افسانے

شریک حیات: راضیہ سید

فون کی گھنٹی متواتر بج رہی تھی، لیکن ماہ نور کا ارادہ بالکل بھی فون سننے کا نہیں تھا ۔ آج فیکٹری کے کاموں میں وہ بہت بری طرح الجھی رہی تھی ۔ تمام ملازمین کے مسائل، ڈیلی گیشن سے ملاقات، نئی تقرریاں، تنخواہیں یعنی کون سی ایسی چیز تھی جس پر وہ ہمیشہ سے فوکس نہ کرتی ہو ۔ لیکن وہ کرتی بھی تو کیا اس کی اسی محنت اور لگن کی وجہ سے تمام فیکٹری ملازمین اس سے خوش تھے اور اس کی بہت عزت کیا کرتے تھے اور وہ آج ایک کامیاب بزنس ویمن تھی۔
ملازم کو چائے کا کہہ کر وہ فریش ہونے کے لیے چل دی ۔ باہر نکلی تو ڈریسنگ ٹیبل پر رکھا موبائل پھر سے چیخ اٹھا ۔ ابھی تک ماہ نور کا شوہر اسود گھر نہیں پہنچا تھا ۔ اس کے ذہن میں اسود کا ہی خیال تھا سو جلدی میں کان سے فون لگاتے ہی بولی۔
’’ہاں اسود میں ابھی گھر پہنچی ہوں آپ کب تک آ جائیں گے؟‘‘
’’ماہ نور میں اسود نہیں، سدرہ بات کر رہی ہوں تمہاری کلاس فیلو، شاید تمہیں یاد ہو ؟ ‘‘
’’ہاں ہاں سدرہ ، بہت عرصے بعد فون کیا تم نے، خیریت آج تمہیں کیسے میری یاد آگئی؟‘‘ ماہ نور نے رسمی سے انداز میں سدرہ کی خیریت دریافت کی۔
’’بالکل خیریت، اصل میں کیا ہے کہ آج میں نے اسود بھائی کو دیکھا سوشل میڈیا پر تمہارے ساتھ ۔ شادی پر تو تم نے بلایا نہیں وہ تو بس اچانک ہی سمجھو انہیں دیکھ لیا ۔ یار تم میں آخر ایسی کون سی کمی تھی کہ تم نے اسود بھائی کو ہی چن لیا ۔ شکل و صورت کے بھی وہ بالکل عام سے ہیں، تعلیم بھی شاید تم سے کچھ کم یا تھوڑی بہت برابر ہو گی، آخر تم ایسے بندے کے ساتھ کیسے گزارا کر رہی ہو ؟ ‘‘ سدرہ کے لہجے میں حیرانی کے ساتھ ساتھ تمسخر کی ملاوٹ بھی تھی۔
’’کیوں سدرہ، تمہیں ایسا کیوں لگا کہ میرے شوہر معمولی شکل و صورت کے ایک عام سے انسان ہیں، تم نے اتنے عرصے بعد کال کی اور وہ بھی یہی بات کرنے کے لیے ۔ ‘‘ نہ چاہتے ہوئے بھی ماہ نور کا لہجہ کچھ سخت ہو گیا۔
’’ میں نے تو اس لیے کہا کہ کہاں تم اتنی حسین و جمیل، اتنی کامیاب بزنس ویمن اور وہ تو شاید ایک مڈل کلاس ٹائپ بزگوار سے معلوم ہو رہے تھے ۔ ‘‘ سدرہ گھما پھرا کر بات کو وہیں لے آنا چاہتی تھی۔
’’تمہاری بات اگر مکمل ہو گئی ہے تو میں فون رکھ دوں ۔ ‘‘ ماہ نور نے یہ کہتے ہی کال کاٹ دی تھی۔
اسود کے آنے پر بھی ماہ نور کا جی اچھا نہ رہا، کھانے کی ٹیبل پر بھی پریشانی سے پلیٹ میں پڑے چاولوں کو چمچ سے ہلاتی رہی ۔ اسود نے ماہ نور سے استفسار کرنا چاہا لیکن اس نے کوئی خاص جواب نہ دیا اور سونے چل دی ۔ دونوں بچے پہلے ہی سو چکے تھے۔
سونے کے لیے وہ بستر پر لیٹ تو گئی لیکن پوری رات سدرہ کے جملے اس کے کانوں میں ہی گونجتے رہے کہ کہاں تم اتنی حسین و جمیل اور کامیاب بزنس ویمن اور اسود بھائی تو شاید مڈل کلاس اور بزگوار سے معلوم ہو رہے تھے ۔ آخر تم نے کیا دیکھ کر ان سے شادی کی ؟
اسے اسود سے کوئی گلہ نہ تھا ۔ وہ ان کی دوسری بیوی تھی ، اسود کی پہلی بیوی وفات پا چکی تھی اوربچے بڑے اور اپنے اپنے گھر والے تھے ۔ وہ پڑھا لکھا اور باشعور انسان تھا ۔ ماہ نور سے اس کی شادی دونوں خاندانوں کی باہمی رضا مندی سے ہوئی تھی اور جلد ہی دو بچے بھی ہو گئے تھے ماہ نور کے والد ایک ممتول گھرانے سے تعلق رکھتے تھے ۔ملک میں ان کی کئی فیکٹریاں اور دیگر کارروبار تھے۔
ماہ نور ان کی اکلوتی اور لاڈلی بیٹی تھی ۔ کارروبار کی مصروفیت نے انہیں ان کی صحت سے بیگانہ کر دیا تھا ۔ کبھی کبھار سوچتے تھے کہ اتنا دھن دولت کس کام کا جب ان کا کوئی وارث ہی نہیں، کوئی اولاد نرینہ ہی نہیں … ساتھ ہی یہ فکر بھی تھی کہ وہ راجپوت گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور انہیں بیٹی کی شادی کے لیے راجپوت گھرانے کا رشتہ ہی درکار تھا ۔ انہی تفکرات نے انہیں بستر سے لگا دیا تھا اور وہ مفلوج ہو گئے تھے ۔ ایسے میں انہی کی فیکٹری میں کام کرنے والے اسود نے گویا ان کے بیٹے ہونے کا ثبوت دیا تھا۔
ڈاکٹروں سے علاج معالجہ ، کاروبار کی جانچ پڑتال اور پھر ذمہ داریوں کے بہتر انداز سے سنبھال لینے کی صلاحیت نے اسود کو ماہ نور کے خاندان سے اور بھی قریب کر دیا تھا ۔اس نے کبھی ماہ نور کے خاندان کا فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کی تھی ۔سوئے اتفاق اس کا تعلق بھی ایک راجپوت گھرانے سے ہی تھا ۔ یہ سب چیزیں ماہ نور کے رشتے کے لیے کافی ثابت ہو گئی تھیں اور پھر شادی کے بعد اس کے تمام تر خدشات بھی دور ہو گئے تھے۔
ماہ نور کے والد کی بیماری کے باعث ان کی شادی کافی سادگی سے ہوئی تھی لیکن کیونکہ وہ ایک مشہور صنعت کار گھرانے سے تعلق رکھتی تھی لہٰذا ادھر ادھر دعوتوں میں آنا جانا بھی لگا رہتا تھا۔ اوروہاں بننے والی تصاویر کوسوشل میڈیا پر ڈالنا عام سی بات تھی ۔ وہی سدرہ نے ان کی تصاویر دیکھ لیں ہوگی۔
