کسی اجنبی سے دیار میں: آخری قسط
وہ بڑے خار خار دن تھے۔ بدر کو لگتا دبئی اور عمان والا وقت مشکل نہیں تھا۔ جتنی کردار کشی یہاں ہو رہی تھی، اتنی خواری تو اسے وہاں محسوس نہیں ہوئی تھی۔ سوائے ماں اور بہنوں کے کسی نے اس کی آپ بیتی پر یقین نہیں کیا تھا۔ وہ جو کسی کی جاہ و حشمت کی بدولت انٹرنیشنل رپورٹرز اور فوٹو گرافرز سے بچ کر نکل آئی تھی، گھر کے رپورٹر سے نہ بچ سکی۔ اس کے ایک ایک لفظ کو سیما نے ایک ایک کہانی بنا کر تمام رشتے داروں میں نشر کیا۔ آگے اس کہانی نے بچے دے دے کر مزید کہانیاں بنا ڈالیں۔ اس کے بارے میں یوں گفتگو ہوتی کہ دنیا کا سب سے گمبھیر مسئلہ وہی رہ گئی تھی۔ اپنے پرائے ٹولیاں بنا کر کچھ یوں گفتگو کرتے…
’’وہ نرگس، ارے وہ وقاص۔‘‘
’’ہاں ہاں… شکل سے ہی مجرم لگتے تھے۔ زبیدہ پر دبئی کی خماری طاری تھی ہم نے ذرا سا کہا تو تھا پر مانی نہیں۔‘‘
’’بالکل، لیکن وہ بدر تو ان فراڈیوں کی بھی سردار نکلی۔ وقاص وغیرہ نے جو بتایا تھا، سچ ہی نکلا۔ کسی عربی شیخ کے ساتھ بھاگ گئی تھی۔ اب واپس آ کر کہہ رہی ہے اس کے ساتھ نکاح کیا تھا۔‘‘
’’بھئی نکاح کیا تھا تو ادھر ہی مر کھپ جاتی ادھر لڈو لینے آ گئی۔ کیسی بے شرم لڑکی ہے اپنا گھر بسا نہیں سکی۔ اب دوسری بہنوں کی شادیاں بھی نہیں ہونے دے گی۔‘‘
’’پکی بات ہے جی۔ شریف لوگ تو دروازہ نہیں دیکھیں گے۔‘‘
’’اور کیا… زبیدہ امیر جوائیوں کے خواب دیکھتی تھی۔ ادھر ساری لڑکیوں کو کنوار کوٹھے ڈال کر دینا پڑیں گے۔‘‘ بے ڈھنگی ہنسی سے یوں مذاق اڑایا جاتا جیسے تھیٹر چل رہا ہو۔
’’صئی (صحیح) بول رہے ہو بھیا۔ جب غلطی کر ہی بیٹھی تھی تو واپس ہرگز نہ آتی۔ دوسری بچیوں کا مستقبل ڈبو ڈالا۔‘‘
’’عربی نے خود نکال دیا ہے بھائی۔ یہ عربی بڑے بے غیرت ہوتے ہیں۔ سنا ہے ایسے چل چلاؤ کے نکاح شکاح کرتے رہتے ہیں۔ دل بھر جائے تو پیٹھ پر لات مار کر نئی خرید لیتے ہیں۔ میرے بہنوئی کا بھائی ادھر ہی ہوتا ہے۔ کہہ رہا تھا یہ عربی قوم ہی گندی ہے۔ بیچی ہوئی ماؤں کی اولاد ہیں سالے۔‘‘
’’انوار صاب، یہ بیچی ہوئی ماں کا کیا مطلب ہوا بھلا؟‘‘
’’او یار جیسے ہمارے ادھر پٹھان لڑکی والوں کو پیسے دیتے ہیں، بالکل ایسے ہی یہ عربی لوگ بھی بیوی خریدتے ہیں۔ اسی لئے تو ادھر لڑکی پیدا ہونے کی خوشی کرتے ہیں۔‘‘
’’آہو جی کرتے ہوں گے خوشی۔ جب نہ جہیز کی ٹینشن نہ رشتہ ڈھونڈنے کی، خریدنے والے خود آتے ہوں گے۔‘‘
