کسی اجنبی سے دیار میں: قسط نمبر 10
بدر نے کانپتے ہاتھوں سے فون اس کی طرف واپس بڑھا دیا۔ اس نے خاموشی سے لے کر ایک اور نمبر ملا کر اسپیکر پر ڈال لیا۔
’’شادی کی ایک بار پھر سے بہت مبارک ہو شیخ حداد۔ اللہ آپ کی نئی زندگی خوشیوں اور خوشبو سے بھر دے۔‘‘
’’بہت شکریہ طلال البلوشی۔‘‘
’’کاغذات کے بعد میں نے آپ کو مبروک کہنے کے لیے فون کیا تھا لیکن فون بند تھا تو مجھے یاد آیا ہنی مون پر موبائل آن رکھنے کی مصیبت کون پالتا ہے۔‘‘ میجر مسکرایا تھا۔
’’میجر طلال، میری حرمہ آپ سے بات کریں گی۔‘‘
بدر نے اسے دیکھ کر بے بسی سے فون پکڑ لیا۔
’’خوش ہو نا بیٹی؟‘‘
بدر سے کچھ بولا نہ گیا۔
’’میں نے کہا تھا نا شیخ سالم وہ ماسٹر کی ہے جو عمان سے پاکستان تک آپ کے لیے سارے بند دروازے کھول دے گی۔ کھل گئے نا دروازے؟ قانونی کاغذات دیکھے؟‘‘
’’جی، سب دیکھے ہیں۔‘‘
’’یہ آپ کے بلند نصیب کی بات ہے جو شیخ سالم جیسا شخص شوہر ملا ہے۔ ایسے لوگ بار بار پیدا ہوتے ہیں نہ ہر کسی کو ملتے ہیں۔ شیخ کے آپ پر بڑے بھاری احسان ہیں بدر بیٹی۔ اچھے انسان اپنے محسن کی ہمیشہ قدر کرتے ہیں۔ شیخ طبوق اور اپنے گھر کے مسائل بھی شیخ جلدی حل کر لے گا پھر آپ پورے اہتمام واحترام کے ساتھ پاکستان اپنے گھر والوں سے ملنے جانا۔‘‘
’’جی۔‘‘
’’کیا بات کرنی تھی؟‘‘
’’کوئی بھی نہیں۔‘‘
’’دعا میں یاد رکھنا۔ اللہ حافظ۔‘‘
’’اللہ حافظ۔‘‘
سالم نے فون پکڑ کر پاور آف کر دیا۔
’’آئم سوری۔‘‘
وہ بنا جواب دیئے گاڑی سے باہر نکل گیا، بدر بھی اس کے پیچھے نکلی۔ دور بیٹھی فیملی کے بچے گرتی پھوار میں فٹ بال کھیلتے ان کے قدرے قریب آ چکے تھے۔ سالم بکائن نما پہاڑی درخت کے نیچے کھڑا ہو گیا تو بدر بھی اس کے پاس جا کر کھڑی ہو گئی۔ شور کرتے بچوں میں سے ایک نے فٹ بال کو کک ماری تو فٹ بال نیچے کھائی میں جا گری۔ اب سارے بچے کک مارنے والے بچے سے مصروف جنگ تھے۔ بدر نے عرصے بعد بچوں کی یہ لڑائی اور چہکار دیکھی تو زندگی پر اعتبار لوٹنے لگا۔ وہ مزید قریب ہو کر ان کی حرکتوں سے دل و نظر کو تراوٹ دینے لگی۔ اسے پتہ تب چلا جب بچوں کی فیملی کی دو خواتین بھی بچوں کے پاس آ گئیں۔ وہ غالباً صلح کروانے میں مصروف تھیں جب فٹ بال بچوں کے عین درمیان آ کر گری۔ بدر نے پیچھے پلٹ کر دیکھا تو سالم کھائی کی طرف سے واپس آ رہا تھا۔ بچوں کے چہرے پر خوشی کا عالم ہی نرالا تھا۔
بدر قدرے پیچھے ہو کر کھڑی ہو گئی۔
’’تمہیں کرہ کھیلنا آتا ہے محمد؟ نہیں آتا تو گولچی بنو گے؟‘‘ وہ باجماعت سالم سے پوچھ رہے تھے۔
’’بہت اچھا آتا ہے اس لیے میں گولچی نہیں بنوں گا۔‘‘
’’مجھ سے زیادہ اچھا نہیں آتا ہو گا۔‘‘ ایک چھ سات سال کے بچے نے ناک چڑھائی۔
’’چلو پہلے تم کھیل کر دکھاؤ۔‘‘
بدر سمیت وہ دونوں خواتین بھی بچوں اور سالم کے مکالمے سن رہی تھیں۔
بدر نے دیکھا وہ چھوٹا سا بچہ فٹ بال کو جسم کے مختلف حصوں پر بیلنس کر کر کے دکھا رہا تھا۔ سالم نے انگوٹھا کھڑا کے امپریس ہونے کے تاثرات دیئے۔
’’محمد، تم یہ کر سکتے ہو؟‘‘ بچہ فخریہ پوچھ رہا تھا۔
’’نہیں صدیق، مجھے فری اسٹائل کرہ کھیلنا نہیں آتا۔‘‘
سالم کے مسکین سے انداز پر وہ سب مذاق اڑانے کے انداز میں ہنسنے لگے۔ خواتین بھی مسکرا رہی تھیں۔ بدر دلچسپی سے زندگی کے وہ روپہلے رنگ محسوس کر رہی تھی جو شیخوپورہ کی تنگ گلی میں رہ گئے تھے۔
’’تم کوشش کرو، میں سکھاتا ہوں۔‘‘
اب تھوڑی دیر تو سالم فٹ بال گراتا رہا، بچے اس کا مذاق بنا کر ہنستے رہے پھر اس نے فری اسٹائل فٹ بال کا آغاز کر دیا۔ فٹ بال اس کے ٹخنوں، گھٹنوں، سینے، کہنی، کندھوں اور سر پر ناچتی رہی پر گری نہیں۔ بچے اب حیرت سے ہُو ہُو کی آوازیں نکال رہے تھے۔
’’تم نے کہاں سے سیکھی؟‘‘ وہی چھوٹا لڑکا اسے مشکوک انداز سے دیکھ رہا تھا۔
’’ابھی تم نے ہی تو سکھائی ہے، تمہیں پتہ ہے تم ایک اچھے استاد ہو۔‘‘ سالم نے اس کے بال بکھیرے۔
خواتین میں سے بوڑھی عورت نے آگے بڑھ کر سالم کا شکریہ ادا کیا۔
’’مرحبا یا ماما۔‘‘
’’یہ تمہاری حرمہ ہے؟‘‘
’’آئیوا!‘‘
’’ہندی لگتی ہے، کیا عرب نہیں ملی تھی؟‘‘
’’مسلمان ہے ماما۔‘‘
’’پھر عربی کیوں نہیں آتی؟‘‘
’’سمجھ لیتی ہے آ بھی جائے گی۔‘‘
’’اچھا پھر میں بات کرتی ہوں۔‘‘
سالم نے سر ہلا دیا۔
’’ہندی ہو؟‘‘
’’باکستانی۔‘‘ بدر نے فوراً تصحیح کی تھی۔
’’ہم بحرین سے ادھر خریف دیکھنے آئے ہیں سیر کر کے واپس جائیں گے۔‘‘
بدر نے اوپر نیچے سر ہلایا۔
’’تم بہت خوبصورت ہو، میری چھوٹی بہن تھی وہ بھی بہت خوبصورت تھی۔ ایسی چاند جیسی صورت، ایسا ہیرے جیسا تراشا ہوا بدن۔‘‘ بوڑھی عورت نے اپنی انگلیاں اٹھا کر فضا میں چھوٹی بہن کے جسم کی تصویر کھینچی۔ ’’ایسا خوبصورت بدن اور چہرہ تھا کہ شاہراہ پر سیارے (گاڑیاں) جام ہو جاتے تھے۔ دش دش…‘‘ اماں نے ہاتھ سے ہاتھ جوڑ کر گاڑیوں کے ٹکرانے کا بھی نقشہ کھینچا۔
’’اف خدایا کس قدر بے باک لوگ ہیں۔ مرد شرم کرتے ہیں نہ عورتیں حیا کھاتی ہیں۔ بے بے اپنی عمر کا ہی بھرم رکھ لو بہن کی جسمانی تفصیل بتائے بنا کون سا تمہیں نیند نہ آتی۔‘‘ بدر نے کوفت سے دیکھا کہیں سالم دیکھ یا سن تو نہیں رہا لیکن وہ گاڑی کے قریب پہنچ چکا تھا۔ بدر نے بھی اس کی طرف اشارہ کر کے جان چھڑا کر سالم کے پیچھے دوڑ لگا دی۔
واپسی کے سارے راستے وہ اسے کلف لگا، اکڑا، مغرور، خود پسند اور رعونت بھرا وہ عربی لگا جس کے بارے میں وقاص اور اس کے قبیل کے لوگ باتیں کیا کرتے تھے کہ یہ عرب بڑے خود پسند ہیں۔ نسلی تکبر اور تعصب ان پر ختم ہے۔ یہ پاک و ہند کے مسلمانوں کو مسلمان ہی نہیں سمجھتے وغیرہ وغیرہ۔
’’سالم ایسا ہوتا تو مجھ سے شادی ہی کیوں کرتا؟‘‘ سارے کاغذات دیکھنے کے بعد یہ پہلا لمحہ تھا کہ اس نے اسے شوہر تسلیم کیا۔ یہی پہلا لمحہ تھا جب اس کا دل کیا وہ اسے وضاحت سے دیکھے، بنا کسی شک کے، اپنا مان کر۔ اس نے دیکھنا چاہا تو وہ کمرے میں جا چکا تھا۔ وہ بھی کمرے میں چلی آئی، اسے ہر شے اجلی لگ رہی تھی۔ ذہن سے اندیشوں کے بادل ہٹنے کی دیر تھی کہ جسم ہلکا ہو کر ہواؤں میں اڑنے لگا۔ چلتے چلتے وہ شیشے کی سامنے جا کھڑی ہوئی اور پھر خود ہی شرما کر نظر پھیر لی۔ کتنے عرصے بعد اسے اپنا حسین ہونا پیارا لگا تھا، اپنے چہرے سے محبت محسوس ہوئی تھی ورنہ تو اسے اس حسن نے تکلیف میں ڈال کرخود سے نفرت ہی کروا دی تھی۔ بدر نے اس کی کی شاپنگ سامنے پھیلائی سب سے اچھا دکھنے والا سوٹ اٹھایا اور واش میں گھس گئی۔ شاور کے بعد اسے اپنا آپ اور نکھرا نکھرا لگنے لگا، کوئی ترنگ تھی جو اسے سرشار کیے جا رہی تھی۔ کوئی تحفظ کا احساس تھا جس نے اس کی ساری فکریں چھین لی تھیں۔ اس کا روم روم خدا اور خدا کے بعد اس ایک شخص کا شکر گزار ہو رہا تھا جس نے وسیلہ بن کر اس کے حل نہ ہونے والے مسائل حل کر دیئے تھے۔ جس نے کہا تھا تم میری حرمت ہو اور میں اپنی حرمت کی دل و جان سے قدر کرتا ہوں۔
’’بدر جہاں حرمہ سالم حداد۔‘‘ اس نے زیر لب دہرایا تو پھریری سی آ گئی۔
’’آپ کا شکریہ ادا کرنا واجب ہو گیا۔ کھانا کھلاتے ہوئے بات شروع کروں گی۔ کھانا ایسا ہونا چاہیئے جو سالم بھی کھا لے۔ چاول ٹھیک رہیں گے، ساتھ فروٹ کسٹرڈ بنا لیتی ہوں۔ بالکل ٹھیک ہے۔‘‘
وہ مجلس میں آئی تو کہیں کوئی ہلچل نہ تھی۔ بے تحاشا دھڑکتے دل اور بدلے احساسات لیے وہ کچن میں چلی آئی۔ لیفٹ اوور چکن کڑاہی کا جائزہ لیا، کافی مقدار میں پڑی تھی۔
’’آرام سے چاولوں میں استعمال ہو سکتی ہے۔‘‘ مطمئن ہو کر چاول بھگو دیئے۔ کسٹرڈ بنانے کے لیے سارے دراز چھانے لیکن کسٹرڈ پاؤڈر نہ ملا تو تھوڑے سے چاول پیس کر بھگو ڈالے تاکہ میٹھے میں ارجنٹ بنیاد پر کھیر بنا سکے۔ ڈرائی فروٹ ویسے ہی وافر مقدار میں تھا، اس نے تو ایک دانہ بھی نہ چکھا تھا البتہ سالم اول روز سے کھا رہا تھا۔ اسے وقاص اور باقی کمپنی سے اتنی معلومات تو مل ہی چکی تھی کہ عربوں کی پسندیدہ خوراک میں گوشت، خشک میوہ جات، کھجور، دودھ اور شہد شامل ہے۔
وہ جتنی دیر کچن میں رہی چمچ ہلنے پر بھی دل بے اختیار دھڑک دھڑک گیا۔
