ہجرووصال : قسط نمبر 6
’’ کہاں رہ رہی ہو تم آج کل ؟‘‘
’’ بہن کے گھر میں۔‘‘
’’تمہاری مدر اور بھائی ؟ ‘‘
’’ امی کا نتقال ہو چکا ہے ۔ بھائی دونوں انگلینڈ میں ہیں ۔ سٹوڈنٹ ویزے پر بھجوایا تھا وارث ہمدانی نے مگر آگے سپورٹ کرنے سے انکار کر دیا ۔ بڑے والے نے پڑھائی چھوڑ کر چھوٹی موٹی نوکریاں شروع کر دیں ۔ چھوٹا پچھلے سال ہی گیا ہے ۔ بڑا بھائی اُسے سپورٹ کر رہا ہے تاکہ وہ اپنی پڑھائی مکمل کر سکے ۔ چھوٹی بہن امی کے انتقال کے بعد میرے پاس ہی رہ رہی تھی ، اب ہم دونوں شادی شدہ بہن کے گھر میں ۔ ‘‘
’’ میرا ایک اپارٹمنٹ خالی ہے ۔ تم چاہو تو… ‘‘
’’ میں یہاں صرف ’’مدد ‘‘ مانگنے آئی ہوں ’’دینے ‘‘کے لیے میرے پاس کچھ نہیں ہے ۔ ‘‘وہ اُس کی بات کاٹ کر بولی تھی ۔
’’ مجھے تمہاری مدد ‘ وہ حاصل کرنے کے لیے چاہئے جو میں نے تیرہ سال اپنا آپ رہن رکھ کر کمایا ہے ۔ مزید خودکو رہن رکھنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے میرا نہ خواہشوں کے لیے نہ ضرورتوں کے لیے ۔ ‘‘ اُس کے تلخ مگر مضبوط لہجے پر شہریار مسکرایا تھا ۔ دل میں کسی اُمید نے دم توڑا تھا مگر ایک اطمینان سا بھی جگا تھا ۔ چند لمحے پہلے تک وہ اُسے جتنی شکستہ لگ رہی تھی ،اتنی شکستہ نہیں تھی ۔ کچھ غرور اپنی ذات کا اب بھی باقی تھی ۔
’’ کہاں ہے یہ اپارٹمنٹ ؟ایڈریس ،ڈیٹیلز … کوئی یوٹیلٹی بل وغیرہ ؟ ‘‘
’’ ہے تو ڈیفنس میں ‘شادی سے پہلے ایک بار مجھے دیکھایا گیا تھا ۔ ایڈریس کچھ کچھ یاد ہے مگر باقی کچھ بھی نہیں ہے میرے پاس ۔ ‘‘ اُس نے مایوسی سے سر ہلایا تھا ۔
’’ نکاح کے بعد وارث ہمدانی نے مجھے سیف کی چابی دی تھی کاغذات اور زیور رکھنے کے لیے ایک بار میں نے رکھ دیے تو پھر کبھی وہ سیف نہیں کھلی اُس چابی سے ۔ ‘‘شہریار نے پرسوچ انداز میں اپنے ماتھے کو انگلیوں سے مسلا تھا ۔
’’ نکاح نامہ بھی نہیں ہوگا تمہارے پاس ؟ ‘‘
’’ نکاح نامہ ہے میرے پاس ہے ۔ ‘‘شہریار کے چہرے پر مسکراہٹ آئی تھی ۔
’’تو پھر صرف فلیٹ کیوں ؟تم ہمدانی کی جائداد میں حصے دار ہو ۔‘‘
’’ جائداد میں حصہ وہ مجھے دے دیں گے ؟ ‘‘وہ بے یقینی سے بولی تھی ۔
’’ وہ تو یہ فلیٹ بھی نہیں دے رہے ، لیناپڑے گا ۔ میں اپنے وکیل سے بات کرتا ہوں ۔ ‘‘ وہ اُسے اُمید دلاتے ہوئے بولا تھا ۔ شہریار نے اُس کے سامنے ہی اپنے وکیل کو فون کیا تھا ‘ممکنہ آپشنز پر مختصر بات کی تھی ۔ آدھے گھنٹے بعد جب وہ جانے کے لیے اُٹھی تو کسی حد تک پر اُمید تھی ۔ اُسے جاتا دیکھتے شہریار کے چہرے پر اُداس سی مسکراہٹ تھی ۔ وصل کی اُمید بھی کتنی کم عمر لے کر آئی تھی ۔ وہ اُسے عزت سے دنیا کے سامنے الاعلان نہیں اپنا سکتا تھا ۔ ایسا کرنے کے لیے بہت کچھ تھا جس سے اُسے دستبردار ہونا پڑتا ۔ اب اُس جیسا آدمی محبت اور مایا میں سے ،محبت کو چننے سے تو رہا ۔ گووہ مجبور تھی ، ایسے میں وہ چاہتا تو کچھ محبت اور کچھ مجبوری کا جال بن کر بہت آرام سے اُسے پا لیتا ‘ مگر وہ ایسا نہیں کر سکتا تھا ۔ وہ لڑکی جس نے کبھی ریمپ پر کسی ناقابل رسائی ملکہ کی طرح گردن اُٹھا کر چلنے کے خواب دیکھے تھے ، اُسے زندگی نے اتنا جھکایا تھا کہ توڑ ہی ڈالا تھا ۔ اب اپنی ذات کا کوئی غروراگر اُس کے پاس باقی تھا تو محبت کے نام پر وہ اُسے اُس سے نہیں چھین سکتا تھا ۔
بس یہی انتہا تھی اُس کی محبت کی !
حق مہر میں ملا اپارٹمنٹ تو اُس نے کسی طرح بازیاب کرا لیا تھا مگر باقی جائداد کے بارے میں وکیل نے جو کہا تھا کسی حد تک ٹھیک ہی کہا تھا ۔ ہمدانی کی پہلی بیوی اُس سے اپنی زندگی میں یہ معاہدہ لکھوا کر جا چکی تھی کہ اُس کے مرنے کے بعد تمام جائداد خود بہ خود اُس کے بچوں کے نام منتقل ہو جائے گی ۔ غالب امکان یہ تھا کہ اِسی شرط پر اُس نے نازنین نامی غلطی کے لیے معاف کیا گیا تھا ۔ اُس کی وصیت کو عدالت میں چیلنج ضرور کیا جا سکتا تھا مگر یہ کوئی مضبوط کیس نہیں تھا ۔ یوں بھی کاروبار تینوں بیٹوں میں وہ زندگی ہی میں تقسیم کرچکا تھا ۔ تینوں بیٹوں اور ایک بیٹی کو ایک ایک گھر بھی وہ تحفتاً دے چکا تھا ۔ اب بچی کچی جائداد کے آٹھویں حصے کے لیے کئی سال کی کورٹ کچہری شہریار کو وقت کا ضیاع ہی لگی تھی ۔
’’کیسا لگا ؟ ‘‘وہ اُسے نیا گھر دکھانے لایا تھا۔
’’ بہت اچھا ہے …سب سے اچھی بات یہ ہے کہ صحن بڑا سا ہے ۔ اوپر والاحصہ میں کرائے پر چڑھا دوں گی کوئی شریف سی فیملی دیکھ کر ۔ اپارٹمنٹ کا کرایہ بھی آتا رہے گا تو میرا اور نرما کا گزارا تو اچھا ہو جائے گا ۔ بینک میں جو پیسے ہیں اُن سے میں اپنا بوتیک شروع کرنے کی کوشش کروں گی ۔‘‘وہ اُس کے پرجوش انداز پر مسکرایا تھا ۔
