یہ ستارے مدہم سے : عندلیب زہرا

کسی بھی فلم یا ڈرامے کی کامیابی کا انحصار صرف ہیرو ہیروئن پر نہیں ہوتا یہ ایک ٹیم ورک ہے۔مکمل ٹیم ورک…
جس میں لکھاری، ہدایت کار، کیمرہ مین،موسیقار یہاں تک کہ اسپاٹ بوائے سب شامل ہیں لیکن کریڈٹ یا پہچان صرف ہیرو ہیروئن کو ملتی ہے ۔ عوام ان کو دیکھنا چاہتی ہے۔نوجوان انہیں کاپی کرتے ہیں۔ان کا اسٹائل،انکے لباس،ڈانس سب مقبول ہو جاتے ہیں ۔معاوضہ بھی انہی کا بڑھتا ہے ۔ شوز میں انہی کو بلایا جاتا ہے ۔ عوام ان کے ساتھ تصاویر بنوانا پسند کرتے ہیں۔ اور ان کے فینز اپنے بچوں کے نام ان کے نام پر رکھتے ہیں ۔
جیسے اسی کی دہائی میں پیدا ہونے والی لڑکیوں میں ثنا نام بہت مقبول ہوا ۔وجہ ان کہی کی ’’ثنا مراد ‘‘ جس نے ریکارڈ کامیابی حاصل کی۔
نوے کی دہائی میں آپ کو لڑکوں میں شاہ رخ نام ملے گا وجہ شاہ رخ خان کی مقبولیت…
پھر سلمان خان کا ہیر اسٹائل،گلاسز،گلے کا رومال…
یہ سپر سٹارز ہوتے ہیں جو دمکتے ہیں ۔ لیکن ان کی اوٹ میں کچھ ایسے ستارے بھی ہوتے ہیں جو ان کے سامنے مدھم ہوتے ہیں یا ان کی روشنی ان سپر اسٹارز کی موجودگی میں مفقود ہوتی ہے ۔ کسی آفس کے سیٹ پر ڈیسک کے پیچھے بیٹھی ہوئی لڑکی یا لڑکا … ہیروئین یا ہیرو جب کالج کے برآمدے سے گزرتے ہیں تو ان کے آگے پیچھے سے کچھ کردار مصروف سے انداز میں گزرتے ہیں ۔ لفٹ میں یا سیڑھیاں چڑھتے اترتے، یاجب ہم ان کے رقص سے لطف اندوز ہورہے ہوتے ہیں تو ان کی بیک پر یہ ہی ایکسٹرا یا معاون اداکار ایک جیسے لباس اور انداز میں محو رقص ہوتے ہیں ۔
ان کے چہرے ہمیں یاد نہیں رہتے … ان کے نام جاننے میں کسی کو دلچسپی نہیں ہوتی ۔ لیکن سکرین کو مکمل یہ ہی کرتے ہیں ۔تنہا ہیرو ہیروئن کب تک مکالمے ادا کر سکتے ہیں ؟ ان کے مکالموں کے بیچ میں یہ ہی اپنی انٹری دیتے ہیں تو گانے لہو گرماتے ہیں ۔
معاون اداکار ساری زندگی اپنا نام بنانے کی تگ و دو میں مصروف رہتے ہیں ۔لیکن انہیں شناخت کم ہی ملتی ہے۔ یا ان پر کسی ایک کردار کا ٹھپا لگ جاتا ہے ۔
ہیروین کی سہیلی،ہیرو کی بہن،ملازم وغیرہ۔
’’فلاں ڈرامے میں ہیروئن کی سہیلی بنی تھی ناں یہ لڑکی۔‘‘ یا ’’ارے!یہ ہیرو کا باس بنا تھا۔‘‘ وغیرہ۔
یہ شوبز کی دنیا کے ہی ستارے ہیں لیکن ہمیشہ شکوہ کناں نظر آتے ہیں ۔ان میں سے اکثر ضرورت کے تحت آئے ہیں ۔ گھر کی کفالت،یا کوئی بھی مسئلہ ۔ ہیرو ہیروئن کے والدین،چچا،جن پر انہی کرداروں کا ٹھپا لگ جاتا ہے ۔
کچھ ایسے ہیں جو اپنی شناخت کے لیے ہاتھ پیر مار رہے ہوتے ہیں ۔وہ کوشش کرتے ہیں کہ ان کا کام کسی پروڈیوسر کی نظر میں آ جائے اور اس امید پر کہ ایک دن وہ سپر اسٹار کہلائیں گے ، ہر رول قبول کرتے ہیں ۔
کہا جاتا ہے کہ ماضی کی اداکارہ’’ نیلو‘‘ نے اپنے فنی کیرئیر کا آغاز ایک ایکسٹرا سے کیا تھا ۔ اسی طرح اداکارہ ’’ رانی‘‘ نے بھی نیچے سے اوپر کا سفر طے کیا ہے ۔ بہت کم ایسے ہوتے ہیں جنہیں اپنی محنت یا خوابوں کی درست سمت مل جاتی ہے ۔ اور وہ اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اس کی مثال ’’سبینہ فاروق‘‘ ہیں جنہیں کابلی پلاؤ میں مرکزی کردار ملا ۔اس سے پہلے وہ معاون اداکارہ ہی تھیں ۔ بڑے ستارے اپنی قیمت وصول کر لیتے ہیں لیکن یہ معاون اداکار یا ایکسٹرا ایک مشقت بھری زندگی گزارتے ہیں ۔ جب اس فریبی دنیا سے کنارہ کش ہوتے ہیں تو کسی کو ان کی غیر موجودگی کی خبر نہیں ہوتی ۔ جب دنیا سے خاموشی سے گزر جاتے ہیں تو کسی کو یاد بھی نہیں رہتا کہ انہوں نے کس فلم میں کس سپر اسٹار کے ساتھ کام کیا تھا ۔
کیا ہی اچھا ہو کہ ایک ایسوسی ایشن ان کے لیے بھی ہو جہاں ان کے حقوق کی بات ہو ۔معاوضے کا تذکرہ ہو ۔ان کے سراہنے کا اہتمام ہو …یہ ستارے جو مدھم سے ہوتے ہیں ہر سیٹ کو مکمل کرتے ہیں …ان کا بھی حق ہے کہ ان کی صلاحیتوں کو تسلیم کیا جائے ۔انہیں آگے آنے کا موقع دیا جائے۔