سلسلہ وار ناول

ہجرووصال : آخری قسط

بے بسی اور مایوسی کے عالم میں اُس نے گارڈ کے مردہ وجود سے اُس کی گن الگ کی تھی اور شیشے پر گولی چلائی تھی یہ جانتے ہوئے بھی کہ کوئی فائدہ نہیں ہو گا ۔ بندوق کے بٹ سے چھت کو پیٹ ڈالا تھا کہ شاید کوئی آواز سن لے مگر بے سود۔ مایوس ہو کر وہ سیٹ پر ڈھے گیا تھا‘ اُسے اپنے بازو اور سینے سے اُٹھتی ٹیسیں شدت سے محسوس ہوئیں تھیں اور یہ احساس ہوا تھا کہ وہ اپنا بایاں بازو صحیح سے ہلا نہیں سکتا ۔ دن دھیرے دھیرے شام میں ڈھلا تھا ۔ روشنی کے ساتھ ساتھ اُمید بھی گھٹتی جا رہی تھی ۔ کہیں یہ اُس کی زندگی کا آخری سورج تو نہیں تھا ؟ڈوبتے دل کے ساتھ اُس نے جاتے ہوئے سورج کو دیکھا تھا ۔ تاریکی باہر کے ساتھ ساتھ اُس کے اندر بھی پھیل رہی تھی ۔ پھر کچھ خیال آنے پر اُس نے ہیڈ لائٹس آن کرنے کی کوشش کی تھیں اُس کے اندیشوں کے برعکس وہ جل اُٹھیں تھیں ۔ تاریکی میں جلتی گاڑی کی لائٹس تو دور سے بھی نظر آسکتی ہیں ۔ مایوس ہوتے دل میں پھر اُمید نے سر اُٹھایا تھا ۔ وہ بار بار گھڑی کو دیکھتا تھا ۔ ایک ایک لمحہ قیمتی بھی تھا اور قیامت بھی ۔ بازو اور سینے سے اُٹھتا درد نا قابلِ برداشت ہوا جا رہا تھا،اُمید و یاس کے بیچ لٹکتا دماغ پھٹنے کو تیار تھا ‘ مگرپھر بھی وہ وقت کو روک لینا چاہتا تھا ۔ نصف شب کر قریب گاڑی کی لائٹس بند ہو گئی تھیں ۔ یقینابیٹری ختم ہو گئی تھی ۔ اُمید کا ایک اور دیا بجھ گیا تھا ۔ آنکھو ں کے کناروں سے چند قطرے بیساختہ بہہ نکلے تھے ۔کیا یہ رات اُس کی آخری تھی ؟چاند کو دیکھتے ہوئے اُس نے بے یقینی سے سوچا تھا ۔نہیں !وہ ابھی کیسے مر سکتا ہے ؟وہ کسی صورت مرنا نہیں چاہتا تھا ۔مگر مرنا تو شاید کوئی بھی نہیں چاہتاپھر بھی مرنا تو ہر ایک کو پڑتا ہے ۔ اُس کا باپ ،اُس کا بھائی ،اُس کی ماں ،نفیس احمد ،شامین وہ اِن سب کی موت دیکھ چکا تھا ۔
ایک لمحہ وہ تھے اور اگلے ہی لمحے ایک قصہ پارینہ، پھر اُسے موت اتنی انہونی چیز کیوں لگ رہی تھی ؟اور آگے کیا تھا ؟فناء؟
’’اسٹیفن ہاکنگ ‘کے بقول انسانی دماغ ایک کمپیوٹر ہے جو موت آنے پر ہمیشہ کے لیے بند ہو جاتا ہے اور شعور پھر کبھی دوبارہ پیدا نہیں ہوسکتا ‘یہ اگلی دنیا کی کہانیاں اُن لوگوں کے لیے بنائی گئیں ہیں جو اندھیرے سے ڈرتے ہیں ۔‘‘ اُس کے ذہن میں نفیس احمد کے الفاظ گونجے تھے اور پہلی بار اُسے احساس ہوا تھا کہ وہ بھی ڈرتا ہے اندھیرے سے ‘مگر اُس جیسے انسان کے لیے تو سزا جزا کی کہانی سچ ہونے سے اندھیرا ہی بہتر تھا ۔ وہ اتنا مایوس کیوں ہو رہا ہے ؟ اُس نے خود کو گھرکا تھا ۔کوئی آسکتا تھا اُس کی مدد کو کسی بھی لمحے ۔
وہ کسی سنسان ریگستان میں تو نہیں تھا ۔ سڑک تھی یہاں تو آبادی بھی ہو گی ۔ کوئی نا کوئی تو آہی نکلے گا اِس طرف بس اُسے حوصلے سے انتظار کرنا ہو گا ۔ اپنی پریشان کن سوچوں کو پیچھے دھکیلنے کی ایک شعوری کوشش کی تھی اُس نے ‘اور شاید کسی حد تک کامیاب بھی ہو گیا تھا ۔ کیونکہ اب اُس کا دھیان اپنے بازو اور سینے سے اُٹھتے درد کی جانب چلا گیا تھا، جس پر کچھ لمحے پہلے خوف غالب تھا‘پھر نیند کو شاید اُس پر ترس آگیا تھا اورکچھ دیر کے لیے وہ بے خبر ہو گیا تھا ۔ درد کی ایک تیز لہر نے اُسے نیند سے جگایا تھا ۔ نیند میں اُس نے اپنا زخمی بازو ہلا دیا تھا ۔ غالباًہڈی ٹوٹ چکی تھی ،اُس نے دوسرے ہاتھ سے اُسے احتیاط سے چھوتے ہوئے سوچا تھا ۔
باہر پھیلا اُجالا صبح کی نوید دے رہا تھا ۔ اُس نے کھڑکی سے باہر چاروں اور تاحد ِنظر دیکھا تھا کسی ذی روح کا نام و نشان نہیں تھا۔ کوئی بات نہیں کوئی تو اِس طرف آہی نکلے گا ابھی ابھی تو صبح ہوئی ہے ۔اُس نے خود کو تسلی دی تھی ۔کوئی جلد ہی آجائے تو بہتر ہے اپنی پانی کی بوتل میں موجود آخری گھونٹ بھرتے ہوئے اُس نے سوچا تھا ۔
صبح دوپہر میں ڈھلی تھی ،دوپہر سہ پہر میں اور اب شام ہوئی جا رہی تھی ،کوئی نہیں آیا تھا ۔بھوک پیاس ،درد اپنی جگہ مگر جو چیز اُسے ڈرا رہی تھی وہ سانس لینے میں دشواری تھی ۔ اُسے لگ رہا تھا اُسے صحیح سے سانس نہیں آرہی اور یہ گھٹن وقت گزرنے کے ساتھ بڑھتی جا رہی تھی ۔ کیا گاڑی میں آکسیجن ختم ہو رہی تھی ؟ سورج تقریباًغروب ہو چکا تھا اور کوئی نہیں آیا تھا ۔ اُس نے گن اُٹھا کر چھت اُتنے زور سے بجائی تھی جتنے زور کا متحمل اِس وقت اُس کا جسم ہو سکتا تھا ،مگر کوئی نہیں سن پایا تھا شاید ۔ اندھیرا پھیل گیا تھا اور کوئی نہیں آیا تھا ۔ ہاں اُسکی اِس جسمانی مشقت کا یہ نتیجہ ضرور نکلا تھا کہ سانس لینا مزید محال ہو گیا تھا ۔ دراوازے سے ٹیک لگائے گاڑی کی سیٹ پر بیٹھے مختصر مگر تیز تیز سانسیں لیتے شہریار ملک کے اندر بل آخر بچ جانے کی اور بچا لئے جانے کی ہر اُمید دم توڑ گئی تھی ۔ یہی انجام تھا اُسکی کہانی کا ‘ اُس کی زندگی کسی فلم کی طرح چلنے لگی تھی اُس کی آنکھوں کے سامنے ۔ کیا پایا تھا اُس نے اِس زندگی میں اور کیا چھوڑے جا رہا تھا؟اور جا کہاں رہا تھا؟اُس کا باپ اُس کی ماں ،اُسکا بھائی کہاں تھے ؟سب مر جانے والے بھی تو اِسی کائنات میں رہ جاتے تھے نہ ،کسی درخت ،کسی کیڑے، کسی جانور کی خوراک بن کر پھر سے زندگی کے سائیکل کا حصہ بن جاتے تھے ۔
بس ایک شعور تھا جو ختم ہو جاتا تھا ۔مگر ساری کہانی اِس شعور ہی کی تو تھی ۔ خوشی ،غم ،درد ،راحت ،سرور ،بے کیفی ،خوف ،وحشت ،محبت ،نفرت ۔شعور ہی نے تو ساری پیچیدگیاں پیدا کی تھیں ‘تو پھر شعور کی کہانی بغیر کسی انجام کے کیسے ختم ہو جاتی تھی ؟وہ خود ہی تو کہا کرتا تھا کہ یہ دنیا انصاف کے لیے نہیں بنی اور غلط تو نہیں کہتا تھا ۔مجرموں پر تو اکژفردِجرم بھی عائد نہیں ہوتی تھی اور کتنے ہی لوگ نا کردہ جرائم کی سزائیں کاٹتے کاٹتے مر جاتے تھے۔کتنوں کو وہ ملتا تھا اِس دنیا میں جس کے وہ قابل ہوتے تھے ؟تو کیا یہ سب کہانیاں یونہی ختم ہو جاتیں تھی ؟بغیر انصاف کے ؟بغیر حق و باطل کے بیچ فیصلے کے ؟بغیر انجام کے ؟جب نہ کوئی منطق تھی نہ مقصد تو پھر اِس شعور کی کسوٹی سے انسان گزرتا ہی کیوں تھا ؟ زندگی نام کی یہ اتنی پیچیدہ کہانی ادھوری رہ جانے کے لیے لکھی گئی تھی ؟ زندگی کے پینتس سال اُس نے ہر اُس دلیل پر یقین کیا تھا جو خدا کے وجود کو جھٹلانے کے لیے دی گئی تھی ،جو سزا اور جزا کو انسان کے بنائے قوانین تک محدود کرتی تھی ،جو گناہ و ثواب کو بے معنی قرار دیتی تھی ۔ مگر آج اُسے لگ رہا تھا کہ کہانی یہاں ختم نہیں ہو سکتی تھی !سیکویل باقی تھا ! کیونکہ کہانی ادھوری تھی ۔ کوئی تھا جس نے فیصلہ کرنا تھا حق و باطل کے بیچ ،مظلوم اور ظالم کے بیچ ۔ اور اُس کے لیے فیصلہ کیا ہو گا ؟ خوف کی ایک لہر اُس کے وجود میں دوڑی تھی ۔ سانس لینا مزید مشکل ہوا تھا ۔ شاید یہ سانسیں آخری تھیں اسی لیے اتنی مشکل تھیں ۔
اُسے ستائیس سال پہلے کا وہ لمحہ یاد آیا تھا جب موت محض چند فٹ کے فاصلے پر اُسے چھوئے بنا گزر گئی تھی ۔باپ اور بھائی کی طرح اُس کی کہانی اُس موڑ پر بھی تو ختم ہو سکتی تھی ۔بہتر نہیں تھا کہ ہو جاتی ؟اُس نے نظر اُٹھا کر کھڑکی سے تاروں بھرے آسمان کو دیکھا تھا ۔
’’اگر تو ہے ؟اور اپنے دعوے کے مطابق منصف ہے تو کیا یہ تیرا انصاف ہے کہ جب میں دوڑا دوڑا تیری جانب آرہا تھا تو تو نے مجھے پلٹا دیا ،اس دنیا میں بھٹکنے کے لیے چھوڑ دیا۔اور اب جو میں اتنا بھٹک گیا ہوں کہ چاہوں تو بھی تجھ تک نا آپائوں تو اس موڑ پر میری کہانی ختم کر رہا ہے؟
٭٭٭٭
اُس کے ارد گرد اتنی تپش تھی کہ اُس کے وجود کو جھلسائے دے رہی تھی ۔ شاید گاڑی کو آگ لگ گئی تھی ۔یا شاید وہ دوزخ میں تھا !پھر اُسنے اپنے باپ کو دیکھا تھا ۔سفیدکپڑوں میں ملبوس کچھ فاصلے پر کھڑا وہ اُسے بلا رہا تھا ۔
’’شہریار !‘‘مگر وہ کیسے جا سکتا تھا وہ تو گاڑی میں بند تھا نا !
’’شہریار !‘‘اُس نے پھر پکارا تھا ،ساتھ ہی ٹھنڈی ہوا کا ایک جھونکا اُسکے تپتے چہرے سے ٹکرایا تھا ۔ اُس نے آنکھیں کھول دیں تھیں۔وہ نہ اپنی گاڑی میں تھا نہ ہی دوزخ میں !
ہوا کا جھونکا سامنے لگے سپلٹ اے سی کی کرامت تھا اور اُس کا نام پکارنے والا اُس کا باپ نہیں ،سفید کوٹ میں ملبوس ڈاکٹر تھا ۔
وہ زندہ تھا ۔کہانی ابھی باقی تھی ۔
٭٭٭٭
اُنیس بیس سال کی وہ نرسنگ سٹوڈنٹ اکثر اُس کا بخار اور بلڈ پریشر وغیرہ چیک کرتے ہوئے اُسے کنکھیوں سے دیکھا کرتی تھی ۔ اتنی وجاہت تو تھی اُس میں کے سرجری اور خون کے ضیاع کے بعد ہسپتال کے بستر پر پڑے بھی صنف نازک کو متوجہ کر لے ۔ وہ اکثر اُسے بے آواز روتا ہوا نظر آتا تھا ۔ آخر کیا غم تھا اُسے ؟آج سٹاف نرس ساتھ نہیں تھی تو تازہ تاہ یاد کیے پیشہ ورانہ اصول ایک طرف کر کے بل آخر اُس نے پوچھ ہی لیا تھا ۔
’’کوئی بچھڑ گیا ہے آپ کا اِس حادثے میں؟‘‘
شہریار اُس کے سوال پر سرنفی میں ہلاتے ہوئے بیساختہ مسکرایا تھا ۔مگر جواب دینے کے لیے لب ہلائے تو آواز آنسوؤں سے بوجھل تھی ۔
’’جو بچھڑگیا تھا …وہ مل گیا ہے ۔‘‘
اُسے بتایا گیا تھا کہ اُس کی ٹوٹی ہوئی دو پسلیوں نے اُس کے اندرونی اعضاء کو زخمی کیا تھا ۔ جس کی وجہ سے ناصرف مسلسل انٹرنل بلیڈنگ ہو رہی تھی بلکہ یہ خون سینے میں جمع ہو کر سانس کے ساتھ پھیپھڑوں کے پھیلنے کی گنجائش بھی ہر گزرتے لمحے کے ساتھ کم سے کم کر تا جا رہا تھا‘اگر طبی امداد اُسے ملنے میں مزید دیر ہو جاتی تو اُس کا تنفس رک جاتا ۔ اُس نے نفیس احمد سے سنا تھا کہ سائنسی اعتبار سے انسان کے حادثاتی طور پر وجودمیں آنے کا امکان لامحدود طور پر کم تھا مگر پھر بھی نفیس احمد کے بقول انسان کا وجود میں آنا ایک اتفاق تھا ۔ اُس نے مان لیا تھا ۔مگر آج وہ یہ کیسے مان لیتا کہ جو حادثے کا شکار گاڑی کوئی دن کی روشنی میں نہیں دیکھ سکا ، جس کی اندھیرے میں چمکتی ہیڈ لائٹس کی روشنی کسی کو متوجہ نہیں کر پائی ،رات کے دوسرے پہر اندھیر جنگل میں کوئی اتفاقاََپہنچ گیااُسے بچانے ۔ اُس نے سوال اُٹھایا تھا جس کے انصاف پر ، اُس نے اُسے اپنی رحمت سے لا جواب کیا تھا ۔ دل کیسے نہ کانپتا ؟آنکھیں کیسے نہ بہتیں۔ایک لامحدود کائنات کا مالک اورایک ذرہ حقیر پر اتنی تونظر !
٭٭٭٭
اُس کے بنگلے کے ڈرائیو وے میں نازنین اپنی گاڑی سے اُتری تھی ۔ وہ سامنے ہی لان میں بیٹھا نظر آگیا تھا ۔ اُس کی پشت تھی ڈرائیووے کی طرف ۔ سردیوں کے اوائل کے دن تھے ،وہ غالباًواپسی کے لیے پر تولتے سورج کی تمازت محسوس کرنے بیٹھا تھا ۔ گاڑی کا عقبی دروازہ کھول کر اُس نے سوپ کا ڈبہ نکالا تھا جو وہ اُس کے لیے گھر سے بنا کر لائی تھی ۔ وہ کل ہی ہاسپٹل سے ڈسچارج ہوا تھا ۔ وہ کرسی پر بیٹھے بیٹھے شاید کوئی ایکسرسائز کر رہا تھا ، اُس کی جانب آتی نازنین نے اُسے قدرے جھک کر چند لمحوں بعد سیدھا ہوتے ہوئے دیکھ کر سوچا تھا ۔
’’کیا حال ہے جناب ؟‘‘اُس نے پاس پڑی دوسری کرسی پر بیٹھتے ہوئے پوچھا تھا ‘مگر شہریار نے کوئی جواب نہیں دیا تھا ،نہ ہی اُس کی جانب دیکھا تھا ۔ اُس کی آنکھیں جھکی ہوئی تھیں ،لب ہل رہے تھے اور صحتمند ہاتھ گھٹنے پر دھراتھا ۔ وہ نماز پڑھ رہا تھا ؟ وہ ہاسپٹل اُس سے ملنے تواتر سے جاتی رہی تھی ، بہت وقت گزارتی تھی وہاں اُس کے ساتھ ،وہ سو بھی رہا ہوتا تو وہ گھنٹوں بیٹھ کر اُسے دیکھتی رہتی تھی ‘مگر اُس سارے وقت میں شہریار نے ایسی تو کوئی بات اُس سے نہیں کی تھی ۔ کہیں وہ کوئی خواب تو نہیں دیکھ رہی تھی ؟ اُس نے بے یقینی سے شہریار کو دیکھا تھا۔پھر شہریار کی اُنگلی اُٹھی تھی شہادت دینے کے لیے ،اور نازنین کو لگا تھا اُس کا دل خوشی سے پھٹ جائے گا ۔ شہریار نے سلام پھیر کر اُس کی طرف دیکھا تو مسکراتے لب کپکپا رہے تھے اور آنکھیں چھلکنے کو بے تاب تھیں۔ شہریار بھی مسکرایا تھا ،پلکیں جھپک کر نمی آنکھوں تک محدود کرنے کی کوشش کی تھی ‘مگر خوشی اتنی تھی کہ قابو ہو نہیں پائی تھی ۔
رو پڑے تھے دونوں ،آنسوؤں سے ،ہچکیوں سے ،چھوٹے بچوں کی طرح ۔ روتے روتے مسکرائے تھے اور پھر دیر تلک خاموش بیٹھے رہے تھے ۔شہریار نے کچھ نہیں کہا تھا ،نازنین نے کچھ نہیں پوچھا تھا ۔بس دونوں اپنے اپنے دل میں اُترے سکون کو محسوس کرتے رہے تھے ۔اپنی گرد چہکتی زندگی کی آواز سنتے رہے تھے ۔محبت اور رحمت کی اوس میں بھیگتی اتنی خوبصورت شام اُن دونوں کی زندگی میں پہلے کبھی نہیں آئی تھی ۔
٭٭٭٭
’’ یار تم پاگل تو نہیں ہو گئے؟‘‘باسل فاروقی کو اُس کا مدعا سن کر اُس کی ذہنی حالت پر شک ہوا تھا ۔
’’ہاف ڈیویلپڈ فیز کو ہم کیسے رول بیک کر سکتے ہیں ؟لوگ ادائیگی کر چکے ہیں پلاٹس کی ۔اگلے فیز کے لیے ہم اِس سے آگے زمین پروکیور کر چکے ہیں ۔ اِس سب کا کیا کیا ہو گا ؟‘‘
’’میں سارا نقصان خود برداشت کرنے کو تیار ہوں۔‘‘وہ مستحکم لہجے میں بولا تھا ۔
’’کرنا بھی تم ہی کو چاہئے‘اور مجھے فل کومپنسیشن چاہئے ۔ دماغ تمہارا خراب ہوا ہے میرا نہیں ۔‘‘وہ بگڑے ہوئے لہجے میں بولا تھا ۔
’’ٹھیک ہے ۔‘‘شہریار مسکرایا تھا ۔باسل نے جھنجھلائے ہوئے انداز میں اُسے دیکھا تھا ۔
’’اربوں کے نقصان کی بات ہو رہی ہے یہاں ‘اربوں کے !تمہیں آخر ہو کیا گیا ہے ؟ یو آر دا لاسٹ پرسن جس سے میں اتنے احمقانہ اور جذباتی فیصلے کی اُمید رکھ سکتا تھا ۔‘‘وہ تاسف سے سر ہلا کر بولا تھا ۔
’’کافی پیئو گے ؟‘‘شہریار نے جواباًمسکرا کر آداب میزبانی نبھائے تھے ۔
باسل کے اعصاب کچھ ڈھیلے پڑے تھے۔
’’منگواؤ۔‘‘وہ کرسی پر پھیل کر بیٹھ گیا تھا ۔
’’یار موت کو اتنے قریب سے دیکھنے کا تجربہ اکثر لوگوں کے دماغ پر اثرکرتا ہے ۔کچھ وقت دو اپنے آپ کو ہو سکتا ہے یہ صرف ایک فیز ہو ۔‘‘باسل نے اپنے طور پر سمجھانے کی کوشش کی تھی۔
’’اگر یہ فیز ہے‘تو میں چاہتا ہوں یہ میری زندگی کا آخری فیز ہو ۔‘‘شہریار سنجیدگی سے بولا تھا ۔
٭٭٭٭

1 2 3اگلا صفحہ

Related Articles

One Comment

  1. سچ بولوں تو اس کہانی کے نام کی وجہ سے میں اسکو پڑھتے ہوئے جھجھک رہی تھی۔ اب رومانس اتنا خاص پڑھنے کا دل نہیں کرتا۔ محبتوں پر دل یقین نہیں کرتا۔ مگر پھر یہ کہانی جب پڑھی تو خیال آیا کہ کیوں اتنی دیر سے پڑھی۔ یہ کہانی محبت سے زیادہ، خواہشوں کی ہے، حسرتوں کی ہے، ادھوری تمناؤں کے ہے۔ گرنے کی ہے اور گیت کر اٹھنے کی۔ چلے جانے کی ہے اور واپس لوٹ آنے کی ہے۔ کردار نگاری سے لے کر پلاٹ تک سب مضبوط رہا اور زبردست بھی۔ مگر تھوڑا سالوں کا جو حوال تھا وہ تھوڑا لجھنے والا تھا۔ باقی انڈنگ تھوڑی سی ادھوری لگی۔ تھوڑی سی ڈیٹیل اور add کرنے چاہ تھی
    مگر باقی سب زبردست تھا۔ اور ڈائیلاگ کی تو مت پوچھو۔ thanks a lot۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

You cannot copy content of this page