بیٹیاں بوجھ ہوتی ہیں : رابعہ ناز چشتی
’’ بابا آپ تھک جائیں گے۔‘‘ لال دین نے اپنی پیاری بیٹی کو کندھوں پر اٹھا رکھا تھا ۔
’’ بابا نہیں تھکتا میری جان ۔‘‘ لال دین نے لاڈ سے کہا ۔
’’ آپ سے چلا نہیں جائے گا بابا ۔‘‘بیٹی کو ابھی بھی باپ کی ہی فکر تھی۔
’’ میں آپ کو کندھوں پر اٹھا کر چل تو کیا دوڑ بھی لگا سکتا ہوں میری جان ۔‘‘ لال دین نے اپنی پیاری بیٹی کی فکر کو دور کرنا چاہا ۔ وہ کھلکھلانے لگی مگر ابھی بھی اس کی تشفی نہ ہوئی تو دوبارہ بولی ۔
’’ بابا آپ کو بوجھ محسوس ہو رہا ہوگا مجھے نیچے اتار دیجئے۔ ‘‘ اس کی بات پر لال دین کے دل پر گھونسا پڑا۔ اس نے بچی کو نیچے اتار کر اپنے سامنے کیا اور ہونقوں کی طرح اس کی شکل دیکھنے لگا ۔ ابھی اس کی عمر تو نہیں تھی یہ بات کرنے کی پھر اس نے کیوں کی ۔ سوچوں کے تانے بانے میں الجھتے ہوئے اس نے بیٹی کو گلے لگایا اور کہا ۔
’’ بیٹیاں بوجھ نہیں ہوتیں میری جان راحمہ …‘‘
٭…٭
وقت کا کام ہے پَر لگا کر اڑ جانا سو اڑ گیا۔
آج راحمہ نے بی اے میں فرسٹ ڈویژن حاصل کی لال دین کی خوشی کی انتہا نہ تھی ۔ وہ بار بار بیٹی کے چہرے کو والہانہ انداز سے تکتا جو جیت کی خوشی سے تمتما رہا تھا ۔
’’بابا میں یونیورسٹی میں ایڈمیشن لینا چاہتی ہوں ۔‘‘ راحمہ نے کہا کیوں کہ آج کل اس کی اماں زور و شور سے رشتہ دیکھنے کی کوششوں میں مصروف تھیں ۔
’’ ہم کل ہی شہر کی بہترین یونیورسٹی میں اپنی بیٹی کا ایڈمیشن کروائیں گے۔‘‘ لال دین کی گردن اس وقت فخر سے تنی ہوئی تھی جب کہ مسز لال دین تو اس بات پر’’سر پہ لگی تلوؤں بجھی‘‘ والی کیفیت میں آگ بگولہ نظر آئیں ۔
لال دین نے ان کو ٹھنڈا کرنے کے لیے کہا ۔
’’ بھئی ایک ہی بیٹی ہے ہماری اور آج تعلیم ہوگی تو کل کو مشکل حالات کا مقابلہ کر سکے گی نا ۔ تعلیم انسان کو شعور عطا کرتی ہے بیگم۔‘‘
’’ انسان اور حیوان میں فرق شعور کا ہی تو ہے ۔‘‘ وہ آج بڑی مدبرانہ گفتگو کر رہے تھے ۔ راحمہ کو حیرت ہوئی اپنے ان پڑھ رسم و رواج میں جکڑے باپ کے منہ سے ایسی باتیں سن کے خیر یہ بھی نیک شگون تھا ۔
’’ مگر بابا میں ساتھ ساتھ جاب بھی کرنا چاہتی ہوں تاکہ کسی پر بوجھ نہ بن سکوں ۔‘‘ راحمہ کے منہ سے یہ الفاظ نکلے تو لال دین نے تڑپ کر اس کی جانب دیکھا ۔
’’ بیٹیاں بوجھ نہیں ہوتیں میری جان راحمہ …‘‘
٭…٭
