او میرا دل لے گئی: نظیر فاطمہ
ناشتے کی ٹیبل پر آغا جان اپنے دونوں بیٹوں، بہووں اور ان کے چار عدد بچّوں کے ساتھ موجود تھے۔ بچّے ناشتہ کر کے اسکول کالج کو روانہ ہوئے ۔ باقی افرادِ خانہ بھی ناشتہ ختم کر کے اُٹھنے کو تھے۔ جب آغا جان کی بات نے ان کے سروں پر ایٹمی دھماکا کیا ۔ چند لمحے گزرے تو معلوم ہوا کہ اس ایٹمی دھماکے میں ان کی جانیں تو محفوظ رہی ہیں مگر دماغ کی چولیں ہل گئی ہیں ۔ عاتکہ اور لبنیٰ نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور پھر دونوں نے دہل کر اپنے اپنے سرتاج کو ، دونوں سرتاجوں نے بھی اسی وقت اپنی اپنی نصف بہتر کی طرف دیکھا، سب کی آنکھیں چار ہونے کی بجائے آٹھ ہو گئیں مگر دماغ ابھی تک کسی ایک کا بھی ٹھکانے پر نہ آیا۔ آغا جان کی بات نے گویا ان کی قوت ِ گویائی چھین لی تھی۔ساری تفصیلات سن کرسب اپنی اپنی جگہ پر برف کی سل ہو گئے تھے۔
ان کا ایسا صم بکم ردِ عمل دیکھ آغا جان زور سے کھنکھارے اور اُٹھ کر اپنے کمرے میں چلے گئے۔ان کے جاتے ہی جیسے منظر میں جان پڑ گئی۔عقیل نے سجیل کو دیکھا ۔
’’ یہ کیا کہہ رہے ہیں آغا جان؟‘‘ عقیل ابھی تک بے یقینی کا شکار تھا۔
’’ ابھی بھی آپ کو سمجھ نہیں آئی کیا کہہ رہے ہیں آغا جان؟‘‘ عاتکہ عقیل کی بات سن کر جل ہی تو گئی۔
’’ یار ! ان کی عمر ہے کوئی اب ایسے کام کرنے کی؟‘‘ سجیل غم زدہ سا بولا۔
’’ اب یہ سوچیں کرنا کیا ہے؟ کریں گے تو آغا جی اب وہی جو ٹھان چکے ہیں۔‘‘ لبنیٰ دور کی کوڑی لائی۔
٭…٭
آٹھ سال پہلے آغا جان کی بیوی اچانک داغِ مفارقت دے گئیں توآغا جان جیسے یکدم تیز دھوپ کی زد میں آگئے۔بولائے بولائے پھرتے ، کبھی ایک بیٹے کو آواز تو کبھی دوسرے بیٹے کو۔
’’ آغا جان ! آپ دوسری شادی کرلیں۔‘‘ ان کی دیوانوں جیسی حالت دیکھ کر بیٹوں نے مشورہ دیا توآغا جان غصّے سے لال پیلے بلکہ کالے نیلے ہو گئے۔
’’ تم جیسی اولاد ہوتی ہے غیرت سے عاری ،جو اپنے باپوں کو اپنی مائوں سے بے وفائی کا سبق پڑھاتے ہیں۔ دفعہ ہو جاؤ تم سب کے سب یہاں سے۔جانتا ہوں یہ سب تمھاری بیویوں کی چالاکی ہے تاکہ میری کوئی ذمہ داری نہ اُٹھانا پڑ جائے انھیں۔‘‘ بیٹے سرخ چہرے لیے باپ کے کمرے سے باہر آئے اور آکر بیویوں کے سرخ چہروں اور چڑھی تیوریوں کا سامنا کیا۔
