سلسلہ وار ناول

کسی اجنبی سے دیار میں: قسط نمبر 9

’’کسی صورت اس سالم پر بھی اعتبار نہیں کیا جا سکتا نکاح تو مذاق بنا رکھا ہے ان سب نے۔ یہ بھی کسی طور طبوق سے کم نہیں ہے چند دن کی عیاشی کو شادی کہہ دینے سے وہ شادی تو نہیں بن جائے گی۔ مجھے بس کاغذات مکمل ہونے تک اور طبوق کا خطرہ ٹلنے تک خود کو اس شخص کا کھلونا بننے سے بچانا ہے۔‘‘ دل نے اسے شاباش دی کہ بالکل صحیح رخ پر سوچ رہی ہو۔
’’لیکن بچاؤ کیا کس طرح جائے؟‘‘دماغ نے اگلا لائحہ عمل سوچنا شروع کیا۔
’’کمرے کو اسی طرح لاک رکھنا ہے اگر اس نے دروازہ وغیرہ توڑنے کی کوشش کی تو شیخ طبوق کی طرح اس شیخ کا بھی سر توڑ دینا ہے۔‘‘
دل نے پھر پہلے سے بڑھ کر شاباش دی حوصلہ کچھ اور بلند ہوا۔
’’مارنے کے لیے کوئی چیز پاس ہونی چاہیے… کون سی چیز، کون سا ہتھیار؟‘‘متلاشی نظریں بیڈ روم کا کونا کونا چھاننے لگیں۔
کوئی ایسی چیز نہیں تھی جو بطور ہتھیار استعمال کر سکتی۔
’’ڈرائنگ روم کے کونے میں پیتل کا گلدان پڑا ہے وہ بالکل ٹھیک رہے گا۔‘‘
بدر نے جلدی سے اٹھ کر کان دروازے کے ساتھ لگائے، باہر سے کوئی آواز نہیں آئی۔
’’اس کا مطلب ہے وہ شاید ابھی تک ٹوائلٹ میں ہے یہی موقع ہے۔‘‘ آہستہ روی سے دروازے کا بولٹ گرایا، ذرا سا مجلس میں جھانک کر دیکھا… وہ باہر نہیں تھا، بدر نے بھاگ کر گلدان اٹھایا عبایا کو ایک ہاتھ سے پکڑ کر تیزی سے کمرے میں داخل ہوئی اور پھر سے دروازہ بولٹ کر لیا۔ اب ذہنی طور پر وہ قدرے پرسکون ہوئی تو بلندی کے سفر کی باعث بند ہوئے کانوں اور سر میں ہوتے دھماکے محسوس ہونے لگے۔ عبایا بھی گیلا لگنے لگا، بال بھی گیلے لگنے لگے اور چائے کی بھی طلب ہونے لگی۔
’’چائے تو نہیں مل سکتی باقی جو اختیار میں ہے وہ تو کروں۔‘‘ عبایا اتارا اور بالوں کا جوڑا کھول دیا۔ اب سفید ریشمی فراک بھی گیلی لگنے لگی، چوڑی پاجامے کی چوڑیوں میں پھنسی ساحل کی ریت چبھنے لگی، چبھن اور گیلا پن جگہ جگہ خارش پر اکسانے لگا۔
’’کس مصیبت میں پھنس گئی ہوں۔‘‘ نفیس طبیعت پر ایسی صورت حال گراں گزر رہی تھی۔
’’سوٹ تو اس سالم صاحب نے خریدے تھے لیکن باہر سے لائے کون؟‘‘
’’اس کے خریدے کپڑے تو ہرگز نہیں پہننے۔‘‘
دل و دماغ میں انتہائی پرسنل لباس کی بابت اس کا بولا جملہ گونجنے لگا۔
’’میرا اندازہ غلط ہوا تو پھر نہ کہنا۔‘‘
غصہ واپس عود کر آیا…
’’بے شرم، بے ہودہ انسان۔‘‘
ٹہلتے ٹہلتے باتھ کا دروازہ محتاط طریقے سے کھولا۔ اندر جھانک کر کاکروچ تلاش کیا نہیں ملا تو اندر داخل ہو گئی۔
واش بیسن کے سامنے کھڑے ہو کر جوڑا بنا کر صابن سے اچھی طرح ہاتھ منہ دھویا۔ پیر دھوئے چوڑی پاجامے کی چوڑیاں کھول کھول کر دھو کر ریت نکالی۔
سچ ہے بڑا مسئلہ حل ہو جائے تو چھوٹے چھوٹے وہ مسائل بھی تنگ کرنے لگتے ہیں جن کی طرف پہلے دھیان ہی نہیں جاتا۔ اب وہ پھر سے بیڈ کے پاس کھڑی تھی پھر بیٹھی اور اس کے بعد ہمت کر کے لیٹ بھی گئی۔ لیٹی تو کمبل لینے کی طلب بھی جاگ گئی۔ شدید گرمیوں کے موسم میں ایسی ٹھنڈ کا اس کا زندگی میں پہلا تجربہ تھا۔ دکھتے سر کے ساتھ اوپر لینے کے کوئی چادر ڈھونڈتے نظر الماری پر پڑی اس پر بھی نارنجی مضبوط شاپر لگا کر اسکاچ ٹیپ چپکائی گئی تھی۔ بدر نے غور کیا تو تقریباً سب قابل ذکر اشیا مومی کاغذ میں لپیٹی نظر آ رہی تھیں۔ وہ وجہ سوچتی بیڈ شیٹ کھینچ کر اوپر لیتی لیٹ گئی۔ جسم کو گرمائش ملی تو سب پیارے رشتے یاد آنے لگے۔ آج پہلی دفعہ میجر طلال البلوشی کے وعدے کے پیش نظر اس نے ان سب سے زندہ اور باعزت طور پر ملنے کی امید باندھی۔ بے اختیار اماں سے لپٹ کر رونے کو دل کیا، بہنیں ، بھائی، بھاوج اور بھتیجا ایک ایک رشتہ نظروں کے سامنے آ کر دل پگھلانے لگے۔
’’میجر نے کہا تھا کچھ وقت ’’اس‘‘ کے ساتھ ’’اکیلے‘‘ گزارنے سے شیخ طبوق والا مسئلہ بھی ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گا۔ کب گزریں گے یہ چند دن، کب پاکستان اپنے گھر جاؤں گی؟‘‘
’’ہر وقت اس سے کیسے بچا جائے گا؟ یہ تو ہے بھی بالکل مختلف، اس کی آنکھوں میں ذرا بھی لحاظ نہیں ہے جب بھی دیکھتا ہے تو۔‘‘بدر نے اگلی بات دل کی دل میں دبا لی سوچنے کا بھی حوصلہ نہ ہوا۔
’’وقاص کے ساتھ بھی تو اتنا وقت صرف ایک کمرے میں گزارا ہے وہ کتنا اچھا تھا۔‘‘
’’اچھا تھا؟‘‘ ضمیر بلبلا اٹھا۔
’’کوئی غیرت کی گولی کھا بی بی یہ اسی کی اچھائی کا نتیجہ ہے جو طبوق سے ہوتی ہوئی اس اجنبی سالم کے ساتھ انجان پہاڑوں میں گھرے ویرانے میں اکیلی بیٹھی ہو۔‘‘ دماغ کے لتاڑنے سے وہ فوراً شرمندہ ہو بھی گئی۔ بیڈ کے سرہانے کی طرف لگے چھوٹے ونڈو سے لگاتار بارش کی تڑ تڑ سنائی دے رہی تھی۔
’’ایسے تو کبھی نیند نہیں آئے گی، پتا نہیں میں ایسی عجیب کیوں ہوں لوگ تھکے ہوئے ہوں تو انہیں بے حد نیند آتی ہے مجھے تھکاوٹ ہو تو نیند پاس بھی نہیں آتی۔‘‘ وہ خود پر جھنجھلا ہی گئی۔
گھر میں جب وہ زیادہ کام کرتی تو تھکاوٹ سے نیند ہی نہ آتی ، پہلے چائے کے ساتھ پینا ڈول ایکسٹرا کھایا کرتی پھر تاج سر دباتی اس کے بعد کہیں نیند مہربان ہوتی تھی۔ نہ یہاں چائے تھی نہ پینا ڈول اور نہ ہی تاج۔
سرہانے والی ونڈو سے بارش کے علاوہ بھی عجیب سی سرسراتی آوازیں آنے لگیں، اس نے وقت دیکھا رات کا ڈیڑھ بج رہا تھا۔
اس کی سنی اور پڑھی کہانیوں کے مطابق رات بارہ کے بعد سے جنوں بھوتوں کا وقت شروع ہو چکا تھا۔ خشک ہوتے گلے کے ساتھ بدر فوراً اٹھ کر بیٹھ گئی۔ اپنی اب تک کی زندگی میں وہ آج تک کسی کمرے میں اکیلی نہ سوئی تھی۔ چھوٹا سا کمرہ ان بہنوں سے اوور لوڈڈ ہی ہوا رہتا تھا۔ اور تو اور فراڈ شادی کے وقت بھی وقاص اسی کمرے میں الگ صوفے پر ہوتا تھا۔ وہ تسلی سے اپنی نیند پوری کیا کرتی تھی۔ بعد کے مراحل میں تو دو تین لڑکیاں کمرے میں ہوتی تھیں۔ آج پہلا موقع تھا پہاڑوں میں گھرے گھر کے کسی کمرے میں اکیلے سونے کی کوشش کرتی وہ باہر سے آتی آوازوں سے مزید دہلتی جا رہی تھی۔
’’ہوائی مخلوق زیادہ تر پہاڑی علاقوں میں رہتی ہے خاص کر عرب کے صحرا اور پہاڑ ان کا پسندیدہ ٹھکانہ ہیں۔‘‘
یوٹیوب پر دیکھی ڈاکومنٹری پوری جزئیات سے دماغ میں چکرانے لگی۔
’’انسان کا مقابلہ کرنا آسان ہے ایسی مخلوق جو نظر ہی نہیں آتی اس سے کوئی مقابلہ نہیں۔‘‘ بدر کے دل نے دماغ کو ہدایت دی اور اگلے ہی لمحے پسینے سے تر گردن لیے وہ باہر مجلس میں تھی۔
سامنے ہی وہ سلیو لیس اور شارٹ میں بیٹھا اطمینان سے چاول کھا رہا تھا۔ اس کے حلیے کو دیکھ کر بدر کو بھی اپنے دوپٹے کا خیال آیا، نیٹ کا سفید دوپٹہ تو وہ حسین کے گھر چھوڑ آئی تھی، عبایا کے ساتھ کا سیاہ اسکارف بیڈ کے کونے پر سوکھنے کے لیے ڈالا ہوا تھا۔ شدید خوف کے حملے سے وہ ہر شے سے بے نیاز باہر نکلی تو آگے وہ بھی آدھے ادھورے کپڑوں میں پورے کروفر سے بیٹھا تھا۔
بدر نے سیاہ شیفون کا اسکارف دوپٹے کے انداز میں اوڑھا اور اس سے قدرے فاصلے پر کھڑی ہو گئی۔
’’کھانا کھا لو۔‘‘
’’مجھے بھوک نہیں ہے۔‘‘
’’شادی کی خوشی میں کنافہ کھانا تو بنتا ہے۔‘‘ وہ سفید باکس کھول کر زرد سویاں بکھرے کیک نما میٹھے کی طرف اشارہ کر رہا تھا۔
’’ہم عمانیوں کی تقریبات کھجور کے حلوے اور کنافہ کے بغیر نہیں ہو سکتیں، اسی لیے دیکھو معتصم نے اتنے ٹینس حالات میں بھی کنافہ خرید ہی ڈالا۔‘‘ وہ مسکرایا۔
وہ ٹس سے مس نہ ہوئی۔
’’کھانا کھا کر پینا ڈول کھا لو سر درد سے نجات مل جائے گی۔‘‘ وہ ڈیڑھ لیٹر والی پانی کی بوتل اٹھا کر لمبی دھار منہ میں گرا رہا تھا، بدر اسے دیکھے گئی۔ وہ اس پر اپنا خوف کسی صورت آشکار نہیں کرنا چاہتی تھی۔
’’کچھ کہنا ہے؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
سالم نے سر ہلایا اور کھڑے ہو کر اپنے لمبے بالوں میں انگلیاں پھیر کر کندھوں پر ڈالے، صاف لگ رہا تھا وہ شاور لے کر آیا ہے۔ اب اس نے صوفے پر پڑی سیاہ چمکدار گن اٹھا لی۔
’’یہ جگہ بالکل سیف ہے نا؟‘‘
سالم نے اب اسے غور سے دیکھا۔
’’بس چیتا اور بھیڑیے کبھی کبھار گھر میں گھس آتے ہیں ویسے بالکل سیف ہے۔‘‘ اس کے لہجے میں محسوس کی جانے والی لاپرواہی تھی۔
’’چیتا اور بھیڑیا۔‘‘
’’کبھی کبھار گیڈر اور لومڑیاں بھی تنگ کرنے آ جاتی ہیں لیکن کبھی کبھار۔‘‘ وہ ایک بار پھر مسکرایا اور گن سے سیفٹی کیچ ہٹا کر چیک کیا۔
’’اس کے ہوتے ہر شے سے نمٹا جا سکتا ہے۔‘‘
بدر کے دیکھتے دیکھتے وہ سامنے والے بیڈ روم میں چلا گیا۔
’’شیر، چیتے، لومڑ سب سے لڑا جا سکتا ہے جنات سے نہیں۔‘‘ بدر نے پھر سے اپنی پہلے والی بات دہرائی اور دھاڑ سے اس بیڈ روم کا دروازہ کھولا جس میں وہ گیا تھا۔ شمال ، جنوب کی دیواروں کے ساتھ ایک ایک سنگل بیڈ لگا ہوا تھا۔ وہ کمرہ یقینی طور گھر کے بچوں کا تھا۔
’’ڈر لگ رہا ہے تو ادھر سو جاؤ۔‘‘ اس نے جنوبی بیڈ کی طرف اشارہ کیا اور خود گن اپنے سرہانے رکھی۔
شیفون کے کم چوڑائی والے چھوٹے سے اسکارف سے اس کے کمر کے خم سے کہیں نیچے جانے والے بال اب اس کی پشت پر سفید بیڈ شیٹ پر پڑے تھے۔ وہ پاؤں نیچے لٹکائے بیٹھی رہی۔ اس کمرے میں بھی شاپر سے ڈھکی الماری موجود تھی۔ سالم نے اپنی مضبوط انگلیوں کی مدد سے ٹیپ توڑ کر الماری کا پٹ کھول لیا۔ بدر کو تہہ لگے کمبل سامنے پڑے نظر آئے۔ اس نے ایک کمبل اٹھا کر اس کی طرف پھینکا تو بدر نے کیچ کر لیا۔
فل اسپیڈ پر پنکھا چلا کر اب وہ لیٹ چکا تھا۔ جھجکتے ہوئے بدر نے ٹانگیں سمیٹ کر بیڈ پر رکھ لیں اور بالآخر کمبل اوڑھ کر لیٹ ہی گئی۔ سالم نے اپنے بیڈ کے پاس لٹکتے بٹن سے لائٹ نائٹ موڈ پر کر دی۔
پہلے تھکاوٹ اور ڈر کی وجہ سے نیند نہیں آ رہی تھی اب اس کی وجہ سے نیند آنے کا کوئی امکان نہیں تھا۔ جانے کتنی دیر وہ دم سادھے منہ سر کمبل میں دیے وہ لیٹی رہی۔ اس کی بھاری سانسیں کمرے میں گونجتی بتا رہی تھیں وہ سو چکا ہے۔ بدر نے تھوڑی بے فکری سے کروٹیں بدلنی شروع کر دیں۔
پانچویں کروٹ بدلنے پر ایک دم کمرہ روشنی میں نہایا تھا۔
بدر فوراً آنکھیں میچ گئی۔ وہ بیڈ روم سے نکل کر کہیں گیا اور پھر واپس آ گیا۔
’’بدر… بدر…‘‘
دوسری آواز پر وہ فوراً ہی اٹھ کر بیٹھ گئی مبادا وہ ہاتھ بڑھا کر چھو ہی لے۔
’’یہ رسی پکڑو اور مجھے جیسے چاہو باندھ دو تاکہ تمہیں تسلی تو ہو۔‘‘ وہ نیند سے بوجھل گہری سرخ آ نکھوں اور بھاری ناراض آواز میں رسی اس کی طرف بڑھاتے بولا۔
’’کک… کیا مطلب؟‘‘
’’اتنی بے خبر نہیں ہو کہ میری بات کا مطلب نہ سمجھو، تمہیں غلط فہمی ہے کہ جاگ کر اپنی حفاظت کر لو گی۔ میں اسپورٹس مین ہوں ڈاکو نہیں ہوں۔ عام لوگوں سے زیادہ اسٹیمنا ہے اپنے جذبات و افعال کنٹرول کرنا اچھی طرح جانتا ہوں۔‘‘
اپنے دل کا چور پکڑے جانے پر وہ شرمندہ ہی ہو گئی۔
’’میں بہت دن سے نیند نہیں لے سکا پلیز یہ کروٹیں بدلنا، سرسرانا بند کرو تاکہ میں اپنی نیند پوری کر سکوں۔ اب اگر ایک بھی سرسراہٹ مجھ تک پہنچی تو واللہ میں تمہیں اٹھا کر اپنے بیڈ پر لے آؤں گا۔‘‘
اس کے بعد تو بدر نے ڈرتے ہوئے سانس بھی مدھم کر لی خدا جانے کب اسے نیند آئی تھی۔
٭…٭…٭

1 2 3 4اگلا صفحہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

You cannot copy content of this page