی تھی اسی لئے ڈاکٹرز نے سب کا چیک اپ کروایا تھا ۔
اس عورت نے سحر سے اور بھی کچھ سوالات کیے اور آخری سوال نے سحر کو بالکل سن کر دیا ۔
’’ کیا وہ اکیلے میں کسی سے باتیں کرتا ہے ۔ یا اسے کچھ دکھائی دیتا ہے جو آپ سب نہیں دیکھ سکتے ؟‘‘
سحر کافی دیر تک اسکرین کو دیکھتی رہیں ۔
ایسا ایک ہفتہ پہلے ہوا تھا کہ وہ جب معاذ سے ملنے اس کے گھر گئی تھیں تو وہ لاؤنج میں لیٹا ہوا تھا اور کچھ بڑ بڑا رہا تھا ۔ سحر نے سننے کی کوشش کی تو انہیں لگا کہ وہ کسی سے معافی مانگ رہا ہے کہ اس کا پیچھا چھوڑ دیا جائے ۔ انہوں نے اس سے پوچھا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے تو معاذ نے انہیں مدد طلب نظروں سے دیکھا اور ہوا میں ہاتھ بلند کرتے ہوئے کچھ کہنے لگا ۔ وہ سمجھ نہیں سکیں کہ وہ کیا کہہ رہا ہے ۔لیکن وہ یوں ہوا میں دیکھ رہا تھا کہ جیسے اسے وہاں کچھ دکھائی دے رہا ہو ۔ سحر نے اس کی اٹھی ہوئی انگلی کی طرف دیکھا لیکن وہاں ایسا کچھ بھی نہیں تھا ۔
’’ معاذ کس سے بات کر رہے ہو ، کون ہے وہاں ؟‘‘ معاذ نے سر جھٹک دیا ۔
اب وہ وہاں نہیں دیکھ رہا تھا نہ ہی وہ بڑ بڑا رہا تھا ۔ اس نے سر نفی میں ہلایا اور خاموش ہو گیا ۔ اس وقت وہ فکرمند ہوئی تھیں لیکن پھر انہیں لگا کہ بیماری کی وجہ سے چڑ چڑا اور اکیلے پن کا شکار ہونے سے وہ خود سے باتیں کرنے لگا ہے ۔ اکثر مریض ایسا کرتے انہوں نے دیکھے اور سنے تھے ۔
’’ شاید کہ اسے کچھ دکھائی دیتا ہے ۔میں یقین سے نہیں کہہ سکتی ۔اس نے کبھی کچھ بتایا نہیں ہے ۔ ‘‘ انہوں نے کافی توقف سے جواب دیا۔
’’ میں نے اسے اکثر بڑبڑاتے ہوئے دیکھا ہے ۔لیکن وہ ذہنی طور پہ کافی ڈسٹرب رہا ہے تو خود سے باتیں کرنا ایسی حالت میں کوئی حیرت کی بات نہیں ہے ۔‘‘
میں کنفرم نہیں ہوں لیکن مجھے لگتا ہے کہ آپ کے بھانجے کو میری بیٹی کی طرح ’’ولسن ڈیزیز ‘‘ ہے۔‘‘
’’ ولسن ۔‘‘ انہوں نے شاید اس بیماری کا سنا تھا لیکن زیادہ نہیں پتا تھا کہ وہ ایک گائینا کالوجسٹ تھیں اور ایک اسپیشلسٹ کو اپنی فیلڈ سے متعلق بیماریوں کی ہی زیادہ خبر ہوتی ہے یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں تھی ۔
’’ آپ جلد از جلد اس کے کا پر لیول کے ٹیسٹ کروائیں ۔‘‘ انہیں یاد تھا کہ اس کے اس طرح کے ٹیسٹ پہلے ہو چکے ہیں لیکن انہیں یقین نہیں تھا ۔
’’ ولسن ڈیزیز ۔ ‘‘سحرنے زیر لب بڑبڑاتے ہوئے جلدی سے گوگل کھولا اور سر چ کیا ۔
وہاں لکھی بہت سی علامات معاذ میں موجود تھیں ۔ سحر دن رات اس کے بارے میں پڑھتی رہیں اور پھر انہیں بھی لگنے لگا کہ اس عورت نے ٹھیک کہا تھا ۔ معاذ کو شاید یہی بیماری تھی ۔
دو بڑے ہسپتالوں میں اسے علا ج کے لیے لے جا یا گیا جن میں سے ایک بڑے ہسپتال میں اسے داخل کرلیا گیا ۔ اس کے نئے سرے سے ٹیسٹ کرائے گئے اور کچھ مزید نئے ٹیسٹ ہوئے جن کی رپورٹ آنے میں کچھ وقت لگنا تھا ۔ رزلٹ آنے تک اسے ہسپتال میں ہی رہنا تھا ۔ وہ شہر کا سب سے بڑا ہسپتال تھا جہاں ایک دن کے کمرے کے چارجز ہی پندرہ ہزار تھے ۔ بلال صاحب نے پیسہ پانی کی طرح بہانے کا وعدہ کیا تو سدرہ کو بھی تسلی ہو گئی ۔
سحر نے سدرہ سے معاذ کے بارے میں پھر کوئی بات نہیں کی ۔ اس نے خود سے ڈاکٹرز سے مل کر ڈسکس کر لیا تھا ۔ ولسن ڈیزیز کے لیے جو بھی ٹیسٹ ڈاکٹرز کو درکار تھے وہ کروا لئے گئے تھے ۔ وہ چاہتی تھیں کہ ایک بار رپورٹ آ جائیں تو ہی سدرہ سے بات کی جائے ۔ وہ دعاگو تھیں کہ بیماری کی جلد اور درست تشخیص ہو جائے تاکہ علاج شروع کیا جاسکے ۔ اس کا ALT ٹیسٹ کی رپورٹ خراب آئی تھی ۔ ڈاکٹر نے اس کا liver biopsy تجویز کیا تھا جس کے بعد ہی ٹھیک طرح سے بتایا جا سکتا تھا کہ اصل مسئلہ کتنا گھمبیر ہے۔
معاذ کی وجہ سے پورا گھر ڈسٹرب تھا ۔ تینوں چھوٹوں کا تو سدرہ کو ہوش ہی نہیں رہا تھا ۔ وہ تینوں فرحانہ کے سپرد تھے اور سدرہ خود معاذ کے ساتھ ہسپتال میں تھیں ۔ سعد جو پہلے ہی اس بات پہ چڑتا تھا کہ امی بھیجا کو زیادہ توجہ دیتی ہیں ، مزید چڑچڑے پن کا شکار ہو چلا تھا ۔
اس دن سدرہ ہسپتال سے گھر آئی تھیں تاکہ کچھ دیر کو آرام کر سکیں ۔ وہ چوبیس گھنٹوں سے ہسپتال میں ہی تھیں ۔ سعد نے ماں کو دیکھ کر چلانا شروع کر دیا تھا ۔
’’ آپ کو یہ یاد آ گئی کہ آپ کے اور بھی بچے ہیں بھیجا کے علاوہ ۔‘‘ سدرہ اس کی اتنی بدتمیزی پہ شاکڈ اسے دیکھ رہی تھیں ۔ ان کے اعصاب پہلے ہی بری طرح سے چٹخ رہے تھے اس پہ مستزاد سعد کا یوں چلانا انہیں اندر تک ہلا گیا تھا ۔
’’ تم جانتے بھی ہو کہ تمہارا بھائی کتنا بیمار ہے ۔ پھر بھی اتنی بے حسی کا ثبوت دے رہے ہو ۔‘‘ سدرہ کو سعد پہ غصہ آ گیا کہ وہ کوئی بچہ نہیں تھا کہ معاملے کی سنگینی کو نہ سمجھ سکے ۔
سعد نے ہاتھ میں تھاما ہوا گلاس پٹخ دیا تھا ۔ سدرہ کی آنکھیں مزید پھیل گئیں ۔
’’معاذ معاذ معاذ ۔ ایک وہی آ پ کابیٹا ہے جس کی آپ کو دن رات پرواہ ہے امی ۔ ہماری کوئی فکر نہیں ہے ۔ہمیں بھی ماں کی ضرورت ہے کبھی یہ سوچا ہے آپ نے ۔باپ تو ہمارا ہے نہیں ۔ ماں کو بھی نہیں پتا کہ اس کے بچے کہاں ہیں اور کس حال میں ہیں ۔ ‘‘ اپنی جگہ وہ ٹھیک تھا کہ ایک ماں پہ تمام اولادوں کا برابر حق ہوتا ہے لیکن وہ مجبور تھیں کہ ان کا بڑا بیٹا جس حالت میں تھا وہ اسے پھینک تو نہیں سکتی تھیں۔
وہ بالکل گم صم سی زمین پہ ٹوٹے بکھرے گلاس کو دیکھنے لگیں ۔ سعد غصے سے پھوں پھاں کرتا وہاں سے چلا گیا ۔
’’ امی ۔‘‘ نمرہ نے ماں کو پریشان کھڑا دیکھ کر ان کا ہاتھ تھام لیا ۔
سدرہ نے کچھ غائب دماغی کی کیفیت میں نمرہ کو دیکھا ۔
’’ کیا تمہیں بھی لگتا ہے کہ میں بس معاذ کی فکر کرتی ہوں ؟‘‘ نمر ہ نے ماں کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر سر نفی میں ہلایا ۔
’’ مجھے لگتا ہے نمرہ میں فیل ہو گئی ہوں ۔ میں حسیب کے بعد کچھ نہیں سنبھال سکی ۔ نہ اپنی اولاد کی حفاظت کر سکی نہ انہیں محبت دے سکی ۔ میں ایک ناکام ماں ہوں ۔ ایک بری ماں ہوں ۔ تبھی تو میری اولاد اتنی تکلیف میں ہے ۔‘‘ وہ وہیں بیٹھ کر رونے لگیں ۔ نمرہ نے ماں کی آنکھوں سے آنسو صاف کئے جن کی آنکھیں پہلے ہی رت جگے سے سوجھی ہوئی تھیں ۔ اسے سعد پہ شدید غصہ آنے لگا تھا ۔
’’ ایسا نہیں ہے امی ۔ آپ بہت اچھی ماں ہیں۔ آپ نے ہمیں بہت اچھے سے بڑا کیا ہے ۔ ہمیں کبھی بابا کی کمی محسوس نہیں ہونے دی ۔ آپ بہت سٹرانگ ہیں ۔ ایسے مت روئیں پلیز ۔‘‘
’’ وہاں معاذ میرے ہاتھوں سے پھسل رہا ہے ریت کی طرح اور یہاں سعد ۔‘‘ انہوں نے اپنے پھیلے ہاتھوں کو دیکھا جن میں کچھ نہیں تھا ۔
’’ بھیجا ٹھیک ہو جائیں گے امی ۔ وہ ٹھیک ہو جائے گا ۔‘‘ نمرہ کی تسلی پہ انہوں نے اپنے چہرے سے آنسوؤں کو رگڑا اور ان شاء اللہ کہا ۔
’ ’ فرحانہ ۔ پلیز میرے بچوں کا خیال رکھنا ۔ یہ ایک مجبور ماں کی درخواست ہے ۔‘‘ وہ کچن میں کام کرتی فرحانہ کے پاس گئیں اور بے بسی سے اس کے سامنے ہاتھ جوڑ دیے ۔ فرحانہ کا دل بھر آیا اور اس نے بڑھ کر ان کے ہاتھ تھام لئے ۔
’’ باجی ایسے تو مت کہیں ۔ یہ میرے بھی تو بچے ہیں ۔ اپنا بیٹا تو نجانے کہاں کن حالوں میں ہے جس سے عرصے بعد ملنا ہوتا ۔ میرے لئے تو میری مامتا کی تسکین کا یہی ذریعہ ہیں ۔ ‘‘
سدرہ ممنون سی مسکرا دیں ۔ اس وقت انہیں احساس ہوا کہ وفادار ملازم بھی اللہ کی بڑی نعمتوں میں سے ایک ہوتے ہیں ۔ کم از کم فرحانہ کے ہوتے ہوئے ان کے بچے اکیلے نہیں تھے ۔ کوئی تو تھا ان کا خیال رکھنے کے لیے۔
٭…٭…٭
معاذ کی liver biopsy بتاتی تھی کہ کاپرنے اس کے جگر کو کتنا متاثر کیا ہے ۔ اسے ولسن ڈیزیز ہی تھی ۔ اس کا علاج شروع ہو چکا تھا لیکن ہسپتال میں ہی اسے رہنا تھا ۔ ڈاکٹرز بہت زیادہ پر امید نہیں تھے کہ اس کا جگر خاصا متاثر ہو چکا تھا ۔
’’ اگر ہم اس کا لیور ٹرانسپلاٹ کر وا لیں ۔‘‘ سحر نے ڈاکٹر سے پوچھا ۔ سدرہ تو اس قابل بھی نہیں رہی تھیں کہ اس کی حالت کو ڈاکٹر سے ڈسکس کر سکتیں ۔
’’ اس سے زیادہ فرق نہیں پڑے گا کیونکہ ولسن ڈیزیز میں جگر کے ساتھ دماغ بھی متاثر ہوتا ہے ۔ اس کے لئے ہم اسے ادویات ہی دے رہے ہیں ۔ اس وقت اسے دعا کی بہت ضرورت ہے ۔‘‘ سحر نے کچھ سوچ کر حضرت صاحب کو کال کی ۔
’’ کیا آپ اس پہ دم کرنے ہسپتال آ سکتے ہیں ؟ اسے روحانی علاج کی ضرورت ہو نا ہو ، اللہ کے کرم کی ضرورت ہے ۔‘‘ حضرت صاحب نے اگلے دن آنے کا وعدہ کر لیا تھا ۔
اگلے دن وہ ہسپتال آئے تھے اور معاذکی حالت دیکھ کر انہیں دکھ ہوا تھا ۔ اس سے زیادہ ایک بیوہ روتی ہوئی ماں کو دیکھ کر انہیں دکھ ہوا جس کا جوان بیٹا چند مہینوں میں ہی ایسا ہو گیا ۔ جتنی دیر وہ اس کے تکیے سے لگ کر بیٹھے رہے اس پہ ورد کرتے رہے ۔
’’ آپ کو بچے کو رقیہ شرعیہ بھی سنوانا چاہئے ۔ مجھے اللہ کریم سے امید ہے کہ وہ جلد اس بچے کو صحت یاب کریں گے ۔‘‘ سدرہ نے موبائل فون پہ ڈھونڈ کر معاذ کے قریب اسے لگا دیا ۔ وہ خود بھی اس کے پاس بیٹھی سورہ الرحمن پڑھتی رہتی تھیں ۔
٭…٭…٭
معاذ کی ٹانگیں اور بازو دیکھ کر ایسا لگنے لگا تھاکہ وہ اپنی درست ساخت سے کچھ ٹیڑھے پن کا شکار ہو رہی ہیں ۔ اس کے سر کے بال بھی کافی جھڑنے لگے تھے ۔ چہرہ اتنا سوکھ گیا تھاکہ جبڑے باہر کو آتے دکھائی دیتے تھے ۔ وہی حسین نوجوان جس پہ نظر ٹکتے ماشاء اللہ نکلتا تھا ، اسے دیکھتے اب استغفر اللہ نکلتا تھا ۔
الفاظ ایسے ادا ہونے لگے تھا جس سے بات ٹھیک سے واضح ہی نہیں ہو پاتی تھی ۔ اکثر اب وہ تنہائی میں جیسے بڑبڑاتا تھالیکن اس کی بڑبڑاہٹ کی خاص سمجھ نہیں لگتی تھی ۔ اکثر وہ نیم بے ہوشی کی حالت میں ہی پایا جاتا ۔ جب ہوش میں ہوتا تو ماں سے شکایت کرتا ۔
’’ امی، بہت درد ہے … بہت زیادہ ۔ اندر سے کوئی کاٹ رہا ہے۔‘‘ سدرہ نہ چاہتے ہوئے بھی رو پڑتیں ۔
ان کی ساری بہادری کہیں جا سوئی تھی جب ان کا جوان بیٹا درد بھری آواز میں ان سے تکلیف کی شکایت کرتا تھا ۔ وہ اپنے ہسپتال سے چھٹی لے چکی تھیں کیونکہ انہیں معاذ کے ساتھ رہ کر اسے سنبھالنا تھا ۔ حسیب کو وہ کھو چکی تھیں ، معاذ کو وہ نہیں کھونا چاہتی تھیں ۔
’’اللہ شفا دے گابیٹا ۔ اللہ شفا دینے والا ہے۔‘‘ وہ اس کا ہاتھ تھپکتیں ، اس کا گال چومتیں ۔
ڈاکٹرز نے ان کے باقی بچوں کے بھی جینیٹک ٹیسٹ کئے تھے کہ اگر کسی اور بچے میں بھی یہ مرض موجود ہو تو بروقت اس کا علاج شروع کیا جاسکے لیکن ان کے باقی بچوں کے ٹیسٹ بالکل ٹھیک تھے ۔ جس پہ انہوں نے اللہ کا بہت شکر ادا کیا ۔
٭…٭…٭
اس کو ہسپتال میں داخل ہوئے پورا مہینہ ہو چکا تھا ۔ ہسپتال کے خرچے ، ادویات اور ٹیسٹ کے خرچے پورے کرنے کے لیے کچھ سدرہ نے اپنی سیونگز استعمال کئے اور ساتھ ہی بلال صاحب نے بزنس میں حسیب اعظم کے شیئر ز بیچ ڈالے تھے ۔
ہسپتال میں مزید رکھنے کا کوئی فائدہ دکھائی بھی نہیں دے رہا تھا ۔ تمام ٹیسٹ ہو چکے تھے اور علاج جاری تھا ۔ ادویات تو وہ گھر پہ بھی دے ہی سکتی تھیں اسی لئے وہ اسے ڈسچارج کروا کر گھر لے آئیں ۔ مونس اور نمرہ معاذ کو دیکھنے ہسپتال بھی جایا کرتے تھے اور گھر آنے پہ بھی اس کا بھرپور استقبال کیا تھا ۔ گھر میں موم بتیاں اور غبارے رستے میں سجائے تھے ۔ ایک سعدتھا جو نہ اس سے ملنے ہسپتال گیا تھا نہ ہی گھر پہ اس کے استقبال کے لیے موجود تھا ۔ نمرہ اسے سمجھاتی رہتی لیکن وہ اسے ڈپٹ دیتا کہ تم ابھی چھوٹی ہو کچھ نہیں سمجھتی ۔ نمرہ کو افسوس ہوتا کہ دراصل وہ بڑا ہو کر کچھ سمجھنے کو تیار نہیں ہے۔ نہ بھیجا کی حالت نہ ہی ماں کی مجبوریاں ۔
سدرہ نے معاذ کو اس کے کمرے میں شفٹ کرنے کی بجائے اپنے کمرے میں اپنے ساتھ شفٹ کر دیا تھا ۔
’’ میں اپنے کمرے میں ۔‘‘ یکدم وہ چپ ہو گیا ۔
کچھ دنوں سے سدرہ محسوس کر رہی تھیں کہ وہ باتیں آدھی ادھوری کرتا ہے ۔ بات کرتے کرتے یکدم خاموش ہو جاتا ہے ۔ جیسے آگے کا جملہ وہ بھول گیا ہو کہ وہ کیا کہنے والا تھا۔ اس کی قوت گویائی متاثر ہونے لگی تھی اور اس بات نے انہیں مزید پریشان کر دیا تھا ۔وہ جو اپنے کالج میں، یونیورسٹی میں ڈیبیٹر تھا ، اب ٹھیک سے بات بھی نہیں کر پاتا تھا ۔
’’ میرے ساتھ رہو گے تو مجھے تسلی ہو گی ۔ میر ی آنکھوں کے سامنے رہنا بہت ضروری ہے ۔ ‘‘اس معاملے میںوہ اس کی ایک نہیں سننے والی تھیں یہ تو طے تھا ۔
معاذ کو اپنے بیڈ پہ لٹا کر وہ باہر کچن میں کسی کام سے اس کے لئے بکرے کی یخنی لینے گئی تھیں جو انہوں نے فرحانہ سے کہہ کر بنوائی تھی ۔ جب وہ کمرے میں گئیں تو وہ کسی سے بات کر رہا تھا ۔
’’ کر دو مجھے جو کرنا ہے ۔میں تم سے نہیں ڈرتا۔‘‘ اس کے الفاظ واضح تھے اور اتنے واضح الفاظ ایک عرصے بعد سدرہ نے اس کے منہ سے سنے تھے ۔ جو وہ کہہ رہا تھا سدرہ وہ سن کر گنگ رہ گئیں ۔ کمرے میں کوئی نہیںتھا جس سے وہ بات کرتا لیکن وہ ایسے ہی بول رہا تھا جیسے کمرے میں اس کے ساتھ کوئی موجود ہو ۔ یہ پہلی بار نہیں ہوا تھا کہ وہ خود کلامی کررہا تھا ۔ پہلے بھی وہ اسی طر ح خودکلامی کرتا رہتا تھا لیکن وہ کبھی سدرہ کی سمجھ میں نہیں آ سکی ۔ اس وقت تو وہ بالکل ایک ایک لفظ سمجھ چکی تھیں اور ان کے جسم کے رونگٹے کھڑے ہو گئے ۔
’’ معاذ ۔‘‘ دروازے میں کھڑے کھڑے انہوں نے خوف سے تھراتے ہوئے کہا ۔ معاذ نے لیٹے لیٹے رخ موڑا اور ان کی طرف دیکھا ۔
’’ کس سے بات کر رہے تھے ؟‘‘ وہ ایک ایک قدم آگے آئیں ۔ ہاتھ میں تھاما باؤل انہوں نے سائیڈ ٹیبل پہ رکھا اور اس کے برابر بیڈ پہ اوپر ہو کر بیٹھ گئیں ۔
’’ کسی سے نہیں۔‘‘ اس نے نظریں چرا لیں ۔ایسا ہمیشہ وہ تب کرتا تھا جب وہ جھوٹ بولتا یا کچھ چھپاتا تھا ۔
’’ معاذ کیا کوئی اور بھی یہاں ہے ؟‘‘ اس کا ہاتھ تھامے وہ پوچھتے ہوئے ارد گرد دیکھ رہی تھیں ۔ کچھ دیر وہ خاموش رہا پھر اس نے سر ہاں میں ہلایا تو سدرہ سن رہ گئیں ۔
’’ کون ؟‘‘ انہوں نے تھوک نگلا ۔
معاذ نے انہیں دیکھا ۔ اس کی آنکھوں میں متذبذب تھا کہ وہ ماں کو بتائے یا نہیں ۔پھر اس نے لب کھولے ۔
’’ ابو سوتہ ۔‘‘