خیر آہستہ آہستہ آغا جان سیٹ ہوگئے۔بیوی کے بغیر رہنے کی عادت ڈال لی۔ کھانے پینے ، پہننے اوڑھنے کی ساری ذمہ داری بہو بیٹوں نے اپنے سر لے لی اور بڑے احسن طریقے سے نبھا رہے تھے۔آغا جان ا بھی خوش اور سارا خاندان بھی مطمئن اور پر سکون۔سب ان کے گھر کی مثالیں دیتے کہ کیسے بوڑھے باپ کو سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں اور بہوئیں کیسے باپ کی طرح سسر کا خیال رکھتی ہیں۔ اب آغا جان کو شادی کا شوق چڑھا تھا وہ بھی ایک بائیس سالہ دوشیزہ سے ۔
’’چلو کر لیں آغا جان شادی ، کوئی بری بات نہیں ہے مگر وہ ستر سال کی عمر میں بائیس سال کی لڑکی سے شادی کرنے جار ہے ہیں ، یہ بات مجھے ہضم نہیں ہو رہی۔‘‘ عقیل پریشان تھا۔
’’ مجھے تو یہ کوئی اور ہی چکر لگتا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ آغا جان کو کوئی نقصان پہنچ جائے۔‘‘ سجیل بھی پریشانی کے گراف کی اسی بلندی پر تھا کھڑا تھا جہاں عقیل تھا۔
’’اسی لیے اتنے دنوں سے آغا جان نک سک سے تیار ہو کر گھنٹوں باہر لگا کر آتے تھے ۔ پہلے جو مہینے د و مہینے بعد بال رنگتے تھے ، اب ذرا بالوں (اس عمر میں بھی ان کے سر پر گھنے بال تھے) کی جڑوں سے سفیدی جھانتکی وہ فوراًان پر سیاہی پھیرنے لگے تھے۔ ‘‘ عاتکہ کی نظروں کے سامنے پچھلے بہت سارے دن گھوم گئے ۔
’’ اور ہر وقت رومامنٹک گانے بھی گنگناتے رہتے تھے۔‘‘ لبنیٰ کو بھی کچھ گنگناہٹیں یاد آئیں ۔
’’ ہائے اللہ اب کیا ہو گا؟‘‘ سب سر تھام کر بیٹھ گئے ۔
٭…٭
بہت سوچ بچار کے بعدعقیل آغا جان کی خدمت میں حاضر ہوا ۔آغا جان اپنے کمرے میں شیشے کے سامنے کھڑے جما جما کر بال بنا رہے تھے۔
’’ میں تیرا …تو میری…میرا تیرا …تو میری۔ ‘‘بال بنانے کے ساتھ ساتھ وہ گنگنا بھی رہے تھے ۔ جانے عقیل کا کمرے میں آنا آغاجان نے اپنی ترنگ میں نوٹ نہ کیا یا ان دیکھا کیا تھا ۔ عقیل نے کھنگار کو باپ کر اپنی طرف متوجہ کیا۔
’’ آؤ آؤ ، کیا بات ہے؟‘‘
’’ آغا جان ! آپ سے بات کرنی ہے۔‘‘
’’ابھی تو میں ڈولی کی طرف جارہا ہوں ۔شام کو بات کرتے ہیں۔‘‘ وہ خود پر پرفیوم چھڑک کر یہ جا وہ جا اورعقیل ان کے انداز پر یہ گر، وہ گر۔
٭…٭
’’ہائے نور ڈارلنگ !‘‘ آغا جان مقررہ وقت پر ڈولی کو لینے اس کے گھر کے باہر پہنچے تو گاڑی میں بیٹھتے ہی ڈولی نے لگاوٹ سے کہا۔ آغا جان جن کا پورا نام نور الدین تھا وہ اس طرزِ تخاطب پر ہواؤں پر محور ِ پرواز تھے کہ اس طرح پیار بھرے انداز میں تو انھیں ان کی بہشتن شریک ِحیات نے بھی کبھی نہیں پکارا تھا۔ وہ ہمیشہ انھیں بڑے عزت و احترام کے ساتھ پکارتی تھیں۔