’’پاء بشیر کیا سچ میں ادھر ایسے ہی بیوی خریدی جاتی ہے۔ یوں لگ رہا ہے جیسے گائے بکری کی خرید و فروخت کا معاملہ ہو توبہ توبہ۔‘‘
’’او نئیں یار، میری چھوٹی سالی باہر ہی رہتی ہے۔ اس کا گھر والا اور وہ بتا رہے تھے یہ ہم نے باتیں بنائی ہوئی ہیں۔ حق مہر تگڑا دیتے ہیں جسے ہم کہہ دیتے ہیں لڑکی خریدی ہے۔‘‘
’’چلو جی سانوں کی… پر یہ صادق کی لڑکی نے اچھا نہیں کیا۔‘‘
’’بالکل جی۔‘‘
اور ٹولی رفع دفع۔ اس کے بعد دوسری ٹولی شروع ہوتی…
’’کلثوم تو نے بدر کو دیکھا؟‘‘
’’آہو دیکھا ہے۔ دو دو کھصم ہنڈا آئی ہے، بنتی ابھی بھی ستی ساوتری ہے۔‘‘
’’میری دھی ہوتی تو میں باپ سے پہلے ٹوٹے کر کے فرش میں دبا دیتی۔ زبیدہ اپنے ہاتھوں سے نوالے کھلاتی پھر رہی ہے۔‘‘
’’تجھے کس نے بتایا؟‘‘
’’گولے گنڈے والے کی زنانی نجمہ نے، سیما اس کی پکی سہیلی ہے۔ اپنے دکھ سکھ وچاری اس کے ساتھ کرتی ہے۔ نجمہ مجھے کچھ نہ کچھ بتا دیتی ہے۔‘‘
’’زبیدہ کو بھی شرم نہ حیا، بدر کے آگے اسے کچھ دکھتا کہاں ہے۔ عقل والی ہوتی تو کنواری بیٹھی بیٹیوں کے غم میں گھل جاتی۔‘‘
’’لو بیاہی کون سا سکھ میں ہے۔ سنا ہے فخر کو بھی اس کے خاوند نے اس لیے رکھا ہے کہ بچے نہ رل جائیں۔ ورنہ وہ بھی ایسی جھنڈے گاڑنے والی سالی کی بہن کو چلتا کر دیتا۔‘‘
’’میں نے تو گڑیا سے کہہ دیا خبردار جو زبیدہ کی لڑکیوں سے ٹیوشن پڑھنے گئی۔‘‘
’’اچھا کیا بہن۔ رب سب کی بیٹیوں کو ہدایت دے۔‘‘
٭…٭…٭
شدید گرمی اور اردگرد کا گرما گرم ماحول بدر کو اپنے آپ سے نفرت کرائے ہوئے تھا۔ ایسے میں اسے سالم کبھی یاد ہی نہ آیا تھا۔ آج پورے مہینے بعد ساون کی جھڑی میں وہ یاد آیا تو بدر نے سہم کر فوراً آس پاس دیکھا۔
’’شکر ہے اکیلی ہوں۔‘‘ وہ برساتی میں بچھی چٹائی پر لیٹ گئی۔
’’تم صحیح کہتے تھے میں بے وقوف ہوں۔ عقل مند ہوتی تو اپنی معاشرتی سوچ کو ذہن میں رکھ کر فیصلہ کرتی۔ میں سمجھتی تھی میرے ’’صحیح سلامت‘‘ گھر آنے پر میٹھی دیگیں چڑھائی جائیں گی۔ لیکن حالت ایسی ہے کہ اپنے سگے بھائی سے ڈر لگتا ہے کہیں رات کو سوتے میں گلا نہ دبا دے۔ اس کی غیرت پر میرا ہونا ضربیں لگاتا ہے۔ میں نے اس کی عزت خاک میں ملا دی ہے۔‘‘ اپنے بہتے آنسو سستی سی لان کے بد رنگے دوپٹے سے صاف کر کے اس نے خود سے گفتگو جاری رکھی۔ دل ہی دل میں خود سے باتیں کرنا اس کی پرانی عادت تھی۔
