ابھی نہ جاؤ چھوڑ کر: ماریہ غزال
’’میشا جلدی کرو۔ ‘‘
’’اف پیاری بھابھی کیا اپنا وقت بھول گئیں ہیں ۔ جب ہم تم ملا کرتے تھے ۔ او سوری سوری ہم آپ کو لینے آیا کرتے تھے اور آپ کتنے نخرے دکھاتی تھیں ۔ گھنٹوں بعد تشریف لے کر آتی تھیں۔ ‘‘ وہ بالکل ہی فلمی ہو رہی تھی۔
’’ میشو کی بچی کیا بھنگ بھی رکھی ہے۔ ‘‘ تبسم نے حسب عادت دھموکا جڑنے کی کوشش کی جس کو میشا نے ناکام بنا دیا۔
’’ اتنے دھموکے جڑیں گی تو ٹوٹ پھوٹ جاؤں گی اور پھر میرے سسرال والے قبول کرنے سے انکار کر دیں گے اور پھر آپ کے سر پر مسلط رہوں گی۔ ‘‘
نجانے رات کون سی فلم دیکھی تھی جس کا اثر رات کی نیند کے بعد بھی باقی تھا ۔ تانیہ کمرے سے جا چکی تھی جب ہی جبران کی آواز نیچے سے آئی۔
’’ گڑیا جلدی آؤ تائی امی انتظار کر رہی ہیں کتنی دیر لگے گی۔ ‘‘
’’ آ رہی ہوں بھیا بس دو منٹ۔ ‘‘ جبران کی آواز سن کر وہ سچ مچ ہی ہڑبڑا گئی۔
تانیہ ایک استری شدہ سوٹ کے ساتھ کمرے میں داخل ہوئی۔
’’ جلدی سے شاور لو اور تیار ہو جاؤ۔ ‘‘اور یہ سنتے ہی میشا نے غسل خانے کی طرف رخ کیا اور تبسم اور تانیہ کمرے سے باہر نکل گئیں ۔
تانیہ کو میشا کی کوئی کَل سیدھی نہیں لگ رہی تھی وہ شوخ و شنگ تھی مگر نا کسی کے ساتھ نا انصافی ہوتی دیکھ سکتی تھی اور نا خود پر کوئی ظلم برداشت کرتی تھی ۔ اب نا جانے اسے کیا ہوا تھا کہ راحیل جیسے لڑکے کے لیے وہ مری تو جا نہیں رہی تھی مگر اس کی خوشی بھی نقلی نہیں لگ رہی تھی ‘بناوٹی نہیں لگ رہی تھی ۔ وہ یقینا تانیہ کے کی خوشی میں اتنی خوش تھی کہ اپنا غم ہی بھول گئی تھی اور اس کے اسی رویے پر تانیہ دل ہی دل میں دکھی تھی ۔ وہ اپنی خوشیوں کا محل کسی کی بربادی کے قبرستان پر نہیں کھڑا کرنا چاہتی تھی مگر میشا نہ خود اسٹینڈ لے رہی تھی اور نہ ہی اسے اس نا انصافی کے خلاف بولنے دے رہی تھی ۔ اسے افسوس ہو رہا تھا کہ کاش وہ ابراہیم سے اس کا فون نمبر ہی لے لیتی تاکہ تمام صورتحال بتا کے اس مصیبت سے گلو خلاصی پا لیتی مگر دن اتنے کم تھے اور مسئلہ بہت بڑا تھا ۔ ورنہ وہ کسی طرح ابراہیم کا نمبر حاصل کرتی اور اس سے بات کر کے تایا ابا کا ہر فنکشن میں آگے رکھنے کے مطالبے سے اس کے گھر والوں کو باز رکھ سکتی تھی ۔ سیڑھیاں اتر کر باورچی خانے کی طرف بڑھتے ہوئے اس نے دکھی دل سے یہ سب سوچا ۔ امی جی نے آج کل ایک جز وقتی ملازمہ کم باورچن کا انتظام کر لیا تھا سو ناشتہ لگ چکا تھا، چائے تیار تھی ۔ جس کو لے کر وہ ڈرائنگ روم میں داخل ہوئی ۔ سب کو چائے دیتے ہوئے اس نے چہکتا ہوا سلام سنا جو کہ یقینا میشا کی طرف سے آیا تھا ۔ اس وقت نک سک تیار میشا نے راحیل کو بھی متوجہ کر لیا ۔ کوئی کمی تو نہ تھی ہم بہنوں میں جو خاندان والوں کو اچھے لڑکوں کے وقت ہم نظر ہی نہیں آئے اور یہ نکما راحیل اس نے کب کبھی ہمیں پسندیدگی کی سند دی تھی ۔ سعد تو پھر احترام اور مروت سے ملتا تھا چھَٹے برسے آ بھی جاتا تھا مگر یہ … بے اختیار دل ر احیل کو کوس بیٹھا جب ہی میشا نے نیا شوشہ چھوڑا جس پر وہ چونک اٹھی۔
’’ امی پلیز آپ بھی چلیں میں کب آپ کے بغیر کہیں گئی ہوں۔ ‘‘ میشا نے اٹھلا کر کہا اور تانیہ سوچو کہ گرداب سے باہر آئی۔
’’ ارے میشا کیا پڑھنے بھی اماں کو لے کر جاتی ہو۔ ‘‘ تائی اماں نے طنز کی گولی ہنسی کے ریپر میں لپیٹ کر میشا کی سمت داغی۔
’’ تائی امی آپ بھی بڑی مزاقی ہیں ۔ ویسے میں تو سوچے بیٹھی ہوں کہ شادی پر امی کو بھی لے کر آؤں گی دراصل امی کے بغیر مجھے اب بھی نیند نہیں آتی اور پھر میرا اور امی کا سسرال بھی تو یکساں ہوگا نا تو امی بھی پھر سے رخصت ہو کر آ جائیں گی۔ ‘‘ میشا نے آنکھیں مٹکائیں اور ادھر راحیل کی آنکھیں حیرت سے ابل کر باہر آ نے کو بے تاب ہوئیں۔
اور پھر راحیل نے جس طرح اس کی چلتی زبان پر بھویں اُچکا کرتائی امی کوویکھا اورچہرے سے رسپانس دیا کہ دیکھ لیں اس کی کترنی جیسی زبان ۔ جس کو تائی امی نے قطعی اگنور کیا اور پھر اس نے آخر کار امی کو ساتھ لے چلنے پر راضی کر ہی لیا ۔ بازار … سسرال نہیں ‘ امی جی خود بھی اس لیے راضی ہو گئیں کے ان کے سامنے تو اس کی اتنی زبان چل رہی ہے وہاں نہ جانے کیا کرے ۔ بادل نخواستہ تیار ہو گئیں اور تائی امی کو بھی راحت ہوئی یہ سن کر کہ وہ تو اس پر لگام کسنے سے رہیں اوپر سے بیٹا الگ کھچا کھچا تھا ۔ وہ کب راضی تھا یہاں رشتے پر مگر باپ کی مرضی کے آگے مجبور تھا اور اس کی زبان کے جوہر کھلنے کے بعد تو مزید رسا توڑنے کے در پر تھا ۔
’’ کہاں چلیں۔ ‘‘ گاڑی میں بیٹھ کر راحیل نے بیک ویو مرر سیٹ کیا ۔ لفنگوں سا اسٹائل ہے ‘ میشا نے دل میں سوچا ۔ بھلا اپنے گھر سے یہاں تک آنے تک اور ہمارے ہاں بیٹھ کر دو کباب کھانے سے کیا اس کا قد بُت بدل گیا تھا جو بیک ویو مرر سیٹ کرنے کی ضرورت پیش آگئی ۔ دل نے کُڑھ کر دماغ کو فریاد ریکارڈ کرائی اور فریاد سننے والے نے سن کر خاموشی اختیار کرنے کا حکم جاری کیا۔
