ابھی نہ جاؤ چھوڑ کر: ماریہ غزال
’’ارے تایا ابو آپ کو کیسے پتہ چلا کہ تانیہ کی بات طے ہو گی ۔ آپ تو بڑے اللہ والے ہیں بھئی آپ کوتو لگتا ہے الہام ہو گیا تھا کہ یہاں پر تانیہ کی منگنی ہو جائے گی۔ ‘‘ چھوٹی خالہ کی زبان کے آگے خندق تھی ۔ جب ہی بیچارے تایا ابا کچھ بول ہی نہیں پا رہے تھے ۔ ادھر مزید کھچڑی الگ پک رہی تھی ہر ایک اپنی اپنی سنا رہا تھا اور اسی وقت ابراہیم کی امی نے کہا ۔
’’ ماموں اور تایا کی اجازت سے میں یہ انگوٹھی تانیہ کو پہناتی ہوں۔ ‘‘انہوں نے ایک نہایت بھاری اور بیش قیمت جڑائو انگوٹھی تانیہ کی نازک انگلی میں ڈال دی ۔ چھوٹی خالہ نے مٹھائی کی ٹوکری کی پیکنگ پھاڑی اور مٹھائی نکال کے سب سے پہلے تایا ابو کے منہ میں ٹھونس دی ۔
’’ کھائیے تایا ابو ، بہت بہت مبارک ہو آپ کو ۔ اللہ نے آپ کو ایک ذمہ داری سے عہدہ براکر دیا۔ ‘‘
نا جانے چھوٹی خالہ خود کو مزید کتنا چھوٹا بناتیں بھائی صاحب یا بھائی جان تو تایا ابو ان کے ہو سکتے تھے مگر ڈائریکٹ تایا ابو ہی بنا لیا انہوں نے تو ۔ اس وقت تو بیچاری تائی امی بالکل ہی حواس باختہ ہو رہی تھیں ۔ فجو ماموں اور چھوٹی خالہ کی مسخری عروج پر تھی ۔ تانیہ کے دل کی دھڑکن الگ بے قابو ہوئی جا رہی تھی ۔ اس وقت اسے میشا بہت یادآ رہی تھی نا جانے کسی نے اسے بتایا بھی تھا کہ نہیں جب ہی اچانک اسے بھابھی کی آواز اآئی۔
’’ ارے بھئی ہمیں بھی بلا لیتے ‘اتنی خاموشی سے آپ لوگوں نے یہاں منگنی کرا دی۔ ‘‘
’’ کیوں بھائی خاموشی سے کیوں ہم نے تومنگنی نے بڑی دھوم دھام سے کروآئی ہے۔ ‘‘چھوٹی خالہ شوخ ہوئیں ۔ اپنی شوخی میں وہ بڑے چھوٹے کا لحاظ ہی بھول جاتی تھیں ۔ پتا ہی نہیں چل رہی تھا کہ تبسم بہو ہے اور تایا ابو بہنوئی کے بھائی بس ہر ایک کو اپنے مذاق کی زد پر رکھ لیتی تھیں ۔ مگر اس وقت ان کی یہی خوبی کام آ رہی تھی۔
تب ہی کھانا کھلنے کا اعلان ہو گیا ۔ بہت سے لوگ کھانے کی طرف بڑھ گئے ۔ البتہ ممانی نے اس نئے سمدھیانے کے لیے یہیں پر انتظام کروایا ۔ ابراہیم کی امی ابھی سب کچھ طے کرنا چاہ رہی تھی اور تائی امی کسی بھی صورت کھانے کے موقع کو گوانا نہیں چاہتی تھیں ۔ اس لیے بہانے سے اٹھ کر چلی گئیں ‘ البتہ تایا ابو وہیں جمے رہے ۔ تایا ابو سے ابراہیم کی امی نے دوبارہ سے سلسلہ کلام جوڑا۔
’’ بھائی صاحب آخر اب آپ ہی لڑکی کے سرپرست ہیں ۔ آپ ہی کو تو شادی کرنی ہوگی ۔ بھلا بھائی کے بعد یہ بچیاں کس کی ذمہ داری ہوں گی ۔ یقینا آپ کی ہی ہوگی ۔ ویسے تو یہ مناسب وقت نہیں ہے مگر میں مجبور ہوں بیس دن بعد امریکہ جانا ہے تو آپ بس دو جوڑے کپڑوں میں دس دن کے اندر تانیہ کو رخصت کردیں ہم آپ کے بہت شکر گزار ہوں گے ۔ ‘‘
’’ بہن ہم تو بالکل راضی ہیں کیوں بھائی جان۔ ‘‘ بڑے ماموں نے تایا ابا کی سمت دیکھ کر کہا اور تایا ابا جو اپنے نکمے بیٹے کا رشتہ اس ہی بنیاد پر لے کر آئے تھے کہ تانیہ کی تلوار اور اس کا طعنہ ہر چیز پر بھاری ہے مگر یہاں تو گڑبڑ ہی گئی ۔ تایا ابا کی فرنیچر شاپ پارٹنرشپنگ پر تھی وہ اتنے بڑے کاروباری گروپ کے بیٹے کا رشتہ تانیہ کے لیے دیکھ کر وہ خود حیران و پریشان تھے گھبراہٹ میں مبتلا تھے ۔اب بھلا میشا ان کو کیوں ملتی یہی سوچ رہے تھے اسی لیے انہوں نے ابھی تک کوئی حتمی قدم نہیں اٹھایا تھا شاید کوئی نئی چال چلنے کا سوچ رہے تھے۔
ادھر کھانا لینے جیسے ہی تانیہ پہنچی ابراہیم آن وارد ہوا شاید تاک میں تھاتب ہی فوراََ اسی ٹیبل پر آ موجود ہوا۔
’’ آپ خوش ہیں۔ ‘‘ابراہیم نے قدرے بے تابی سے سوال کیا۔
’’ نا خوش ہونے کا کوئی ریزن بھی تو نہیں۔ ‘‘تانیہ نے متانعت سے جواب دیا۔
’’مگر لگ تو نہیں رہیں۔ ‘‘
’’ آپ بتائیں کہ میں کیسا ری ایکٹ کروں ‘ جس سے معلوم ہو کہ یہ رشتہ میری مرضی سے ہوا ہے۔ ‘‘تانیہ نے سر اٹھا کر اور چہرے پر آئی مسکراہٹ کو دبا کر ابراہیم کے چہرے کی طرف دیکھا ۔ ابراہیم نے اس کے چہرے پر بکھری لالی کے ساتھ شوخ سی مسکراہٹ کو نوٹ کیا جب ہی اچانک سے تبسم اور نشا نے چھاپہ مار دیا۔
’’ ارے واہ وہاں سب مسئلے مسائل حل ہو رہے ہیں اور یہاں….. ‘‘
’’ یقین کریں یہاں بھی مسائل ہی حل ہو رہے ہیں۔ ‘‘ ابراہیم نے اعتماد سے کہا جس پر بھابھی کے ساتھ ساتھ میشا کی بھی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں اور تانیہ خاموشی سے کھسک گئی۔
اب وہ ان لوگوں کے ہاتھوں اپنی درگت بنوانا نہیں چاہتی تھی ۔ ایک ہی آدمی ان کے پھندے میں پھنسے تو بہتر ہے اس نے سوچا اور اپنے ہونے والے پارٹنر کو ان کے پھندے میں پھنسا چھوڑ کر اور مسکراتے ہوئے وہاں سے آگئی ۔ ابراہیم نے روکنے کی کوشش کی جس کو پھر کسی کی پکار نے ابراہیم کی روکنے کی کوشش کو ناکام بنا دی ۔ تانیہ کو اب ابراہیم کی بھابھی بلا رہی تھیں ۔ صوفے پر بٹھا کر اس کی چوڑیاں ناپ کے لیے ضبط کی گئیں ، جوتی اتار کے ابراہیم کی بہن اور بھابی نے سائز لیا ابراہیم کی بھابی اور اس کا سائز سیم تھا ۔ ادھر کپڑوں کا سائز لینے کے باری تھی جو کل وہ لوگ ماموں کے گھر سے پک کرنے کا ارادہ رکھتے تھے ۔ تانیہ کو ایسا لگ رہا تھا کہ کہیں کہ وہ لوگ اس کو ابھی ہی رخصت کرا کے نا لے جائیں ۔ اور ابراہیم کے شوخی اور خوشی ہر انگ انگ سے جھلک رہی تھی ۔ جس نے اس کو مطمئن کر دیا تھا ۔ واپسی کے سفر پر امی کی کسی کے بات کے جواب میں تانیہ کی کھلکھلاتی ہنسی سن کر میشا کے قدم رک گئے ۔ اس نے بہت سالوں بعد اپنی بہن کو اس طرح کھلکھلا کر ہنستے سنا تھا ۔ اس کا کھِلا کھِلا چہرہ ، خوش سا انداز میشا کو اندر تک پُرسکون کر گیا ۔ اُسے اپنی معصوم سی بہن بہت عزیز تھی اور اسی لیے اس نے فوراََ ہی اللہ میاں سے اس کی دائمی خوشیوں کی دعاکی۔
دس دن میں شادی کوئی ہنسی کھیل تونہیں مگر پچھلی دفعہ کی پوری تیاری اسٹور میں بند پڑی تھی ۔ اب صرف کھانے اور ہال کے انتظام پر فوکس کیا گیا ۔ عدنان کی دلہن نتاشا خوب خوش تھی ۔ اس کی شادی کے ساتھ ایک اور شادی طے پا گئی تھی ۔ اس کاسجنے سنورنے کا شوق پورا ہونے والا تھا ہرکوئی نتاشا کو خوش بخت کہہ رہا تھا ۔عجیب و غریب باتوں اور ہربڑی کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا ۔ایک شادی کی تھکا ن ابھی اتری نہیں تھی کہ ایک اور ایمرجنسی شادی تیار کھڑی تھی۔
امی جبران اور تبسم گھر لوٹ گئے جب کہ تانیہ اور میشا نے کل آنے کا کا وعدہ کیا اور ابراہیم کے گھر والے کل یہیں سے ناپ لے کر جانے والے تھے ۔ اسی بنیاد پر امی نے چھوڑا بھی ورنہ بیچاریاں تیاری تو ہفتہ بھر مزید رکنے کی کر کے آئی تھیں۔
٭…٭
‘‘ویسے تانی یہ اپنے ابراہیم صاحب کو کیا سوجھی۔ ‘‘میشا جب بہت خوش ہوتی تو تانیہ کو آپی کے بجائے نام سے پکارتی پہلے تو سبھی اسے بہت ٹوکتے مگر اب سب عادی ہو گئے تھے۔
’’ پتا نہیں کیا سوجھی مگر اتنا پتا ہے کہ میرا یونی کا پورا عرصہ اس شخص کی نگاہوں کی زد میں گزرا ۔‘‘
’’ تو پہلے کیوں نہیں بتایا۔ ‘‘
’’اس سے کیا ہوتا۔ ‘‘
’’ہم لوگوں کا فلمی شوق پورا ہو جاتا کہ ایک لڑکے کے انکار پر دوسرے مجنوں کو دولہا بنا کر پیش کر دیتے۔ ‘‘میشا پھر فلمی ہوئی۔
’’اومیری پیاری بہن ہرگھورنے والی نگاہ آپ سے باوفا نہیں ہوتی اور مجھے کیا پتہ تھا کہ موصوف ا س حد تک انٹرسٹڈ ہوں گے ۔ میں سمجھی تھی کہ بس عام لڑکوں کی طرح لڑکیوں کو گھورنے کے مرض مبتلا ہے ۔ ویسے تم اپنی خیر مناؤ اب ‘ تیسرا ٹوکراتایا ابو ضائع نہیں کرنے والے۔ ‘‘تانیہ نے چھیڑا
’’ارے نہیں ماموں جان نے اچھے سے ٹال دیا ہے۔ ‘‘میشا بہن کی شادی میں دل سے خوش ہونا چاہتی تھی اس لیے دماغ پر کسی قسم کے لوڈ لینے کا ارادہ نہیں رکھتی تھی۔
’’پھر بھی دیکھ لو۔ ‘‘ تانیہ حقیقتاََ پریشان تھی۔
’’ جب تمہاری ایسی فلمیں شادی ہو سکتی ہے تو میں معجزوں پر یقین کرنے لگی ہوں ۔ تانیہ میں تمہارے لئے اتنی خوش ہوں کہ اس وقت تایا ابا کا منہ بھی چوم سکتی ہوں ۔ ‘‘ وہ ایسی ہی تھی بڑ بولی بغیر سوچے سمجھے بولنے والی اور تانیہ نے حیرت سے اسے دیکھا ۔ اس ساری بات میں تایا ابا کو پیار کرنا کہاں سے آگیا۔انہوں نے کون سا کارنامہ انجام دیا تھا ۔ میشا نے بہن کی آنکھوں کا یہ پیغام پڑھ لیا جس پر چھٹ سے کہا۔
’’ ارے تایا ابا کے بیٹے کو تو کہنے سے رہی اب اتنا بھی دماغ باولا نہیں ہوا ہے کہ راحیل کو ہی گلے لگا لوں۔ ‘‘اور اندر آتی تبسم نے آخری بات سن کر دھپ رسید کی اور پھر دونوں کا زوردار قہقہہ اور میشا کی کراہ کمرے میں گونج اٹھی
٭…٭
جب بھی ہمیں ایسا لگتا ہے کہ اب سب صحیح ہو جائے گا ۔ اسی وقت کوئی نا کوئی بڑا مسئلہ دوبارہ سر اٹھا لیتا ہے ۔ ابراہیم کا گھر دیکھنے جانا تھا ابراہیم کی امی نے چھوٹی سی تقریب رکھ لی اور اس میں تانیہ کے سسرال والوں نے تایا ابا کو بحیثیت سربراہ خاندان کے مدعو کیا ۔ اور اب تایا ابا ماش کے دال کے آٹے کی طرح اینٹھے بیٹھے تھے ۔ ان کی شادی کی شرکت کی شرط ہی یہ ٹھہری کہ میشا کی ان کی بہو بنے اور ادھر تانیہ کے سسرال میں بڑے جیٹھ کا درجہ سسر جتنا ٹھہرایا جاتا ہے ۔ اس لیے اس ساری اچھی سچویشن میں یہ ایک نئی پریشانی پیدا ہو گئی ۔
’’یہ کوئی فلم نہیں ہے میشا بی بی ۔ ‘‘
میشا نے آئینہ میں دیکھتے ہوئے اپنے آپ سے مخاطب ہو کر کہا اور پھر چہرے پر موجود دکھ سے چھٹکارا پانے کے لیے ہونٹوں پر لالی سجالی آنکھوں میں کاجل کے ڈورے ڈالے اور پھر آئینے میں خود کے عکس پر الوداعی نگاہ ڈالی اور خود کو خدا حافظ کہا ۔ اور لاؤنج کا رخ کیا جہاں بڑے ماموں، نانو، بھیا اور امی سخت پریشان بیٹھے تھے ۔ یا خدا لڑکیوں کی شادی فرض ہے کوئی اس کو نماز روزے کی طرح بغیر کسی پریشانی کے کیوں نہیں اداکر پاتا دماغ مختلف سوچوں کی آماج گاہ بنا ہوا تھا مگر آخری سیڑھی پر قدم رکھنے تک وہ بہت شانت ہو چکی تھی کہ فیصلہ مشکل تھا مگر دل مطمئن تھا ابا ہمیشہ کہتے تھے بیٹے قربانی کبھی رائیگاں نہیں جاتی سو اس فارمولے کو وہ لے کر چلی تھی۔