’’ویسے یاسر بھائی کون سا کوئی بڑے فطین انسان ہیں۔ اسی معاشرے میں رہتے ہیں جس میں اپنی بیٹی سے زیادہ باہر کے لوگوں کی باتوں پر یقین کیا جاتا ہے۔ اگر گھر کی لڑکی پر یقین ہو تو بھی باہر والوں کی باتوں کا غصہ اسی پر نکالا جاتا ہے۔ اسے ناکردہ جرم میں پل پل مارا جاتا ہے کہ نہ یہ ہوتی اور نہ لوگ طرح طرح کی باتیں کرتے۔ تم بھی اپنی طرز کے انوکھے بندے تھے شیخ صاحب۔ بدنام زمانہ لوگوں میں رہنے والی لڑکی سے کون شادی کرتا ہے بھلا چچ چچ… ویسے میں سوچتی ہوں میں اتنی بے وقوف ہوں نہیں جتنا تم سمجھتے تھے۔ دیکھو ابھی تک کسی کو تمہارے بارے میں سچ نہیں بتا سکی۔ صرف یہی کہا ہے کہ میجر طلال پاکستانی تھا، اس لیے تم سے درخواست کر کے میری مدد کرائی ہے۔ شیخ طبوق کا خطرہ جب مکمل ختم ہو جائے گا تو میجر طلال تم سے کہہ کر طلاق بھجوا دیں گے۔ دیکھو کیسی کہانی گھڑی ہے۔ پر یقین صرف اماں اور بہنوں کو ہے۔‘‘
بجلی کڑکنے پر اس نے کروٹ لی۔
’’میں سوچ رہی ہوں فخر اور مہر کو تمہارے بارے میں سب بتا دوں۔ ان سے اتنے دن سے حقیقت چھپانے پر میں بہت بے چین ہوں لیکن انہیں بتاؤں گی کیا؟‘‘ بدر بے قرار ہو کر دیوار کے ساتھ لٹکے چھوٹے سے گول شیشے کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔ رنگ مدھم آنکھیں بجھی ہوئی اور وزن بھی گرا ہوا تھا۔
’’تمہیں اس چہرے سے عشق ہوا تھا، کتنی عجیب بات ہے۔ خیر مہرو اور فخر کو تو بتا ہی دیتی ہوں۔ تمہاری دیوانگی نہیں بتاؤں گی، بس اخلاص بتا دینا ہی کافی ہے۔ دیوانگی تو میں خود بھولنا چاہتی ہوں۔ تم بھی بھول جاؤ ٹھیک ہے؟‘‘
’’بدر آپی شیشے سے باتیں کر رہی ہیں؟‘‘ تاج متعجب تھی۔
’’نن نہیں، میں نے کب بات کی۔ تمہارے کان بجے ہوں گے۔‘‘
’’نیچے آ جائیں بڑی پھوپھو اور چھوٹی ممانی آئی ہیں۔‘‘
’’بارش میں؟‘‘
’’بارش تو رک بھی گئی اور گرمی میں یہی موسم تو اچھا لگتا ہے۔ اتنے دنوں سے گرمی نے پاگل کر رکھا ہے، آج دیکھنا سکون کی نیند آئے گی۔‘‘ تاج بولتی جا رہی تھی اور سیڑھیاں پھلانگتی جا رہی تھی۔ بدر مرے مرے قدم اٹھاتی اس کے پیچھے تھی۔
’’مہر میری چارپائی پنکھے کے آگے رکھ دے۔‘‘
اپنے بھاری وجود کو بمشکل سنبھالتی زبیدہ اٹھی تو رنگ لٹھے کی طرح سفید ہو گیا۔ بدر کو ماں کا چہرہ صحت مند نہیں لگا۔
’’میں اپنے سوگ میں پڑی ہوئی ہوں۔ اماں کو ڈاکٹر نفیس کے پاس لے جانا چاہیئے، کب سے وہی پرانی دوائیاں کھا رہی ہیں۔‘‘
’’اے بدر تو بھی ادھر آ کر ہمارے پاس بیٹھ۔ روٹی ٹکر تو سیما اور مہرو بنا ہی لیں گی۔‘‘
