مکمل ناول

ابو سوتہ: ام ہانی

لڑکی انہیں پسند آئی تھی ، سادہ اور خاموش طبع ۔جو پوچھا بتا دیا ، زائد ازضروری کوئی بات نہیں ۔ لیکن اس کے گھر کا ماحول کچھ پرسرار سا تھا ۔ گھٹا گھٹا اور تنگ سا گھر جس میں عجب سیلن اور بدبو تھی اس پہ مستزاد اندھیرا بھی بہت تھا ۔ ایسا نہیں تھا کہ گھر میں کھڑکیاں نہیں تھیں لیکن ایسے لگتا تھا کہ برسوں سے انہیں کھولا نہ گیا ہو ۔اوپر سے اس کی والدہ عجیب سی خاتون تھیں ۔ خاموش او ر بڑی بڑی باہر کو ابلتی آنکھوں سے بس گھورتی ہوئی ۔ ہاتھ میں تسبیح تھامے ، لب ہلاتی ہوئیں۔سدرہ تو انہیں دیکھ کر غیر آرام دہ ہی رہیں ۔ والد البتہ خوش اخلاق سے تھے لیکن سدرہ تو اسی قول پہ عمل کرنے والی خاتون تھیں کہ لڑکی سے پہلے اس کی ماں کو دیکھو اور ماں کو انہوں نے کیا دیکھنا تھا وہ ہی انہیں دیکھے بلکہ گھورے جا رہی تھی ۔
پوری گفتگو میں انہوں نے ایک ہی بات کی تھی ۔
’’ تمکین ہماری اکلوتی اولاد ہے اور جیسے اس کی خوشی ہے وہی ہماری خوشی ہے ۔ بڑی منتوں مرادوں سے ہمیں ملی ہے ۔ اس نے جب دن کو رات کہا ہم نے بھی رات ہی کہا ۔اس کی مرضی کے خلاف کبھی اس گھر میں کوئی کام نہیں ہوا ۔ اس کی خوشی کے لیے ہم کچھ بھی کر سکتے ہیں اور اس کی آنکھوں میں آنسو ہم سے برداشت نہیں ہوتا ۔ اکلوتی ہے تو ہم نے اسے کبھی کاموں کی ذمہ داری نہیں دی اسی لئے اسے گھر داری کا کچھ نہیں پتا۔ ‘‘
سدرہ بس مسکرا کر سر ہلا تی رہیں ۔ ان کے گھرمیں کون سا نوکروں کی کمی تھی جو وہ تمکین سے کام کرواتیں ۔ یہ تو ان کی اپنی خوشی ہوتی تھی کہ وہ اپنے بچوں کے لیے خود کھانا بناتی تھیں ورنہ معاشی لحاظ سے وہ اتنی مضبوط تھیں کہ گھر میں کام کاج کے لیے کئی ملازم تھے ۔ البتہ تمکین کے خاندان کا ان سے طبقاتی فرق صاف واضح تھا لیکن وہ اتنی پڑھی لکھی اور مہذب خاتون تھیں کہ اس فرق کو اہمیت نہیں دیتی تھیں۔ وہ انسان کو انسان سمجھ کر برتتی تھیں ، اس کی معاشی حیثیت دیکھ کر نہیں ۔
’’ ہمارے گھر میں کسی شے کی کمی نہیں ہے الحمدللہ۔ ہر طرح سے آسودگی اور خوش حالی ہے ۔ اسی لیے اس حوالے سے فکر مند ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔لیکن خاندانی لوگوں میں یہ اچھا سمجھا جاتا ہے کہ اپنے گھر کے لیے کھانا عورت کے ہاتھ کا بنا ہو ۔ میں نوکری پیشہ ہوں لیکن اپنے بچوں کے لیے کھانا خود بنانا پسند کرتی ہوں۔ ‘‘والدہ خاموشی سے سر ہلانے لگیں اور والد ماشاء اللہ ماشاء اللہ کرنے لگے ۔
’’ کیا میں پوچھ سکتی ہوں کہ بھائی صاحب آپ کیا کرتے ہیں ؟‘‘ جب رشتہ طے کرنا تھا تو یہ جاننا ضروری تھا۔
’’ بس کچھ پراپرٹی ہے جس سے گزر بسر ہو جاتا ہے ۔‘‘ سدرہ مسکرا کر سر ہلانے لگیں۔
چائے اور اس کے ساتھ سرو کیے گئے لوازمات میں بھی لگتا تھا عجیب سا ہی ذائقہ تھا ۔ جیسے جلی کوئی سگریٹ کی راکھ سب میں ملا دی ہو ۔ ان سے تو کھایا ہی نہیں گیا ۔ بس چکھ کر سب ایک طرف رکھ دیا۔
’’ اچھا لگا آپ لوگوں سے مل کر ۔ اللہ نے چاہاتو دوبارہ ملاقات ہو گی ۔‘‘وہ اٹھ کھڑی ہوئیں۔
’’ ضرور ‘ ضرور۔‘‘ جواب تمکین کے والد نے دیا تھا ۔ والدہ تو اسی طرح خاموش، ابلتی ہوئی آنکھوں سے بس معاذ کو گھورے جا رہی تھیں ۔
واپسی کے سارے رستے دونوں خاموش ہی رہے۔
’’ امی پھرکیسی لگی تمکین ؟‘‘سدرہ مسکرائیں ۔
’’ لڑکی ٹھیک ہے لیکن اس کے گھر کا ماحول اور والدہ کچھ عجیب سے نہیں ہیں ؟ اب یہ مت کہنا کہ مجھے زندگی لڑکی کے ساتھ گزارنی ہے، اس کے ولدین کے ساتھ نہیں کیونکہ ایسا نہیں ہوتا کہ آپ کا تعلق لڑکی سے ہی جڑتا ہے اس کے خاندان سے آپ دور رہیں ۔ شادی دو خاندانوں کا بھی تعلق بناتی ہے ۔ خاص طور پہ لڑکے کا لڑکی کے خاندان سے اور لڑکی کا لڑکے کے خاندان سے ۔‘‘ معاذ ماں سے متفق تھا اسی لئے خاموش رہا ۔وہ کم ہی ان کی بات پہ اعتراض کرتا تھا کیونکہ وہ انہیں ایک آئیڈیل شخصیت کے طور پہ دیکھتا تھا ۔ اسے معلوم تھا کہ اس کی ماں کبھی کوئی غیر منصفانہ بات نہیں کرتیں ۔
’’ میں پہلے ان کے بارے میں کچھ انویسٹی گیٹ کروانا چاہتی ہوں ۔ پھر ہی مزید دیکھیں گے۔تب تک بہتر ہے تم سے اس سلسلے میں کوئی بات مت کرنا ۔میرا مطلب ہے کہ اس سے رابطہ کرنے کی کوشش مت کرنا ۔‘‘ انہوں نے دوٹوک بتا دیا ۔ معاذ نے کوئی چوں چاں نہیںکی ۔ اسے اپنی ماں کی سمجھداری پہ پورا یقین تھا ۔
٭…٭…٭
کھڑکی سے کوئی شے مسلسل ٹکرا رہی تھی جس سے بڑے زور کی ٹھک ٹھک کی آواز آ رہی تھی ۔ سدرہ بستر پہ بیٹھی کتاب پڑھ رہی تھیں اور آواز کا مستقل پیدا ہونا انہیں تنگ کر رہا تھا ۔ انہوں نے اپنے گرد گرم شال لپیٹی تاکہ اٹھ کر دیکھ سکیں کہ آواز کہاں اور کیوں پیدا ہو رہی ہے ۔ کمرے میں عجب ملگجا سا اندھیرا تھا جبکہ ان کا گھر کبھی ایسا نہیں تھا ۔ وہ ہمیشہ کھڑکیاں دروازے کھول کر رکھتیں تاکہ تازہ ہوا کا گزر ہوتا رہے ۔ گھر میں کچھ عجیب سی بدبو بھی پھیلی ہوئی تھی جو مانوس سی لگتی تھی لیکن ذہن میں واضح نہیں تھا کہ وہ کہاں سے اٹھ رہی ہے ۔