اب یہ مختلف طرزِ تخاطب آغاجان کے دل کے تار، تار نہیں بلکہ ان کے دل میں پڑے اسٹنٹس کو چھیڑ گیا تھا۔ڈولی نے نظریں اُٹھائیں۔ نظریں کیا اُٹھیں کہ آغا جان کا دل ہی بیٹھ گیا۔ڈولی نے معصومیت سے مسکرا کر نظریں جھکا لیں اور آغا جان ترنگ میں آگئے ۔ اس ترنگ میں اُنھوں نے ڈولی کودل کھول کر شاپنگ کروائی اور پنج ستارا ہوٹل میں کھاناکھلا کر واپس اس کے گھر چھوڑ نے گئے تو وہ آغا جان کو بصدِ اصرار گھر کے اندر لے گئی جہاں ڈولی کی ماں جو فیشن میں ڈولی سے بھی دو ہاتھ آگے تھی ،نے آغا جان کا ایسی لگاؤٹ سے استقبال کیا کہ کیا ہی آغا جان کی پہلی ساس مرحومہ نے کیا ہو گا۔ ہائے ، بڑھاپے میں جوانی جیسی احساسات نے آغا جان کے جسم میں ایک سرور سا بھر دیا تھا۔اسی ترنگ اور خوشی میں لپٹے وہ شام گئے گھر پہنچے اور سیدھا اپنے کمرے میں چلے گئے ۔رات کو بیٹے ، بہویں دوبارہ آغا جان کے کمرے میں جمع تھے۔
’آغا جان ! یہ آپ کو کیا سوجھی ؟‘‘عقیل نے دبے لفظوں میں کہا۔
’’کیامطلب ہے بھئی اس بات کا‘‘ سوال کے جواب میں سوال داغا گیا توعقیل نے تھوک نگلا ۔
’’ میرا مطلب ہے کہ آپ کی ہر ضرورت پوری ہو تو رہی ہے پھر اب یہ سب۔‘‘ ساری زندگی ماں نے ان دونوں کو باپ کی عزت کا درس پڑھایا تھا سو اب اس طرح صاف بات کرنے میں مشکل پیش آرہی تھی۔مگر آغا جان کو اس کی بات سمجھنے میں ذرا مشکل پیش نہ آئی۔
’’ مجھے اب محسوس ہوا ہے کہ بندے کو بیوی کی ضرورت ہر عمر میں ہوتی ہے بلکہ بڑھاپے میں تو زیادہ ہوتی ہے۔ اس لیے اب میں اپنی یہ ضرورت پوری کرنے لگا ہوں۔ بس اور کیا۔‘‘ اتنی کھلی بات پر بہوئیں بیٹھے بیٹھے فریز ہو گئیں ۔
’’ آپ کر لیں شادی ، مگر اس طرح اتنی کم عمر لڑکی سے…‘‘ سجیل کا ذخیرہ الفاظ بھی یہاں پر آکر ختم ہو گیا تو آغا جان جلال میں آگئے ۔
’’ کیا مسئلہ ہے تم لوگوں کو ، اس بات سے جل رہے ہو کہ باپ کی شادی کم عمر لڑکی سے ہو رہی ہے اورتم لوگوں کو اس عمر میں بھی کوئی گھاس نہیں ڈالتی۔ ارے تم لوگوں کو کوئی کیا گھاس ڈالے گی تم لوگوں کو تو اپنی بیویوں کو خوش رکھنا نہ آیا۔‘‘اس بات پر سجیل کی آنکھوں کے ڈھیلے اُبل کر باہر آنے کو بے تاب ہو گئے اور عقیل بے چارے کو اتنا پسینہ آیا کہ اگر اُسے بروقت پونچھ نہ لیتا تو اسی میں بہہ کر گیٹ سے باہر پہنچ جاتا۔وہی آغا جان جو زکام بھی ہوجاتا تو اپنی قبر کھدوانے کے در پہ ہو جاتے تھے، اب خود کو اپنے بیٹوں سے زیادہ جوان اور توانا محسوس کررہے تھے۔
٭…٭