ناچار اسے پاس آنا پڑا۔ ماں کی چارپائی پر پیروں کی طرف بیٹھ گئی۔
’’بدر سچ کہوں تو مجھے تو یقین نہیں آتا وقاص ایسا تھا۔ میرے پاس تیری دبئی کی ساری ویڈیو پڑی ہیں۔ کیسے تجھ پر جان چھڑکتا تھا یا زبیدہ ہمیں ساڑنے کے لیے جھوٹ بولتی رہتی تھی۔‘‘ چھوٹی ممانی بات کرتے بہت بد لحاظ ہو جاتی تھیں۔
’’تکلیف کے اس سفر میں اماں کو مجھ سے بھی زیادہ طعنے سہنے پڑ رہے ہیں۔‘‘ بدر کا دل کٹنے لگا۔
’’پھر وہ تیرے عربی شوہر کا کوئی فون فان آیا؟‘‘ بڑے طنز سے پھوپھی نے پوچھا۔
’’حق ہاااا، لالچ اور خاندان سے وڈا بننے کا شوق بھی کیسے کیسے ذلیل کرا دیتا ہے۔ وچاری بدر کو کیسے خود نکاح کرنا پڑا ہو گا۔‘‘
بدر کو ان کے چہرے پر تمسخر اور بے یقینی صاف نظر آئی۔ ان کے نزدیک بدر زیادہ دولت پا کر اوقات سے باہر نکل گئی تھی۔ اتنا باہر کہ وقاص کے نکاح سے ہی نکل گئی۔ جس عربی کے لیے اپنا گھر توڑا، اس نے بھی نہ رکھا۔
یہ وہ کہانی تھی جس پر سیما اور خاندان کی باقی خواتین متفق تھیں۔ جب سیما متفق تھی تو یاسر تو اس سے دگنا متفق تھا۔
وہ موقع پا کر وہاں سے اٹھ کر کچن میں آئی تو سیما نے آٹا اس کے حوالے کیا اور خود ساس کو جلانے کے مزید طریقے سوچتی باہر نکل آئی۔
’’جس کا دل کرتا ہے اماں کے منہ پر بیٹھ کر انہیں سنانے لگتا ہے۔ ایسے جیسے سب موقعے کی تلاش میں تھے۔‘‘
’’جب تمہاری شادی وقاص سے ہو رہی تھی تب یہ اپنی بیٹیوں کے لیے موقعے کی تلاش میں تھے۔ مجھے لگتا ہے ان کے حسد نے یہ دن دکھایا۔‘‘
’’میری قسمت ہی خراب تھی مہرو، کسی پر الزام کیا رکھنا۔‘‘
’’تمہاری قسمت نہیں اماں کا دماغ بھی خراب تھا۔ اب سوچوں تو اس چمگادڑ نرگس کے سارے انداز مشکوک تھے۔ پر اماں پر تمہیں دبئی بھیجنے کا جو بھوت سوار ہوا تو بھیج کر ہی اترا۔ اب سب انہیں ان کی شوخیاں، اونچے داماد ڈھونڈنے کے دعوے اور میری شادی تم سے بھی اونچی جگہ کرنے کے ارادوں کا اظہار، رشتے داروں کو کم تر اور جاہل کہنے کی تمام باتیں یاد دلا کر جاتے ہیں۔ مجھے سمجھ نہیں آتی اب یہ کیا چاہتی ہیں، اماں ان سے معافی مانگیں؟‘‘
