مٹی کی گولک: سنیعہ عمیر

رات بہت پر سکون تھی مگر بار بار کسی کتے کا بھونکنا، جھینگر کی مخصوص آواز اور وقفے وقفے سے کھمبوں پر پڑنے والے چوکیدار کے ڈنڈے رات کے سناٹے کو توڑ رہے تھے ۔ میں رات کے اس پہر پیڑ کے ایک تنے پر بیٹھا محسوس کر رہا تھا کہ واقعی زندگی فانی ہے۔
میرے نیچے موجود تنا بھی کبھی تناور درخت تھا۔سرسبز پتوں سے لدا ‘ لہراتا ہوا جس کی چھاؤں میں میری زندگی کا سب سے یادگار دن گزرا تھا ۔ گرچہ عمر گزرنے کے ساتھ ساتھ میری حسیات کمزور ہوتی گئیں مگر اس دن کی یاد مندمل ہونے کی بجائے مزید پختہ ہو گئی ۔
روحہ کا ننھا سا ہاتھ تھامے میں گھر سے چند قدم دور اسی درخت کے نیچے اسے لایا تھا ۔ میں جو کام کرنے جا رہا تھا وہ بالکل انوکھا نہیں تھا اور مجھے اس کی اہمیت کا احساس بھی تھا ۔ پھر بھی دل میں ایک پوشیدہ سی بے چینی تھی ۔ کوئی بھی باپ خواہ کتنا امیر ہو اپنی اولاد کو حلال کمائی کی قدر ضرور سمجھاتا ہے ۔ بحیثیت باپ جب مجھ پر یہ وقت آیا تو میرا ہاتھ حقیقت میں تنگ تھا ۔ تنگ دستی کے باعث بچی کا ارمان رد کرنے پر دل میں خلش تھی۔
روحہ جس ولایتی گڑیا کی خواہشمند تھی ۔ اس کے حصول کے لئے میری نصف سے زیادہ تنخواہ درکار تھی ۔ اپنے لہجے پر قابو رکھ کر بہت شفقت سے میں نے اسے سمجھایا تھا کہ بعض چیزوں کو پانے کے لئے صبر کے ساتھ کوشش کرنی چاہئے ۔ انسان کو ضروری اور غیر ضروری کا فرق سمجھ آنا چاہئے اور جب فرق سمجھ آجائے تو ضروری چیز کا انتخاب کرنا چاہئے اور غیر ضروری کے لئے مالی کشادگی کا انتظار کرنا چاہئے ۔ میں نے روحہ سے اپنے بچپن کی اس ٹوپی کا ذکر کیا جس میں میں پیسے جمع کرتا تھا اور روحہ کو بھی ایسا ہی مشورہ دیا ۔ اپنے لہجے پر میں نے بھر پور قابو رکھا تھا مگر شاید کہیں چوک ہو ہی گئی تھی جو روحہ نے پوچھا۔
’’بابا کیا ہم غریب ہیں ؟ ‘‘ میں پروفیسر عبدالرحیم جو ہر موضوع پر معلومات رکھتا تھا اور مجھے زندگی میں کبھی بحث مباحثہ میں جواز کی کمی محسوس نہیں ہوئی تھی ۔ اپنی بیٹی کو’’ سفید پوش‘‘ کا مطلب سمجھاتے ہوئے پہلی مرتبہ یوں لگا جیسے دنیا میں الفاظ ختم ہو گئے ہیں ۔ ایک گہر اسانس کھینچ کر میں نے جواب دیا کہ ہم خوددار ہیں ۔ زندگی میں صرف ایک اللہ کے آگے ہاتھ پھیلاتے ہیں۔
اس دن ہونے والی وہ سرسری سی گفتگو نجانے کیوں روحہ پر بہت اتر کر گئی ۔ توقع کے برعکس اس نے کوئی ضد نہیں کی بلکہ وہ بہت پر جوش تھی ۔ میری انگلی تھامے جب وہ گھر لوٹ رہی تھی تو مسکرا کر بولی ۔
’’بابا آپ مجھے ایک مٹی کی گولک لا دیں میں اپنی عیدیاں اور جیب خرچ جمع کروں گی اور اپنے پیسوں سے گڑیا لوں گی۔‘‘ مٹی کی وہ گولک آخری فرمائش تھی جو روحہ نے مجھ سے کی تھی۔
بعض اوقات زندگی کا مفہوم واضح کرنے کے لئے ایک گولک ہی کافی ہوتی ہے ۔ سفید پوش بھی تو مٹی کی گولک ہوتا ہے ۔ جو اپنے اندر پیسہ پیسہ جوڑتا اور تمام عمر اسی کوشش میں رہتا ہے کہ اس کی وضع اسکے اندر کی گونج کو ڈھک لے ۔