اس نے بطور بیوی وقاص کے ساتھ بھی وقت گزارا تھا۔ وقاص کے ساتھ رہتے حتٰی کہ کمرہ شیئر کرتے بھی اسے کبھی احساس نہ ہوا کہ وقاص کوئی مرد ہے یا اس کا شوہر ہے۔ شادی کے وقت جو لطیف احساسات ذرا جاگے بھی تو اس کے طرز عمل سے میٹھی نیند سو گئے تھے۔ اسے تو یہی لگتا تھا مرد ایسے ہی ہوتے ہیں اور شوہر بھی لیکن یہ جو سالم حداد تھا یہ کیسا شخص تھا جس کا سایہ بھی حقیقی محسوس ہوتا تھا جو دیکھتا تھا تو بنیادیں ہلا ڈالتا تھا جو بولتا تھا نظریں جھکانے پر مجبور کر دیتا تھا۔ جس نے زبان کی، تو کر کے نبھا دی۔ ایسی بلا خیز آفتوں سے اس نے نا صرف اسے نکال دیا تھا بلکہ اپنی ناموس بھی بنا لیا تھا۔ ایسا زبان کا دھنی کہ جس نے اس کا میاں بیوی کے رشتے پر اعتماد بحال کر دیا تھا۔ بدر اب اسے جلد از جلد شکریہ کہنے کی خواہاں تھی۔ اس کی ناراضی دور کرنے کی متمنی تھی تو وہ کمرے سے ہی نہیں نکل رہا تھا۔
’’خود دیکھ لیتی ہوں۔‘‘
سر پر دوپٹہ اوڑھ کر ہلکے ہلکے قدم رکھتے اس نے دروازہ کھولا تو بیڈ خالی تھے۔ وہ اندر آ گئی تاکہ واش روم چیک کر سکے وہ بھی خالی تھا۔ اب کہ بدر کے دل میں ڈر سا پیدا ہوا۔ وہ جلدی سے مجلس میں آئی بیرونی دروازہ تو بولٹ نہیں تھا پہلے بدر نے غور ہی نہ کیا تھا۔
’’وہ کب باہر گیا مجھے پتہ کیوں نہیں چلا، شاید تب جب میں شاور لے رہی تھی۔ میرے خدا یہ تو بہت وقت ہو گیا، اب تک گھر کیوں نہیں آیا۔ کہیں کچھ ہو تو نہیں گیا۔‘‘
اس کا دھیان جنگلی حیات کی طرف فوراً ہی گیا۔ وہ بے چین ہو کر باہر نکل آئی۔ وہ اسے کہیں نظر نہیں آ رہا تھا۔ بدر روہانسی ہو کر اسے ڈھونڈتی رہی۔ لے دے کر اب وہ ڈھلوان ہی بچی تھی جس کے نیچے سمندر گھاٹی کی صورت بہتا تھا۔ وہ جوں جوں آگے بڑھتی گئی خالی چٹان اس کا دل دہلاتی گئی۔
’’مجھے خوشیاں کیوں راس نہیں آتیں؟‘‘ دھندلی پڑتی آنکھوں کی وجہ سے وہ کئی بار پھسلی۔ چٹان پر پہنچ کر نیچے جھانکا تو نیچے بھی کوئی نہیں تھا۔ اس نے بلا تکلف آواز دی۔
’’سالم، سالم آپ کہاں ہیں؟‘‘ اب کہ آواز بھی بھیگ گئی۔
’’یہاں ہوں۔‘‘
’’مجھے نظر نہیں آ رہے۔‘‘ جان میں جان آئی تھی۔
’’نیچے آ کر دیکھ لو چٹان کے نیچے ہوں۔‘‘
’’آپ ٹھیک ہیں؟‘‘
’’پتہ نہیں۔‘‘
’’میں، میں نیچے آ رہی ہوں آپ وہیں رہیں۔‘‘
’’زخمی ہوا تو کیسے مدد کروں گی؟ لیکن وہ چٹان کے نیچے کیسے اور کیوں گیا؟ شاید سلپ ہو کر گر گیا۔ اف کتنی چوٹ لگی ہو گی۔‘‘
بار بار پھسلتی جوتی کے ساتھ سنبھل سنبھل کر نیچے جاتی بدر کو قدرے دھیمے چلتے پانی میں کچھوا تیر کر واپس سمندر کی طرف جاتا بھی نظر آیا۔ بدر کو انگریزی فلمیں یاد آ گئیں جن میں ایسی جگہوں پر مگرمچھ اور سانپ وغیرہ لازمی دکھائے جاتے تھے جو کسی نہ کسی کو اپنے خوراک بھی بناتے تھے۔ ڈرتے ڈرتے رگڑیں کھاتے اس نے چٹان سے نیچے اس جھیل کے کنارے پر پیر ٹکائے اور ایک بار پھر سالم کو پکارا۔
’’سالم۔‘‘
’’جی حیاتِ سالم۔‘‘