انہوں نے ٹھک ٹھک کی آواز پہ کھڑکی سے کان لگائے تو زور بڑھ گیا ۔وہ گھبرا کر پرے ہٹیں ۔ تبھی کھڑکی کا شیشہ تڑخ گیا اور ایک عجب منظر دیکھنے کو ملا ۔ کچھ سور تھے جو کھڑکی سے سر ٹکرا کر اسے توڑ کر اندرآنے کی کوشش میں تھے لیکن کھڑکی پہ لگی جالی کو وہ توڑ نہیں پارہے تھے کہ اندر آ سکیں ۔ سدرہ نے گھبرا کر جلدی سے چار قل پڑھنے شروع کئے ۔
ایک جھٹکے سے سدرہ کی آنکھ کھل گئی ۔ وہ پسینے میں شرابور ، تیز رفتار دل کے ساتھ ادھر ادھر دیکھنے لگیں ۔ ان کے برابر ہی نمرہ سو رہی تھی ۔ اسے اکیلے کمرے میںسوتے ڈر لگتا تھا اسی لئے ہمیشہ سے ماں کے ساتھ ہی سویا کرتی تھی ۔
سدرہ نے جلدی سے کھڑکی کو دیکھا ۔ وہاں نہ کوئی دستک تھی اور نہ ہی شور ۔ کمرے میں نائٹ بلب کی روشنی پھیلی ہوئی تھی اور کوئی بدبو نہیں تھی ۔ انہوں نے سکون بھرا سانس لیا۔
’’ اف یہ خواب تھا ۔‘‘ اتنا حقیقت کا گمان ہوا تھا کہ حقیقت ہی لگا تھا ۔
’’ اتنا گندا خواب ۔‘‘ سو چ کرانہیں جھرجھری آ گئی ۔
آیت الکرسی پڑھ کر خود پہ اور سارے کمرے پہ دم کی ۔ وہ سونے کے لیے دوبارہ لیٹ گئیں لیکن نیند آنکھوں سے روٹھ گئی تھی ۔ کتنی دیر تک خواب ہی یاد آتا رہا، اس سوچ کے ساتھ کہ وہ صبح اٹھ کر صدقہ کریں گی نجانے کب ان کی آنکھ لگ گئی ۔
٭…٭…٭
تمکین کی فیملی کے بارے میں انہوں نے اس دن شام کی چائے پہ سحر اور بلال سے ڈسکس کیا تھا جب وہ دونوں ان کی طرف آئے تھے ۔ اکثر ہی یا تو کھانے چائے پہ وہ دونوں ان کی طرف آجاتے یا پھر یہ لوگ وہاں چلے جاتے ۔ وہ دونوں بھی اکیلا محسوس کرتے تھے اور بچوں کے چلے جانے سے رونق ہو جاتی تھی ۔ بلال بھائی نے ساری بات سن کر تسلی دی۔
’’ میں خود ان لوگوں کے بارے میں پتہ کرواتا ہوں ۔تم پریشان مت ہو۔‘‘ سدرہ بے فکر ہو گئیں ۔