اسود اور اس کی ازدواجی زندگی بہت اچھی گزر رہی تھی لیکن وہ لوگوں کی باتوں سے کبھی کبھار بہت تنگ ہو جاتی تھی۔ ساری رات اسے نیند نہیں آئی اور وہ بدستور سونے کی اداکاری کرتی رہی تھی ۔ صبح بیدار ہوتے ہی وہ بہت ڈسٹرب تھی ۔ اسود نے اس کے گال کو چھوا تو وہ روہانسی سی ہو گئی۔
’’ارے کیا ہو گیا، صبح صبح اتنے آنسو کیوں بہائے جا رہے ہیں ۔آخر ہم سے ایسی کیا خطا سرزد ہو گئی ہے؟‘‘ اسود صبح صبح ہی پریشان ہو گیا تھا۔
’’نہیں ،نہیں خطا آپ سے نہیں ہوئی، مجھ سے ہی ہوئی ہے شاید ۔ اسود میں سوچتی ہوں کہ جب لوگ ہمیں کسی بھی طرح تکلیف نہیں دے سکتے اور ہم میں کوئی خامی نہیں نکال سکتے تو طرح طرح کے بہانے بنا کر ہماری ذات پر حملے کرتے ہیں اور اس پر ہی بس نہیں کرتے بلکہ مزید اذیت دینے کے لیے ہم سے وابستہ خوبصورت رشتوں کی بھی توہین کرتے ہیں ۔ اسود لوگ ہمیں خوش کیوں نہیں دیکھ سکتے ایسا کیوں ہوتا ہے بھلا ؟ ‘‘ ماہ نور نے روتے ہوئے اسود کو سدرہ کے بارے میں سب کچھ بتا دیا۔
’’اوہو تو کیا ہوا ہر بندے کی عادت مختلف ہوتی ہے ۔ بس تم اگنور کر دیا کرو، تمھاری کلاس فیلو ہو گی کوئی حسن پرست اور کوئی اس کا شوہر دیوتا ہو گا ، لیکن ہمیں اس سے کیا ۔ زندگی عادات کے سہارے گزرتی ہے اور وہ ہم دونوں کی بہت اچھی ہیں ۔چلو اب اپنے آنسو صاف کرو ورنہ مجھے بھی رونا آجائے گا ۔ ‘‘ اسود نے رونے کی ایکٹنگ کی تو ماہ نور کو بہت ہنسی آئی اور اسود نے سکھ کا سانس لیا۔
’’ اچھا شام کو تیار رہنا، کھانا بھی باہر کھا لیں گے اور تمھارا موڈ بھی کچھ اچھا ہو جائے گا۔ ٹھیک ہے۔ ‘‘
’’ ہاں بالکل، کام کی وجہ سے مجھے بھی بہت تھکن ہو گئی ہے ۔ اچھا ہے تھوڑی تفریح بھی ہو جائے گی، کچھ خریداری بھی اور فیورٹ ریسٹورنٹ سے کھانا بھی کھا لیں گے۔‘‘ ماہ نور نے جھٹ پٹ پلان بھی بنا لیا۔
شاپنگ مال میں ماہ نور کو اتفاقاََ سدرہ نظر آگئی ۔ اسے دیکھ کر سدرہ گھبرا گئی اور ماہ نور نے اس کا گھبرانا نوٹ کرلیا تھا۔
’’ ارے سدرہ اچھا ہوا تم سے بھی ملاقات ہوئی ۔ ہمارا بھی کچھ شاپنگ کا ہی پروگرام ہے ۔تم کیا اپنے شوہر کے ساتھ آئی ہو ؟ ذرا ہم بھی تو جانیں کہ ہمارے بھائی جان کیسے ہیں؟‘‘
ابھی ماہ نور کے لبوں پر یہ الفاظ تھے کہ غرور سے تنی ہوئی گردن والا ایک شخص سدرہ کا ہاتھ پکڑ کر لے جانے لگا۔
’’ سدرہ تمہیں کہا بھی ہے کہ سب کام جلدی کیا کرو ۔ میرے پاس فالتو وقت نہیں ہوتا۔ میں نے امبر اور بچوں کو بھی دیکھنا ہے لیکن تمہارے نخرے ہی ختم نہیں ہوتے۔‘‘
ماہ نور کو اس شخص کے انداز تخاطب پر بہت حیرانی ہوئی۔
’’ اچھا سدرہ یہ مشہور وکیل تمہارے شوہر ہیں۔ بھائی بہت خوشی ہوئی آپ سے مل کر۔‘‘
’’جی جی ،شکریہ … ‘‘ سدرہ کے شوہر نے جواب میں رسمی سے تعارف نبھایا اور پھر سدرہ کی طرف مڑ گیا ۔ ماہ نور کے ذہن میں کڑی سے کڑی ملتی چلی گئی ۔ اس کا شوہر اسود تو بہت بااخلاق تھا اور سدرہ کا خاوند کتنے برے طریقے سے اس سے پیش آ رہا تھا اور سدرہ کتنا شرمندہ محسوس کر رہی تھی۔ اس نے سدرہ کے متعلق سب پتہ لگایا اور اس سے بات کرنے کی ٹھانی۔
گھر آتے ہی اس نے سدرہ کو کال ملائی۔ اس بار ماہ نور نے اعتماد کے ساتھ فون اٹھایا اور سدرہ سے پہلے ہی بولنے لگی۔
’’سدرہ مجھے پتہ لگا تھا کہ تمہاری تو دو طلاقیں ہوئی ہیں ۔ آج کل سوشل میڈیا کا دور ہے ، کوئی بات کہاں چھپی رہتی ہے ۔ مصروفیت میں کبھی تمہاری پروفائل پر آنے کا وقت نہ ملا تو یہ تمہارے تیسرے شوہر ہیں اور تم ان کی دوسری بیوی ہو۔‘‘
’’ ہاں یار وہ بس حالات ایسے ہو گئے کہ شادی کرنا پڑ گئی ۔تم خود سوچو کہ طلاق یافتہ عورت کا معاشرے میں کیا مقام ہوتا ہے ۔ میرے شوہر بہت اچھے ہیں ۔ بس آج کل کام اور مصروفیت کی وجہ سے تھکاوٹ کا شکار ہیں ۔ اچھی طرح سے مارکیٹ میں تم سے ملاقات نہ ہو سکی ۔ ‘‘ سدرہ بات کو چھپانے کی بہت کوشش کر رہی تھی۔
’’ وہ تو جس طرح تم سے بات کر رہے تھے اندازہ ہو ہی گیا تھا کہ کتنے اچھے ہیں ؟ سدرہ تم مجھ سے پوچھ رہی تھیں کہ میں نے اسود میں کیا دیکھا، میں نے ان میں ایک اچھا انسان دیکھا۔ انہوں نے مجھے ہمیشہ مان اور محبت دی، میری عزت نفس کو قائم رکھا ۔ یوں بازار میں ابرار بھائی کی طرح رسوا نہیں کیا ۔ سدرہ شریک حیات زندگی کا ساتھی اور ہر پل کا شریک ہوتا ہے اور شریک حیات ہی اگر عزت دینے والا نہ ہو تو شکل و صورت کا کیا فائدہ ؟ شکل و صورت تو مٹی میں مل ہی جاتی ہے ۔ باقی رہنے والی تو محبت، اخلاق اور پیار ہے ۔ اس حساب سے دیکھو تو میں اسود کو پا کر بہت خوش ،مطمئن اور بخت آور ہوں ۔ لیکن جاتے جاتے تمہارے لیے ایک مشورہ ہے کہ آئندہ کسی اور کے شریک حیات کے بارے میں کچھ نہ کہنا کہ وقت تمہارا نام نہاد بھرم توڑنے میں پل نہیں لگائے گا ۔ ‘‘
ماہ نور نے موبائل پر سدرہ کی دبی دبی سسکیوں کی آواز سن کر رابطہ منقطع کر دیااور مطمئن ہوکر کمرے میں چل دی جہاں اسود اس کا انتظار کررہے تھے۔
٭٭

Related Articles

3 Comments

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے