ابو سوتہ: ام ہانی
اندر معاذ سعد کے یوں اٹھ کر جانے پہ سدرہ سے کہہ رہا تھا۔
’’ امی آپ کو بہت بار کہا ہے کہ مجھے یوں امپورٹنس مت دیا کریں کہ وہ تینوں اگنور ہوں ۔ سعد کو اچھا نہیں لگتا۔وہ بڑا ہو رہا ہے ۔ وہ چاہتا ہے کہ اسے بھی برابر کی اہمیت ملے جیسے آپ مجھے دیتی ہیں ۔‘‘
’’ تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے معاذ ۔ مجھے پریشانی ہے ۔‘‘
’’ ٹھیک ہوں میں ۔‘‘
’’ کہاں ٹھیک ہو ۔ اپنی حالت دیکھو ‘ رنگت پیلی ، آنکھیں پیلی ۔ کہیں جوائنڈس تو نہیں ہو گیا ۔‘‘
’’ ٹھیک ہو جائے گا امی ۔کیوں پریشان ہو رہی ہیں ۔‘‘ اس نے ماں کی تسلی کے لیے ان کے ہاتھ پہ اپنا ہاتھ رکھا اور پھر تھپکا۔
’’ کہیں یہ سب اس لڑکی کی وجہ سے تو نہیں ہے ؟‘‘ معاذ چونکا ۔
’’ اتنا گیا گزرا سمجھا ہے آپ نے مجھے کہ میں اس کا روگ لگا کر بیٹھ جاؤں گا ۔اپنی حالت اس کے لئے بگاڑ لوں گا؟‘‘ اس کی بات سن کر انہوں نے جیسے سکھ کا سانس لیا تھا ورنہ رات سے وہ یہی سوچ سوچ کر پریشان تھیں ۔
’’ پھر بھی ۔وہ تھی تو تمہاری پسند نا ۔‘‘
’’ پسند تھی امی ۔ اب نہیں ہے۔ اور مجھے افسوس ہے کہ وہ میری پسند تھی ۔انسان کو پسند بھی سوچ سمجھ کر کرنی چاہئے ۔ ‘‘ اس کے لہجے میں تاسف تھا ۔ سدرہ کو لگا انہیں یہ موضوع نہیں چھیڑنا چاہئے تھا ۔
’’ تمہیں کمپلیٹ چیک اپ کروانا چاہئے ۔بلکہ یوں کرو آج میرے ساتھ ہاسپٹل چلو ۔‘‘ اس نے سر اثبات میں ہلایا ۔
’’ جاؤں گا ہاسپٹل لیکن آج نہیں ۔ کل چلا جاؤں گا۔ابھی میں ریسٹ کرنا چاہتا ہوں ۔‘‘ وہ اٹھ کر اپنے کمرے کی طرف چلا گیا ۔
’’ اگر ہاسپٹل نہیں جانا تو آفس بھی مت جاؤ ۔‘‘ انہوں نے پیچھے سے اونچی آواز میں کہا تو وہ سر ہلاتا ہوا آگے بڑھ گیا ۔
وہ پریشانی کے عالم میں ہی بھائی کو کال ملانے لگیں ۔ ان کو بتانا تھا کہ معاذ آفس نہیں آئے گا ۔ اس نے اپنے ماموں اور پاپاکا مشترکہ آفس ہی جوائن کیا تھا جب سے اس کی پڑھائی مکمل ہوئی تھی ۔ اب وہ پاپا کے آفس میں ان کی سیٹ پہ بیٹھتا تھا اور بھائی جان اس بات سے بہت خوش تھے کہ اس نے جلد کام سیکھ لیا تھا ۔
’’ تمہیں معاذ کی نظر اتروانی چاہئے ۔ ‘‘ سحربھابھی نے ساری بات سن کر کہا ۔
’’ نظر بھی اتار چکی ہوں ۔ صدقہ بھی دے چکی ہوں ۔ لیکن پتا نہیں کیا ہو گیا ہے میرے پیارے بچے کو ۔میں تو سخت پریشان ہو رہی ہوں۔‘‘ وہ فکر مند تھیں اور یہ سن کر سحر بھی پریشان ہو گئیں ۔ وہ ماموں کی فیملی میں بھی اتنا عزیز سمجھا جاتا تھا جتنا کہ اپنی ماں کا پیارا تھا ۔ کچھ اس کی عادات ایسی تھیں اور کچھ اسے ہر کسی سے توجہ لینا آتی تھی ۔
’’ اس نے اس لڑکی والے معاملے کو ابھی تک دل سے لگا کر رکھا ہو ا ہے ۔ وہ اسے نہیں بھولا ۔‘‘سحر کو بھی ایسا ہی لگا۔
سحر کی بات پہ سدرہ چونکی تھیں ۔
’’ میں نے اس سے پوچھا تھاکہ وہ اس کی وجہ سے تو ڈسٹرب نہیں ہے لیکن اس نے صاف کہا کہ وہ اس کا خیال دل و دماغ سے نکال چکا ہے ۔اور اس کی آنکھوں میں سچائی تھی سحر ۔مجھے نہیں لگتا کہ وہ اس کو اب تک دل سے لگا کر بیٹھا ہوا ہے ۔‘‘
’’ ہاں ہو سکتا ہے کہ وہ اسے دل سے نکال چکا ہے لیکن یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ وہ اس سب کے بعد سے مینٹل سٹریس کا شکار ہو گیا ہو۔آخر جو بھی مسئلہ ہے شروع تو اس واقعے کے بعد سے ہی ہوا ہے نا ۔‘‘ سدرہ الجھ گئیں ۔ اس بارے میں تو انہوں نے سوچا ہی نہیں تھا ۔
پانچ مہینے پہلے کی ساری داستان جیسے ریل کی طرح ان کے دماغ میں چلنے لگی تھی ۔
٭…٭…٭
لیپ ٹاپ کی اسکرین پہ جونہی ایک ونڈو نمودار ہوئی معاذکا چہرہ خوشی سے تمتما اٹھا تھا۔ ایسے میں وہ کسی بچے کی طرح گلابی پڑ جاتا تھا ۔
’’ امی۔ ‘‘ وہ لیپ ٹاپ وہیں چھوڑ کر بیڈ سے چھلانگ لگاتا ماں کو پکارتا کچن کی جانب بھاگا تھا ۔
’’ امی میرا رزلٹ آگیا ۔‘‘ کچن کے دروازے پہ پہنچ کر اس نے حد درجے پرجوشی سے اپنی چھوٹی بہن کو کھانا کھلاتی ماں کی طرف دیکھ کر کہا ۔
’’ اور میں تمہارے چہرے سے اندازہ لگا سکتی ہوں کہ تم نے ہمیشہ کی طرح ٹاپ کیا ہے ۔‘‘ وہ ایک سیکنڈ میں ہی پہچان گئی تھیں ۔
’’ یس ۔نہ صرف کلاس میں بلکہ بی بی اے کے تینوں سیکشنز میں ٹاپ کیا ہے ۔‘‘
سدرہ یکدم کھل اٹھیں ۔ نمرہ کو وہیں چھوڑ کر وہ جلدی سے ہاتھ پاس پڑے نیپکن سے پونچھ کر اس کی طرف بڑھیں اور اسے گلے سے لگا کر اس کا ماتھا چوما ۔
’’ آئی ایم پراؤڈ آف یو مائی سن ۔‘‘ وہ ہمیشہ اسی طرح ان کا سر فخر سے بلند کیا کرتا تھا ۔
’’ اور آپ کی آنکھوں میں یہ خوشی دیکھنے کے لیے ہی تو میں اتنی محنت کرتا ہوں ۔‘‘ اس کی خوشی دوبالا ہو گئی تھی ۔ سدرہ کی آنکھیں چھلک گئی تھیں ۔ وہ جانتا تھا کہ وہ ایسے ہر موقع پہ پاپا کو یاد کیا کرتی تھیں ۔ کہتی نہیں تھیں مگر یہی سوچتی تھیں کہ اگر وہ ہوتے تو اس کی ایسی ہر کامیابی پہ فخر کرتے ۔
’’ بھائی اب تو ٹریٹ پکی ہے ۔‘‘ چھوٹا مونس کھانے کی میز پہ بیٹھا خوشی سے جھوم رہا تھا ۔
’’ بالکل ‘ کل رات کا ڈنر ہم کسی اچھے سے ریسٹورنٹ میں کریں گے ۔ وہ بھی تم سب کی پسند سے ۔‘‘
’’ یاہو ۔‘‘ اس کے تینوں بہن بھائی اب ٹیبل بجا بجا کر خوشی کا اظہار کر رہے تھے ۔ وہ سدرہ کے کاندھے کے گرد بازو حمائل کیے دوسرے ہاتھ سے ان کا سر تھپک رہا تھا جو اس کے شانے پہ تھا ۔
جوانی میں بیوہ ہونے والی اس کی ماں نے ان چاروں بچوں پہ بہت محنت کی تھی ۔ وہ نوکری ، گھر اور ان تینوں کی پڑھائی بہت اچھے سے دیکھتی تھیں ۔ اس کے پاپا حسیب اعظم ہارٹ اٹیک سے تب فوت ہوئے تھے جب و ہ آٹھویں میں تھا ۔ اس سے چھوٹا سعد ٹوکلاس میں تھااور باقی دونوں جو جڑواں تھے ابھی اسکول داخل ہی ہوئے تھے ۔ پاپا ایک بزنس مین تھے اور ان کا بزنس اتنا کامیابی سے چل رہا تھا کہ وہ ہر سال کسی نہ کسی ٹور پہ باہر ضرور جاتے تھے ۔ ہر سال ہی گھر کا فرنیچر تبدیل کیا جاتا تھا ۔ ہر سال گاڑی کا ماڈل اپ ڈیٹ ہوتا تھا ۔ پاپا اور ماموں آپس میں بزنس پارٹنرز تھے ۔ پاپا کے بعد سارا بزنس ماموں سنبھال رہے تھے اور ان کے حصے کے شیئر ز سے جو بھی پرافٹ آتا وہ سدرہ کے اکاؤنٹ میں جمع کرا دیتے ۔ سو یوں ان کے معیار ِ زندگی میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی تھی لیکن باپ کی کمی کوئی پوری نہیں کر سکا تھا ۔پاپا کے جانے کے بعد ہی معاذ نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ ان کا بزنس سنبھالنے کے لیے بی بی اے کرے گا ۔ کہیں نہ کہیں یہی خواہش امی کی بھی تھی۔
ماموں کا گھر ان کے گھر سے دوگھر چھوڑ کر تھا اور آنا جانا لگا رہتا تھا ۔ یہ گھر بلال ماموں نے ہی حسیب اعظم کی وفات کے بعد ان لوگوں کے لیے خریدا تھا تاکہ وہ ان کے قریب رہ سکیں ، ان کی اچھے سے دیکھ بھال کر سکیں ۔ ان کی اپنی ایک ہی بیٹی تھی جس کی وہ د وسال پہلے شادی کر چکے تھے ۔ دونوں میاں بیوی اکیلے تھے ۔ سحر ممانی بھی ڈاکٹر تھیں اور اسی ہاسپٹل میں گائیناکالوجسٹ تھیں جہاں ماما اسکن اسپیشلسٹ تھیں ۔ دونوں ایک ہی کالج سے پڑھی تھیں اور ماما نے سحر ممانی کی خوش اخلاقی سے متاثر ہو کر ہی انہیں اپنی اکلوتی بھابھی بنایا تھا ۔ وہ دوستی اب تک چلتی آرہی تھی ۔ماموں اور ممانی کے ساتھنے ہی ان کو خاصا مضبوط رکھا تھا ورنہ شوہرکے چلے جانے اور چھوٹے بچوں کے ساتھ سے وہ بہت کم ہمت ہو گئی تھیں ۔
اب جوان بیٹا ان کی طاقت تھا جو انہیں ڈھلتی عمر میں کسی مضبوط سہارے کی طرح لگتا تھا ۔
٭…٭…٭
’’ تمہیں اتنی جلدی کیا ہے سدرہ معاذ کی شادی کی ۔ ‘‘
سحر سدرہ کے ساتھ کچن میں ہی برتن سیٹ کروا رہی تھیں ۔ بچے سارے لان میں ماموں بلال کے ساتھ جمع تھے اور ایک زبردست سا کرکٹ میچ ہو رہا تھا ۔ اتوار کو ان کے لان میں لازمی کرکٹ میچ ہوا کرتا تھا ۔پھر رات کا ڈنر سب اکھٹے کرتے تھے ۔ سحر اور سدرہ ڈنر کی تیاری کر رہی تھیں ۔سحر ان کے گھر آتیں یا وہ سحر کی طرف جاتیں‘ دونوں ہی کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرتی تھیں ۔ مہمان بن کر کوئی ایک طرف نہیں بیٹھ جاتا تھا ۔کبھی یہ ڈنر سدرہ کے گھر ہوتا اور کبھی سحر ان سب کو ڈنر پہ بلوا لیتیں لیکن اتوار کو وہ دونوں خاندان اکھٹے ہی دن گزارتے اور کھانا کھاتے تھے ۔
حسیب اعظم کی فیملی میں بس ایک بھائی ہی تھے جو انگلینڈ ہوا کرتے تھے ۔ وہاں ان کی اپنی زندگی تھی ۔ ان کا کم ہی پاکستان چکر لگا کرتا تھا ۔ بیوہ بھابھی اور بھتیجے بھتیجی کو بھی انہوں نے بس کال کرنے تک ہی محدود رکھا تھا ۔ اس سے زیادہ انہوں نے کوئی رشتہ نہیں بنایا تو سدرہ نے بھی خود کو اور بچوں کو ایک فاصلے تک رکھا تھا ۔
’’ ابھی سے لڑکی ڈھونڈنا شروع کریں گے تو جاکر سال بعد ملے گی ۔ تمہیں تو پتا ہے کہ اس دور میں اچھی لڑکیوں کا کتنا کال ہے اور جو چند ایک اچھی ہوتی ہیں انہیں ان کے خاندان والے ہی فوراً سے بک کر لیتے ہیں۔‘‘ ماؤں کی ازلی پریشانی لہجے میں سموئے وہ کہہ رہی تھیں ۔
’’ میں شہوار سے کہتی ہوں ۔ اس کے خاندان میں بہت پیاری اور سلجھی ہوئی بچیاں ہیں ۔ ‘‘
بیٹی کا سسرال سحر کو بہت پسند تھا ۔ سب تعلیم یافتہ ، خوبصورت اور مہذب خاندانی لوگ تھے ۔پیسہ بہت نہیں تھا لیکن انسانیت کافی تھی اور یہی بات انہیں پسند تھی ۔ اپنا کوئی بیٹا ہوتا تو اس کے لیے بھی وہ شہوار کی سسرال سے رشتہ کرتیں ۔ معاذ یوں بھی انہیں بیٹوں کی طرح عزیز تھا ۔ شہوار معاذ سے چھے سال بڑی نہ ہوتی تو وہ اسے ہی داماد بنا لیتیں ۔ اس بات کا وہ اکثر برملا اظہار کرتیں جس پہ سدرہ ہنس دیتیںاور معاذ جھینپ جاتا۔
’’ لیکن اس سے پہلے معاذ سے اس کی مرضی جاننا ضرور ی ہے ۔ کیا خبر وہ کسی کو پسند کرتا ہو ۔ اپنی پسند سے شادی کرنا چاہتا ہو ۔ تمہیں اس سے اس بارے میں ڈسکس کرکے چلنا چاہئے ۔ زندگی اس کی ہے تو پسند بھی اس کی ہونی چاہیے۔یوں بھی آج کل کے بچے اپنی پسند کی شادی کو بہت ترجیح دیتے ہیں ۔‘‘ سدرہ ان کی بات پہ چونکی تھیں ۔ نجانے کیوں وہ اس بات سے ڈرتی تھیں ۔ ایک عورت جو جوانی میں ہی بیوہ ہو چکی ہو ، اس کو اندر ہی اندر اس بات سے خوف آتا تھا کہ ان کا بیٹا اپنی پسند سے شادی کر نا چاہے گا تو وہ کیا کریں گی ۔ بیٹے کی پسند کہیں ایسی ویسی نکلی توکیا ہوگا؟ ان سے ان کا جوان بیٹا کہیں الگ نہ ہو جائے ۔ شوہر کا غم برداشت کر لیاتھا کہ وہ تو مشیت الٰہی تھی لیکن اب بیٹے کو کسی قیمت پہ کھونا نہیں چاہتی تھیں ۔
’’ معاذ ایسا نہیں ہے ۔ اس کی کوئی پسند ہوتی تو مجھے بتا دیتا ۔ وہ مجھ سے کچھ نہیں چھپاتا۔‘‘ یہ بات سوچنا بھی اس قدر برا لگ رہا تھا ۔
’’ پھر بھی سدرہ آج کل کے بچے اپنی پسند نا پسند رکھتے ہیں ۔ ان سے پوچھے بنا ان کی زندگی کا فیصلہ کرنا کسی طور بھی ٹھیک نہیں ہے ۔‘‘
نند کو سمجھا کر اب وہ باہر لان میں چلی گئی تھیں تاکہ میچ کو اختتامی مراحل کی جانب لے کر جائیں اور ڈنر کے لیے سب کو اندر لے آئیں ۔اندر کھڑی سدرہ بھابھی کی بات پہ سوچے جا رہی تھیں ۔ اگر واقعی ایسا ہو گیا کہ معاذ کسی کو پسند کرتا ہوا تو وہ کیا کریں گی ؟ ان کا دل سوچ کر ہی ڈوبنے لگا تھا ۔
رات کے ڈنر پہ سب کی پسندیدہ چکن بریانی تھی ۔ رائتہ ، سلاد ، شامی کباب اور کولڈ ڈرنکس ۔ سوائے سدرہ کے سبھی رغبت سے کھا رہے تھے ۔ لیکن آپس کی خوش گپیوں میں کوئی یہ محسوس ہی نہیں کر پا رہا تھا کہ سدرہ کا دھیان کہیں اور ہے ، وہ بجھی بجھی سی ہیں ۔ وہ چاہ کر بھی اس خیال کو ذہن سے جھٹک نہیں پا رہی تھیں ۔
معاذ کا چمکتا دمکتا چہرہ اور اونچا لمبا قد انہیں حسیب اعظم کی یاد دلا رہا تھا ۔آنکھیں بھرا نہ جائیں اسی ڈر سے اٹھ کر وہ کچن میں چلی آئیں ۔
’’ سحر ٹھیک کہہ رہی ہے مجھے کسی بھی قسم کی پیش قدمی سے پہلے ایک بار معاذ سے بات کرنا ہو گی ۔‘‘انہوں نے تہیہ کر لیا ۔
’’ بزی تو نہیں ہو ؟‘‘وہ رات کو اس کے کمرے میں چلی آئی تھیں۔
’’ نہیں پلیز آئیں نا امی ۔‘‘ ان کے لئے جگہ بنا کر وہ خود بھی ان کے ساتھ بیٹھ گیا۔
’’ معاذ اب تم اپنے ماموں کے ساتھ ان کے بزنس میں ان کا ہاتھ بٹاؤ ۔ اپنے پاپا کا بزنس دیکھو ۔ کب تک ماموں اکیلے بزنس سنبھالیں گے ۔ پھر مستقبل میں یہ سب تم نے ہی دیکھنا ہے بیٹا ۔ ‘‘ معاذ نے سر ہلایا ۔ اس کا یہی ارادہ تھا اور ماموں بھی اس حوالے سے اس سے ڈسکس کر چکے تھے ۔
’’ اور اس سے بھی پہلے تم شادی کے لیے ہاں کر دوبلکہ کوئی پسند ہے تو بتا بھی دو ۔‘‘ معاذ اس بات پہ چونکا اور پھر جھینپ گیا ۔
’’ اتنا شرما رہے ہو جیسے لڑکی ہو ۔‘‘ بیٹے کے چہرے کی لالی پہ انہیں بہت پیار آیا ۔ وہ ہنس دیا ۔
’’ تو بتاؤ پھر کوئی پسند ہے یا میں اپنی پسند کی بہو ڈھونڈ لوں ؟‘‘وہ بغور اس کا چہرہ دیکھنے لگیں ۔
’’ ایسا بھی تو ہو سکتا ہے امی کہ میری اور آپ کی پسند ایک ہو جائے ۔‘‘ سدرہ اس کی بات پہ ٹھٹکیں ۔
’’ کو ن ہے وہ ؟‘‘
’’ آپ کو وہ تمکین یاد ہے ۔؟‘‘ سدرہ نے ذہن پہ زور دیا تو ایک بار وہ اس کی یونیورسٹی گئی تھیں جہاں معاذ نے اپنے کچھ دوستوں سے ملوایا تھا ۔ انہی میں ایک تمکین بھی تھی ۔
’’ ہاں بالکل ‘ تو کیا ؟‘‘ انہوں نے بات ادھوری چھوڑ کر بیٹے کی صورت دیکھی ۔
اس نے اثبات میں سر ہلایا ۔ سدرہ نے گہری سانس لی ۔ سحر ٹھیک کہہ رہی تھیں ۔ وہ اب بچہ نہیں رہا تھا کہ ان کی لائی کوئی بھی پینٹ کوئی بھی شرٹ پسند کرلیتا ۔ ان کی مرضی کا بنایا کھانا کھا لیتا۔ اس کی ایک شخصیت تھی اور زندگی کا لائف پارٹنر چننے کا اسے پورا حق تھا ۔
’’ تم ا س کا ایڈریس لے لو ۔ ہم اس کے گھر چلیں گے ۔‘‘ انہوں نے کسی قسم کی مداخلت کے بغیر کہا ۔وہ روایتی ماں بن کر اس کی پسند کو مسترد نہیں کرسکتی تھیں ۔ انہیں اپنے بیٹے کی خوشی عزیز تھی ۔
’’ لیکن وہ ہماری کلاس کی نہیں ہے ۔نجانے آپ کو اس کے گھر جا کر کیسا لگے۔‘‘
’’ وہ تمہیں پسند ہے نا ؟‘‘ انہوں نے بغور اس کا چہرہ دیکھا تو وہ مسکرا دیا۔
’’ پسند ہے لیکن ایسا نہیں ہے کہ میں کوئی ڈائی ہارٹ قسم کی محبت میں مبتلا ہوں ۔ آپ نے پسند پوچھی تو میں نے بتا دی ۔ اگر آپ کو کوئی بھی اعتراض ہوا تو میں بالکل بھی اس بات کو ایشو نہیں بناؤں گا کیونکہ میری اس سے کوئی کمٹمنٹ نہیں ہے ۔ ان فیکٹ وہ تو جانتی بھی نہیں ہے کہ میں اس میں انٹرسٹڈ ہوں ۔‘‘سدرہ نے ایک پرسکون سا سانس خارج کیا کہ شکر ہے ان کا بیٹا یہ نہیںکہہ رہا تھا کہ وہ شادی کرے گا تو اسی لڑکی سے ۔
’’ تم جانتے ہو کہ ہماری فیملی انسان کو بس انسان سمجھا جاتا ہے ۔ مال و دولت سے اس کا کوئی لینا دینا نہیں ۔اس لیے اس کا سٹیٹس کم ہو یا زیادہ ہمیں فرق نہیں پڑتا ۔ ویک اینڈ پہ چلتے ہیں ہم ۔ تم ایڈریس لے لو ۔‘‘
اس کے سر پہ بوسہ دے کر وہ اس کے کمرے سے نکل گئیں ۔اور وہ جھٹ سے عفیفہ کو کال کرنے لگا تاکہ اس سے تمکین کا ایڈریس منگوا سکے ۔
٭…٭…٭