کہتے ہیں محبت اندھی ہوتی ہے ۔ محبت واقعی اندھی ہوتی ہے اونچے گھرانے کی اکلوتی راحمہ کو چھوٹے گھرانے کا راحیل پسند آ گیا ۔ محبت یہ ذات پات اونچ نیچ کہاں دیکھتی ہے ۔ پتہ ہی نہیں چلا کب نظریں چار ہوئیں ، قول و قرار ہوئے اور آج راحیل نے راحمہ کے گھر رشتہ بھیج دیا ۔ لال دین نے مہمان نوازی کا حق ادا کر دیا مگر یہ کیا ان کے جاتے ہی وہ گرگٹ کی طرح رنگ بدل گئے ۔
’’ یہ لڑکا تم نے پسند کیا ہے ۔نہ گھر نہ بینک بیلنس نہ پراپرٹی محض شکل اور ایک ڈگری۔‘‘ راحمہ نے بے یقینی سے اپنے باپ کو دیکھا ۔ اس کے ہزاروں دلائل کے باوجود لال دین نے اپنے دوست کا لائق فائق بیٹا پسند کر لیا ۔ امریکہ کی نیشنیلٹی ، بینک بیلنس ، جائیداد سب کچھ تو تھا جو وہ چاہتے تھے ۔ مگر وہ کچھ نہیں تھا جو راحمہ چاہتی تھی ۔ یوں ہتھیلی پر سرسوں جما اور راحمہ کا دانہ پانی اس گھر سے اٹھ گیا ۔ اونچے شملے ذات پات اونچ نیچ کے سامنے محبت ہار گئی ۔ سنا تھا زمانہ جاہلیت میں لوگ بیٹیوں کو بوجھ سمجھ کر زندہ درگور کر دیتے تھے ۔ آج بھی ایک بیٹی محبت کے جرم میں زندہ درگور ہوئی بوجھ سمجھ کر۔
پھولوں سجی سیج پر بیٹھی وہ سوچ رہی تھی۔
’’کیا بیٹیاں بوجھ ہوتی ہیں؟‘‘
٭…٭
حسن مرزا ، راحمہ کا شوہر رئیس خاندان کا تھا ۔ اسے بیوی نہیں پارٹیز کے لیے ماڈل چاہئے تھی اور راحمہ اس کے معیار پر پورا نہیں اتر پا رہی تھی ۔ اس لیے ایک ماہ بعد ہی طلاق کے کاغذات تھما کر پاکستان واپس بھیج دیا گیا ۔ لال دین کی تو مانو دنیا ہی لُٹ گئی ۔ خاندان بھر میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں ۔ لال دین جیسے عزت دار مرد کی عزت پر کاری ضربیں لگ رہی تھیں ، اسی لیے لال دین نے راحمہ کی دوسری شادی کا فیصلہ کیا جس پر راحمہ نے صاف انکار کر دیا ۔ دوپہر میں وہ پانی پینے کچن کی جانب جا رہی تھی کہ ماں باپ کے کمروں سے آتی آواز پر اچانک رک گئی
’’ میرے کندھوں پر بوجھ بڑھ گیا ہے شازمہ۔ میں سر اٹھا کر نہیں چل سکتا ۔ میں تھک گیا ہوں لوگوں کی باتوں سے راحمہ کو راضی کرو ۔‘‘
’’ بیٹیاں بوجھ نہیں ہوتیں میری جان راحمہ…‘‘ بچپن کی آوازیں کہیں پاتال میں گرنے لگیں اور راحمہ نے جانا شادی کے بعد بیٹیاں بوجھ لگنے لگتی ہیں ۔ معاشرے کی فرسودہ سوچ جیت جاتی ہے پھول سی بچیاں کملا جاتی ہیں ۔ ایک آنسو اس کی ویران آنکھ سے نکل کر رخسار پر لڑھکا اور عین دل کے مقام پر جذب ہو گیا۔
٭٭