’’ میں تو یہ مشورہ دوں گی سدرہ کہ تم استخارہ بھی کر لو ۔ اللہ سے مشورہ کر کے چلنا اچھا ہوتا ہے اوردل مطمئن بھی رہتا ہے۔زندگی کا اتنا اہم معاملہ ہے اسی لئے استخارہ ضروری ہے ۔‘‘ سحر کچھ مذہبی رحجان رکھتی تھیں ۔ خود اپنی بیٹی کی شادی بھی انہوں نے تب تک نہ کی جب تک اس کا استخارہ ٹھیک نہیں آیا پھر ا سی وجہ سے انہوں نے کتنے رشتوں کو ان کار کیا تھا ۔ لیکن اب بیٹی کو اتنا مطمئن دیکھ کر اس کے لئے آئے اچھے اور بہترین رشتوں پہ انہیں کبھی افسوس نہیں ہوا تھا ۔
سدرہ کو بات دل پہ لگی تو انہوں نے چائے پیتے ہوئے مگ منہ سے لگا کر سر اثبات میں ہلا دیا ۔ صد شکر تھا کہ معاذ اس معاملے میں بالکل کسی قسم کی ضد نہیں دکھا رہا تھا ۔ان کے دل کو قرار تھا کہ معاملہ بس ہلکی پھلکی پسندیدگی سے آگے کا نہیں ہے ورنہ وہ ضد پکڑ لیتا تو وہ کیا کرسکتی تھیں ۔
ویک اینڈ پہ ان کی کال کئے بنا ہی تمکین کے والد کا فون آگیا تھا ۔
’’ آپ نے دوبارہ رابطہ نہیں کیا تو سوچا ہم ہی کال کر لیں ۔ اصل میں ہم کل آنا چاہتے ہیں اگر آپ کی کوئی اور مصروفیت نہیں ہے تو ۔‘‘سدرہ کچھ شش و پنج میں مبتلا رہیں ۔ انہیں یہ بات زیادہ اچھی نہیں لگی تھی کہ لڑکی والے ہو کر وہ خود کال کر کے آنے کی بات کر رہے ہیں۔ ایسی بھی کیا ہتھیلی پہ سرسوں جمانا ۔
’’ ایسا ہے کہ ابھی کچھ اہم مصروفیات ہیں جنہیں ٹالا نہیں جا سکتا ۔ جب ہم فری ہو جائیں گے تو آپ کو آگاہ کر دیں گے ۔ میں خود آپ کو بتاؤں گی بلکہ کال کر کے انوائٹ کروں گی ۔‘‘ وہ انکار اور اقرار کے درمیان کی منزل پہ تھیں اسی لئے طریقے سے انہیں منع کیا ۔معاملہ خراب نہیں کرنا تھا بلکہ خوش اسلوبی سے حل کرنا تھا۔
بلال صاحب کی دوہفتے کی تفتیش میں کوئی ایسی قابل ِ قدر بات سامنے نہیں آسکی جس کی بنیاد پہ انکار کیا جا سکتا لیکن سدرہ کو استخارہ کرنے سے ہی اطمینان نہیں ہو رہا تھا ۔ نجانے کیوں ان کا دل بے چین تھا ۔بظاہر کوئی ایسی بات نہیں تھی مگر دل میں کچھ کھٹک رہا تھا ۔
’’ امی اب اس ایک وجہ سے تو آپ کو انکار نہیں کرنا چاہئے کہ آپ کا دل مطمئن نہیں ہے جبکہ اور کوئی بات سامنے نہیں آئی جس پہ اعتراض کیا جائے ۔‘‘ معاذ کی بات پہ وہ سوچ میں پڑ گئیں حالانکہ سحرچاہتی تھیں کہ سدرہ اس رشتے سے منع کر دیں اگر وہ مطمئن نہیں ہو پا رہیں ۔ سحر کے مشورے نے انہیں کچھ متذبذب کر رکھا تھا اور اس پہ مستزاد وہ خواب انہیں یاد آ گیا ۔
’’ میرے خیال میں ہمیں منگنی کر دینی چاہئے ۔ اس طرح دونوں خاندانوں میں رابطہ استورہو گا تو ایک دوسرے کو جاننے کا موقع ملے گا ۔ ‘‘بلال ماموں نے انہیں مشورہ دیا تو انہیں پسند تو آیا لیکن پھر بھی وہ زیادہ مطمئن نہیں ہو سکیں ۔
