ناولٹ

ارومیٹک ڈائین : احتشام شامی


ابا جی کی عدالت میں یہ میری تیسری اور آخری پیشی تھی۔
’’ابا جی، نمرہ کہتی ہیں، جو ہمیں کرنا آتا ہے وہی ہماری جان بچاتا ہے۔‘‘ انہوں نے ایک نظر سامنے کھڑی نمرہ پر ڈالی اور اس نے گڑبڑا کے مجھے دیکھا تھا۔
’’ہماری نمرہ نہیں، میں قلم کار نمرہ احمد کی بات کر رہا ہوں۔‘‘ میں نے افسوس سے ابا جی کو ’’آپ ناول نہیں پڑھتے‘‘ والی نظروں سے دیکھا تھا۔
’’اور صاحبزادے آپ کو کیا آتا ہے جو آپ کی جان بچائے گا؟‘‘ انہوں نے مجھے گھور کے دیکھا۔
’’آپ جانتے ہیں۔‘‘ میں نظریں جھکا کر بولا تھا۔
’’ہر سیمسٹر میں تمہارا سی جی پی اے گر رہا ہے اور تم جامعہ چھوڑ کر کچھ اور کرنا چاہتے ہو ….کیا یہ ہمارے لیے شرمناک بات نہیں ہو گی؟ ماسٹر شفیق کا بیٹا اور ایسا کام کرے گا؟‘‘ میں ان کی بات سن کر خاموش ہی رہا۔
ٖ’’ٹھیک ہے، اگر تم ایسا ہی چاہتے ہو تو کر لو، جو کرنا ہے۔‘‘ انہوں نے تاسف سے دیکھتے ہوئے اپنی کتاب میں سے ایک چیک نکال کر میری جانب بڑھا دیا۔
’’ابا جی، کوئی بھی پیشہ یا ہنر شرمناک نہیں ہوتا۔ اگر میں کامیاب ہو گیا تو جو لوگ باتیں بناتے ہیں، وہی رطب اللسان ہوں گے۔ میں آپ کو شرمندہ نہیں ہونے دوں گا۔‘‘ میں نے چیک پکڑتے ہوئے کہا تھا۔
’’یہ پیسہ میں نے تم دونوں کی پڑھائی کے لیے جوڑا تھا۔ سوچا تھا تمہارے کام آئے گا لیکن اس طرح نہیں۔ چلو خیر ہو گی اس میں بھی۔‘‘ انہوں نے محفل برخاست کی۔ میں متشکر نگاہوں سے انہیں دیکھتا باہر نکل آیا۔ آپ کو یقیناً تجسس ہو گا کہ میں کیا کرنا چاہتا تھا۔ چلیں میں آپ کو تفصیل سے بتاتا ہوں۔
میں امیر حمزہ ہوں۔
میرے ابا جی ایک سرکاری اسکول میں استاد تھے۔ شادی کے پندرہ سال تک انہیں اولاد نصیب نہ ہو سکی تھی۔ بہت علاج کروائے، دم درود، دعائیں لیکن ہماری آمد پندرہ سال بعد ہی ممکن ہو سکی تھی۔ اللہ جب دیتا ہے تو چھپڑ پھاڑ کے دیتا ہے، اسی محاورے کے مصداق نمرہ اور میں ایک ساتھ ہی تشریف لے آئے۔ ابا اور امی کے قدم زمین پر نہ ٹکتے تھے۔ انہوں نے ہم دونوں کو بہت لاڈ اور چاؤ سے پالا۔ کبھی کسی چیز کی کمی نہ ہونے دی۔ ابا جی اکلوتے بھائی تھے۔ ان کی دو شادی شدہ بہنیں دوسرے گاؤں میں آباد تھیں۔ دادا دادی پوتے پوتیوں کی آس لیے دنیا سے گزر چکے تھے۔ گھر میں ہم صرف چار افراد تھے۔ ہم تھوڑے بڑے ہوئے تو امی بیمار رہنے لگیں۔ کبھی گھٹنوں میں درد، کبھی یورک ایسڈ کا مسئلہ اور کام کرنے والی وہ اکیلی…
ایسے میں چھوٹے چھوٹے کاموں میں وہ ہم سے مدد لینے لگیں۔ میں بچپن سے معصوم اور شریف تھا جب کہ نمرہ تھوڑا شرارتی تھی۔ کام چور اتنی کہ کام دیکھتے ہی ادھر ادھر ہو جاتی۔ پھر میں ہی امی کے کام آتا۔ پیاز کاٹنا، لہسن چھیلنا، دھنیا چن کے دینا، چاول اور دالوں سے کنکر چننا، کھانا بناتے وقت چیزیں تھماتے جانا… وہ کپڑے دھوتیں تو میں تار پر پھیلا دیتا۔ اکثر جھاڑو اور پوچا کرنے میں بھی مدد دیتا۔
ناشتہ بنوا کے ہم سکول چلے جاتے تھے۔ واپس آ کر رات والے سالن کے ساتھ روٹی کھا لیتے۔ اصل کام شام کو ہوتا تھا۔ مزید بڑا ہونے پر میں سبزی کاٹنے میں بھی ماہر ہو گیا۔ سب کچھ تیار کر کے امی کے سامنے رکھتا اور انہیں کھانا پکاتے دیکھتا رہتا، کبھی سالن میں چمچ بھی چلا دیتا۔ یہ ایک دلچسپ کام تھا یا شاید مجھے لگنے لگا تھا۔ الگ الگ چیزیں کاٹنا، پھر انہیں یکجا کر کے ایک نئی چیز بنا لینا۔ مجھے چاول بہت پسند تھے۔ ایک دن امی کی طبیعت خراب تھی تو میں نے ان سے پوچھ پوچھ کر پہلی دفعہ چاول بنائے تھے۔ چاولوں کو کتنا بھگونا ہے، آلو کتنی دیر بھوننے ہیں، پکاتے ہوئے کتنا پانی ڈالنا ہے، کتنی دیر دم پر لگانا ہے۔ امی بتاتی گئیں اور میں کرتا گیا۔ سب نے کھا کر تعریف کی لیکن ابا جی سے ڈانٹ پڑی تھی۔
’’تم حمزہ کو لڑکیوں والے کاموں میں کیوں لگائے رکھتی ہو؟ یہ نمرہ کا کام ہے، اسے ہی کرنے دیا کرو۔‘‘ اگر انہیں پتا چلتا نمرہ کام کے وقت غائب ہو جاتی ہے تو اسے الگ سے ڈانٹ پڑتی۔ اس لیے ہم کچھ نہ بولے۔ کبھی کبھار جب امی کی طبیعت خراب ہوتی یا وہ گھر پر نہ ہوتیں تو میں سالن بھی بنا لیتا تھا۔
’’اگر تم پندرہ سال پہلے دنیا میں آ چکے ہوتے تو آج تمہاری بیوی یہ کام کر رہی ہوتی۔‘‘ اکثر امی کہتیں اور میں شرما جاتا۔
ابا جی اب عادی ہو گئے تھے۔ انہیں خبر تھی نمرہ ہر وقت کتابوں میں سر دیئے رکھتی ہے یا محلے کے لڑکوں کے ساتھ کھیل رہی ہوتی ہے۔ جب انہیں احساس ہوا وہ بڑی ہو رہی ہے تو اس کے باہر کھیلنے پر پابندی لگ گئی۔
’’مجھے لگتا ہے تم دونوں کی روحیں بدل گئی ہیں۔ جو فطرت تمہاری ہونی چاہیئے تھی، وہ نمرہ کی ہے اور نمرہ والی تم میں آ گئی ہے۔‘‘ ابا جی اکثر یہ بات کہنے لگے تھے۔
’’توبہ توبہ کیسی بات کرتے ہیں آپ۔‘‘ امی ہول کر انہیں دیکھتیں۔
اب میں اتنا ماہر ہو گیا تھا کہ ہر طرح کا کھانا با آسانی بنا لیتا تھا۔ گو اس کے ساتھ مجھے سب کی باتیں بھی سننا پڑتی تھیں۔
’’بہن، آج کیا پکا رہی ہو۔‘‘ محلے کی کوئی خاتون طنزیہ پوچھا کرتی۔
’’آپا کن کاموں میں لگا رہی ہیں آپ اس لڑکے کو۔‘‘ چھوٹی پھپھو آتیں تو اعتراض اٹھاتیں۔
’’لڑکیوں والے سب کام ہی آتے ہیں۔‘‘ بڑی پھپھو ہنکارا بھرتیں۔
ہم گاؤں میں رہتے تھے اور مخصوص ماحول میں جی رہے تھے۔ میں اب میٹرک میں تھا۔ ایسی باتیں دل پر لگتی تھیں لیکن نظر انداز کر دیتا تھا۔ میں انہیں بتانا چاہتا تھا جب آپ لوگ باہر کھانے جاتے ہیں تو وہ کھانا مرد حضرات ہی بناتے ہیں مگر کچھ نہ کہہ پاتا تھا۔ وقت مزید گزرا۔ ہم لوگ جامعہ میں داخلے کا سوچ رہے تھے۔ ابا جی کی مدتِ ملازمت پوری ہو چکی تھی اور اب پینشن پر گزارا چل رہا تھا۔ ساری بچت ہماری تعلیم کے لیے سنبھال لی گئی تھی۔ امی بوڑھی ہو چکی تھیں۔ نمرہ اب گھر کا تھوڑا بہت کام کر لیتی تھی لیکن میرے ہاتھ کا بنا کھانا سبھی کو پسند تھا۔
شہر کا ماحول دیکھ کر میں بہت سی حقیقتیں جان گیا تھا۔ پڑھائی میں دلچسپی نہ ہونے کے برابر تھی۔ جامعہ میں اکثر دوست ہاسٹل میں رہتے تھے۔ میں روز بائیک پر آتا جاتا تھا۔ وہ باہر سے کھاتے اور گھر کا کھانا یاد کر کے آہیں بھرتے رہتے۔ ایک سال تک میں نے ان کے سامنے اپنی کھانا پکانے کی مہارت کا مظاہرہ نہیں کیا تھا کہیں وہ بھی طنز نہ کرنا شروع کر دیں۔ میں گاؤں والوں کی باتوں کی وجہ سے خوفزدہ تھا۔
دوسرے سیمسٹر کے امتحان ہونے والے تھے۔ سب نے مل کر پڑھنے کا پلان بنایا۔ ہمیں ایک الگ تھلگ جگہ منتخب کرنا تھی۔ چار لڑکے اور تین لڑکیاں تھیں۔ میرا گھر گاؤں میں تھا، فراز اور طلحہ ہاسٹل میں رہتے تھے۔ لڑکیاں وہاں نہیں جا سکتی تھیں۔ شبلی کا گھر راولپنڈی میں ہی تھا لیکن اس کا مشترکہ خاندانی نظام تھا۔ سدرہ ہاسٹل میں رہتی تھی جب کہ مائرہ کا گھر دور تھا۔ ایسے میں صرف قرۃ العین بچی تھی جو اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھی۔ اس کے والدین ڈاکٹر تھے۔ گھر میں قرۃ العین کی پھپھو تھیں، جو معذور تھیں۔ یوں سب کا پلان اس کے ہاں جانے کا بنا۔ روزانہ یونی کے بعد ہم قرۃ العین کے گھر جاتے اور بارہ سے شام سات تک پڑھائی کرتے۔ ایک دو دن کھانا کک نے بنایا۔ تیسرے دن لڑکیوں نے خود معرکہ مارنے کا سوچا اور یوٹیوب سے دیکھ کر کھانا بنا لیا لیکن وہ اتنا اچھا نہیں بنا تھا۔ لڑکوں نے ان کا خوب مذاق اڑایا۔
’’اگر اتنا ہی آسان کام ہے تو تم لوگ کل بریانی بنانا۔‘‘ سدرہ نے ناک چڑھا کے ہمیں چیلنج کیا۔
’’ہاں ہاں، بنا لیں گے اور تم لوگوں سے اچھا بنائیں گے۔‘‘ طلحہ نے شیخی بھگاری۔ شبلی اور فراز بھی ساتھ مل گئے۔ میرے اندر کا باورچی جاگ گیا۔ اگلے دن ہم چاروں کچن میں تھے۔
’’دیکھو بھائی، لڑکوں کی ناک مت کٹوا دینا۔ یوٹیوب کھولو اور اچھی سی ترکیب نکالو۔‘‘ طلحہ نے ہدایات جاری کیں۔
’’یوٹیوب کی ضرورت نہیں۔ میں بنا لوں گا۔‘‘ میں الماریاں کھول کھول کر دیکھ رہا تھا۔ یہ جدید طرز کا خوبصورت باورچی خانہ تھا۔ بالکل ٹی وی شوز جیسا…
’’ہاں بھئی باورچی حمزہ سب بنا لے گا۔‘‘ تینوں نے مذاق اڑانے والے انداز میں مجھے دیکھا۔ میں مسکرا دیا تھا۔