’’ امی تو پھر بلا لیں نا منگنی کے لیے تایا ابو کو۔ ‘‘ اور سب نے اسے حیرت سے دیکھا ۔ امی کو اپنی اس نٹ کھٹ سی بیٹی سے ایسی قربانی کی امید نا تھی اور سب حیران تھے کہ کہاں تو وہ اتنی نالاں تھی اوراب اچانک رضامندیاں وہ بھی دلی آمدگی کے ساتھ ۔
’’ امی اس وقت اس لیے منع کیا تھا کہ مجھے اس پر غصہ تھا تانیہ بیٹھی ہے اور تایا ابا میرا رشتہ لے آئے اور کیاخدانخواستہ تانیہ ساری عمر تو یہاں نہیں بیٹھی رہتی نا مگر ان کا انداز ایسا ہی تھا اور جہاں تک بات ہے نوکری کی تو ملے گی تو کر ہی لے گا بھائی نے بھی تو کتنی بار نوکری چھوڑی ہے ۔ ‘‘میشا نے سب کی حیرت دور کی۔
’’ اور اگر خدانخواستہ یوں ہی بیکاری میں شادی ہو گئی تو ہماری بی بنو کی بلیک بیلٹ کس دن کام آئے گی۔ ‘‘ خالہ نے شرارت سے کہا ۔ ہر گھمبیر مسئلے پر ان کا شوخ سا شوشہ معاملے کو درست کرے نا کرے مگر اس وقت کے اعصابی تناؤ کو کم ضرور کر دیتا ہے میشا نے سوچا۔
اور پھر جھٹ پٹ تایا ابا،تائی امی منگنی کی انگوٹھی کے ساتھ وارد ہو گئے ۔ تبسم اور تانیہ دونوں پولر کی اپائنمنٹ تھی ‘ ساتھ میں ممانی اور ان کی بہونتاشہ بھی گئی ہوئی تھیں ۔ شام کو واپسی پر یہ دھماکہ خیز خبر تانیہ پر ہائیڈروجن بم کی طرح پھٹی ۔ دھیمے انداز والی تانیہ بالکل ہی دیوانی ہو گئی ۔
’’ارے امی میں پالر گئی تھی نا کہ دنیا سے ہی چلی گئی تھی کہ لے کے انگوٹھی پہنوا دی آپ نے۔‘‘
’’ اور جو تم نے جھٹ انگوٹھی چڑھا لی تھی ذرا سوچا کہ میں کہاں ہوں ۔ ادھر ادھر نظر دوڑائی بہن کو تلاش کیا ایسے اچھے موقع پر میں یاد بھی نہیں آئی تمہیں شوق سے انگوٹھی پہن لی وہ بھی بھونڈی سی۔ ‘‘میشا نے چڑھایا جب ہی اس کے شوخ انداز پر وہ میشا کے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رودی۔
’’ابھی سے کیوں رو رہی ہو باؤلی ، نکا ح چار دن بعد ہے ، وہ بھی دونوں کا۔ ‘‘ میشا نے تانیہ کو الگ کر کے ماتھے پر انگلیاں رکھ کر ہلکا سا جھٹکا دیا۔
نکاح تانیہ نے بوکھلائی ہوئی نظروں سے امی کو دیکھا
’’ بیٹا انہیں ڈر ہے کہ منگنی ٹوٹ سکتی ہے ۔ وہ کسی پکے رشتے میں دونوں کو باندھنا چاہتے ہیں۔ ‘‘ امی کی بے بسی عروج پر تھی
’’ مگر ٹوٹ تو نکاح بھی سکتا ہے شادی بھی۔ ‘‘ میشا نے بات کو ہنسی میں ٹالا اور تانیہ چہرے کو ہاتھوں میں چھپا کر دوبارہ سے رو پڑی۔
رات کچن سمیٹ کر تانیہ جب تک اپنی اور میشا کی چائے لے کر آئی تب تک میشا سو چکی تھی سر سے پاؤں تک چادر اوڑھ کر۔
’’ تم نہیں سوئی ہو میری مانو بلی ‘ پلیز مانو بلی تم نے ایسا کیوں کیا ؟ کیوں دی اتنی بڑی قربانی ؟ ہم بتا دیتے ابراہیم کے گھر والوں کو کہ ہمارے تایا ابا نہیں بیٹھنا چاہ رہے شادی میں ۔ اگر انہیں شادی کرنی ہے تو پھر ان کے بغیر ہی یہ رشتہ طے کریں۔ ‘‘ وہ کافی دیر تک بولتی رہی مگر میشا حقیقتاََ سو چکی تھی اور تانیہ اپنا چائے کا کپ لے کر بالکنی میں آکھڑی ہوئی ۔ آنسو قطرہ قطرہ اس کے اندر گرتے رہے ادھر شاید آسمانوں کو بھی میشا کی قربانی پر ترس آیا جب ہی وہ بھی تانیہ کے ساتھ مل کر بون بوند ٹپکنے لگا ۔ اس کے اندر گرتا پانی اور باہر ہلکا ہلکا برستا ساون تانیہ کی ساری خوشیوں کو گہنا رہا تھا ۔
٭…٭
ابھی نہ جاؤ چھوڑ کر
کہ دل ابھی بھرا نہیں
ابھی ابھی تو آئے ہو
بہار بن کر چھائے ہو
ہوا ذرا مہک تو لے
نگاہ ذرا بہک تو لے
یہ شام ڈھل تولے ذرا
یہ دل سنبھل تو لے ذر
میں تھوڑی دیر جی تو لوں
نشیلے گھوٹ پی تو لوں
کل رات سے بلا مبالغہ وہ کوئی دسیوں دفعہ اس گانے کو سن چکی تھی اور اب دماغ پر وہی سوار تھا ۔ اس لیے اپنی بھونڈی آواز میں گاتے ہوئے الماری میں جھکی جانے آواز کے زور پہ اپنا کوئی ڈھنگ کا جوڑا تلاش کر رہی تھی یا شاید ان جوڑوں کو جو چور ملیدہ حالت میں الماری میں ٹھسے پڑے تھے اوران سے کشتی کر رہی تھی اور شاید خود کو تان سین سمجھ رہی تھی ‘کے اس گانے سے جس طرح چراغ جل اٹھتے تھے اس کے گانے سے خود بخود کپڑوں پر استری پِھر جائے گی ۔ اسی وقت تانیہ کمرے میں داخل ہوئی
’’ مانو بلی جلدی کرو تمہاری ساس آئی بیٹھی ہیں ۔ ان کی سانس میں سانس نہیں آرہی ہے تمہیں دیکھے بغیر۔ ‘‘ تانیہ جب بہت لاڈ میں ہوتی تب میشا کو مانو بلی کہتی۔
’’انہیں کیا جلدی ہے بھئی ‘ ہوتی ہوں نا تیار یہی تو دن ہیں نخرے اٹھوانے کے ۔ انہیں بھی تو پتہ چلے کہ کس کو بہو بنا رہی ہیں۔ ‘‘ میشانے ڈائیلاگ کی طرح جملہ ادا کیا اور پھر سے گانے کی سرتان اڑانے کی کوشش کی ہی تھی کہ تبسم بھابی نے کمرے میں ایمرجنسی انٹری دی ۔