’’ اگر ہم ان کی طرف یونہی آنا جانا ملناملانا رکھیں تو بھی جاننے کا موقع مل سکتا ہے ۔ منگنی کرنے کی کیا ضرورت ہے بھلا ؟‘‘ سحر کو مناسب نہیں لگا تھا ۔
’’ لیکن بے وجہ ملنا ملانا بھی تو ٹھیک نہیں ہے ۔‘‘
’’ چھوڑیں بلال ۔ آپ کس دنیا میں رہتے ہیں ۔ لوگ رشتے کرنے سے پہلے بیسوں بار چکر لگا تے ہیں ۔ ہم تو ایک بار ہی گئے وہ بھی بس سدرہ ہی گئیں ۔ ابھی ہم نے جانا ہے ، بچوں نے ملنا ہے ۔ شہوار آئے گی تو اسے لے جائیں گے ۔ پھر سوچیں گے کہ کیا کرنا ہے ۔‘‘
’’ سحر ٹھیک کہہ رہی ہے۔ابھی ایک بار ہی تو ملاقات ہوئی ہے ۔‘‘ وہ منگنی کے حق میں نہیں تھیں ۔ مستقبل میں اگر کوئی مسئلہ ہو جاتا تو پھر معاملے کو ساری دنیا کے سامنے ختم کرنے میں دونوں خاندانوں کی سبکی تھی جو وہ نہیں چاہتی تھیں ۔ اسی لئے منگنی یا نکاح سے پہلے دونوں خاندانوں میں میل مراسم بڑھانا زیادہ ضروری تھا۔
دونوں خاندانوں میں آنا جانا ،میل جول بڑھنے لگا ۔ سحر اور سدرہ دونوں زیادہ مطمئن نہیں تھیں۔وجہ انہیں خود بھی نہیں پتا تھی ۔ لڑکی البتہ ہر لحاظ سے انہیں ٹھیک لگی تھی ۔
’’ امی بھیجا کی شادی کب ہو گی ؟‘‘ بچے دیکھتے ہی تھے کہ کبھی وہاں سے کوئی آتا ہے تو کبھی یہاں سے کوئی جاتا ہے ۔ اتنے سمجھدار تو تھے کہ معاملے کی گہرائی تک پہنچ جاتے ۔
’’ جب اللہ کو منظور ہو گا ۔‘‘ سعد نے لقمہ دیا ۔
سدرہ خاموش رہیں ۔ ان کے پاس اس سوال کا تاحال جواب موجود نہیں تھا ۔
معاذ نے بھی ان سے یہی سوال کیا تھا ۔
’’ امی اگر ہو سکے تو انگیجمنٹ کر لیتے ہیں ۔ تمکین کے گھر والے اس سے بار بار سوال کرتے ہیں ۔ وہ بیچار ی خود پریشان ہے اور پھر اس کے اور رشتے بھی آ رہے ہیں ۔ ہماری وجہ سے وہ ان کو منع بھی نہیں کر پارہے اور اقرار بھی نہیں کر پارہے ۔ کوئی ایک فیصلہ لے ڈالیں تاکہ ان کی یہ مشکل آسان ہو۔ مجھے یوں کسی لڑکی کو لٹکا کر رکھنا اچھا نہیں لگ رہا ۔‘‘ معاذ کو یہ سب تمکین کی دوست عفیفہ سے پتا چلا تھا جو جانتی تھی کہ معاذ نے تمکین کے لیے رشتہ بھیجا تھا ۔ سدرہ کو معاذ کی بات ٹھیک لگی تھی ۔ بھابھی بھائی سے مشورہ کرنے کے بعد دونوں خاندانوں کی موجودگی میں بس دعائے خیر کی رسم ہو گئی تاکہ دوسری پارٹی کو بھی تسلی رہے ۔
