ابو سوتہ: ام ہانی
ٹھیک وہی خواب سدرہ کو دوبارہ آیا تھا اور وہ دوسری بار اسی خواب کے آنے پہ سچ میں ڈر گئی تھیں ۔ کبھی ایسا نہیں ہوا تھا کہ کوئی خواب انہی جزیات کے ساتھ انہیں دو بار آیا ہو ۔وہ بھی ایسا خواب جس کا کوئی مطلب واضح نہیں تھا ۔ان کا دل پریشان تھا لیکن وہ کسی سے کہہ نہیں رہی تھیں ۔
’’ سوروں کی فوج کیوں میرے گھر میں داخل ہونے کی کوشش کرتی ہے ۔ کیا مطلب ہے اس خواب کا ۔‘‘ خواب سے ڈر کر و ہ ساری رات یہی سوچتی رہیں ۔ ان کا خوابوں کے سچ ہونے پہ کوئی ایسا یقین نہیں تھا نہ ہی انہیں کبھی سچے خواب آئے تھے ۔ لیکن ایک ہی خواب کا دوسری بار آنا اور وہ بھی ایک مہینے کے وقفے سے انہیں سہما گیا تھا ۔
اگلے دن و ہ بغیر کسی کو بتائے، ہسپتال سے چھٹی لے کر اپنے ایک جاننے والے پروفیسر گردیزی سے ملنے چلی گئیں ۔ وہ خوابوں کی تعبیر بتانے کے لیے مشہور تھے ۔ حسیب اعظم ان کے پاس اکثرخوابوں کی تعبیر پوچھنے تو کبھی دم کروانے جایا کرتے تھے ۔ گو کہ اب تو وہ کافی بوڑھے ہو چکے تھے لیکن یہ کام پھر بھی کرتے تھے ۔
سدرہ سے پورا خواب سن کر وہ ان سے چند سوالات کرنے لگے ۔
’’ حال ہی میں کوئی بڑا قدم تو نہیں اٹھایا آپ نے جس کا تعلق آپ کے مذہب سے ہو ؟‘‘ سدرہ نے سر نفی میں ہلایا ۔
’’ گھر میں کوئی خلاف شرعی کام ہوا ہو ؟‘‘ انہوں نے انکار کیا ۔
’’ کسی نئی چیز کا اضافہ جو مذہب میں ناپسند کی جاتی ہو ؟‘‘
’’ ایسا تو کچھ بھی نہیں ہوا پروفیسر صاحب ۔کھل کر بتائیں کہ یہ خواب کیا بیان کرتا ہے ؟‘‘
’’ آپ کے گھر میں کوئی ایسی شدید ناپسند چیز داخل ہو چکی ہے یا داخل ہونے کی کوشش کر رہی ہے جو قطعاََ نہیں ہونی چاہئے ۔ اس کا تعلق آپ کے مذہب اور عقیدے سے ہے یعنی آپ کا عقیدہ خطرے میں پڑسکتا ہے ۔‘‘ سدرہ کا دل بیٹھ گیا ۔
’’ آپ کو جب سے یہ خواب پہلی بار آیا تھا تب سے اب تک کے واقعات پہ غور کریں کہ ایسا کیا ہوا ہے جس سے آپ کو روحانی طور پہ یا مذہبی طور پہ نقصان ہو سکتا ہے ؟‘‘ سدرہ نے بہت غور کیا لیکن انہیں ایسا کوئی سرا نہیں ملا ۔
’’ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا ۔‘‘
’’ گھر جائیں اور آرام سے سوچیں۔کچھ نا کچھ ایسا ضرور ہوا ہے تبھی یوں تواتر ‘ آپ کو ایک ہی خواب آ رہا ہے ۔ رب کریم آپ کو کسی بڑے فساد سے بچانا چاہتے ہیں ۔‘‘ سدرہ وہاں سے نکلنے کے بعد مزید پریشان ہو گئی تھیں ۔
انہوں نے اس خواب کا تذکرہ کسی سے نہیں کیا تھا ۔ وہ اپنے طور پہ ہی ذہن کو کھنگالنے لگیں لیکن کوئی ایسی بات یاد نہیں آئی ۔
’’ جب سے خواب آیا ہے تب سے تو بس معاذ کے رشتے کی بات ہی چلی ہے اور تو کوئی ایسا کام نہیں ہوا لیکن معاذ کے رشتے کا اس سے کیا لینا دینا ۔ بچوں کی شادی بروقت کرنا تو اللہ کے نزدیک محبوب کام ہے ۔‘‘ وہ مزید الجھ گئیں ۔
اسی دن انہوں نے نوافل پڑھ کر بہت دعا کی کہ اللہ ان کے اہل وعیال پہ جو بھی مشکل آ نے والی ہے، اسے اپنے کرم سے ٹال دیں ۔
٭…٭…٭
انہی دنوں سدرہ کی ایک پرانی واقف کار ڈاکٹر نرما ان کے گھر آئی تھیں ۔ ڈاکٹر نرما پہلے اسی ہسپتال میں گائینا کالوجسٹ تھیں جہاں سحر اور سدرہ جاب کررہی تھیں ۔ پھر ان کے شوہر کا ٹرانسفر ہو گیا تو وہ کراچی چلی گئیں ۔ اب پھر سے اسی شہر میں لوٹ آئی تھیں ۔کافی عرصے سے ملنا چاہ رہی تھیں لیکن سدرہ ہی مصروف تھیں ۔ سواس دن انہیں شام کی چائے پہ بلا ہی لیا ۔
’’ میں بچوں کے لیے رشتہ ڈھونڈ رہی ہوں سدرہ ۔ یقین کرو جتنا لڑکی کے والدین کے لیے مشکل ہے اچھے رشتے تلاش کرنا اتنا ہی لڑکے کے والدین کے لیے بھی مسئلہ ہی ہے اچھی لڑکیاں اور خاندان ڈھونڈنا ۔‘‘ چائے کے ساتھ باتوں کا دور بھی چل رہا تھا ۔ سحر بھی انہی کی طرف آئی ہوئی تھیں کہ وہ دونوں کی کولیگ رہی تھیں ۔
’’ بالکل صحیح بات ہے ۔ ہم نے بھی بڑی مشکلوں سے معاذ کی بات پکی کی ہے پچھلے دنوں ۔ ‘‘ سدرہ اس بات کا ذکر کسی سے نہیں کرتی تھیں لیکن بس سحر کے منہ سے نکل گیا تو انہوں نے گہری سانس لی ۔ کب تک آخروہ اس بات کو چھپا سکتی تھیں ۔ اب بات کھل گئی تو کھل گئی۔
سحر کی بات پہ نرما کا چہرہ اتر گیا ۔ شاید وہ اپنی بیٹی کے لیے امید لگائے ہوئے تھیں اور اسی نسبت سے ملنے بھی آئی تھیں ۔
’’اچھاااا ۔ رشتہ طے بھی ہو گیا ۔ ماشاء اللہ ۔‘‘ سدرہ نے ان کے سامنے کبابوں کی ٹرے کی اور پھیکا سا مسکرا کر مبارک وصول کی ۔
’’ معاذکی ہی پسند ہے ۔ یونیورسٹی میں اس کے ساتھ پڑھتی تھی ۔ آج کل بچے اپنے طور پہ ہی پسند کر لیتے ہیں ۔ اور ٹھیک بھی ہے کہ زندگی انہوں نے گزارنی ہے تو پسند بھی ان کی ہونی چاہئے ۔ اتنا اہم فیصلے میں ان کی مرضی تو چلنی ہی چاہئے ۔ ‘‘ سدرہ نے یونہی وضاحت دے ڈالی ۔
’’ٹھیک کہہ رہی ہو ۔ اچھی بات ہے کہ نیک کام میں جلدی کی جائے ۔ بچے جتنی جلدی اپنی زندگی شروع کریں اتنا ہی والدین کے لیے آسانی ہے کہ وہ اپنے فرض سے فارغ ہو کر ہلکے پھلکے ہو جاتے ہیں۔ ویسے شادی کا کب تک ارادہ ہے ؟‘‘
’’ بس کوئی مناسب وقت دیکھ کر کر دیں گے ۔‘‘
’’ لڑکی تو دکھاؤ سدرہ ۔‘‘ نرما نے اشتیاق سے پوچھا ۔ نرما کو ایسی باتوں میں بڑی دلچسپی ہوا کرتی تھی ۔ سدرہ کو چار و ناچار موبائل میں دعائے خیر کی تصویر یں نکال کر نرما کے سامنے کرنا پڑیں ۔نرماتصویر دیکھ کر ذرا چونکیں۔
’’ ایسے لگتا ہے کہ کہیں دیکھا ہے اس بچی کو ۔‘‘ گہرے میک اپ میں انسان کو اپنا آپ پہچاننا مشکل ہوتا ہے وہ تو پھر تصویر میں دیکھ رہی تھیں ۔
’’ دیکھا دیکھا چہرہ ہے مگر یاد نہیں آ رہا کہ کہاں دیکھا ہے ۔‘‘ ہر تصویر پہ غور کرتے ہوئے وہ آگے کرتی جا رہی تھیں ۔
تصویریں آگے کرتے ہوئے ایک تصویر پہ وہ چونکیں ۔
’’ یہ … یہ کون ہیں ؟‘‘ انہوں نے تصویر سدرہ کے سامنے کی ۔
’’ یہ لڑکی کی ماں ہے ۔‘‘ نرما کی آنکھیں حیرت سے پھیلیں ۔
’ ’ حلیمہ نام ہے نا ان کا ؟‘‘ سدرہ اور سحر دونوں چونکیں ۔
’’ تم جانتی ہو انہیں ؟‘‘
’’ ان کے شوہر اعتزاز احمد ؟‘‘ دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور اثبات میں سر ہلایا ۔ نرما تو حیرت اور صدمے کی سی کیفیت کا شکار دکھائی دیتی تھیں ۔
’’ تم کیسے جانتی ہو نرما ؟‘‘ سحر نے کچھ بے چینی سے پوچھا۔
’’ ریلوے کالونی سائیڈ پہ رہتے ہیں نا یہ لوگ اور یہ ان کی بیٹی تمکین ہے ؟‘‘
’’ ہاں ہاں نرما۔ تم کیسے جانتی ہو۔ کیوں سوال پہ سوال کر رہی ہو۔سیدھی بات کرو ۔ ‘‘ سدرہ کا تو دل ہی بیٹھنے لگا تھا ۔
’’ سدرہ کیا رشتہ طے کرنے سے پہلے تم نے اچھی طرح چھان بین نہیں کی تھی ؟‘‘ ان کے حلق سے آواز گھٹ گھٹ کے نکلی ۔
’’ کیا ہوا ہے نرما کچھ بولو تو سہی ۔‘‘ سدرہ نے بے چینی سے نرما کا ہاتھ تھام لیا ۔
’’ جب میں پہلے یہاں رہتی تھی تو یہ لوگ ہمارے پڑوسی تھے ۔ تبھی میں کہہ رہی تھی کہ اس بچی کو کہیں دیکھ رکھا ہے۔ ‘‘ سحر کو یاد آیا کہ نرما بھی اسی علاقے میں رہتی تھیں جہاں تمکین رہتی تھی ۔ نجانے کیسے ان کے ذہن سے یہ بات نکل گئی ۔ اس بات کو بھی تو چھ سا ل گزر چکے تھے ۔
’’ پر ہوا کیا ہے ؟‘‘
’’ یہ لوگ تو …‘‘انہوں نے د ونوں کے گھبرائے چہرے دیکھے جہاں سچ جان لینے کی عجلت اور بے قراری لکھی تھی ۔
’’ سدرہ یہ لوگ قادیانی ہیں ۔‘‘
’’ کیا ؟‘‘ دونوں حلق کے بل چلائیں ۔
سدرہ کا تو چہرے سے جیسے سار ا خون نچڑ گیا تھا ۔آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں ۔
’’ ہاں سدرہ میں نے خود ان کے بارے میں تحقیق کی تھی کیونکہ میری بیلا اور تمکین ایک ہی وین میں سکول آتی جاتی تھیں ۔ دونوں ایک ہی کلاس میں بھی تھیں تو گھروں میں بھی آنا جانا تھا ہمارا ۔ ‘‘
’’ پھر تمہیں کیسے پتا چلا کہ یہ لوگ قادیانی ہیں؟‘‘ سحر نے سدرہ کا ہاتھ تھام لیا ۔ ان کی اپنی حالت بری تھی لیکن اس وقت سدرہ کو تسلی کی زیادہ ضرورت تھی جن کا رنگ سیاہ اور حالت غیر ہو رہی تھی ۔
’’ بیلا کہتی تھی کہ مما تمکین کبھی بھی امتحان میں ختم نبوت کا سوال تیار کر کے نہیں آتی ۔ ٹیچر اسے اتنا ڈانٹتی ہیں کہ یہ بہت اہم چیپٹر ہے لیکن وہ نہیں پڑھتی ۔ پھر ظہر کے وقت جب کبھی وین لیٹ ہو تو وہ کمرے میں چھپ کر نماز پڑھتی ہے ۔بیلا کی ان باتوں سے مجھے شک ہونے لگا ۔ ہماری پڑوسی تھیں مسز کرامت ، جن کا ان سے بڑا پرانا دوستانہ تھا انہوں نے بتایا کہ یہ لوگ تو قادیانی ہیں ۔ ‘‘
’’ اف تبھی مجھے وہ خواب آتے تھے ۔ ان کا یہی مطلب تھا کہ معاذکی تمکین سے شادی ہمارے عقیدے کی تباہی ہے۔‘‘ سدرہ کے سامنے جیسے سب کھل کر عیاں ہو گیا ۔
’’ کون سے خواب سدرہ ؟‘‘ سحر چونکیں۔
’’ اللہ مجھے اور میری اولاد کو اس ناپاکی سے ، غلاظت سے بچانا چاہتے تھے ۔‘‘سدرہ نے اپنا خواب بیان کرکے کہا ۔
’’ تبھی تو استخارہ کر کے بھی دل مطمئن ہی نہیں ہو پا رہا تھا ۔ ‘‘
’’ مسز کرامت بتاتی تھیں کہ یہ لوگ پیدائشی اس عقیدے سے نہیں تھے ۔ بہت غربت دیکھی تھی ان لوگوں نے ۔ ان کا ایک بیٹا بھی ہے جو آج کل امریکہ ہوتا ہے ۔ وہیں اس نے شادی بھی کر لی ہے ۔ اسی نے کسی پیشوا سے بڑی رقم لی تھی تاکہ وہ باہر جا سکے ۔ لیکن بس اسے اور اس کی فیملی کو مذہب بدلنا تھا ۔ بدلے میں گھر والوں کو رہائش بھی ملی ، تمکین کے سارے تعلیمی اخراجات کاخرچا بھی ملا ۔ ‘‘ ساری بات سن کر تینوں نے ہی جھرجھری لی تھی ۔
’’ اب کیا کرنا ہے سدرہ ؟ معاذ کو کیسے بتائیں گے ؟‘‘ تینوں پریشان بیٹھی تھیں ۔
’’ بتانا تو پڑے گاکیونکہ اب اس ساری صورتحال کے کھل جانے پہ ہم رشتہ تو نہیں کر سکتے ۔ بلکہ میں اسے ابھی کال کرتی ہوں ۔ بہتر ہے کہ نمرہ ہی اسے خود بتائے تو اسے یقین آئے گا ۔ ‘‘ وہ جانتی تھیں کہ معاذ پچھلے کچھ عرصے سے تمکین سے رابطے میں ہے ۔ فون پہ روزانہ بات ہوتی ہے اور اسی لئے اب اس کے دل میں تمکین کے لیے خاص جذبات اجاگر ہو چکے ہیں ۔ اسی لئے ان کا دل تھوڑا ڈر بھی رہا تھا لیکن جو سچ کھلا تھا اس کے بعد تو کسی طور بھی اس رشتے کی گنجائش تک نہیں رہی تھی ۔
سدرہ نے اسی وقت معاذ کو کا ل ملائی کہ گھر پہ کچھ ایمرجنسی ہے تو وہ بلال بھائی کو لے کرجلدی گھر پہنچے ۔
کچھ دیر میں وہ دونوں گھبرائے ہوئے گھر میں داخل ہوئے ۔
’’ ہوا کیا ہے بھئی ؟‘‘ بلال نے سحر کی طرف دیکھا اور معاذ نے ماں کی طرف ۔ بظاہر تو کوئی ایسی ایمرجنسی دونوں کو دکھائی نہیں دی تھی ۔
’’ آ پ دونوں سکون سے بیٹھیں اور یہ نرما کی بات سنیں ۔‘‘
نرما نے ٹھہر ٹھہر کر سب بتانا شروع کیا تو معاذ بالکل ساکت رہ گیا ۔ جو کچھ وہ سن رہا تھا یقین کر نا مشکل تھا ۔
’’ اب تو اس رشتے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ اوپر سے اتنا بڑا دھوکا دیا ہے ان لوگوں نے ہمیں ۔‘‘ بلال غصے سے کھڑے ہوگئے ۔
’’ میں ضرور ان لوگوں کا گریبان پکڑوں گا ۔چھوڑوں گا نہیں انہیں ۔ ‘‘ سحر نے انہیں پکڑ کر بٹھایا اور ٹھنڈا کیا ورنہ نجانے وہ غصے سے کیا کر ڈالتے ۔ معاذ بالکل گنگ تھا ۔
’’ تم کچھ نہیں بولو گے بیٹا ؟‘‘ سدرہ اس کے ردعمل سے ہی گبھرا رہی تھیں ۔
’’ کیا بولوں ۔ کیابولنا چاہئے مجھے ؟‘‘ وہ اٹھ کر خاموشی سے اپنے کمرے میں جانے لگا ۔
’’ معاذ ۔‘‘
’’ بعد میں بات کرتے ہیں امی ۔ اس وقت میں مزید کوئی ڈسکشن نہیں چاہتا ۔‘‘ اس نے مڑ کر ماں کو دیکھا تک نہیں اور اوپر کمرے میں چلا گیا ۔ سحر نے سدرہ کو تسلی دی کہ اسے شاک لگا ہے ۔ سنبھلنے میں کچھ وقت تو لگے گا ۔ اسے وقت دینا چاہئے ۔
دونوں نرما کی بے حد شکر گزار تھیں کہ وہ کسی فرشتے کی صورت ان کے لئے ثابت ہوئی تھیں ۔
٭…٭…٭
’’ آپ لوگوں میں سے کوئی وہاں نہیں جائے گا اور نہ ہی انہیں فون کرے گا۔‘‘ رات کھانے کی میز پہ دونوں فیملیز اکھٹی تھیں ۔ بلال اس بات کے بعد واپس آفس جا ہی نہیں سکے تھے ۔ ان کا بی پی ہائی ہو گیا تھا ۔
’’ کیوں نہیں جائیں گے ۔ میں تو ان لوگوں کو گریبان سے پکڑ کر گھسیٹوں گا جو انہوں نے اتنا بڑا سچ چھپایا ۔ مذہب کوئی مذاق تھوڑا ہی ہے ۔ ان لوگوں نے تو نجانے پیسے لے کر یا اپنی کسی خواہش کی تکمیل کے لیے لباس کی طرح اسے بدل دیا ہے اور سب کو اپنے جیسا سمجھ رکھا ہے ۔ ‘‘
بلال کا غصہ کم ہونے میں نہیں آرہا تھا حالاں کہ سحر مسلسل انہیں ریلیکس کرنے کی کوشش کر رہی تھیں ۔
’’ میں خود تمکین سے مل کر یہ معاملہ ختم کروں گا ۔ اب یہ میر ااور اس کا حساب کتاب ہے اور اسے مجھے ہی چکتا کرنا ہے ۔ ‘‘ سدرہ نے بھائی کو دیکھا اور نظروں سے اشارہ کیا کہ وہ اسے کرنے دیں جو وہ کرنا چاہتا ہے ۔اس کے بعد کھانے پہ دبیز خاموشی تھی ۔ سب ہی پریشان تھے ۔
اس رات اس نے اپنا موبائل بند کر دیا اور اگلے دن آفس بھی نہیں گیا ۔ وہ اپنا دماغ تھوڑا ٹھنڈا کرنا چاہتا تھا ۔ گرم دماغ سے کئے گئے فیصلے درست ثابت نہیں ہوتے ۔ وہ وقت لینا چاہتا تھا ۔ اگلی صبح اس نے موبائل آن کیا تو تمکین کے لاتعداد میسجز اور کالز آئی ہوئی تھیں۔ وہ اس کے یوں اچانک غائب ہوجانے سے پریشان تھی ۔
’’ آج ملتے ہیں دوپہر دو بجے ۔ وہیں یونیورسٹی کے باہر والے ڈھابے پہ ۔‘‘ یونیورسٹی سے باہر ڈھابے پہ وہ اکثر چاٹ کھانے جایا کرتے تھے ۔ اس کی چاٹ تمکین کو بہت پسند تھی اور یونیورسٹی سے پاس آؤٹ ہونے پہ بھی وہ خاص چاٹ کھانے وہاں جانا چاہتی تھی ۔