روحہ میری اکلوتی بیٹی تھی ۔ میں اور میری بیوی اس کی ہر ضرورت کو اپنی بساط سے بڑھ کر پورا کرنے کی کوشش کرتے اور تمام عمر اس کی خواہشات کو پورا کرنے کی آرزو کرتے رہے مگر وہ کبھی اپنی خواہشات کا ذکر نہیں کرتی تھی ۔ اس کی خواہشات کا علم ہمیں تب ہوتا جب وہ اپنے جمع کئے ہوئے پیسوں سے ان کو پورا کر لیتی ۔ بچپن میں اس کی یہ عادت ہم دونوں کو بہت بھلی لگتی پھر آہستہ آہستہ اس کی یہ عادت ہمیں شرمندہ کرنے لگی ۔ میری بیوی اکثر خفا ہو کر کہتی۔
’’یہ قناعت نہیں خود پر جبر ہے ۔ تم ہماری اکلوتی اولاد ہو سب تمہارا ہی ہے ۔ پھر کیوں اجنبیوں کی طرح ارمان دل میں دبائے رکھتی ہو ۔ ہم سے کہا کرو ۔‘‘ روحہ پر کبھی ایسی جذباتی گفتگو اثر نہ کرتی ۔ بہت لاڈ سے ماں کو کہتی۔
’’آپ لوگ مجھے میری ضرورت سے زیادہ جیب خرچ دیتے ہیں اور مجھے اتنی آسائشیں دے رکھی ہیں کہ مجھے اول تو کسی چیز کی ضرورت ہی نہیں پڑتی اور اگر کسی چیز کو لینے کی خواہش ہوتی بھی ہے تو جو مزہ انتظار کر کے پیسے جوڑ جوڑ کر چیز کو خریدنے میں آتا ہے وہ اس چیز کی وقعت اور خوشی دونوں کو بڑھا دیتا ہے ۔‘‘ روحہ کی آنکھوں میں اس وقت خودداری کی چمک تھی جو اس کی تسکین قلب کا پتہ دے رہی تھی ۔ میری بیوی پھر بھی کبھی روحہ کی اس عادت کی عادی نہ ہو سکی۔
سلیقہ شعار بیوی اور دانشمند بیٹی کا نتیجہ ہی تھا کہ زندگی میں کبھی دوبارہ تنگ دستی کا سامنا نہ کرنا پڑا ۔ ایک چھوٹا سا گھر بھی بنا لیا جس میں آسودگی نہ سہی پر خوشحالی بہت تھی ۔ اسی خوشحال گھر سے جب روحہ کی ڈولی رخصت ہوئی تو خوشیوں میں مزید اضافہ ہوگیا۔ نواسے نواسیوں کی آمد سے جیسے ایک نیا عہد شروع ہوگیا۔ لیکن زندگی کا منصوبہ تھا کہ روحہ کی خودداری کو مزید جانچا جائے۔ شاید اسی لیے میرے داماد کا ایک شدید حادثہ ہوا ۔ وہ موت کی دہلیز کو چھوکر آیا تھا ۔ اس کی واپسی بھی ادھوری تھی ۔ زخموں کی شدت کے باعث وہ بستر سے ہل بھی نہیں سکتا تھا ۔ روحہ جتنی اچھی بیٹی تھی اتنی ہی اچھی بیوی بھی ثابت ہوئی ۔ صبر، محبت ، حوصلہ اور اعتماد سب کچھ ہی اپنے شوہر کو دیا ۔ ہم سے اس موقع پر مالی مدد کے علاوہ ہر طرح کی مدد نہیں لی ۔ میری بیوی کرب سے رو پڑی تھی۔
’’تم ہمیں اتنا غیر سمجھتی ہو ۔ ہمارا سب کچھ اگر اتنے مشکل وقت تمہارے کام نہیں آسکتا تو سمجھو ہماری تمام عمر ہی بیکار گزری ۔ تمہیں پالا ، تمہیں پروان چڑھایا اور کتنی آسانی سے تم نے ہمیں پرایا کر دیا ۔ شوہر بستر پر پڑا ہے ۔ آمدن تو بند ہے ہی اوپر سے مہنگا علاج … تم سے بڑھ کر مجھے کوئی عزیز نہیں، ضرورت پڑی تو یہ گھر بھی بیچ دیں گے ۔ تم مانگو تو، پر تم ہمیں اپنا سمجھتی ہی کب ہو۔ ‘‘ روحہ نہ صرف ایک خود دار بیٹی تھی بلکہ ایک خود دار شخص کی بیوی بھی تھی ۔ شاید اسی سوچ نے اسے ہماری مدد لینے سے روکے رکھے ۔ اس نے ماں کو سینے سے لگا لیا۔
’’ آپ تو میرا سب کچھ ہیں ۔ ہر مدد میں آپ ہی سے مانگتی ہوں اور آئندہ بھی مانگتی رہوں گی مگر اس وقت مجھے آپ کی دعاؤں کے علاوہ کسی چیز کی ضرورت نہیں۔ اللہ کا دیا سب کچھ ہے اور مجھے امید ہے وہ آئندہ بھی میری طلب پوری کرتا رہے گا۔‘‘ جب وہ ماں کے آنسو پونچھنے لگی تو میں نے دیکھا اس کی کلائیوں میں ہمیشہ رہنے والی سونے کی چار چوڑیاں اب نہیں تھیں ۔ مجھے کئی سال پہلے کہے ہوئے ان دو جملوں پر بہت تاسف اور ندامت ہوئی۔
جو لوگ صرف ایک خدا کے آگے ہاتھ پھیلاتے ہیں ۔ خدا انہیں بہت حوصلہ سے نوازتا ہے ۔ روحہ نے نوکری شروع کر لی ۔ بہت عرصے ہم نے اس کے کانوں میں کوئی بندے اور گلے میں کوئی ہار نہ دیکھا مگر اس کی آنکھوں کی چمک تیز ہوتی گئی ، جس نے اسے کسی زیور کا محتاج نہ رکھا ۔ طویل بدحالی میں اکثر لوگ حوصلہ چھوڑ دیتے ہیں اور جو آخر تک حوصلہ کی ڈور تھامے رکھتے ہیں انہیں پھر اس کا انعام بھی ملتا ہے ۔ میرے داماد کی صحت یابی کے بعد زندگی معمول پر آتی گئی اور روحہ کا گھر پہلے خوشحالی پھر آسودگیوں سے بھر گیا۔
ٹھن … زور دار آواز کے ساتھ چوکیدار کا ڈنڈا میرے ساتھ والے کھمبے پر پڑا ۔ ڈنڈا غالباََ میرے سر کو چھو کر گزرا تھا مگر میری محسوس کرنے کی حس اس وقت کام نہیں کر رہی تھی ۔ میں نے مسجد کی طرف دیکھا وہ بالکل سنسان پڑی تھی ۔ میں نے ایک بار پھر ماضی میں جھانکا تو روحہ کی خوشیوں سے بھری زندگی کا منظر میری آنکھوں کے سامنے گھوم گیا ۔ اس کا گھر میرے گھر کے بہت پاس تھا ۔ اس لئے اپنی بیوی کی وفات کے بعد زیادہ وقت میں اس کے گھر میں ہی رہتا تھا ۔ اپنی پنشن سے نواسے نواسیوں کے لاڈ اٹھا کر میں بھی بہت سکون میں تھا۔ پھر میری بوڑھی آنکھوں نے وہ منظر دیکھا جب میری بڑی نواسی کی شادی کی تیاریاں شروع ہوئیں ۔ روحہ بہت ارمان سے ہر چیز بنا رہی تھی ۔ کل جب وہ زیورات لے کر گھر آرہی تھی تو ذمہ داری سے سبکدوش ہونے کے خیال نے اسے بہت پر سکون کر دیا تھا ۔ ٹریفک سگنل پر گاڑی رکی تو پھول فروش کے ہاتھ میں نرگس کے پھول دیکھ کر وہ مچل اٹھی۔ اپنے شوہر سے اس نے پھولوں کی فرمائش کی۔ نہ جانے کتنے سالوں بعد اس نے کسی چیز کی فرمائش کی تھی جو اسے بہت مہنگی پڑی ۔ پھول تھماتے ہوئے چند لمحوں میں پھول فروش نے زیوروں سے بھرا روحہ کا بیگ دبوچ لیا اور چشم زدن میں غائب ہو گیا ۔ روحہ کی لرزتی ہوئی ٹانگوں پر بس نرگس کے پھول پڑے رہ گئے۔
شادی میں گنتی کے دن رہ گئے تھے اور اتنے بڑے نقصان نے سب کو ہلا کر رکھ دیا تھا ۔ ڈھولکیوں میں سرگوشیوں کا اضافہ ہو گیا تھا ۔ اپنی بیٹی اور داماد کے کمرے میں ہونے والی سرگوشیاں میں نے بھی سن لیں ۔
