Azadi Kay Is Safar Main : Komal Sadiq
آزادی کے اس سفر میں : کومل صادق
اسلامی جمہوریہ پاکستان کی سالگرہ نزدیک آ رہی تھی ۔ اس بارشہر کی مرکزی تقریب کے لیے بطور مہمان خصوصی ان کا انتخاب کیا گیا تھا ۔ان کا شمار اُن گنے چنے چند لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی آنکھوں سے پاکستان بنتے دیکھا ۔ آرام دہ صوفے پر نشست جمائے وہ کھڑکی سے باہر دیکھ رہے تھے کہ زونا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی ۔ اُس کے ہاتھ میں ڈائری اور قلم تھا۔
’’میاں جی!کیا ہو رہا ہے؟‘‘ اس نے پاس آکر نشست سنبھالی۔
’’ کچھ خاص نہیں،بس موسم کی ادا دیکھ کر خوش ہو رہا ہوں۔‘‘
’’ اچھا میاں جی!آپ کوتقریب میں جانا ہے،تو میں نے سوچا آج ذرا فرصت ہے آپ اپنی تقریر کے اہم نکات بتاتے جائیں ۔ میں نوٹ کر لوں پھر تقریر کی شکل میں ڈھال لیں گے ۔‘‘ اس نے قلم سے ڈھکن اتارتے ہوئے کہا ۔ میاں صاحب کھل کر مسکرائے۔
’’ جھلی نہ ہو تو بھلا مجھے بولنے کے لیے لکھے گئے الفاظ کی کیا ضرورت؟ ارے!میں خود پاکستان ہوں ۔ اس کی تخلیق اور ارتقا کا چشم دید گواہ ۔ ہجرت65ء اور 71ء میرے دل پر نقش ہیں۔ان 75سالوں کے سفر کا اوّلین مسافر ہوں میں ۔ مجھے لکھی ہوئی تقریر کی ضرورت نہیں۔‘‘ ’’اچھا ٹھیک ہے میاں جی! جیسے آپ کی مرضی۔‘‘ اس نے قلم پر ڈھکن لگا دیا۔
’’ویسے میاں جی!اب آپ کی عمر زیادہ ہوگئی ہے ، یہ نہ ہو اُدھر جا کر بھول جائیں اور پطرس بخاری کے مرید پور کے پیر والا حساب ہو۔‘‘ وہ شرارت سے کھلکھلائی اور کمرے سے باہر نکل گئی ۔اس کے جانے کے بعد وہ مسکرائے اور پیچھے ٹیک لگا لی ۔ اُن کا ذہن ایک ہی جست میں 2023ء سے1947ء میں پہنچ گیا۔
٭…٭…٭
وقت نے کیلنڈر کی دیوار پر 1947ء چسپاں کر دیا تھا ۔ برِصغیر پاک و ہند کے طول و عرض میں ہلچل مچی ہوئی تھی ۔ دوسری جنگِ عظیم کے خاتمے پر تاجِ برطانیہ جلد از جلد اقتدار مقامی لوگوں کے حوالے کر کے یہاں سے جاناچاہتے تھے ۔ ہندو چاہتے تھے کہ اقتدار ان کے حوالے کر کے اکھنڈ بھارت کا خواب پورا کیا جائے اور قائد اعظم مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے الگ مملکت کے قیام کے لیے جدوجہد کر رہے تھے ۔ 15 جولائی 1947کو 3 جون کے منصوبے کی توثیق کرتے ہوئے برطانوی پارلیمنٹ نے قانون آزادیِ ہند منظور کیا جس کے مطابق ہندوستان دو خود مختار مملکتوں پاکستان اور بھارت میں تقسیم کر دیا جائے گا ۔مسلم اکثریتی علاقے پاکستان اور باقی ماندہ بھارت کے حصے میں آئیں گے ۔ ریاستیں فیصلہ کرنے میں آزاد ہوں گی ۔ پنجاب مسلم اکثریتی صوبہ تھا ،اسی لیے ضلع گورداسپور کے موضع لکھوال کے گاؤں حسن پور کا رہائشی ماسٹر نذیر احمد بھی پُرجوش تھا ۔راجپوت سلہریا برادری سے تعلق رکھنے والا ماسٹر نذیر 102ایکڑ اراضی کا مالک تھا ۔ زمینداری کے ساتھ ساتھ وہ مقامی سکول میں پڑھاتے تھے ۔ پکّی ماڑی (دو منزلہ گھر)تھی ۔ علاقے میں ایک مقام تھا ۔ماسٹر صاحب کے چار بچے تھے ۔ 18سالہ رضیہ جس کی اکتوبر میں شادی طے تھی ۔ 16سال کا اکرم نذیر جو میٹرک کر چکا تھا۔ ماسٹر صاحب لاہور کے گورنمنٹ کالج میں اس کا داخلہ کروانا چاہتے تھے ۔10سال کا اسلم نذیر جو ابا کے سکول پڑھتا تھا اور 8سال کی سکینہ ۔ ماسٹر صاحب پکے مسلم لیگی تھے ۔
گورداسپور ، پٹھان کوٹ ، بٹالہ اور ہوشیارپور میں ہونے والے جلسوں میں باقاعدگی سے شرکت کرتے ۔جیسے جیسے 14 اگست کا دن نزدیک آ رہا تھا، حسن پور میں جوش و خروش بڑھتا جا رہا تھا ۔ ہاجرہ بیگم نے اپنے ہاتھ سے پرچم سیا تھا ۔ رضیہ نے جھنڈے پر چاند تارا کاڑھا تھا ۔ ایک دن سب صحن میں بیٹھے آل انڈیا ریڈیو سن رہے تھے ۔ ماسٹر صاحب کھنکارے۔
’’بات یہ ہے کہ14 اگست کو جو سب سے پہلے اٹھے گا وہی جھنڈا لہرائے گا۔‘‘
’’ یہ کیا بات ہوئی ؟ میں بانس لایا ہوں میں جھنڈا لہراؤں گا ۔ ‘‘ اکرم نے سینے پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔
’’ دیکھو بانس تم لائے ہو،جھنڈا اماں اور آپا نے سیا ہے اور آج ابا جی نے جھنڈا لگانے کے لیے جگہ تیار کی ہے ۔اب پیچھے بچے ہم ‘ سکینہ چھوٹی ہے اس لیے جھنڈا میں لہراؤں گا ۔ ‘‘ اسلم نے بھر پور دلائل دیتے ہوئے کہا۔
’’ اچھا ! اچھا ! لیڈر نہ بنو جو ماسٹر صاحب نے کہا ہے وہی ہوگا۔‘‘ اماں نے بات ختم کر دی ۔ ریڈیو پر ریکارڈ چل رہا تھا ۔ سب مزے سے سننے لگے۔
٭…٭…٭
13اگست کی رات دبے پاؤں گزر رہی تھی ۔غم والی رات نیند نہیں آتی اور خوشی والی رات سوتا کون ہے کہ مصداق سب جاگ رہے تھے ۔ صحن میں بچھی تمام چارپائیوں پر دھرے اجسام خواب بن رہے تھے ۔ آزادی کے سورج کو خوش آمدید کہنے کے لیے رات ڈھل جانے کا انتظار کر رہے تھے ۔ رفتہ رفتہ سب مکیں نیند کی آغوش میں چلے گئے سوئے اسلم کے ۔وہ اپنی دھن کا پکاتھا جو کہتا کر گزرتا تھا ۔ ابا جی اکثر ترنگ میں ہوتے تو کہتے ۔ ’’میرا یہ بیٹا بہت آگے جائے گا اس کی آنکھوں کا عزم اس کے روشن مستقبل کا پتا دیتا ہے۔‘‘ جیسے ہی افق کی مشرقی منڈیر پر ہاتھ رکھ کر سورج نے مندی مندی آنکھوں سے جھانکا وہ فوراً اٹھا ۔ برآمدے میں رکھے جھنڈے کو اٹھایا اور سیڑھیاں چڑھ کر چھت پر آگیا ۔ اس نے جھنڈا گاڑ کر پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگایا ۔ بادِنسیم جھنڈے کو گدگدانے لگی ۔ سورج کی کرنوں نے مسکرا کر اس منظر کو دیکھا اور اپنی کرنوں سے چاند تارے کو اجال دیا ۔ نعرے کی آواز سن کر سب ایک ساتھ بیدار ہوئے اور چھت کی طرف دیکھا تو اسلم جھنڈے کے پاس کھڑا سب کو فاتحانہ نظروں سے دیکھ رہاتھا ۔
٭…٭…٭
اُس وقت سب یہی کہہ رہے تھے کہ گورداسپور پاکستان کے حصے میں آئے گا اس لیے پورا ضلع خوشی منا رہا تھا ۔ سب شکر ادا کر رہے تھے کہ وہ ایک آزاد وطن کے خواب کی اُجلی تعبیر کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ۔ یہاں مسلمانوں کی اکثریت تھی اس لیے لوگوں کو کوئی فکر نہ تھی ۔ حسن پور سے چند مِیل کے فاصلے پر سکھوں کی آبادیاں تھیں ۔ مسلمان جوش و خروش سے عید منانے کی تیاریاں کر رہے تھے کہ 17اگست کو پاکستان بھارت کے درمیان حدود کا تعیّن کرنے والے سرحدی کمیشن (ریڈ کلف ایوارڈ) نے ظالمانہ،معتصبانہ اور بے انصافی پر مبنی فیصلہ کرتے ہوئے ضلع گورداسپور کی تین تحصیلوں گور داسپور،بٹالا اور پٹھان کوٹ کو بھارت کے حوالے کر دیا ۔ راوی کے پار تحصیل شکر گڑھ پاکستان کے حصے میں آئی ۔ اعلان ہوتے ہی وہ تمام سکھ جو مسلمانوں کو خوشیاں مناتے دیکھ کر پیچ وتاب کھا رہے تھے کھل کر سامنے آ گئے ۔ حسن پور کے باسی چھتوں پر چڑھے عید کا چاند دیکھ رہے تھے کہ اچانک سکھوں کی بستیوں کی طرف سے شور وغل سنائی دیا ۔ اتنے میں ایک جوان تیزی سے گھوڑا دوڑاتے ہوئے آیا اور للکارتا ہوا حسن پور کی گلیوں سے گزرا۔
’’ہوشیار!سکھ مسلمانوں کی بستیوں کو لُوٹ رہے ہیں ۔ ‘‘ اور تیزی سے اگلے گاؤں کی طرف نکل گیا ۔ گاؤں میں ہلچل مچ گئی ۔ تمام مرد اور لڑکے لاٹھیاں،بھالے اور جو ہتھیار ہاتھ لگا لے کر گاؤں کے باہر رڑی(میدان)میں جمع ہونے لگے ۔ گھروں میں جہاں سویاں بننے کی تیاریاں ہو رہی تھیں چولہوں کی آگ بھجا دی گئی ۔ رضیہ جو مہندی گھول رہی تھی اس کے ہاتھ سے کٹوری زمین پر گر گئی اور ہر طرف مہندی بکھر گئی ۔ مہندی سے وہ سرخ رنگ کہاں آ سکتا تھا جو آج خون سے آنے والا تھا ۔ حاجرہ نے محلے کی تمام عورتوں اور بچیوں کو حکیم صاحب کے گھر جمع کرنا شروع کر دیا ان کے آنگن میں بڑا گہرا اور کھلا کنواں تھا ۔ رضیہ، عطیہ اور خالہ صفورا بھی اس کی مدد کر رہی تھی ۔ اچانک آنے والی اس افتاد میں یہی فیصلہ ہوا کہ جان دے دیں گیں مگر سکھوں کے ہتھے نہیں چڑھیں گے ۔ کیونکہ ہندوستان کے باقی علاقوں سے ہجرت کرنے والے مسلمانوں پر مظالم کی داستانیں حسن پور پہنچ چکی تھی ۔ جلد ہی سکھ سنکھ بجاتے غول کے غول گھوڑوں پر سوار حسن پور کی حد پر آن رکے ۔ ان کی آنکھوں میں وحشیانہ چمک ان کی تلواروں اور کرپانوں کی چمکتی دھاروں کو شکست دے رہی تھی ۔ مسلمانوں نے ماسٹر صاحب کی قیادت میں نعرء تکبیر بلند کر کے سکھوں کو للکارا ۔ لاٹھیوں اور بھالوں سے کب تک دفاع ہوتا سکھ گاجر مولی کی طرح مسلمانوں کو کاٹتے چلے گئے ۔ اکرم نے اسلم کا ہاتھ پکڑا اور تیزی سے بھاگتا ہوا رڑی کے ایک طرف دور تک پھیلے مکئی کے کھیتوں میں گھس گیا ۔ماسٹر صاحب زخموں سے چور چور زمین پر گرے اور مشعالوں کی روشنی میں بلوائیوں کو گائوں کی طرف جاتے دیکھا۔
’’آہ! رضیہ ! سکینہ ! ‘‘ بس یہی الفاظ ان کے لبوں پر آئے اور انہوں نے دم توڑ دیا ۔ بلوائیوں نے جو نظر آیا اسے کاٹ ڈالا ، گھروں میں لوٹ مار کے بعد آگ لگانے لگے ۔ گھروں میں دبکی ہوئی عورتیں اٹھائی جانے لگی ۔ پانچ چھ سکھ دیواریں کود کر حکیم صاحب کے آنگن میں اترے اور حاجرہ نے سب کو چیخ کر کہا ۔
’’کود جاؤ۔‘‘ اور ساری عورتیں اور بچیاں کنوئیں میں کود گئیں ۔ ایک مسلح سکھ جوں ہی قریب آیا حاجرہ نے اس کے منہ پر تھوکا اور کنوئیں میں چھلانگ لگا دی جہاں اس کی رضیہ اور سکینہ گم ہوئی تھی۔
٭…٭…٭
اکرم ‘اسلم کا ہاتھ تھامے دم سادھے مکئی کے کھیت میں چھپا رہا ۔ جہاں بڑی بڑی گھاس انہیں حفاظت سے آغوش میں لیے ہوئے تھی ۔ جلتی ہوئی بستی،مسلمانوں کی چیخ و پکار ، واہے گرو کے نعرے اور گھوڑوں کی ٹاپیں ان کے ذہنوں میں ہیجان برپا کر رہیں تھیں ۔ رات ڈھلی اور لٹیرے کسی اور طرف نکل گئے تو خاموشی ہونے پر وہ بھائی کا ہاتھ تھامے کھیت سے نکلا اور رڑی کی طرف آیا تمام مرد شہید ہو چکے تھے ۔ اباکی لاش بھی ادھر پڑی تھی ۔ وہ روتے ہوئے بستی کی طرف بھاگے ۔ جیسے ہی گھر پہنچے ہر طرف تباہی تھی ۔ مویشی بھی وہ ہنکا کر لے گئے ۔ صرف ایک بھوری بیٹھی رہ گئی ۔ صحن میں ہر طرف سامان بکھرا ہوا تھا ۔ اکرم اندر گیا سب صندوق کھلے پڑے تھے ۔ زیورات اور پیسے غائب تھے ۔ وہ دوسرے کمرے میں گیا اور پر چھتی پر برتنوں کے پیچھے چھپایا گلگ اتار کر توڑا ، پیسے جیب میں ڈالے ، نعمت خانے سے جو ہاتھ لگا ایک تھیلے میں ڈالا ، دو چھاگلوں میں پانی بھرا اور باہر آگیا ۔ اسلم صحن کے وسط میں زمین پر بیٹھا جھنڈے کو سینے سے لگائے ہوئے تھا ۔ جو لوٹ مار کے دوران گرایا گیا تھا ۔ اکرم اسے لیے باہر آگیا۔