’’ کہاں چلیں۔ ‘‘ اب کے وہ بگڑا بچہ سامنے آگیا تھا جس کو حقیقتاََ اس نکاح کی طلب ہی نہیں تھی ۔ سو اس نے بھی سنجیدگی اختیار کی اور کچھ نہ بولنے کا عہد کیا اور اسی لیے جگہ بھی منتخب نہیں کی۔
’’ لالو کھیت چلیں۔ ‘‘ تائی امی نے مشورہ مانگا ۔
’’ویسے جامع کلاتھ بھی برا نہیں۔ ‘‘
’’ جو آپ کو دیکھا ہو ‘ مجھے تو طارق روڈ کا پتہ ہے۔ ‘‘ امی نے قدر بجھے ہوئے انداز میں کہا کیونکہ جب ایک بیٹی کا ڈیزائنر لہنگا آنے والا ہو تو دوسری کا لالو کھیت یا جامع کلاتھ سے آیا ہوا جوڑا بہت سوں کو بولنے کا موقع دے گا اور خود ان کا دل … انہوں نے سوچا ابھی تو یہ دل اتنے عرصے بعد خوش گمان ہوا تھا کہ اس خوش گمانی کے غبارے سے تایا ابا نے ہوا ہی نکال دی اور وہ جو تانیہ کی طرف سے مایوس ہو گئی تھیں ۔ اس کے لیے ایسے ہیرا لڑکا ملنا ان کے لیے کسی معجزے سے کم نا تھا مگر اس رشتے میں اگر پھر کوئی بدمزگی ہوئی یا بغیر بنے خاتمہ ہو گیا تو وہ تانیہ کے ابا کو کیا منہ دکھائیں گی ۔ پچھلے سال انہوں نے اس انتظار سے اکتا کر جبران کی شادی کر دی تھی کہ ہماری بیٹی تو نہیں اٹھتی تو کسی کی بیٹی جو ہمارے بیٹے کے نام سے کسی اور کے گھر میں انتظار کی سولی پر چڑھی ہوگی ۔ اس کو سولی سے اتار کر بے وجہ کی سزا سے نجات دی جائے ۔ اور پھر تانیہ کے اتنے اچھے طریقے سے رشتہ ہونے پر جس میں لڑکے والوں نے نا ‘ ان کا گھر دیکھا نا سجا ڈرائنگ روم نا انہیں ابا کی تنخواہ سے شغف تھا نا ہی جہیز کی فہرست سے تو ان سب خوشیوں کو لمحہ لگا گہنانے میں ایک بیٹی کو خوشی دینے کے چکر میں دوسری کی قربانی انہیں گوارا نہیں تھی اور بیٹی بھی وہ جو ان کے بابل کی چڑیا تھی مگر بعض دفعہ ایسی ہی قربانیاں اور ایسے ہی خراج پیش کرنے پڑ جاتے ہیں ۔ جہاں ابراہیم کے گھر والوں نے سازو سامان کو لینے سے سختی سے منع کیا وہیں تانیہ کو لے جا کر ابراہیم کی بہنوں اور بھابھیوں نے فرنیچر اور جوڑا پسند کروایا ۔ وہ لوگ تمام تیاری تانیہ کی مرضی سے کر رہے تھے اور ایک ان کی یہ بد نصیب بیٹی تھی جو ہمیشہ بہترین لباس پہنتی تھی ۔ جس نے کمپرومائز کا لفظ بہت کم کسی چیز کے لیے اپنی زندگی میں شامل کیا تھا ۔ وہ زندگی کے سب سے اہم ایونٹ ، سب سے اہم خوشی ، سب سے اہم رشتے پر کمپرومائز کر بیٹھی تھی ۔ اور کمپرومائز بھی ایسا کہ اس میں دکھ کا شائبہ بھی نا ہو ۔ وہ حیران تھیں اپنی اس نٹ کٹ بیٹی پر کہ وہ کتنی پامردی سے بالکل سپاہیوں کی طرح پھانسی گھاٹ کی طرف بغیر ڈرے بغیر جھجکے خوش دلی اور خوش مزاجی ظاہر کر کے بڑھ رہی تھی ۔ ایک ننھا سا آنسو ان کی آنکھ سے نکل کر چادر میں جذب ہوا ۔