’’ہولڈ آن‘ ہولڈ آن ! دو گھر اور بھی ہیں جو اِسی قیمت میں مل رہے ہیں وہ بھی دیکھ لو ۔یہ ذرا پرانے طرز کا بنا ہوا ہے ۔‘‘
’’ نہیں ۔مجھے پسند ہیں ایسے گھر کھلے کھلے ‘پتا ہے مسز ڈنشاء کا گھر بھی ایسا ہی تھا ۔ بڑا سا لان تھا اُس میں جھولا بھی لگا ہوا تھا مگر ہمیں امی کبھی اُس پر بیٹھنے نہیں دیتی تھیں اور نہ لان میں کھیلنے دیتی تھیں کہ گھاس خراب نہ ہو جائے ۔ کہتی تھیں محسنوں کا صبر آزمانا نہیں چاہئے جانے کب جواب دے جائے ۔مگر اب تو میرا اپنا گھر ہو گا ویسا ہی‘میں یہاں جھولا لگواؤں گی ۔‘‘ وہ صحن کی طرف اشارہ کر کے جوش سے بولی تھی ۔شہریار اُس کا خوشی سے تمتماتا چہرہ دیکھ کر مسکرایا تھا ۔
’’ تھینک یو سو مچ۔‘‘ وہ پچھلے کچھ دنوں میں کئی بار اُس کا شکریہ ادا کرچکی تھی ہنستے ہوئے بھی اور روتے ہوئے بھی ۔ شہریار نے اُسے یہی بتایا تھا کہ یہ پیسہ ہمدانی کے بچوں کے ساتھ آؤٹ آف کورٹ سیٹل منٹ کا نتیجہ تھا ۔وہ نہیں چاہتا تھا کہ فکر معاش اُسے پھر لاحق ہو ۔
٭٭٭٭
’’ مجھے طلاق چاہئے۔‘‘وہ ڈائنگ ٹیبل پر بیٹھا ناشتے میں مشغول تھا جب یہ دھماکے دار مطالبہ داغا گیا تھا ۔ لمحے بھر کو کانٹے سے آملیٹ کا ٹکڑا اُٹھاتا اُس کا ہاتھ جم گیا تھا اور اُس نے چونک کر شامین کی طرف دیکھا تھا ۔ اگلے ہی لمحے اُس کے چہرے پر وہی ازلی اعتماد سج گیا تھا جس سے شامین کو نفرت تھی ‘مگر وہ نہیں جانتی تھی کہ آج یہ اعتماد ظاہری تھا ۔ طلاق کے مطالبے نے اُسے چونکایا ضرور تھا مگر اصل پریشانی اِس بات کی تھی کہ وہ نہ نشے میں تھی نہ کسی جذباتی کیفیت کے زیر اثر ۔ شہریار نے کرسی کی طرف اشارہ کر کے اُسے بیٹھنے کو کہا تھا ۔
’’ کیوں؟‘‘پلیٹ پرے کھسکا کر پوری طرح اُس کی طرف متوجہ ہو کر اُس نے پوچھا تھا۔
’’ کیوں؟سیریسلی ؟جو تعلق ہے ہمارے بیچ ہے، اُس کے بعد تم سمجھتے ہو کہ ’’کیوں ‘‘پوچھنا بنتا ہے ؟ ‘‘وہ استہزائیہ انداز میں بولی تھی ۔
’’ یس … میرے خیال میں یہ ایک کمفرٹیبل ارینجمنٹ ہے ہم دونوں کے لیے۔‘‘
’’تمہارے لیے ہو گی ‘میں تم سے تنگ آچکی ہوں۔‘‘وہ نخوت سے بولی تھی ۔
’’تم مجھ سے ملنے سے پہلے بھی ایسی ہی تھی۔یہ جو تم نے اپنے آپ کو کہانی سنا رکھی ہے نا کہ تم کوئی مقید شہزادی ہو اور میں ٹھگ ،یہ تصویر کا صرف ایک رخ ہے ۔ اپنی ایڈکشن اور مینٹل ہیلتھ ایشوز کے ساتھ تمہارا کیا خیال ہے، تمہیں کتنا وقت لگتا ؟ اپنے ڈیئر گرینڈ پا کی پچپن سال کی محنت اُجاڑنے میں ؟ اور سب پھونکنے پھانکنے کے بعد تم کہاں ہوتی ؟ اگلی ڈوز کے لیے بھیک مانگ رہی ہوتی ، یا یہ اُجڑا چمن بیچنے کی کوشش کر رہی ہوتی ۔ ‘‘ وہ اُس کے وجود کی طرف اشارہ کر کے تمسخرانہ اندازمیں سے بولا تھا ۔
’’ یہ تعلق ایک باہمی مفاد کا تعلق ہے۔ میں پیسہ اور پاور کنٹرول کر رہا ہوں جو کہ میں چاہتا ہوں ۔ اور تم ’’پارٹی ‘‘کر رہی ہو یا ایک بہت فن وے میں خود کو برباد کر رہی ہو‘اِس اطمینان کے ساتھ کہ ڈوبو گی نہیں ،بلکہ ڈیپ اینڈتک پہنچنے سے پہلے کسی مہنگے ریہیب میں پہنچا دی جائو گی ۔ وکٹم کیوں سمجھتی ہو تم خود کو ‘ تم بھی فائدے میں ہو ۔ ‘‘
’’میرا اتنا خیال رکھنے کا شکریہ ‘ مگر اب مزید اِس کی ضرورت نہیں ہے ۔ ‘‘ خلاف توقع وہ بھڑکے بغیر کچھ طنزیہ مگر ٹھنڈے لہجے میں بولی تھی ۔
’’میں تمہارے ساتھ کسی تنازعے میں نہیں پڑنا چاہتی ۔ تم یہ رشتہ کیوں قائم رکھنا چاہتے ہو مجھے اچھی طرح معلوم ہے ۔ ہم مل کر کسی ایسے حل تک پہنچ سکتے ہیں جو ہم دونوں کے لیے قابل قبول ہو ۔‘‘ پانچ سالہ شادی میں شاید پہلا موقع تھا جب وہ معقول انداز میں بات کر رہی تھی اور وہ کچھ غصے میں تھا ۔ ہارٹ اٹیک کے بعد اُس میں کافی مثبت تبدیلی آئی تھی ۔ پچھلے تین مہینے سے وہ ناصرف منشیات استعمال نہیں کر رہی تھی بلکہ تھراپسٹ کے ساتھ سیشنز بھی باقاعدگی سے لے رہی تھی ۔ اُسے لگا تھا شاید موت کو سامنے دیکھ کر اُسے اپنی صحت کا خیال آگیا تھا مگر اب اُسے لگ رہا تھا کہ معاملہ کچھ اور ہی تھا ۔ وہ سبطین شاہ کے ساتھ رابطے میں تھی ۔ وہ اُسے دیکھنے ہسپتال بھی آیا تھا اور اُس کے بعد بھی دو بار وہ ملاقات ہو چکی تھی ۔ مگر بات شاید اب’’ fling ‘‘سے آگے بڑھ چکی تھی ۔
’’وہ چھوڑ دے گا اپنی بیوی کو تمہارے لیے ؟ ‘‘ شہریار نے تصدیق کے لیے ہوا میں تیر چلایا تھا ۔ شامین نے جس طرح جواباً پہلو بدلا تھا ،تصدیق ہو گئی تھی ۔
’’ نا بھی چھوڑے تو مجھے فرق نہیں پڑتا ۔‘‘ وہ سنبھل کر بولی تھی ۔
’’ شامین غلطی کر رہی ہو تم ‘وہ مجھ سے بھی زیادہ گھٹیا آدمی ہے ۔ ‘‘وہ سنجیدگی سے بولا تھا ۔
’’ اوہ !رئیلی ؟‘‘شامین نے استہزائیہ مسکراہٹ کے ساتھ پوچھا تھا۔
’’ہاں۔‘‘
’’آئی ڈونٹ کیئر ۔‘‘شامین نے لاپرواہی سے کندھے اُچکائے تھے ۔
’’ اوکے ‘ تھوڑا سا وقت دو مجھے اور اپنے آپ کو بھی ۔ کیا واقعی تم یہ کرنا چاہتی ہو اوریہ واقعی تمہارے لیے یہ ٹھیک ہے ،اس پر تھوڑا اور سوچ لو ۔ ‘‘شامین نے جانچتی نظروں سے اُسے دیکھا تھا ۔
’’ اگر تم سمجھتے ہو کہ تم پھر مجھے پھنسا سکتے ہو تو یہ خوش فہمی دور کر لو ۔ ‘‘شہریار بے اختیار مسکرایا تھا۔
’’ مجھے ایسی کوئی خوش فہمی نہیں ہے ۔ تم بیوقوف صرف تب بنتی ہو جب تم بننا چاہتی ہو ‘ میں تمہیں بیوقوف نہیں بنا سکتا کیونکہ اس وقت تمہاری خوشی کسی اور کے ہاتھوں بیوقوف بننے میں ہے ۔‘‘
’’ تو پھر وقت کیوں مانگ رہے ہو ؟‘‘
’’پکچر ذرا کلیئر ہو جائے گی ۔ بہت کچھ ایسا ہے جس سے تم انجان ہو ۔بہتر ہے کہ تم جو بھی فیصلہ کرو تمام حقائق جان کر کرو ۔ ‘‘
’’تم کیا کررہے ہو؟‘‘شامین نے اُسے شک سے دیکھا تھا ۔
شہریار جواباًپراسرار سے انداز میں مسکرا دیا تھا ۔
’’ تھوڑا سا وقت ڈیئر وائف ‘دو مہینے زیادہ سے زیادہ پلیز ! ‘‘وہ کتنا شاطر ہے وہ جانتی تھی مگر اُس کا انداز اُسے متجسس بھی کر رہا تھا ۔ کچھلمحے سوچنے کے بعد اُس نے اثبات میں سر ہلایا تھا ۔
’’ اوکے ‘مگر صرف دو مہینے ۔ ‘‘وہ کہہ کر اُٹھ کھڑی ہوئی تھی ۔
’’ شیو ر… ‘‘ شہریار نے مطمئن انداز میں یقین دلایا تھا ‘مگر اُس کے جانے کے بعد ٹھنڈے آملیٹ کے بے خیالی سے ٹکڑے کرتا شہریار بیک اپ پلان سوچنے میں مصروف تھا ۔ اُمید تھی کہ شامین سب جاننے کے بعد اپنا فیصلہ بدل دے مگر ایسا ضروری بھی نہیں تھا ۔ وہ رسک نہیں لے سکتا تھا ‘ دائو پر لگی قیمت بہت بڑی تھی ، یہ بازی اُسے ہر صورت جیتنی تھی ۔ وہ شامین کو کسی صورت طلاق نہیں دے سکتا تھا ۔ ایسی کوئی سیٹلمنٹ نہیں ہو سکتی تھی جو اُس کے لیے قابلِ قبول ہوتی ۔ بہت سے فنڈزتھے جو وہ شیخ انٹرپرائزز کے بورڈ آف ڈائرکٹرز کو چکمہ دے کرذاتی پروجیکٹس میں منتقل کر چکا تھا ۔ شامین اُسے مزید حصہ دینے کو بھی تیار تھی ‘مگر اتنا کافی نہیں تھا اُس کے لیے۔ پھرشامین اکیلی اُس کا مقابلہ نہیں کرسکتی تھی ،لیکن اگر اُسے سبطین شاہ اور اُس کی فیملی کا ساتھ میسر تھا تو وہ بھی ایک بہتر بارگینگ پوزیشن میں تھی ۔اور سچ تو یہ تھاکہ ’’سب کچھ‘‘ سے کم کسی ڈیل پر وہ راضی نہیں تھا ۔
یہ سب تو اپنی دانست میں وہ حاصل کر چکا تھا ۔اِس میں سے کچھ چھوڑناتوگویا تنزلی تھی، اور وہ صرف آگے بڑھنے پر یقین رکھتا تھا ۔ پیسہ اور طاقت نے اس کی حرص کو صرف بڑھایا تھا ۔ شامین کی نشے کی لت اور اب یہ دل کا دورہ کوئی ڈھکی چھپی بات تو نہیں تھی ۔ کوئی’’ ناخوشگوار حادثہ ‘‘کس حد تک شکوک اور شہبات کو جنم دے سکتا تھا ؟
ہاتھ سے پیشانی مسلتے ہوئے اُس نے سوچا تھا۔اُس کی نظر اگلی منزلوں پر تھی اور اپنی راہ میں آنے والی رکاوٹوں کو ہٹانے کے لیے وہ کسی حد تک بھی جا سکتا تھا۔
٭٭٭٭
وہ بارہ سال کی تھی جب اُس نے مسز ڈنشاء کے ٹی وی پر پہلی دفعہ ماڈلز کو ریمپ پر کیٹ واک کرتے دیکھا تھا ۔
دراز قد حسینائیں چہرے پر ادائے بے نیازی سجائے کتنے کروفر سے چل رہیں تھیں ۔ اُس کے بارہ سالہ ذہن میں یہی آیا تھا کہ اِن سب لڑکیوں کے پاس بہت سارے پیسے ہوں گے ‘بڑے لوگوں کی بیٹیاں ہوں گی تب ہی یوں اکڑ کر چلتی تھیں ۔ اُس کی ماں تو ہمیشہ اُسے یہی سیکھاتی تھی کہ سہج سمٹ کر نگاہیں، سر جھکا کر چلنا کیونکہ نہ پائوں تلے زمین اپنی ہے نہ سر پر آسمان اپنا ۔ خود اُس کی ماں بھی تو ایسے ہی چلتی تھی جیسے اپنے ہونے پربھی شرمندہ ہو۔
مگر یہ لڑکیاں!کتنی بے پرواہ ،کتنی بے باک تھیں ‘ جیسے دنیا میں کسی کا ڈر نہ ہو ،کوئی فکر نہ ہو دنیا ان کی مٹھی میں ہو ۔ اُس دن لاشعوری طور پرایک خواب اُس کی آنکھوں میں اُتر آیا تھا ،ایسے ہی کسی دن اونچے سے چبوترے پر ادائے بے نیازی سے چلنے کا ۔ آج اٹھارہ سال بعد ریمپ سامنے تھا اور وہ اُس پر قدم رکھنے کے لیے اشارے کی منتظر تھی ۔ اُس کے ساتھ دائیں بائیں دو ماڈلز موجود تھیں ۔ اُسے اپنے ڈیزائین شدہ کپڑے فیشن ویک میں دیکھانے کا موقع ملا تھا ۔
باقی ہر چیز کی طرح یہ بھی شہریار کے تعلقات کی کرامت تھی ۔ انہیں چلنے کا اشارہ ملا تھا ۔ پہلا قدم رکھتے ہوئے دل دھڑکا تھامگر وہ جوش ندارد تھا جو اِتنا دیرینہ خواب پورا ہونے پر ہونا چاہئے تھا ۔ اُس نے ذہن پر زور ڈال کر وہ سارے لمحے یاد کرنے کی کوشش کی تھی جب وہ چھت پر سب کی نظروں سے دور خود کو ریمپ پر تصور کر کے کیٹ واک ماڈلز کی طرح چلا کرتی تھی ۔