’’ روحہ تمہارے بابا خود مجھ سے کئی بارذ کر کر چکے ہیں کہ ان کے پاس کافی رقم جمع ہے ۔ انہیں ہماری مدد میں کسی قسم کا عار نہیں ہوگا ۔ تم ایک بار مانگو تو سہی ۔‘‘ بہت تحمل سے روحہ کو سمجھا رہا تھا ۔ روحہ فکر مندی سے کہنے لگی ۔
’’میرے پاس اپنے زیور ہیں میں وہ دے دوں گی اسے ہمیں پیسے کی کوئی کمی تو نہیں ہے۔‘‘
’’تم اپنے دے دو گی اور وہ بے شک لے بھی لے گی مگر ہماری بیٹی کے نئے زیور کے بھی کچھ ارمان ہوں گے ۔ ہمیں اس کے سسرال میں اس کی عزت بھی تو بڑھانی ہے ۔ اتنے کم وقت میں رقم کا انتظام کرنا آسان نہیں ۔ ہم شادی کے بعد جلد ہی رقم لوٹا دیں گے تم فکر کیوں کرتی ہوں ۔ وہ تمہارے باپ ہیں کوئی غیر نہیں ۔ اللہ نے ان کو ہمارا وسیلہ بنایا ہے ۔ تم وقت کی ضرورت کو سمجھو۔‘‘
روحہ نے خاموشی سے اثبات میں سر ہلا دیا ۔ اس کی آنکھوں سے دو قطرے ٹپک پڑے اور مجھے یوں لگا جیسے وہ قطرے اس کی آنکھوں کی چمک کو بہالے جا رہے ہیں ۔ ایسا لگا جیسے بہت طویل مسافت طے کر کے میں گھر پہنچا تھا ۔ دل میں بہت بے چینی تھی ۔
’’ روحہ کو مجھ سے مانگنا پڑے گا ۔ حالات نے اسے کتنا بے بس کر دیا ہے کہ تمام عمر کی عادت تمام زندگی کی سوچ چھوڑنی پڑے گی۔‘‘ میرے سینے میں درد شروع ہو گیا ۔
’’میرا سب کچھ اس کا ہی تو ہے ۔ کاش میں اسے بن کہے سب دے سکتا ۔ مانگنے کے وہ چند جملے ہمارے بیچ نہ آئیں ۔‘‘ میں نے اپنے سینے کو رگڑنا شروع کر دیا۔
’’دینا تو میں نے سب کچھ اسے ہی تھا پر مانگنے کے بعد کیا اسکی آنکھوں میں وہ چمک رہے گی؟‘‘
سینے میں درد شدید ہو گیا تھا۔
میں نے ٹھوکر کھائی تو میز پر پڑی روحہ کی مٹی کی وہ گولک جس کا پیندا نہیں تھا پھر بھی میں نے سنبھال کر رکھا تھا ۔ وہ گر کر چکنا چور ہو گیا ساتھ ہی میں بستر پر گرا اور بے سدھ ہو گیا۔
گولک کے ٹوٹنے کی آواز ایک بار پھر میرے کانوں میں گونجی اور میں ماضی سے حال میں آگیا ۔ میں نے اپنے گھر کی طرف دیکھا وہاں روشنی ساری رات جلتی رہی تھی ۔ بہت دیر پہلے روحہ اندر گئی تھی پھر واپس کوئی نہیں نکلا بلکہ مزید لوگ اندر گئے تھے۔
مجھے سمجھ نہ آیا میں کسی چیز کا انتظار کر رہا ہوں۔
میں نے مسجد کی طرف دیکھا ایک شخص لالٹین کی روشنی میں لاؤڈ سپیکر ٹھیک کر رہا تھا ۔ تب مجھے اعلان میں تاخیر کی وجہ سمجھ آئی ۔ لاؤڈ سپیکر ٹھیک کر کے وہ نیچے اترا تو مجھے احساس ہوا کہ وہ فجر کی اذان کے لئے لاؤڈ سپیکر درست نہیں کر رہا تھا ۔ ضرورت اور تھی۔ پھر لاؤڈ سپیکر پر اعلان ہونے لگا۔
’’حضرات ایک ضروری اعلان سنیں۔‘‘ میں اٹھ کر کھڑا ہو گیا ۔ میں نے مڑ کر گھر کی طرف دیکھا ۔ روحہ یقینا بہت روئے گی مگر مجھے امید تھی کہ اب اس کی آنکھوں کی چمک ضرور بر قرار رہے گی۔
’’حضرات ایک ضروری اعلان سنیں۔ ‘‘ زمین سے میرا تعلق ٹوٹنے لگا ۔ تنے پر بیٹھی میری روح آسمان کی طرف پرواز کرنے لگی۔
’’ پروفیسر عبد الرحیم آج رات دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے ہیں۔‘‘
٭٭