لالو کھیت سے تائی امی کو کچھ سمجھ نہ آیا سو انہوں نے جامع کلاتھ کا رخ کیا ۔ وہاں سے انہوں نے نہایت سستی میکسی پسند کی تھی ۔ شاکنگ پنک میکسی پر موٹے موٹے نگوں کا بھدا سا مشینی کام تھا جو بہت جلد خراب ہو جانا تھا ۔ فش وائر جیسے تار سے کیا گیا یہ کام اس کپڑے کو دوسری بار پہننے کے قابل نہیں چھوڑنے والا تھا ۔ اوپر سے کپڑے کی کوالٹی بھی بہت خراب تھی اور جب یہ کپڑا خراب ہوگا تو وہ بد سلیقہ کہلائے گی ۔ امی جی کی زود رنجی عروج پر تھی ‘انہوں نے آنسوؤں کو چشمے کے پیچھے نہایت مہارت سے چھپایا اور دل اس دکھ کے حساب کتاب میں مصروف تھا بھلا دکھ کا بھی کوئی بھاؤ اور ترازو ہوتا ہے وہ تو بس ہوتا ہے یا نہیں ہوتا کم یا زیادہ تو نہیں ہوتا۔
تمام شاپنگ کے بعد جس میں صرف ایک میکسی ہی شامل تھی اور دو گھنٹے کی خواری الگ انہوں نے طارق روڈ جانے کی فرمائش کی۔
’’ بھابی اگر وقت ہو تو طارق روڈ سے اس کی میچنگ سینڈل میں لے لوں۔ ‘‘ امی دب نہیں رہی تھی بلکہ اداس اس قدر تھیں کہ لہجے کا دبنگ انداز کہیں کھو بیٹھی تھی۔
’’ دراصل مجھے آج راحیل کو انگوٹھی بھی پسند کروانی ہے ‘ کل بھائی صاحب نے کہا تھا نا کہ انگوٹھی راحیل اپنی پسند کی لے گا تو طارق روڈ پر ہی ہمارا جیولر ہے وہیں چلتے ہیں ۔ ‘‘
’’ ہاں ہاں کیوں نہیں۔ ‘‘ تائی امی نے خوشی خوشی طارق روڈ کا رخ کرنے کا عندیہ دیا کیونکہ اپنے بیٹے کے لیے تو لالو کھیت کے سونے پر اعتبار کر نہیں سکتی تھیں اور اُنہیں معلوم تھا کہ میشا کے ماموں لوگ زیور بہترین دیتے ہیں چاہے بہو کو دیں یا داماد کو مال سالڈ ہوتاہے ۔
‘‘ویسے اگر آپ کو بھی کچھ لینا ہو میشا کے لیے سیٹ وغیرہ تو لے لیجے گا پیمنٹ کی فکر مت کیجئے گا ۔ وہ آن لائن ہو جاتی ہے بیٹے کارڈ تو ہوگا اپ کے پاس۔ ‘‘اب وہ راحیل سے مخاطب ہوئیں۔
’’ جی جی چھوٹی امی آپ فکر مت کریں۔ ‘‘ اور پھر ان لوگوں نے طارق روڈ کا رخ کیا۔
وہ لوگ انگلش بوٹ ہاؤس پر اتر کر سینڈلز دیکھنے لگیں ۔ امی کو جو سینڈلز پسند آئی وہ میشا کو پسند ناآئی ۔ وہ عادت کے مطابق دو چار دکان دیکھنے کے بعد چیز پسند کرتی تھی سو آگے بڑھ گئی پھر ایک دکان پر اسے سینڈل پسند آگئی ۔ امی جی اور میشا دونوں کو گھر میں پہننے کے چپل اور تانی کے لیے بھی ایک سینڈل پسند آگئی ۔ امی جی نے سوچا کہ لگے ہاتھوں کچھ چپل جوتا ہی پسند کر کے لے جائیں اور وہ اسی مصروفیت میں مصروف تھیں ۔ جب دکان کے باہر موجود جیولری کیبن سے آرٹیفیشل جولری لے کر تائی امی پہنچ گئیں ‘ امی جی تو اس بڑی سی دکان کی دوسرے سمت جوتے پسند کرنے میں مصروف تھیں ۔ اِدھر تائی امی سیٹ اس کو پہنا کر شیشے میں چیک کرنے لگیں سیٹ کافی سستا سا تھا مگر اس کے ماتھے اور گلی میں آ کر اُس میں چار چاند لگ گئے تھے ۔ صراحی دار گردن میں لپٹا ہوا بڑا سا گلوبل اور بڑی بڑی غزالی آنکھوں کے اوپر سجا ٹیکا اس کے اوپر سج کر اپنی قدر بڑھا رہا تھا اور ایک لمحے کو تو راحیل بھی چونک گیا۔ اس نے آگے بڑھ کر ٹیکے کو تھوڑا سا اوپر کیا اور جھومر تائی امی سے لے کر اس کے بالوں پر سیٹ کیا ۔ میشا کادل اس لمحے بے قابو ہوا اور ساتھ ہی خوش گمان بھی کہ چلو میں اچھی تو لگی یا اس نے مجھ میں کچھ تو انٹرسٹ لیا جب بھی اسے راحیل کی آواز کانوں میں آئی۔
’’ بس یہ لے لیجیے۔ ‘‘ اس نے جھومر کی طرف اشارہ کیا ۔
’’بیکار ٹیکے پر خرچہ کرنے کی ضرورت نہیں ایک چیز کافی ہوگی۔ ‘‘اور وہ دل جو ابھی خوش ہونا شروع ہی ہوا تھا ۔ وہ دکھ سے لبریز ہونے کے بجائے غصے سے بھر گیا ۔ کنجوس ماں باپ کی نکمی اولاد اس نے دل میں غصہ سے کوسا ۔ جب ہی اچانک کسی نے چیل کی طرح راحیل پر جھپٹا مارا اور زناٹے دار تھپڑ رسید کیا ۔ ایک محترمہ جینز اور ٹاپ پر اوور آل پہنیں ‘اپنے پیشے کا پتا دے رہی تھی ۔ ہم رنگ اسنکرز اور جینز کا گھٹنوں سے تار تار ہونا اس کی کلاس اور فیشن سینس کا اور زوردار تھپڑ نے اس کے مزاج اور بہادری کا پتا دیا۔
’’ او یو ڈرٹی … تم مجھ سے فراڈ کرو گے ۔ مجھے بتاؤ گے کہ تم ابھی بے روزگار ہو اس لیے شادی نہیں کر سکتے اور یہاں اس لڑکی کے ساتھ کیا کر رہے ہو ۔ بہن بنا رہے ہو ، راکھی باندھ رہے ہو۔ ‘‘ اس جملے نے ثابت کیا کہ محترمہ پڑوسی ملک کی فلموں کی بھی کافی رسیاں ہیں ۔ اور پھر نووارد نے اچانک ہی اپنے شولڈر بیگ سے ننھا سا پستول نکالا اور راحیل پر تان لیا ۔
‘‘مجھ سے دھوکہ کرو گے ۔ اب شادی ہوگی وہ بھی آج ہی مگر مجھ سے۔ ‘‘ اس نے کہا اور رخ گاڑی کی طرف موڑا ۔
گاڑی کے پسنجر سیٹ پر راحیل کو دھکیلا اور خود گھوم کر ڈرائیونگ سیٹ کی طرف آئی میشا کے دماغ نے فوراََ ہی کام کیا ۔ اس نے بھاگ کر گاڑی تک رسائی حاصل کی ‘ طارق روڈ پر چار بجتے بجتے اتنا رش تو ہو ہی جاتا ہے کہ ایک دم سے گاڑی نکالنا ممکن نہیں رہتا اسی لیے وہ پہنچ بھی گئی۔
’’ خاتون یہ نکاح کا جوڑا ہے جب آج ہی شادی ہونی ہے تو یہ آپ کے کام آ جائے گا اور اس مصیبت سے نجات دلانے کا شکریہ۔ ‘‘اس نے جوڑا کھلے شیشے سے پچھلی نشست پر پھینکا اور تیزی سے دکان کی طرف واپس آئی۔
اور پھر اس قصے کا اس قدر فلمی اختتام ہوگا یہ تو اس نے سوچا ہی نا تھا ۔ ادھر تائی امی پر غشی طاری ہونے لگی وہ پانی کی تلاش میں کاؤنٹر پر گئی ۔ وہاں موجود لڑکے کو اس نے ویڈیو بناتے دیکھ لیا تھا سو اس نے پانی کے ساتھ ساتھ ویڈیو شیئر کرنے کی بھی درخواست کی۔
’’ پلیز بھائی یہ ویڈیو اس نمبر پر سینڈ کر دیں۔ ‘‘ اس نے جبران کا اور تایا ابا کا نمبر لکھ کر پرچہ آگے بڑھایا اور خود شکل پر مسکینی طاری کر کے مصنوعی آنسوؤں سے لبریز آنکھوں سے اسے دیکھا۔
’’ دراصل دولہا کے ابا کو ہم کیا جواب دیں گے ۔ اب یہ ثبوت ہوگا تو تلاش میں آسانی ہو جائے گی۔ ‘‘اس نے پانی سیلز بوائے سے بھجوا کر جلدی جلدی ویڈیو سینڈ کروائی ۔ جبران کو اس نے خود میسج کیا جس میں لکھا تھا کہ’’ میں مصیبت میں ہوں ۔ اس ویڈیو کو دیکھنے کے بعدطارق روڈ پر موجود جوتوں کی فلانی دکان پر آ جائیے۔ ‘‘
ادھر امی جی تائی امی کو سنبھالے ہوئے تھی اور پانی پلا رہی تھیں۔ پرس کے اگلے حصے سے ان کے دل کے درد کی دوا نکال کر دانتوں تلے زبان تلے رکھوا دی تھی ۔ امی کی کارکردگی دیکھ کے اسے تسلی تھی ۔ اسی لیے وہ بلو ٹک آنے تک موبائل ہاتھ میں لیے تھوڑی دیر تک کاؤنٹر پے ہی ٹکی رہی ۔ بلو ٹک دیکھتے ہی تائی امی کے پاس آگئی ۔ اب یقینا جبران خود ہی کال کرے گا ۔ ادھر راحیل تو گیا ہی گیا ساتھ میں گاڑی کی چابی بھی چلی گئی ورنہ وہ خود ہی سب کو لے کر چلی جاتی ۔ اب جبران کا انتظار تھا جس نے فون کر کے دکان کی لوکیشن پوچھ لی تھی اور پندرہ منٹ میں پہنچنے کا ارادہ بھی ظاہر کر دیا تھا ۔ اس کا دفتر قریب ہی تھا ۔ ادھر تائی امی کے فون سے مسلسل رنگ ٹیون آرہی تھی ۔ فون پرس کے اندر تھا اور اب پرس اس کے ہاتھ میں تھا ۔ اس نے جلدی سے پرس کے درمیانی زپ کو کھول کر فون نکالا ’‘ ساتھ میں پانچ ہزار کے نوٹوں کی گڈی دھری تھی ۔ فون اٹھاتے ہی تایا ابا کی آواز کانوں سے ٹکرائی۔
’’ ارے کیا ہو گیا ہے زرینہ بانو ، میں نے کہا بھی تھا کہ ساری پیمنٹ کارڈ سے کرنا مگر تم بضد تھی کہ کپڑے برینڈ کے دلانے کے لیے ڈھائی لاکھ چاہیے ۔ سیٹ کے لیے دو لاکھ چاہیے ۔ ایک تو تمہاری ضد اور جو پانچ لاکھ جو لے کر چلی تھی وہ دے کر بیٹا چھڑا لیتی ۔ ‘‘ تایا ابا نان اسٹاک شروع تھے اور وہ دبی سہمی سی تائی امی کی اس ہوشیاری پرعش عش کر اٹھی ۔ وہ جو پانچ لاکھ لے کر جوڑا ‘ دلانے چلی تھی اور اسے 25 ہزار میں نمٹا کر باقی تمام رقم اپنے پاس رکھنے والی تھیں مگر ابھی اس جھوٹ کے پول کھولنے کا وقت نا تھا اس لیے صرف تایا ابا کو ساری صورتحال بتائی اور جلدی سے بول پڑی۔
’’ تایا ابا تائی امی کی طبیعت خراب ہو رہی ہے اور اغوا کار پیسے نہیں راحیل کو ہی لے جانا چاہتے تھے ۔ عنقریب وہ اسے یا مطالبے یا اپ ڈیٹ آ پ کودیں گے ۔ آپ نے ویڈیو دیکھی۔ ‘‘
’’کون سی ویڈیو نہیں میں نے کچھ نہیں دیکھا۔‘‘
’’تو پھر پہلے وہ دیکھیں ۔ اغوا کار لڑکی ہے شاید آپ پہچان جائیں ‘ ہم لوگ بھائی کے ساتھ گھر پہنچ جائیں گے ۔ آپ بھی تائی امی کو لینے ہمارے گھر آ جائیے گا۔‘‘میشا نے کہا۔
گھر جاکر اس نے سب کے ساتھ ویڈیو کو دیکھا ‘چونکہ لڑکی کی آواز واضح نہیں تھی اس لیے اس نے لپ موومنٹ پر اس کے ڈائیلاگ بول کر سب کو بہت محظوظ کیا ۔ تایا ابا جو تانیہ کے رشتہ ختم ہونے پر تین چار سال سے طعنہ بنائے ہوئے تھے ‘ان لوگوں پر طنز کے نشتر برساتے رہے تھے ۔ اپنے بیٹے کی معاشقی کا اس طرح کا کلائی میکس ہوتے دیکھ کر بالکل ہی ہاتھ پیر چھوڑے بیٹھے تھے ۔ میشا نے باتوں باتوں میں تایا ابا کو معصومیت سے میکسی کی قیمت اور مقاِم خرید دونوں سے مطلع کر دیا ۔ تا یا ابا سعد بھائی کے ساتھ آئے تھے ۔
وہ لوگ جب تک بیٹھے رہے سعد بھائی مسلسل دونوں کو اپنی باتوں سے زچ کرتے رہے کہ’’کہا بھی تھا کہ اس کی مرضی سے اس کی شادی کر دیں مگر نہیں آپ لوگوں کو تو کوئی بات سمجھ ہی نہیں آتی ‘ پتہ نہیں پسند کی شادی میں کون سا مسئلہ ہے ۔ جب میں نے کہا تھا تو آپ لوگوں کو اس گھر میں مسئلہ تھا ۔ اب اسی گھر سے دوسرے بیٹے کے لیے لڑکی لا رہے ہیں ‘‘وہ یقینا تانیہ کی بات کر رہے تھے اور اس لمحے سارا گھر ہی سعد بھائی کے اس انکشاف پر ششدر رہ گیا ۔
نانو اور چھوٹی خالہ تو رشتہ طے ہوتے ہی آ گئی تھیں ۔ اس لیے اس ساری کاروائی کو انہوں نے لائیو ہی دیکھ لیا ۔ بعد میں تانیہ اور میشا کے مشترکہ کمرے میں میشا نے جس طرح لائیو ڈیمو دینا شروع کیا اور چھوٹی خالہ کے مزیدار کمنٹس نے اس کو چار چاند لگا دیے ۔ جبر کا رشتہ ختم ہونے پر سارے ہی گھر نے سکھ کا سانس لیا ۔ گھٹن زدہ ماحول ختم ہوا توتانیہ کے چہرے کی بشاشت دوبارہ لوٹ لائی ۔ بات بات پر اس کا ہنسنا کھلکھلانا میشا کو دوبارہ سے خوش کر گیا ۔ امی جی نے ایک عقل مندی کا کام کیا تھا کہ اس نکاح کا اعلان یعنی میشا کے نکاح کا اعلان نہیں کیا تھا ۔سوائے گھر کے افراد کے کسی کو میشا کے نکاح کی خبر نا تھی ۔ نا جانے کیوں مگر ان کا دل راضی نا ہوا کسی کو بتائے پر اور اس ہی لیے کسی نے کوئی سوال نہیں اٹھایا۔ راحیل کی ویڈیو خاندان کے ہرگھر میں وائرل ہو گئی تھی مگر شکر سے میشا کا رخ کیمرے کی طرف نہیں تھا ۔ اس لیے وہ کسی بھی نشتر زنی کی زد میں نہیں آئی ۔ تانیہ کے سسرال میں بھی تمام معاملہ خیر و عافیت سے نمٹ گیا ۔
شادی بخیر وخوبی سے انجام پا گئی ۔ تائی امی اور تایا ابو نے بجھے دل اور نہایت خاموشی کے ساتھ شادی میں شرکت کی ۔ سننے میں آیا کہ ان کے گھر ان کی اغوا کار بہو آکر براجمان ہو گئی ہے ۔ تائی امی نے تانیہ کا جہیز میشا کے لیے مانگ لیا تھا کیونکہ تانیہ والے تو کچھ بھی لینے کے حق میں نہیں تھے بلکہ انہوں نے بالکل سختی سے اور فرنیچر اور کراکری کے لیے منع کیا ۔ جبکہ تائی امی کا کہنا تھا کہ بکنگ کینسل نہ کریں فرنیچر کی بلکہ وہ میشا کو دے دیں ۔ بقول ان کے تانیہ کا سسرال کھاتا پیتا گھر انا ہے انہیں ضرورت نہیں ہو گی ۔ خود کے گھرتو جیسے فاقے پڑ رہے تھے ۔ لیکن افسوس ان کی اغوا کار بہو نے تو دینے کے بجائے لینے پر یقین رکھا ۔ تب ہی تو ان کا پورا سالم سموچا بیٹا ہی زور زبردستی سے حاصل کر لیا اور خود ان کے گھر میں زبردستی بہو بن کے آگئی ۔ ویسے میشا نے تائی امی کی بہو کی بہادری کا دل سے اعتراف کیا اسے سچ میں تائی امی کی بہو پسند آگئی شاید اس لیے بھی وہ اس کی لئے نجات دہندہ جو بن گئی تھی۔
٭…٭
تو کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ زندگی کے کچھ دن سچ مچ کے فلمی ہو جاتے ہیں ۔ یہ فلمیں ، یہ ڈرامے ، یہ کہانیاں ، یہ افسانے بھلا کہیں اور سے تھوڑا ہی بنتے ہیں ۔ یہ ہماری آپ کی ہی تو کہانیوں سے جنم لیتے ہیں اور میشا نے جس قدر خوش دلی سے اپنی بہن کی خوشیوں کے لیے قربانی دی تھی ۔ اس پر قدرت کو بھی اس پر رحم آگیا تھا ۔ ابا کہتے تھے کہ قربانی کبھی رائیگاں نہیں جاتی اور دوسرے کے لیے کھودے گڑھے میں بندہ خود ہی گرتا ہے ۔ دونوں ہی اقوال اس نے سچ ہوتے دیکھے ۔ اب اس کا مسٹر رائٹ کب اس تک پہنچتا ہے یہ تو اس کو نہیں معلوم مگر اسے امید تھی کہ جو بھی ہوگا اس کے لیے بہترین ہی ہوگا کہ رب کا انتخاب ہوگا ایک منصوبہ آدمی کا ہوتا ہے اور ایک اس کے رب کا بے شک وہ بہترین منصوبہ ساز ہے۔
ختم شد