’’مجھے خود نہیں سمجھ آ رہی کہ ان باتوں سے اماں کو تکلیف دینا ہی مقصد ہے یا معافی بھی منگوانا چاہتے ہیں یہ سب۔ مہرو اماں کی طبیعت دن بہ دن سیریس ہوتی جا رہی ہے۔ تم بھی اماں کے ساتھ بہت تلخ ہو رہی ہو۔ ایک تو ویسے ہی وہ صدمے میں ہیں، اوپر سے سب کی باتیں کہیں زیادہ بیمار نہ کر دیں۔ وہ ہمارا اچھا ہی سوچتی ہیں۔ غربت سے نکالنا چاہتی ہیں تو غلط کیا ہے؟ ان کا تھوڑا شوخا ہو جانا ایسی برائی تو نہیں ہے کہ ہم اپنی اماں کو ہی کچوکے لگانے لگ جائیں۔ مجھے بہت برا لگتا ہے۔ میں نے دور رہ کر اماں کی قدر جانی ہے۔ وہ نہ ہوں تو سیما بھابھی اور یاسر بھائی ہمارے ساتھ پتہ نہیں کیا کر ڈالیں۔‘‘
’’ٹھیک کہہ رہی ہو۔ شکر ہے بدر تم نے بھی اپنے غم سے نکلنا شروع کیا۔ مہینہ ہو گیا تھا تمہاری صورت دیکھ کر ٹھنڈ پڑتی تھی پر گم صم رہنا دل بہت رنجیدہ رکھتا تھا۔ اب میں اماں کے ساتھ بالکل ٹھیک ہو جاؤں گی۔ میری بھی ماں ہیں۔ تمہارے ساتھ ہوا ظلم مجھے تلخ کر دیتا ہے۔‘‘
’’فخر کا کوئی فون آیا؟‘‘
’’پورے کمینے ہیں اس کے سسرال والے… ابھی تو اس کا زیادہ آنا حتٰی کہ فون کرنا بھی پسند نہیں کر رہے۔ پر باجی کہہ رہی تھی جیسے جیسے بات پرانی ہو گی لوگ بھول جائیں گے تو سب نارمل ہو جائے گا۔ تم بھی پلیز اس فیز سے نکلنے کی کوشش کرو۔ اتنا ڈپریس رہ رہ کر پاگل ہو جاؤ گی۔‘‘
’’میں کبھی کبھی سوچتی ہوں میں نے غلطی کی مجھے ٹی وی، جیل، انٹر پول سب بھگت لینا چاہیئے تھا۔ ملک کی بدنامی ہوتی تو ہوتی رہتی، کم سے کم یہ سب مجھے تو بدکردار نہ سمجھتے۔‘‘
’’پاگل ہو گئی ہو۔ ہمیں نہیں چاہیئے ان کے کریکٹر سرٹیفکیٹ، تم میری بہن ہو اتنی پیاری کہ جسے دیکھ کر آنکھیں خوش ہو جائیں اور اتنی اچھی کہ اچھائی پر یقین آ جائے۔‘‘
’’یہ پیارا ہونا ہی مسئلہ ہے۔ تمہیں اور فخر کو کچھ اور بھی بتانا ہے۔‘‘ بدر نے نظر چرائی۔
’’کیا؟‘‘
’’فخر باجی آ جائے پھر۔‘‘
’’فخر باجی پتہ نہیں کب آئیں گی۔‘‘
’’فخر کون سا کلکتے رہتی ہے، کل آ جائے گی ادھر آ کر ہی روٹی کھائے گی۔ تب تک پھوپھو کے لیے کھانا لگا دو اگر باتیں ختم ہو گئی ہوں تو۔‘‘ سیما نے پاٹ دار آواز میں مداخلت کی تو ان دونوں نے کھانا نکالنا شروع کر دیا۔
بارش کے بعد فضا میں حبس بڑھ چکا تھا۔ پنکھے کے سامنے سکون اور ذرا سا دور ہٹنے پر پسینہ سر سے پاؤں تک بہنے لگتا۔ زبیدہ کے لیے بھاری جسم کی بدولت یہ موسم بہت مشکل ہو جاتا تھا۔
یاسر آیا تو ایک بار پھر سے دونوں مہمان خواتین نے نئے سرے سے بدر پر بات چیت کا آغاز کیا۔ ان کی ہر بات پر یاسر کا مزید موڈ بگڑ رہا تھا۔ ان چاروں بہنوں کو اندازہ ہو گیا کہ اب اماں اپنی پہلے والی پوزیشن اور حیثیت کھو چکی ہیں۔ یاسر اب اماں سے ڈرنا چھوڑ چکا ہے اور اماں بھی خود پر اعتماد کھو چکی ہیں۔ تخت الٹ گیا تھا۔ طاقت کا پلڑا سیما کی طرف جھک چکا تھا۔
’’چلو کم عمر تھی نادان تھی غلطی ہو گئی۔ وقاص کی دولت دیکھ کر زیادہ کی ہوس ہو گئی تو اس کے کفیل کے ساتھ دوستی گانٹھ لی ہو گی۔ اب وہ عربی تھا پاکستانی تو نہیں تھا جو اس کے ساتھ گھر بسا لیتا۔‘‘
’’ممانی کتنی بار بتائیں بدر نے وقاص کے کسی کفیل کے ساتھ کوئی دوستی ووستی نہیں کی تھی۔ اس بے غیرت نے خود بدر کو بیچا تھا۔ ادھر خدا ترس پاکستانی میجر نہ ملتا تو ہماری بہن کا خدا جانے کیا بنتا۔‘‘
’’تم کہتی ہو تو یقین کر لیتے ہیں۔‘‘ پھوپھو نے ناک چڑھائی۔
’’ہم تو اپنی بیٹیوں کو امیر گھر بیاہنے کا لالچ کبھی نہ کریں بھیا۔‘‘
تاج اسکول گرل تھی اسی لحاظ سے جذباتی بھی تھی۔ اس کا دل کیا فوراً یاد دلائے جب بدر کی شادی کے موقع پر وقاص کے چھوٹے بھائی کا پوچھا جاتا تھا۔ نرگس سے تعلق بنانے کے جتن کیے جاتے تھے تاکہ اپنا سمدھیانہ بھی اسی گھر میں جوڑ لیا جائے۔ پر جب بڑی بہنیں نہ بولیں تو وہ بھی اندر ہی اندر غصہ پی گئی۔
’’اونچے خوابوں کے برے نتیجے۔‘‘
پھوپھو اور ممانی چلی گئیں۔ ساون کی جھڑی تھی بارش پھر سے شروع ہو گئی۔ سیما اور یاسر اپنے کمرے میں اور وہ ماں بیٹیاں اپنے کمرے آ گئیں۔ بدر نے ہاتھ والا پنکھا اٹھا کر اس اذیت بھرے موسم میں ہوا دے کر راحت پہنچانی چاہی۔ زبیدہ نے وہی پنکھا کھینچ کر بے دریغ بدر پر برسانا شروع کر دیا۔ مہرو نے بھاگ زبیدہ کے ہاتھ سے پنکھی پکڑی۔
’’بدر تو پیدا ہوتے مر جاتی۔ تیرا دبئی میں ایکسیڈنٹ ہو جاتا۔ تجھے ادھر وہ لوگ گولی مار دیتے۔ کمبختے جس کے ساتھ نکاح کیا تھا، اس کے پاس ہی رہ لیتی۔ مجھے صبر آ جاتا۔ میں سمجھتی مر کھپ گئی۔ پہلے تو جو بیستی کرائی سیما نے بات نشر کر کے کرائی۔ تو نے واپس آ کر سب سچ کر ڈالا۔ نکاح بھی کر کے آ گئی۔ جھنڈے گاڑ دیئے۔ واپس نہ آتی یا نکاح نہ کیا ہوتا۔ تو مر کیوں نہ گئی، مجھے شریکوں کے طعنے سنانے کے لیے ادھر آئی ہو؟ بتاؤ مجھے۔‘‘ زبیدہ نے اسے دھکا دے کر چارپائی سے نیچے گرایا اور بری طرح ہانپنے لگی۔
’’تو اور کہاں جاتی وہ؟‘‘ مہرو اب ماں سے پوچھ رہی تھی۔ بدر نے اسے پیچھے دھکیل کر ماں کے پاؤں پکڑ لیے۔
’’اماں بے قصور ہوں۔ اللہ کی قسم میں بے قصور ہوں۔‘‘
For a novels functional point of view it’s a good story.somehow based on reality.After a long time it’s a good experience to read this novel.
Keep it up 🌟