بات پکی ہو گئی تو معاذ نے ہی بڑوں سے اجازت لی کہ وہ تمکین سے فون پہ رابطے میں رہنا چاہتا ہے ۔ یوں معاذ کی تمکین سے فون پہ بات ہونے لگ گئی تھی اور ایسا تمکین کی والدہ کے اصرار پہ ہی ہوا تھا کہ دونوں بچے آپس میں بات کر لیا کریں۔دونوں کے مابین رابطے کی بدولت قربتیں پیدا ہونے لگیں۔
’’ تمہیں مجھ میں کیا اچھا لگا تھا معاذ ؟‘‘ پہلی بار جب ان کی بات ہوئی تو اس نے معاذ سے جھٹ سے سوال کیا ۔
’’کلاس کی تمام لڑکیوں کی نسبت تم بہت سنبھل کر رہنے والی لڑکی تھی ۔ تمہاری اسی محتاط طبیعت نے مجھے تمہاری طرف راغب کیا ۔‘‘ تمکین مسکرا دی ۔
یہ سچ بھی تھا کہ وہ اپنی کلاس کی سکالر شپ ہولڈر تھی لیکن اس نے کبھی فضول کا نخرہ نہیں دکھایا ۔ اس کا مزاج سادہ تھا اور وہ بلا ضرورت کسی سے بات نہیں کرتی تھی۔ معاذ کو اس میں امی کی جھلک دکھائی دیتی ۔ اسے لگتا کہ اس کی ماں بھی بالکل ایسی ہی خصوصیات کی حامل ہیں۔
’’ کیا سوچا ہے تم لوگوں نے پھر منگنی کے بارے میں ؟‘‘ تمکین نے اس دن خود ہی پوچھ لیا ۔ معاذ کو یوں پوچھنا عجیب تو لگا تھا لیکن اس نے بھی مصلحت آمیز انداز اپنایا۔
’’ امی استخارہ کر رہی ہیں ۔ دیکھو کیا بنتا ہے ۔‘‘ سدرہ مستقل استخار ے کی دعا پڑھ رہی تھیں اور دل تھا کہ طمانیت سے کوسوں دور تھا ۔
’’ اتنا لمبا استخارہ ۔‘‘ وہ مضحکہ خیز انداز میں ہنسی ۔
’’ بری بات ہے تمکین ‘ اسلامی تعلیمات کا مذاق نہیں اڑاتے ۔‘‘ وہ کوئی بہت مذہبی نہیں تھا لیکن پھر بھی ایسی باتوں کا خیال رکھتا تھا ۔
’’ مذاق نہیں اڑا رہی ۔ بس جب سے بات چل رہی ہے یہی سن رہی ہوں استخارہ ہو رہا ہے۔پہلے بات طے ہونے کے لیے استخارہ اب منگنی کے لیے بھی استخارہ ۔ اتنا طویل استخارہ کون کرتا ہے ۔‘‘ وہ اب کی بار سنجیدہ تھی ۔
’’ امی اور ممانی کا یقین ہے کہ استخارے کی دعا تب تک پڑھتے رہنا چاہئے جب تک کام بن یا بگڑ نہ جائے ۔‘‘
’’تو وہ کام بنانا چاہتی ہیں یا بگاڑنا ؟‘‘
’’ تمکین ، استخارہ اللہ سے مشورہ کرنا ہے اور اس کی تعلیمات ہمیں ہمارےنبیﷺ نے دی ہیں ۔‘‘ اس نے بری طرح سے ٹوکا تو تمکین خاموش ہو گئی ۔ اس دن کے بعد سے ان دونوں کے درمیان اس بارے میں کوئی بات نہیں ہوئی تھی ۔
٭…٭…٭

پچھلا صفحہ 1 2 3 4 5 6 7 8اگلا صفحہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے