ابو سوتہ: ام ہانی
وہ دو بجے سے بھی پہلے پہنچ گیا تھا ۔ ایک میز پہ بیٹھا وہ یونیورسٹی سے نکلنے والے اسٹوڈنٹس کو دیکھ رہا تھا ۔ ان میں سے کتنے ساتھ گھومتے وقت گزاری کرتے تھے اور کتنے سنجیدہ تھے اور کتنے اس کی طرح سنجیدہ ہو کر بھی دھوکا کھاجاتے ہوں گے ۔ اس نے سر جھٹکا ۔ سامنے سے تمکین آتی دکھائی د ے رہی تھی ۔
’’ کہاں تھے تم معاذ ؟ دو دن سے فون بند ہے تمہارا۔ سب ٹھیک تو ہے نا ؟‘‘
معاذ سپاٹ چہرے سے اس حسین چہرے کے پیچھے موجود مکروہ چہرے کو دیکھتا رہا ۔
’’ سکون سے بیٹھو اور چاٹ آرڈر کرو۔‘‘
تمکین اس کے جانچتی نظروں سے دیکھتی رہی ۔ اس کے اندازمیں ہمیشہ سی گرم جوشی نہیں تھی جو بات اسے ٹھٹک رہی تھی ۔
’’ کچھ ہوا ہے کیا ؟ تم ڈسٹرب لگ رہے ہو ۔‘‘
اس نے تمکین کو بیٹھنے کے لیے کہا تو وہ کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گئی ۔
’’ تمہیں پتا ہے تمکین قرآن میں ہمیشہ تین گروہوں کا ذکر آیا ہے ۔ ‘‘ اس کا لہجہ بہت دھیما تھا ۔
’’ایک وہ جو مومنین ہیں ۔ ایک وہ جو کافرین ہیں اور ایک وہ جو منافقین ہیں ۔ لیکن اللہ نے سب سے عبرت ناک سزا تیسرے گروہ کے لیے سنائی ہے ۔ جہنم کا سب سے نچلا گڑھا ۔ جانتی ہو کیوں ؟‘‘ تمکین نے نظریں سکوڑ کر اس کو دیکھا ۔
’’ کیونکہ وہ بہروپ ہوتے ہیں ۔ برے ہو تے ہوئے اچھے بنتے ہیں ۔ دکھاوا کرتے ہیں اور دوسروں کو دھوکے میں رکھتے ہیں ۔ ‘‘ تمکین کے ماتھے پہ چند سلوٹیں نمودار ہوئیں لیکن وہ نظریں سکوڑے بغور اسے دیکھ رہی تھی ۔
’’ میں جب چھوٹا تھا اور قاری صاحب سے قرآن پڑھتا تھاتو میری زبان پہ ایک آیت بہت رہاکرتی تھی ۔ مجھے معلوم نہیں کیوں ۔ کیسے وہ مجھے یاد ہو گئی اور میں چلتے پھرتے اسے دہراتا تھا۔لیکن مجھے وہ ایک بار پڑھنے پہ ہی یاد ہو گئی تھی ۔‘‘ وہ ہولے سے مسکرایا لیکن اس کی مسکراہٹ نے تمکین کو بے آرام کردیا ۔
’’فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌۙ فَزَادَهُمُ اللّٰهُ مَرَضًاۚ ۔ ‘‘ اس نے اس آیت کی تلاوت کی ۔
’’ پھر میں وقت کے ساتھ اسے دہرانا بھول گیا اور دوبارہ سے مجھے پرسوں وہ آیت ایک بار پھر سے یاد آ گئی اور تب سے اب تک وہ میرے دماغ میں بری طرح چکرا رہی ہے ۔ مسلسل تواتر کے ساتھ اور مجھے لگتا ہے کہ وہ اسی لئے کہ یہ آیت تمہارے لئے میرے اندر اتاری گئی ہے ۔ یہ آیت اور تم میری زندگی سے بری طرح جڑے ہو ۔‘‘ تمکین کا رنگ بدلا ۔ ایک بے چینی نے اس کے چہرے کا احاطہ کیا اور اس نے اپنے بیٹھنے کی پوزیشن بدلی ۔
’’ تم اتنی دیر سے کیا کہنا چاہ رہے ہو مجھے نہیں پتا ۔ میں سمجھ نہیں پا رہی کہ سب باتیں تم کیوں کر رہے ہو۔ اسی لئے بہتر ہے کہ کھل کر کہو۔‘‘
’’ کھل کر کہوں ؟‘‘معاذ نے آگے ہو کر ، جھکتے ہوئے اس کی آنکھوں میں جھانک کر دیکھا تو تمکین نے تھوک نگلا اور سر ہلایا۔پھر و ہ مسکرا کر بڑے نرم لہجے میں کہتا پیچھے کو ہوا۔
’’ بس ایک سوال کروں گا ؟‘‘ تمکین نے سر پھر سے ہلایا ۔وہ اسے سوال کی اجازت دے رہی تھی ۔
’’ کیا تمہارے دل میں مرض ہے ؟ کیا اللہ نے تمہیں اسی مرض میں مبتلا کیا ہے تمکین ؟‘‘ تمکین کا چہرہ فق ہوا۔
’’ کیسا مرض ؟‘‘
’’ منافقت کا مرض ‘ یہ آیت منافقین کے لیے ہے ۔‘‘تمکین پتھر کی ہوئی۔
’’تمکین کیا تم منافق ہو ؟‘‘ وہ اسے دیکھے گئی اور اس کی اڑی رنگت یہ بتا رہی تھی کہ اب وہ ساری بات سمجھ چکی ہے ۔
اس نے یکدم سر جھکا کر گہری سانس لی ، تھوک نگلا ، لب کچلے اور خود کو کمپوز کیا ۔
’’ معاذ ! میری بات سنو ۔‘‘وہ اب کی بار کچھ ہکلا رہی تھی ۔
’’ تمکین کیا تم منافق ہو ؟‘‘ اس نے چبا چبا کر الفاظ ادا کیے ۔
تمکین کا چہرہ ایسا تھا جیسے سارا خون نچڑ گیا ہو ۔
’’ معاذ ، میری بات سنو پلیز ۔ مجھے بولنے دو ۔میں ایکسپلین کر سکتی ہوں تمہیں سب کچھ۔‘‘
’’ اوہ رئیلی ۔ کیا تم مجھے یہ ایکسپلین کرو گی کہ قرآن میں جو آیت ختم بنوت کی ہے وہ درست نہیں ہے ؟اور معاذ اللہ محمد ﷺ کے بعد بھی کوئی نبی ﷺ آیا ہے جس پہ تم ایمان رکھتی ہو ۔ ‘‘ اس نے غصے سے طنز کیا ۔
’’ میں یہ نہیں کہہ رہی ۔ میں تو بس یہ کہہ رہی ہوں کہ ایک بار تم میری طرف کے دلائل بھی تو سن لو ۔ ہم محمد ﷺ کو بالکل اللہ کے رسول اور نبی ﷺ مانتے ہیں۔آپ کی نبوت کا یقین کرتے ہیں لیکن ۔‘‘
’’ شٹ اپ ۔ جسٹ شٹ اپ ۔‘‘ اس نے انگلی اٹھا کر اسے کہا۔
’’ یہ لیکن کا لفظ ہی تمہیں غلط ثابت کرنے کے لیے کافی ہے ۔ اور میرے نبی ﷺ کے آخری نبی ﷺ ہونے کے لیے مجھے تم جیسوں کی کوئی دلیل نہیں سننی تمکین ۔‘‘
’’ معاذپلیز ۔‘‘
’’ ہر چیز پہ کمپرو مائز ہو سکتا ہے لیکن اس بات پہ کبھی نہیں۔ میں اور میرا خاندان بہت اچھے مسلمان نہیں ہیں ۔ مومن نہیں ہیں ۔ بہت پریکٹیکل بھی نہیں ہیں لیکن ایمان جتنا بھی ہے وہ الحمدللہ قائم ہے ۔اور ہم اس سے کبھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔‘‘ تمکین اسے دیکھے گئی ۔
’’ یہ بات یہیں ختم ہوئی ہے تمکین ۔ نہ تم مجھے جانتی تھی نہ میں تمہیں ۔مجھے امید ہے کہ تم اور تمہاری فیملی ہمیں ڈسٹرب نہیں کریں گے۔‘‘ وہ اٹھ کر کھڑا ہو گیا ۔
’’ ایسے کیسے معاذ ۔ میں پیار کرتی ہوں تم سے اور تم مجھ سے ۔ایسے کیسے سب ختم ہو سکتا ہے۔‘‘ اس نے معاذ کا بازو تھام کر اسے روکنا چاہا ۔جسے معاذ نے جھٹک کر چھڑا لیا۔
’’ تم جیسے ہزار پیار میرے نبی ﷺ پہ قربان تمکین احمد ۔ میرا تم سے کوئی واسطہ نہیں ہے ۔ مجھے امیدہے کہ یہ ہماری آخری ملاقات ہے اور اس کے بعد ہم کبھی نہیں ملیں گے ۔ ‘‘ وہ تیزی سے وہاں سے نکلتا چلا گیا ۔
تمکین اسے جاتے ہوئے دیکھتی رہی اور بس بت بنی بیٹھی رہی ۔
٭…٭…٭
اس دن وہ گھر لوٹا تو سب ڈنر پہ اس کے منتظر تھے ۔ وہ صبح کا نکلا ہوا تھا اور اس کا موبائل بھی بند تھا ۔ سب پریشان تھے ۔ اسے کئی بار فون لگا چکے تھے لیکن اس کی کسی کو خبر نہیں تھی ۔ اس کے کتنے دوستوں سے رابطہ ہوا لیکن کسی کو کچھ نہیں پتا تھا ۔ معاذ کو دیکھتے ہی سدرہ اس کی طرف لپکیں ۔
’’ کہاں چلے گئے تھے معاذ ؟ ہم سب اتنا پریشان تھے۔فون بھی بند کیا ہوا ہے تم نے ۔ ‘‘ انہیں لگا تھا کہ وہ اس کے سامنے رو دیں گی لیکن وہ کبھی اپنے بچوں کے سامنے کمزور نہیں پڑتی تھیں ۔ ان کی زندگی میں باپ کی کمی سے جو خلا تھا سدرہ نے بڑی بہادری سے اسے پر کیا تھا ۔ وہ بچوں کو کسی مشکل گھڑی میں بھی احساس نہیں دلاتی تھیں کہ ان کی ماں کمزور ہے اور ان کا سہارا نہیں بن سکتی ۔
’’ اسے ہماری زندگیوں سے نکالنے گیا تھا امی ۔ اور اچھی طرح سے نکال دیا ۔ ‘‘ اس نے سب کی طرف دیکھا ۔سب کو جیسے سانپ سونگھ گیا تھا ۔
’’ اب سے یہ چیپٹر کلوز ہوا ۔ہم انہیں نہیں جانتے سو کوئی ان کے بارے میں بات نہیںکرے گا ۔ ‘‘ امی کے گال پہ نرمی سے ہاتھ رکھتے جیسے اس نے انہیں تسلی دی اور ان کا اپنے بازو پہ رکھا ہاتھ نرمی سے ہٹاتا اپنے کمرے کی طرف چلا گیا ۔ سدرہ نے اسے نہیں روکا ۔ وہ جانتی تھیں کہ س وقت اسے اکیلے چھوڑ دینا زیادہ بہتر تھا۔
زندگی تھوڑے عرصے کے لیے تبدیل ہوئی تھی ۔ معاذ کچھ دن خاموش رہا ، اپنے کمرے میں بند رہا ۔ سدرہ اس کی خاموشی کو دیکھ کر خاموش ہو گئیں ۔ انہیں اندر ہی اندر اس کے لئے افسوس تھامگر وہ جانتی تھیں کہ سب وقتی ہے ۔جو ہونے جا رہا تھا وہ ہو جاتا تو پھر توساری زندگی کا افسوس رہتا اور اللہ کا شکر تھا ‘جس نے انہیں ساری زندگی کے افسوس سے بچا لیا تھا ۔ گھر پہ خاموشی کی دبیز چادر تھی ۔ انہیں اندر ہی اندر بہت بے چینی تھی ۔ نجانے سب کب ٹھیک ہونا تھا ۔ وقت لگنا تھا ، ہر شے کو جگہ پہ آنے میں وقت لگتا ہے ۔ حالات سنبھلنے میں بھی وقت لیتے ہیں ۔یہی قدرت کا قانون ہے ۔
معاذ جلد ہی اس جذباتی صدمے سے سنبھل گیا تھا ۔ اس نے معمول کے مطابق میں آفس آنا جانا شروع کر دیا تھا ۔ وہ سب کے درمیان پھر سے اٹھنے بیٹھنے اور ہنسنے بولنے لگ گیا تھا ۔ اس نے اپنے آپ کو کو جلد heal کر لیا تھا جو کوئی عام بات نہیں تھی ۔ سدرہ کو خوشی تھی کہ ان کا بیٹا اتنا سمجھدار ہو گیا ہے کہ وہ کسی بڑے صدمے کا مقابلہ کر سکتا ہے ۔
وہ چاہتی تھیں کہ اب جبکہ اس کی پسند نہیں تھی تو وہ خود اس کے لیے کوئی لڑکی ڈھونڈیں لیکن سحر نے انہیں منع کیا تھا کہ ابھی معاذ کو خاصا وقت لگے گا ۔ اس لیے ایسی کسی بات کا سلسلہ فی الحال دوبارہ مت چھیڑا جائے ۔ سدرہ اندر ہی اندر نرما کی بیٹی کے بارے میں سوچنے لگی تھیں ۔ انہوں نے یہ بات سحر سے بھی نہیں کہی تھی ۔ جب وقت آئے گا دیکھا جائے گا اور وہ وقت تو نہیں آیا البتہ یہ وقت آگیا تھا جہاں معاذ بیمار رہنے لگ گیا تھا ۔
٭…٭…٭
ڈاکٹرز نے اس کے کچھ ٹیسٹ کیے تھے جو سب کلیئر تھے ۔ صر ف اس کے یورین میں کاپر کی مقدار تھوڑ ی زیادہ تھی جس کے لیے ڈاکٹر ز نے اسے میڈیسن دے دی تھی ۔بظاہر کوئی مسئلہ دکھائی نہیں دیتا تھا تاہم اسے سائیکاٹرسٹ کو ریفر کر دیا گیا تھا ۔ اس کے ڈاکٹرز کے مطابق اسے کچھ مینٹل سٹریس معلوم ہوتا تھا ۔ سائیکاٹرسٹ نے ہلکا پھلکا سا سیشن کر کے اسے ادویات تجویز کر دی تھیں ۔ سدرہ خیال رکھتیں کہ وہ ان ادویات کا استعمال باقاعدگی سے کرتا رہے ۔ اس نے آفس سے بھی ایک مہینے کی چھٹی لے لی تھی ۔ سدر ہ نے خود بھائی جان سے بات کی تھی کہ وہ اسے ایک مہینے کا ریسٹ دے دیں تاکہ وہ مکمل طور سے آرام کر سکے ورنہ معاذ خود کہاں گھر پہ ٹکنے والوں میں سے تھا ۔ انہیں لگتا تھا کہ اندر سے وہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوا تھا ااور اسے اسی بات کا سٹریس ہے ۔
’’جو بھی کہو تم سدرہ ۔ مجھے لگتا ہے کہ معاذ نے تمکین سے رشتہ ختم کرنے کا گہرا اثر لیا ہے ۔ وہ اپنے منہ سے بھلے نہ کہے لیکن اصل بات یہی ہے ۔ ‘‘ بلال صاحب کو یہی لگتا تھا کہ وہ ڈپریشن کا شکار ہے اور کوئی بھی ڈپریشن کا مریض نہیں مانتا کہ اسے یہ مرض ہے ۔
ریسٹ اور ادویات کے باوجود اس کی طبیعت زیادہ خراب رہنے لگی تھی ۔ اسے بہت تھکاوٹ رہنے لگی تھی ۔ تھکاوٹ کی وجہ سے ہی وہ نڈھال سا بستر پہ پڑا رہنے لگا تھا ۔ اس کا کسی سے بات چیت کرنے کا دل ہی نہ کرتا ۔ اس کی بھوک بھی کم ہو گئی تھی ۔ بڑی مشکل سے سدرہ اسے کچھ کھلا پاتیں ۔ بطور ڈاکٹر وہ خود اس میں آئے روز تبدیلیاں محسوس کر رہی تھیں لیکن انہیں اس کی وجہ معلوم نہیں تھی ۔معاذ کے وزن میں بھی کمی آئی تھی اور سدرہ کا یہی کہنا تھا کہ وہ ٹھیک سے کھاتا پیتا نہیں ہے اسی لیے اس کی صحت گر رہی ہے۔
’’ اب یہ مینٹل سٹریس نہیں لگتا مجھے ۔ کیونکہ سکون آور ادویات کا کچھ اثر تو اس پہ ہوتا ۔ سدھار آنے کے طبیعت میں بگاڑ ہی آ رہا ہے ۔ ‘‘ سحر نے معاذ کے کمرے کا دروازہ کھول کر اس پہ ایک نظر ڈالی جو بستر پہ ہی بالکل نیم مدہوش پڑا تھا ۔ وہ پہلے کی نسبت بے حد کمزور ہو گیا تھا ۔ سحر سے مزید اس کو دیکھا نہیں گیا اور اس کے کمرے کا دروازہ بند کر دیا ۔
انہوں نے سدرہ کو دیکھتے ہوئے پرسوچ لہجے میں کہا۔
’’نجانے کیوں مجھے لگتا ہے کہ یہ کچھ اور ہی ہے ۔ سٹریس نہیں ہے ۔ مہینے سے دوائیں لے رہا ہے ۔ کچھ تو اثر ہوتا ۔ ‘‘
’’ تمہیں کیا لگتا ہے ؟‘‘
’’ ہمیں اس کا روحانی علاج کروانا چاہئے ۔‘‘ سدرہ نے کچھ غیر آرام دہ سا ہو کر بھابھی کو دیکھا ۔
’’ تم جانتی ہو کہ انسان کی کچھ بیماریاں جسمانی اور کچھ روحانی ہوتی ہیں۔ضروری نہیں ہے کہ معاذ جسمانی بیماری کا ہی شکار ہو ۔‘‘ سدرہ کا دل سکڑا تھا ۔
’’تمہارا مطلب ہے کہ …‘‘ انہوں نے کچھ توقف کیا۔
’’ جادو ؟‘‘انہوں نے تھوک نگلا۔سحر نے ایک گہری سانس بھری ۔
’’ ہو بھی سکتا ہے ۔ نا ممکنات میں سے نہیں ہے یہ ۔ ‘‘ سدر ہ کی آنکھوں میں انہیں ایک خوف دکھائی دیا ۔
’’ تم جانتی ہو کہ ہم نے کن لوگوں میں اس کا رشتہ کیا تھا ۔ آج کل یہ جادو ٹونا عام ہے ۔ مسلمان تک بڑ ے مزے سے کر رہے ہیں جیسے کوئی بات ہی نہ ہو ۔ ہو بھی تو سکتا ہے کہ انہوں نے کچھ کروایا ہو کیونکہ یہ بیماری تبھی سے شروع ہوئی ہے جب سے اس کا رشتہ ختم ہوا ہے ۔ وہ بدلا لینے کے لیے یہ سب کر سکتے ہیں۔ لوگ کرتے ہی ہیں بدلا لینے کے لیے ایسی حرکتیں ۔ ‘‘انہوں نے اثبات میں سر ہلایا ۔ سحر کی بات میں دم تھا ۔
’’ میں پروفیسر گردیزی سے بات کروں ؟‘‘ سحر حسیب اعظم کے حوالے سے پروفیسر گردیزی کو جانتی تھیں کہ وہ روحانی علاج بھی کرتے تھے ۔انہوں نے اثبات میں سرہلایا ۔
سدرہ اسی وقت اپنے موبائل سے کال ملانے لگیں ۔ دوسری طرف کسی لڑکی نے فون اٹھایا تھا ۔
’’ ابو کی تو دو دن پہلے ڈیتھ ہو گئی ۔‘‘ سدرہ کا سانس ساکن ہو گیا ۔
٭…٭…٭
سحر کی کوئی جاننے والی تھیں جنہوں نے ایک صاحب کا بتایا تھا جو جادو کا توڑ کرنا جانتے تھے ۔ سدرہ نے بڑی مشکلوں سے معاذ کو یہ کہہ کر منا یا تھا کہ وہ اسے روحانی علاج کے لیے لے جانا چاہتی ہیں۔
’’ اس کی ۔‘‘ وہ ذرا دیر کو خاموش ہوا۔
’’ کیا ضرورت ہے؟‘‘ وہ ایسے بول رہا تھا جیسے بولنے میں اسے بہت طاقت لگانا پڑ رہی ہو ۔سدرہ کو بیٹے کی یہ حالت دیکھ کر رونا آنے لگا لیکن اس نے بڑی مشکل سے خود پہ کنٹرول کیا ۔ انہیں بیٹے کے سامنے کمزور نہیں پڑنا تھا ۔ وہ اس گھر کی سربراہ تھیں اورسربراہ کو ہمیشہ مضبوط دکھنا چاہئے ۔
’’ میری جان کیا خبر اسی کی ضرورت ہو ۔ تم چلو تو سہی۔دم کروا لیں گے ۔ اللہ کے کلام میں شفا ہی ہوتی ہے کوئی نقصان تو ہوتا نہیں ہے ۔‘‘ وہ متذبذب کا شکار تھا ۔
’’ میری خاطر ۔ اپنی امی کی خاطرچلو ۔‘‘ اس نے سر ہلایا ۔
سحر اور سدرہ دونوں ہی اسے اپنے ساتھ علاج کے لیے لے کر گئی تھیں ۔ نجانے سدرہ نے محسوس کیا یا نہیں لیکن سحر کو لگنے لگا تھا کہ معاذ کے جسم کا توازن ٹھیک نہیں رہا تھا ۔ وہ ایک نارمل انسان کی طرح نہیں چل پارہا تھا ۔ ایسے جیسے اسے چلنے میں دقت ہورہی ہو ۔ پیر کہیں رکھ رہا تھا اور چل کہیں اور رہا تھا ۔ انہیں لگا تھا کہ اس کے ذہن پہ کچھ ایسا اثر ہوا ہے کہ وہ اپنے ہی جسم کا کنٹرول کھوتا جا رہا ہے لیکن انہوں نے سدرہ سے یہ بات نہیں کہی۔ وہ ماں اس وقت جس تکلیف کا شکار تھیں وہ ایسی کوئی بات کر کے انہیں مزید پریشان نہیں کرنا چاہتی تھیں ۔ یہ بھی ہو سکتا تھا کہ اسے کمزوری اتنی ہو گئی تھی کہ وہ ٹھیک سے چل نہ پا رہا ہو۔
سحر نے ڈرائیورکی مدد سے معاذ کو اندر کمرے تک پہنچا یا ۔ یہ ایک طویل راہداری نما کمرہ تھا جہاں بس ایک کارپٹ بچھا تھا اور ایک دیوار کے ساتھ چند گاؤ تکیے لگے تھے ۔ کمرے کی دیواروں پہ آیات قرآنی نصب تھیں ۔ روشنی کا مناسب انتظام کرنے کے لیے تمام کھڑکیاں کھلی تھیں ۔ کمرے کے درمیان چھت سے ایک چھوٹا سا گلوپ لٹکا ہوا تھا ۔ ایک دیوار پہ بک شیلف تھا جس میں بہت ساری کتابیں رکھی تھیں ۔ پورے کمرے میں اس کے سوا کچھ نہیں تھا ۔ بالکل سادہ سا کمرہ تھا ۔
انہوں نے معاذ کو ایک طرف بٹھا دیا اور خود بھی اس کے ساتھ بیٹھ گئیں ۔ انہیں وہاں بیٹھے پندرہ منٹ ہی ہوئے تھے جب ایک طرف لکڑی کا ایک دروازہ کھول کر کوئی اندر آیا تھا ۔ وہ ایک عام سے حلیے کے درمیانی عمر کے انسان تھے جن کی نظریں اندر آتے ہی جھک گئیں ۔ دیوار کے ساتھ جو گاؤ تکیے لگے تھے ان میں سے ایک پہ وہ بیٹھ گئے ۔
’’ جی کہئے بہن۔‘‘ سحر نے ان کے بولنے پہ سدرہ کو اشارہ کیا کہ وہ تمام صورتحال سے آگاہ کریں ۔
جب تک سدرہ بولتی رہیں اور تفصیلات بتاتی رہیں وہ سر جھکائے سنتے رہے اور اپنے ہاتھ میں موجود تسبیح کے دانے گراتے زیر لب کچھ پڑھتے رہے ۔ لیکن وہ بہت غور سے سار ی بات سن رہے تھے ۔ معاذ کسی بچے کی طرح خاموش بیٹھا تھا ، ایسا بچہ جس کی تکلیف اس سے بیان نہیں ہوتی اور اس کی تکلیف بھی طبیب کو اس کی ماں بیان کرتی ہے ۔
سدرہ کی بات ختم ہوئی تو ان حضرت نے اشارہ کیا ۔
’’ اسے میرے پاس لائیں ۔‘‘ سحر اور سدرہ نے اٹھنا چاہا تو انہوں نے کہا ۔
’’ آ پ دونوں رہنے دیں ۔ میرے شاگرد اٹھا لیں گے ۔‘‘ انہوںنے کسی کو آواز دی توجس دروازے سے وہ داخل ہوئے تھے اسی سے ان کے شاگرد داخل ہوئے اور معاذ کو سہارا دیتے ہوئے اٹھایا اور اسے لاکر حضرت کے سامنے بٹھا دیا ۔
حضرت نے معاذ کے سر پہ اپنا ہاتھ رکھا اور تسبیح پہ کچھ پڑھنے لگے ۔ سدرہ بے چینی سے ہل ہل کر دعاگو تھیں کہ سب ٹھیک ہو ۔ جب تک حضرت کچھ پڑھتے رہے سدرہ دعا مانگتی رہیں ۔ اس عمل میں قریبا ً سات آٹھ منٹ لگے ہوں گے جب حضرت نے آنکھیں کھولیں اور معاذ پہ پھونک ماری ۔
’’ بچے کے ساتھ کوئی ایسی بات نہیں ہے جس پہ پریشان ہو ا جائے ۔ اسے روحانی علاج کی ضرورت نہیں ہے ۔ اس کا ابھی ٹھیک طریقے سے علاج نہیں ہوا ۔ مرض کی تشخیص کروائیں اور اس کا باقاعدہ علاج شروع کروائیں ۔ یہی اس مسئلے کا حل ہے۔ ‘‘ سدرہ نے سکھ کا سانس لیا ۔انہیں جادو ٹونے جیسی باتیں بہت خوفزدہ کرتی تھیں ۔
’’ لیکن حضرت یہی تو بات سمجھ نہیں آ رہی کہ اسے مسئلہ کیا ہے ؟اس کے جتنے ٹیسٹ کروائے گئے ہیں ان میں ایسا کچھ بھی نہیں آیا جو اس کی بیماری کو پکڑ سکے ۔ایک مہینہ ہو چکا ہے اور یہ سکون آور ادویات لے رہا ہے ۔ ابھی تک فائدہ تو کوئی نہیں ہوا البتہ دن بدن اس کی حالت پہلے سے بدتر ہوتی جا رہی ہے ۔‘‘ سحر کی بات وہ سر ہلاتے سن رہے تھے ۔
’’ بہن ! میں آپ کی بات سمجھتا ہوں ۔ اس کی حالت بھی میرے سامنے ہے لیکن درست بات یہی ہے کہ اس کا ٹھیک سے علاج نہیں ہو پارہا اسی لئے اس کی بیماری بڑھ رہی ہے ۔ آپ ایک بار اس کے سارے ٹیسٹ کروا سکتی ہیں تو کروا لیں ۔ میں اس سلسلے میں مزیدکوئی مدد نہیں کر سکتا ۔ آپ خود ڈاکٹر ہیں ، بہتر سمجھتی ہیں کہ اسے علاج کی کتنی ضرور ت ہے ۔ ‘‘ سحر خاموش ہو گئیں ۔
’’ چلیں ۔‘‘ سدرہ کو دیکھا تو اس نے سر ہلایا ۔
حضرت کے شاگرد ہی معاذ کو گاڑی میں بٹھا نے کے لیے آگے بڑھے ۔
’’ کیا ہم اسے آپ کے پاس دم کروانے لا سکتے ہیں ۔‘‘ حضرت نے اثبات میں سر ہلایا۔
’’ جب چاہئیں لائیں لیکن پہلے بچے کا علاج کروائیں ۔‘‘
٭…٭…٭