افسانے

تکیے تلے رات رکھی ہے: محسن علی

’’تمہیں لگتا ہے میں سب معاف کردوں گی۔ نہیں، میں اتنا کچھ معاف کرچکی ہوں کہ میرے پاس اب باقی کچھ بچا ہی نہیں۔میں تمہارے ابا کے لیے روسکتی ہوں مگروہ میرے لیے مسکرانہیں سکتے ۔ واپس پلٹ جاؤ ولی۔‘‘
مجھے نہیں یاد کب ، کیسے اورکیونکروہ داستان شروع ہوئی جس کے ختم ہونے کا انتظارمجھے برسوں رہا اورجب انتظارختم ہوا تب سب کچھ ختم ہوگیا۔بات رات کو شروع ہوئی اور رات پرختم بھی ہوئی۔
اماں ہمیشہ تکیے تلے رات رکھ کرسوتی تھیں۔
اورابا ہمیشہ تکیے تلے عشق رکھ کرسوتے تھے۔
اور باقی بچا میں،تو میرے تکیے تلے ہمیشہ گواہی کروٹ بدلتی تھی۔
رات ہوتی اور ابا عشق لئے دبے قدموں سے بانو کے کوٹھے جاپہنچتے اورمیں گواہی لئے ابا کا پیچھا کرتا تھا جبکہ اماں تکیے تلے رات رکھے سورہی ہوتی تھیں۔
میں بانو کے کوٹھے کی سیڑھیوں پر بیٹھا ابا کی رومانوی سرگوشیوں کی بازگشت سنتا تھا۔
’’بانو، دیکھ تیرے لئے رات کا رستہ طے کرآیا ہوں۔‘‘
’’میں بھی تو نیند دان کئے بیٹھی ہوں۔‘‘
’’قدردان ہیں قدردان…‘‘
ابا صدقے واری جاتے۔ بانو بالغ قہقہے لگاتی تھی۔
’’میٹھا پان کھائینگے؟‘‘
’’نیکی اور پوچھ پوچھ۔‘‘
میں سیڑھیوں پربیٹھا اماں کو یادکرتا ۔ وہ نت نئے پکوان بناتیں مگر ابا کی ماتھے کی شکن کبھی نہ بدلی تھی ۔ منہ بھرکرگالی دیتے تھے۔
’’ارے تیری ماں بے سوادی رن ہے۔‘‘
میں اماں کو چپ چاپ آنسو بہاتے کام کرتے دیکھتا تھا ۔ کبھی اف تک نہ کرتی تھیں زمانے بھرکی لاپرواہ تھیں ۔ شاید یہی خوبی دونوں میں مشترک تھی۔شوخ وچنچل بانو کے سامنے اماں بنجرپھلواری تھیں نہ پھول لگا نا ہی مہک اٹھی۔
اکثرکہتی تھیں۔
’’ولی ، تیرا باپ لوٹ آئے گا۔ میری ریاضت پکے گھڑے سی ہے۔‘‘
’’اگرنہ آئے تو؟‘‘
’’سو بار روچکی ہوں ایک مسکراہٹ تک نہ دے سکے ۔ ہزار بار روئی تو جان دے دیں گے۔‘‘
میں حیران ہوتاتھا اور باربارہوتا تھا۔
حبس بھری رات میں بانو کوٹھے کی کھڑکیاں کھول دیتی تھی ۔ پہیلیاں کھڑکیاں پھلانگ کرمیرے آگے آن کھڑی ہوتی تھیں ۔
’’ٹشو کا جوڑا ناہیں لائے؟‘‘بانو لاج سے کہتی تھی۔
’’ٹشو کا جوڑا نہیں میری جان مانگ لے۔‘‘ابا شرارت سے اٹھکیلیاں کرتے تھے۔
بانو قل قل ہنستی تھی۔
ابا کبھی اماں کے لیے کبھی نہ ہنس سکے اور نہ رو سکے ۔ جوابا نہیں کرتے تھے وہ اماں کرتی تھیں اور بار بارکرتی تھیں۔
اماں کو تاپ چڑھا ابا آرام سے پڑے رہے۔
’’ولی۔ تاپ کو تاپ کچھ نہیں کہتا۔‘‘ اماں دوپٹہ ٹھونسے لرز لرز کرروتی رہی تھیں۔
’’کیوں پرواہ کرتی ہیں؟‘‘ صبح میں جرح کرتا تھا۔
پگڑی کو کلف لگاتی ٹھٹک گئیں۔
’’مجازی خدا ہے میرا۔‘‘
’’ابا خدا نہیں ہیں اماں ۔انسان کو انسان کے درجے پر رکھیں ۔ ‘‘ میں نے اماں کو پتھرکردیا صرف اتنا کہاتھا۔
دو تھپڑ مجھے جڑکرخود رونے بیٹھ گئیں۔پھر وہ رات آگئی۔بانو نے ابا کے ساتھ دہلیز پرقدم رکھا اور اماں کی پتلیاں پھرگئیں۔
’’ولی سلام کر تیری دوجی اماں ہے ۔ ‘‘ابا بولے تھے۔
ابا کا تکیے تلے رکھا عشق سامنے کھڑا تھا۔
اماں کے تکیے تلے رکھی رات کھسک کر سرپرآن کھڑی ہوئی ۔ میں گواہی کا ترازو متوازن نہ کرسکا تھا۔
’’ابا یہ تو بانو کوٹھے والی ہے۔‘‘
ابا غصے آگے بڑھے بانو نے پکڑلیا ۔ اماں چار کپڑوں کی گٹھڑی باندھے صحن کے بیچوں بیچ آن کھڑی ہوئیں۔
’’ ولی سچ کہتا تھا آپ خدا نہیں ہیں۔ شکر ہے نہیں ہیں۔ خدا ہوتے تو آپ کو چھوڑنا مشکل ہوتا ۔ خدا کہاں چھوڑاجاتا ہے ؟ انسان ہیں تو چھوڑے جارہی ہوں۔‘‘وہ ابا سے مخاطب ہوئیں۔
ابا گم صم کھڑے رہے،بانو کا ہاتھ دل پرجاپڑا۔اماں بانو کی طرف پلٹی تھیں۔
’’ان کے دل پر سو بار دستک دی ایک بار بھی درنہ کھلا۔ تمہیں یہ دل اور در مبارک ہو۔‘‘
اماں گٹھڑی سرپررکھے دہلیز پارکرگئیں ۔ میں پیچھے بھاگا تھا۔
’’اماں مت جائیں۔ ابا مجازی خدا ہیں آپ کے۔‘‘
رات کو تکیے تلے رکھ کر بیخبرسونے والی اماں پھوٹ پھوٹ کرصرف اتنا بولی تھیں۔
’’خدا نہیں ہے ولی ورنہ رک جاتی۔ جتنا صبرتھاکرلیا ۔ اب رہا کچھ نہیں اوربچا بھی کچھ نہیں۔‘‘
میں چاہ کر نہ روک پایاتھا۔
آج پھررات ہے۔
مگر ابا کے تکیے تلے رات رکھی ہے۔
میرے تکیے تلے گواہی کروٹ لے رہی ہے۔
اورہاں…
بانو کے تکیے تلے دوسرا عشق رکھا ہے۔
٭٭

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

You cannot copy content of this page