ایپرن باندھ کر میں نے پیاز ٹماٹر مرچیں وغیرہ انہیں کاٹنے کو دیں اور حساب سے چاول نکال کر بھگو دیئے۔ مرغی دھو کر رکھی۔ تینوں مجھے حیرت سے تک رہے تھے۔ مصالحہ بنا کر اس میں مرغی شامل کی اور اچھی طرح بھون لیا۔ ساتھ ہی میں نے چاول ابالنے کے لیے پانی چولہے پر چڑھایا۔ امی کی ہدایات ذہن میں تھیں اور پکانے کاتجربہ بھی تھا۔ چاول ایک کنی رہ گئے تو پانی نتھار لیا۔ الگ دیگچی میں چاول اور مرغی کے مصالحے کی تہیں لگائیں، اوپر پودینہ، لیموں او رزردے کا رنگ ڈالا اور بریانی دم پر رکھ دی۔ تینوں مجھے یوں دیکھ رہے تھے جیسے میں کوئی عجوبہ ہوں۔
’’تمہیں تو سب آتا ہے۔‘‘
’’ہاں مجھے کھانا پکانا آتا ہے۔‘‘ میں نے جیسے اعترافِ جرم کیا تھا۔
تھوڑی دیر بعد میں نفاست سے سجی بریانی لے کر گیا۔ سب کھانے کے انتظار میں بیٹھے تھے۔ وہ بے تابی سے بریانی پر ٹوٹ پڑے۔
’’افف کمال۔‘‘
’’شاندار۔‘‘
’’واقعی بہت مزے کی ہے۔ ‘‘
’’مجھے یقین نہیں آ رہا یہ تم لوگوں نے بنائی ہے۔‘‘ یہ سدرہ نے کہا تھا۔
’’میں دیکھ کر آتی ہوں۔ یقیناً باہر سے منگوا کر یہ لوگ تعریفیں سمیٹ رہے ہیں۔‘‘ قرۃ العین کا لہجہ شکوک تھا۔
’’ہاں یہ ہم نے نہیں بنائی…‘‘ طلحہ نے بات ادھوری چھوڑ دی۔ تینوں لڑکیوں نے ’’دیکھا ہمیں پتا تھا، ان سے نہ ہو پائے گا‘‘ والی نظروں کا تبادلہ کیا۔
’’یہ حمزہ نے بنائی ہے۔‘‘ اس نے ایک ڈرامائی وقفے کے بعد بات مکمل کی۔ سب حیرت سے مجھے دیکھنے لگے۔
’’ہم خود حیران رہ گئے تھے اسے کسی ماہر باورچی کی طرح کام کرتا دیکھ کے۔‘‘ شبلی نے تصدیق کی۔
’’بہت مزے دار بریانی بنائی ہے۔ باہر کے کھانوں میں ایسا ذائقہ نہیں ہوتا۔‘‘ مائرہ نے سچے دل سے کہا تھا۔ میں سب کی تعریفیں سن کر خوش ہو رہا تھا۔ کسی نے طعنہ نہیں مارا تھا، برے الفاظ نہیں بولے تھے۔ یہ سب میرے لیے نیا تھا۔ قرۃ العین کی پھپھو نے کھانا کھانے کے بعد مجھے اپنے کمرے میں بلوایا۔ بریانی کی تعریف کرتے ہوئے ایک ہزار کا نوٹ میری طرف بڑھا دیا۔
’’نہیں نہیں، میں نہیں لے سکتا۔‘‘
’’جب کوئی خوشی سے دے تو انکار نہیں کرتے۔‘‘ میرے انکار پر انہوں نے ڈانٹ پلائی۔ تب میں نے پیسے جیب میں رکھ لیے۔
اس کے بعد جتنے دن ہم وہاں جاتے رہے، روز مجھ سے طرح طرح کے کھانے بنوا کر تعریفیں کرتے۔ مجھے یہ سب اچھا لگ رہا تھا۔ میری سوچ بدلنے لگی تھی۔ کھانا بنانا صرف لڑکیوں کا کام نہیں، لڑکے بھی کر سکتے ہیں۔ Ratatouille میں گستو نے کہا تھا، ’’کوئی بھی کھانا پکا سکتا ہے۔‘‘ مجھے بھی پکانا تھا اور بہت سا پکانا تھا۔
٭…٭…٭

1 2 3 4 5اگلا صفحہ

Related Articles

One Comment

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے