کسی اجنبی سے دیار میں : قسط نمبر 7
وہ تینوں ویٹنگ لاؤنج میں تھے جب شہر میں خریف موسم کی پہلی بارش شروع ہوئی۔ صلالہ انٹر نیشنل ایئر پورٹ مرحبا مرحبا سے گونجنے لگا۔ ظفار کے ہر باسی کے چہرے پر خوشی کا الگ ہی رنگ جھلکنے لگا۔
خریف ظفار سٹیٹ کا خاص موسم جسے ظفاری موسموں کا بادشاہ کہتے ہیں چوبیس گھنٹے پھوار برستی ہے ایسی بارش جس میں نہ بادل گرجتے ہیں،نہ بجلی کڑکتی ہے ۔ پانی سے بھرے بادل ظفار کے پہاڑوں سے ٹکراتے پھرتے ہیں انہی بادلوں کی دھند کو مٹھی میں لینے کے لئے ملکی و غیر ملکی سیاح ظفار کا رخ کیا کرتے ہیں۔
’’شیخ! تم تو واقعی ہی مجنون ہو گئے ہو۔ ایک عورت کے عشق میں صلالہ کی خریف چھوڑ کر دبئی کا صحرا چھاننے جا رہے ہو ایک بار پھر سوچ لو ۔ ہمارے ہاں شیخ آ یا کرتے ہیں ہم خریف میں کہیں نہیں جایا کرتے۔‘‘ معتصم نے سالم کو شیشے پر گرتی بوندوں کو رقص دیکھتے مخاطب کیا۔
وہ محویت سے ناچتے پانی کے قطرے دیکھتا رہا ۔
’’معتصم ٹھیک کہہ رہا ہے، اب بھی وقت ہے واپس چلتے ہیں فیسٹیو سیزن کا افتتاح کرتے ہیں۔‘‘ حسین نے معتصم کی ہاں میں ہاں ملائی۔
’’تم دونوں واپس چلے جاؤ میں ناراض نہیں ہوں ۔‘‘وہ دل کشی سے مسکرایا ۔
ان دونوں نے گھور کر اسے دیکھا اور بورڈنگ پاس ہاتھوں میں لئے گیلری کی طرف بڑھ گئے ۔
دبئی پہنچتے ہی وہ ڈرائیور سے کہہ کر گیٹ سے باہر ہی اتر گئے ڈرائیور گاڑی اندر لے گیا۔
’’اس گھر میں رہتی ہے؟‘‘حسین نے بھنوؤں سے اشارہ کیا۔
’’آ ئیوا !‘‘
’’دیکھا کیسے جائے؟‘‘
’’ابھی تو میرے بیڈ روم میں چلتے ہیں۔ وہیں سے ٹیلی سکوپ سے صورت حال کا جائزہ لیتے ہیں۔‘‘
وہ تینوں باری باری ٹیلی سکوپ لگا کر دیکھ چکے تھے سامنے والے بنگلے میں کوئی سرگرمی نہیں تھی یوں جیسے کوئی رہتا نہ ہو ۔
’’اشرفل! یہ سامنے والا بنگلہ خالی ہے کیا؟‘‘ شیخ سالم نے ہائی ٹی لے کر آئے اشرفل سے پوچھا ۔
’’چند دن پہلے ہی خالی ہوا ہے الحمد للہ !ورنہ تو دھندے والوں نے گناہ کا اڈہ بنا دیا تھا۔‘‘ اشرفل نے کانوں کو ہاتھ لگائے ۔ شیخ سالم کے ہاتھ سے ویجی ٹیبل رول کارپٹ پر گیا۔
’’لیش …!‘‘ حسین کی آواز بلا ارادہ بلند ہو گئی۔
’’آ ئیوا شیخ!کوئی انڈین لوگ تھا ادھر سے عورت سپلائی کرتا تھا۔‘‘
شیخ سالم نے اپنے گھنے مضبوط گردن تک جاتے بال نوچ ڈالے ۔
’’پکی بات ہے اشرفل بنگلہ خالی ہے وہ لوگ ادھر سے جا چکے؟‘‘
’’آ ئیوا شیخ ! ایسے لوگ ایک جگہ پر تین چار مہینے سے زیادہ نہیں ٹکتے، اپنا ٹھکانا بدلنا پڑتا ہے ۔ ہمارے بنگلہ دیش کے بہت سے لوگ یہ کام ہیں مجھے اس لئے کافی ساری معلومات ہیں۔‘‘
’’تم نے ان عورتوں میں کوئی باکستانی لڑکی بھی دیکھی تھی؟‘‘
’’نہیں شیخ! میں پرائی عورت کو نہیں دیکھتا گناہ ہوتا ہے ۔‘‘اشرفل نے شستہ عربی میں سادگی سے جواب دیا۔
’’احسن … روح !‘‘ حسین نے مسکراہٹ چھپاتے ہوئے اشرفل کو واپس بھیجا تو معتصم نے اپنے مزاج کے مطابق جناتی قہقہہ لگایا۔ اتنی سنجیدہ صورتحال میں سالم اور حسین نے اسے کینہ توز نظروں سے دیکھا تو وہ سنبھل کر بولا۔
’’تم سے اچھا تو اشرفل ہے پرائی عورت کو نہیں دیکھتا اسے بھی خبر ہے گناہ ہوتا ہے۔‘‘
’’اب تو تمہیں پتاچل گیا ہے وہ کس قبیل کی عورت ہے تو واپس چلیں؟‘‘
’’اب تو اسے ڈھونڈنا اور بھی ضروری ہو گیا ہے۔ مجھے میرا خواب سمجھ آ گیا ہے اور یہ بھی کنفرم ہو گیا کہ اس دن وہی تھی میرا hallucination نہیں تھا۔ وہ بنگلے میں جانا نہیں چاہتی تھی اس سے اس لئے زبردستی کی جا رہی تھی۔ تم دونوں اس کونسیپٹ کو کیسے دیکھتے ہو؟ ‘‘وہ اب شاک سے نکل کر اپنی مشہور زمانہ سپورٹس مین شپ سے ان کو دیکھ رہا تھا۔
’’سالم! مجھے اچھا نہیں لگ رہا اگر میڈیا کو بھنک پڑ گئی تو بہت مرچ مصالحہ لگائیں گے۔‘‘ حسین نے صاف گوئی سے کہا۔
’’میڈیا…‘‘سالم نے گہرا سانس کھینچ کر پھیپھڑوں میں ہوا بھری اور پھر سیٹی کے انداز میں منہ گول کر کے نکال اپنے جوتوں کی طرف اشارہ کر دیا۔
’’ On my sneaker’s toe‘‘
’’ٹھیک ہے صدیق ، ہم تو ہر حال میں تمہارے ساتھ ہیں ۔‘‘معتصم نے بات ختم کر دی ، حسین نے سر ہلا کر تائید کی۔
’’میرا خیال ہے اشرفل کو بلا لیا جائے شہر کے جتنے بھی ایسے اڈے ہیں ان میں دیشی ضرور ہے اشرفل اپنے ہم وطنوں سے آ سانی سے گھل مل کر معلومات نکال سکتا ہے۔‘‘
اگلے چند لمحوں میں اشرفل ایک بار پھر ان کے سامنے تھا ۔
اشرفل کو جب پتا چلا کہ اس نے جسم فروشی کے اڈوں کا پتا بتانا ہے تو وہ فوراً ہی برا مان گیا۔
’’شیخ ! آپ مجھے ایسا سمجھتے ہیں؟‘‘
’’اوہ بس کر صدیق تم اپنا قصہ شروع کر دیتے ہو…‘‘ معتصم نے اسے ڈانٹا تو وہ بھی سنبھل گیا۔
’’ایک پاکستانی لڑکی کو زبردستی اس بنگلے میں لایا گیا تھا وہ لڑکی ڈھونڈنی ہے۔ اس لئے جو تمہارے ہم وطن اس ’’کام‘‘ میں ملوث ہیں ان سے ملنا ہے ایسے لوگوں کے مزید مکان(ٹھکانے) معلوم کرنے ہیں۔ چلو اب شروع ہو جاؤ ملاؤ فون…‘‘ حسین نے اسے اشارہ کیا۔
’’فون نمبر نہیں ہے مجھے باہر دیشی ہوٹل پر جانا پڑے گا ،وہاں سے ایسا دھندہ کرنے والوں کا ایڈریس مل جاتا ہے۔‘‘
انہوں نے سر ہلا کر اجازت دی کیونکہ وہ سب جانتے ہیں پردیس کمائی کرنے آئے یہ خارجی چھوٹے چھوٹے ہوٹلوں پر بیٹھ کر ایک دوسرے کو جسمانی ضرورت پورے کرنے کے دوسرے ٹھکانے بھی بتاتے تھے ۔ وہ بچپن سے یہ پریکٹس دیکھتے آ رہے تھے اس میں ان کے لئے کچھ نیا نہیں تھا کیونکہ ایسا پیشہ چلانے والے لوگ بھی خارجی ہی ہوتے تھے ۔ عرب کی عورت کی طرف دیکھنے کی خارجیوں میں جرأت نہیں تھی ہراس منٹ کے قوانین سخت ترین تھے اور سزا فوری دی جاتی تھی ۔ اس لئے ایسے پیشے میوچل انڈرسٹینڈنگ سے چل رہے تھے مرد اور عورت راضی بہ رضا اس فعل میں ملوث ہوتے تھے تو کسی کو پرواہی نہیں تھی۔
سالم کے کمرے کی ونڈو سے اشرفل کو آ تا دیکھ کر وہ تینوں نیچے لان میں نکل آ ئے ۔
’’کہاں ہمارے صلالہ کا جان لیوا موسم ،کہاں یہ دبئی کی سڑی ہوئی گرمی ، عشق تیرا مصیبا (مصیبت)ہماری ۔‘‘ معتصم نے جلے دل کے پھپھولے پھوڑے ۔ سالم نے نظر انداز کیا ۔
’’شیخ! میں تین جگہ کا ایڈریس لے کر آ یا ہوں۔‘‘
’’احسن!( گڈ)ایڈریس بتاؤ !‘‘
اشرفل نے لوکیشنز شئیر کر دیں ۔
’’ٹھیک اب تم جاؤ ہم تمہیں بلاتے ہیں۔‘‘
’’ہم تینوں اکٹھے نہیں جاتے، پہچان میں آ سکتے ہیں تم بھی حلیہ بدل لو ، ہم میں سے ایک تمہارے ساتھ چلا جائے ۔ اشرفل تو ہوگا ہی …‘‘
اور پھر اشرفل سالم اور معتصم کے بدلے ہوئے گیٹ اپ کی وجہ سے خود کو کسی ٹاپ سیکرٹ مشن کا اہم رکن سمجھتے ہوئے سنسناتے خون کے ساتھ ڈرائیو کرتے ہوئے انہیں پہلی لوکیشن پر لے گیا۔
٭…٭…٭
’’یاسر! مجھے یقین نہیں آ تا ہماری بدر ایسی بے حیا نہیں تھی۔ ‘‘
’’تجھے نہ آ ئے یقین ہمیں تو اسکی زبان پر پکا یقین ہے اماں تم بھول سکتی ہو ہم نہیں ، کیسے بے شرمی سے کہہ رہی تھی میں نے شیخ سے نکاح کیا ہے۔‘‘ سیما نے یاسر سے پہلے زبیدہ کو خود جواب دیا ۔
’’سیما! تو خدا سے ڈر ، کیسی بے حس ہے تُو… ہوسکتا ہے اس سے ایسا فون کرایا گیا ہو۔‘‘ زبیدہ نے فخر اور مہرو کے جملے دہرائے۔’’ تیرے جیسوں کا حسد ہماری خوشیاں کھا گیا، میں نے کہا تھا نرگس کے گھر میں ہونے والی بات چیت کسی اور کو پتہ نہ چلے تو نے سارے رشتے داروں تک پہنچا دی۔ ‘‘
’’میں نے نہیں اشرف بھائی پریشان تھے اس نے محلے کے کونسلر سے بات کی تھی تاکہ اگر کل کولاہور جانا پڑے تو کوئی گل کار والا بندہ ساتھ تو ہو۔ پہلے انکو لگتا تھا باہر کے ملک لڑکیاں لے جاکر جو فراڈ کرتے ہیں ویسا کیس نہ ہو پر جب بدر نے فون کرکے خود کہہ دیا وہ اپنی مرضی سے وقاص سے طلاق لے کر کسی شیخ کے ساتھ گئی ہے تو کونسلر کو اصل بات بتانا پڑی۔‘‘
’’سن رہے ہو یاسر !تیری جورو اور اسکے بھائی نے کیسے ہمارے سر میں کھے ڈالی ہے ۔ میں نے کیا برا سوچا تھا جو سارے حاسد اکٹھے ہو کر مجھے طعنے دینے آ جاتے ہیں۔ ‘‘
’’اماں! تیرا لالچ لے ڈوبا ہمیں …‘‘یاسر ہر روز اس جملے کے بعد ماں کو جانے کون کون سے بیوی کے پڑھائے طعنے دیتا ۔وہ مزید بستر سے لگ جاتی ۔
’’کہیں منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے ہم ، بڑا امیر گھروں میں شادیاں کرنی تھیں ان بلاؤں کی…‘‘یاسر گھر میں چک پھیریاں کھاتا وہی زبان بولتا رہا جو پچھلے کئی دنوں سے قریبی رشتے دار خواتین آ کر زبیدہ کو بول کر جاتی تھیں۔
’’یاسر! ایک بار جا کر پتا تو کر …کیا پتا کسی کو پتا ہو وہ کلموہی نرگس کہاں دفع ہو گئی۔‘‘
’’میرے پاس فالتو پیسے نہیں ہیں جو روز روز لاہور جایا مرا کروں۔ جب ایک دفعہ میں اور اشرف بھائی دیکھ آ ئے ہیں وہاں اب کوئی نہیں رہتا تو بار بار اپنی بے عزتی کرانے کیوں جائیں ؟ ہونہہ تاکہ مزید لوگوں کو پتا چلے ہماری ویاہی ہوئی لڑکی شوہر کے ہوتے کسی کے ساتھ بھاگ گئی یا پھر شوہر نے ہی کسی اور بیچ دیا ہے ۔ دونوں صورتوں میں ہماری ہی بے عزتی ہے۔ میری بات مان کھول کر سن لو آ ج کے بعد اس گھر میں کوئی بدر کا نام نہیں لے گا جس نے لیا میں اسکے ٹوٹے کر دوں گا ۔ آ ج سے اس گھر میں مر گئی وہ ، سمجھ آئی ہے ؟‘‘ زبیدہ کے علاوہ باقی سب نے سہم کر سر ہلا دیا۔ زبیدہ لیٹی خاموش آ نسو بہاتی رہی ۔
’’خود بھی اسے بھول جاؤ اور لوگوں کو بھی بھولنے دو ۔ اب اتنے پیسے تو ہیں نہیں جو ہم علاقہ بدل لیں بس خود ہی ہمت اور بے حسی سے کام چلانا پڑے گا۔ ‘‘
یاسر ان مردوں میں سے تھا جو خود بیوی کی لڑائی سے ڈرتے ہیں لیکن ماں بہنوں پر پورا پورا تسلط رکھتے ہیں۔ اب تو زبیدہ ڈاؤن بھی بہت تھی سو جتنا بھی دب جاتی کم ہی تھا۔
٭…٭…٭
’’سی سی ٹی وی تو نہیں لگا ہوا؟‘‘
’’نہیں نہیں ، بنگلے اسی لئے تو کرائے پر لئے جاتے ہیں تاکہ کسٹمرز کی پرائیویسی قائم رکھی جا سکے ورنہ عمارتوں میں تو مالک نے خود لگائے ہوئے ہیں۔ ‘‘
معتصم اشرفل کے یوں معلومات جھاڑنے پر مسکرایا لیکن سالم سنجیدہ ہی رہا ۔ معتصم کو صاف اندازہ ہو رہا تھا سالم کے اعصاب کشیدہ ہو چکے ہیں۔
’’اشرفل! تم اندر جاؤ لیکن بات صرف پاکستانی لڑکیوں کی کرنا ہو سکے تو تصویریں ہی لے آ نا۔‘‘ معتصم نے ہدایات دیں ۔
سالم الرٹ بیٹھا گیٹ دیکھتا رہا۔ بالآخراشرفل باہر نکل آ یا ۔
’’یا شیخ! انکے پاس کوئی پاکستانی عورت نہیں ہے ۔ ‘‘
’’معلومات لینے کی کوشش کی ؟ ‘‘
’’معتصم ہمیں خود جانا چاہیے ۔ ‘‘
’’یہ لوگ ڈر بھی سکتے ہیں ہو سکتا ہے ہمیں نہ بتائیں لیکن اسکو سارا بتا دیں۔ ‘‘
’’اشرفل! تم ایسا کرو ان سے جا کر معلومات لو خود کو بھی انہی جیسا بنا کر پیش کرو۔‘‘ معتصم اسے چھوٹی چھوٹی باریکیاں سمجھانے لگا ۔
’’کون سوچ سکتا ہے یہاں ایسے لوگ بھی ہیں ۔ ‘‘سالم نے گہری سانس لی ۔
’’ہر جگہ ہیں صدیق! لیکن انکی شکایت کہیں درج نہیں ہوتی تو حکومہ بھی دلچسپی نہیں لیتی ۔ یا تو کوئی عورت شرطہ جائے کہ اس کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے یا پھر کوئی مرد شرطہ جائے اس سے پیسے لے کر اٹینڈنٹ نہیں دی گئی تو کوئی کارروائی بھی ہو ایسے کس کے پاس وقت ہے جو سکون سے ہوتے کاموں میں عمل دخل دے چاہے وہ مساج سینٹر ہوں، بارز ہوں یا ایسے بنگلے ۔ ‘‘
سالم نے تائیدی انداز میں سر ہلا دیا لیکن اسکی نظریں و دل اشرفل کی طرف ہی تھا۔ اس رات انہوں نے وہ تینوں ٹھکانے چیک کر لئے کہیں پاکستانی سبز آ نکھوں والی لڑکی کا سراغ نہ ملا۔ سالم کا بس نہیں چل رہا تھا کہ پو پھٹنے کے بعد بھی اس شہر ستم گر میں اسے ڈھونڈتا رہے لیکن معتصم اور اشرفل نے فجر کی ادائیگی کے بعد گھر کا رخ کرنے پر زور دیا تو اسے آ نا پڑا۔ گھر میں گھستے ہی معتصم اور اشرف اوندھے سیدھے لیٹ گئے لیکن سالم کو معلوم تھا اسے نیند نہیں آ ئے گی کوئی غم تھا جو رگوں کو چھیدتا ہوا آ نکھوں سے نکلنے کو بیتاب لگتا تھا پر نکل نہیں رہا تھا بس اندر ہی اندر دھواں بھرتا جا رہا تھا ۔ دن کا اجالا پھیل رہا تھا جب وہ سوئمنگ پول میں اتر گیا ۔
’’مجھے اس رات ان کو مخاطب کر لینا چاہیے تھا۔ ‘‘
’’ہو سکتا وہ مجھے اشارہ دے دیتی۔‘‘
’’ کیا پتہ مجھے اندازہ ہو جاتا تو میں اسکی منہ مانگی قیمت دے دیتا ۔ ‘‘