نشیب و فراز: ماریہ غزال

بی جی کی شخصیت ہمارے پورے گھر بلکہ پورے خاندان پر حاوی ہے۔
ہر سمت ہم کو یہ گمان ہوتا کہ وہ موجود ہیں۔ دیواریں انہوں نے کان دار اور در نین دار کر چھوڑے ہیں۔ قارئین یہ اصلاحیں ہماری خود ساختہ ہیں ان کو برائے مہربانی لغت میں نہ تلاش کریں۔
بہرحال ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ انہیں ہمارے گھر میں وہی حیثیت حاصل ہے جو فوج کے سربراہ یا مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کی ہوتی ہے۔ تمام ادارے چلتے رہتے ہیں مگر جہاں دیکھا کسی قسم کی بغاوت، خانہ جنگی یا معاملات میں الجھاؤ پیدا ہوا، وہیں بی جی ایکٹ نافذ العمل ہو گیا۔ بی جی گھر کا لازمی جز ٹھہریں۔ ہم سبھوں کی باگ ڈور بلکہ نکیل ان کے ہاتھ میں رہی۔ بے شک ہمارے گھر کے مرد حضرات، خاص کر ہمارے ابا کو گھر میں لڑکیوں کی موجودگی نے ہمیشہ خوشی و راحت دی۔ ابا کو قدرت نے اس قدر رحمت سے نوازا کہ ان کا پورا گھر رحمت سے بھر گیا۔
چھ بیٹیاں اف… آدھی درجن بیٹیاں۔
اوپر سے باپ کی سر چڑھی (بقول بی جی) ابا میں نہ جانے اس قدر بیٹیوں کے لیے محبت کہاں سے آئی تھی۔ شاید قدرت نے ہماری پیدائش کے ساتھ اتاری تھی۔ جب ہی ہر دفعہ اماں کے بیٹے نہ ہونے کے شکوے پر جو وہ بڑے لاڈ سے ابا سے کیا کرتیں تھیں، پر جواب آتا کہ ارے چھوڑو بیگم قدرت نے اتنی پیاری پیاری بیٹیاں دی تو ہیں پھر کیسا گلہ۔ ایک پتے کی بات بتاؤں دراصل پسند سب کو یہ من موہنی صورت بیٹیاں ہی ہوتی ہیں مگر اظہار نہیں کرتے۔ اماں ان باتوں پر خوش ابا پر نثار اور گھر کا ماحول خوش گوار۔ مگر مصبیت کہ یہ دنیا ہے اور اس میں کسی ولن نما ہستی کا ہونا بہت ضروری ہے۔ یوں وہ ضرورت اس تمام ڈرامے میں بی جی ادا کر دیتیں۔
اک ذرا بارش ہوئی ہم نے پائیں باغ میں نکل کر موج مستی کر لی (چوری چھپے) ایک دفعہ… عدالت لگ گئی۔ بابا کے سامنے پیشی ہوئی، غلطی سے منہ سے پھسل گیا بھائی لوگ بھی تو نہاتے ہیں۔ بس بھیا پھر تو اماں سے بھی جھاڑ پڑی۔ دراصل بی جی چاہتی تھیں کہ ہم لوگوں پر ہر قسم کی تفریح کے مواقعے بند کر دیں۔ کورس کے علاوہ کوئی کتاب نہ پڑھے۔ ما سوائے کھانا پکانے کے۔ ناچ گانا کرنا تو سننا بھی حرام، سب کے سر پر ہر وقت دوپٹہ رہے۔ (ہم لڑکیوں کے) حالانکہ خود اتنی آزاد تھیں کہ ساڑھی پہن کر سر پر بڑا سا جوڑا بنائے ائیرپورٹ پر ڈھیروں مردوں کے ساتھ کھڑی تھیں۔ (ہم نے یہ تصاویر بھی چوری چھپے دیکھی تھیں۔) مگر ہم بے چاریوں پر ہر قسم کی پابندی تھی۔
باجی کو کھیلوں کا شوق تھا۔ وہ بہترین اتھلیٹ تھیں۔ اگر دوڑ کے مقابلے میں حصہ لیتیں تو شاید نہیں یقیناً سارے تمغے لوٹ لاتیں۔ مگر لڑکی ہو، اپنی ساخت پر غور کرو اور پھر دوڑو۔۔۔ بڑا اچھا لگتا ہے… اور نہ جانے کیا الا بلا جس پر ہم نے دو گھنٹہ سر جھکائے الامان و الاحفیظ پڑھتے ہوئے لیکچر سنا۔ صنف نازک کی نازکیوں کو نازک نازک ٹکڑوں میں بکھیرتا ہوا۔
ہر دفعہ ننھیال سے واپس آنے پر کمر میں ہاتھ دے کر دیر تک گلے لگائے رکھتیں۔ ہر لڑکی کو بتاتیں کہ اس دفعہ تم پتلی ہوئی ہو اور تم پر دو چار بوٹیاں چڑھ گئی ہیں۔ ہم پر یہ معانقہ پریڈ نزع کی کیفیت طاری کر دیتی تھی۔ یوں لگتا کسی مرد سے ملوایا جا رہا ہے جو جسم کا ایک ایک انچ ناپ تول رہا ہو۔ مجھے تو بجیا کی رخصتی پر ابا کے گلے لگ کر رویا نہیں گیا۔ نہ جانے کیوں شرم سی آئی، کجا بی جی کے گلے لگنا۔ (قارئین اگر سمجھ دار ہوں تو میرا مسئلہ سمجھ جائیں گے ورنہ میں دعا کروں گی کہ قدرت ان کی بھی بی جی جیسی عورت نما مرد معاف کیجئے، مرد نما عورت سے ملاقات کروائے۔) خود مردانہ کُرتے پر تہبند باندھ کر رکھتیں۔ بیٹے، شوہر کسی کا بھی کُرتا اور نیچے تہبند جس پر ایک دفعہ ہمارے شوہر نامدار نے کہا کہ یہ تمہاری بی جی کیسی عجیب خاتون ہیں۔ میں سر جھکائے بیٹھا تھا، لگا کوئی مرد ملنے آیا ہے۔ میں جلدی سے اٹھ کے گلے مل لیا تو پتا چلا کہ یہ خاتون تھیں۔ موصوف پروفیسر قسم کی شخصیت ہیں صم بکم… یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب وہ بر دکھوے میں تشریف لائے تھے۔
وضع قطع کے علاوہ جُثے اور ہیبت میں بھی مردانہ وار… اور ہم لڑکیوں سے زنانہ پن پر اصرار، کسی لڑکی کو زیادہ کھانے کی اجازت نہیں تھی۔ دستر خوان سے جلدی اٹھنا بھی اچھا نہیں تھا۔ ایک روٹی بیس منٹ لگا کر کھانا پڑتی۔ ایک چمچہ شوربہ، ایک بوٹی۔ ادھربلڑکوں کو کھلی آزادی تھی۔ خود کو بھی شاید مردوں میں شمار کرتی تھیں، اس لیے آزاد تھیں۔ روٹی چاول کے بغیر چار چار پیالے سالن کے ڈکار جاتیں اور اف تک نہ کر تیں۔ مزے کی بات کے کھانا کسی کے ساتھ نہ کھاتیں اس لیے کوئی بھی اس راز سے واقف نہ تھا کہ کس قدر خوش خوراک بلکہ غاصب بالخوراک واقع ہوئی ہیں۔ اک دفعہ پیچش لگ گئی اور کسی صورت ٹھیک نہ ہوئی۔ حالانکہ آپا بیگم ان کو مسلسل پرہیزی کھانا دے رہیں تھیں۔ تین ماہ گزر گئے مگر پیچش نہ رکی۔ چونکہ بالکل نارمل انداز اپنائے ہوئی تھیں بس ہر کھانے کے بعد گھنٹا بیت الخلاء میں گزارتیں اس لیے کسی کو فکر نہ ہوئی۔ مگر ایک دن عقدہ کھلا کہ ان کے کمرے میں بستر کے نیچے سے بلا مبالغہ کلو کلو کے ڈرائے فروٹ کے ڈبے دھرے تھے۔ عمو جان نے ان کی بیس دن قبل کی رسیدیں بھی دریافت کر لیں۔ اس دن وہ ڈبے عمو جان نے کمرے سے باہر پھینکے۔ آدھے ختم تھے مگر ہماری تو عید بقر عید سب ہو گئی۔
عید سے یاد آیا عید بقر عید کی تیاری پر بھی ان کو سخت اعتراض تھا… اجیہ کو سجنے کا شوق تھا۔ کاجل، مسکارا اس کی پسندیدہ چیزیں۔ اس پر بھی پابندی بلکہ وہ ہم سب بہنوں کی آنکھوں کو بغور دیکھتیں کہ کوئی کیل کانٹے سے لیس تو نہیں۔ بتائیں قارئین اس قسم کے حالات میں ہم لوگ بھلا کسی غیر مرد یا گھر کے لڑکوں کو غلط نظروں یعنی بھائی کے علاوہ کسی نظر سے دیکھ سکتے تھے۔ آہ افسوس، اسی لیے سب نکل گئے۔ ان کو تو ہر وقت لڑکیوں کے کردار پر ہی شک رہتا تھا۔ اپنی شادی کے بہت عرصہ بعد معلوم ہوا کہ جو پسند کی شادی کر کے لائی گئی تھیں اس لیے تو بے اعتباری نہیں گئی۔
ہم لڑکیوں کے لباس کو بھی نہایت باریک بینی سے دیکھا جاتا اور یوں تلاشی لی جاتی جیسے ہم اپنے لباس میں افیون چرس رکھتے ہوں۔ چونکہ تیاری انہیں پسند نہیں تھی، کپڑے وہ اچھے پہننے نہ دیتیں تو بھلا شادی بیاہ میں کون کافر جاتا۔ مگر ہم اپنے ننھیال میں خوش دلی اور مزے سے جاتے۔ ایک دفعہ ہم ننھیال شادی میں شرکت کے غرض سے جا رہے تھے تو اپنے ابا کا قصہ لے بیٹھیں۔ جس میں وہ ان بہنوں کو اسکول یونیفارم میں شادی میں لے گئے تھے۔ (میں نے وہ قصہ اپنے بچوں کو سنایا تو ایک نے ناک منہ بنایا۔ دوسرے نے کہا، کسی نے ان کو پاگل خانے میں جمع کر کے پانچ ہزار نہیں کمائے؟
جب کہ اس وقت تو ہم سب ہی سہم گئے تھے۔ کیوں کہ اماں ان سے بہت زیادہ متاثر تھیں یا شاید بیٹیوں کی ماں ہونے کی وجہ سے دبتی تھیں۔ ہمیں ڈر ہوا کہیں وہ بھی بی جی کے ابا کے چلن پر نہ چل پڑیں۔ ویسے ہی اماں بی جی کے کہنے پر ہم لوگوں کے اس قدر کم کپڑے بناتی تھیں۔ اب یہ یونیفارم… شکر اماں میں عقل تھی اس لیے کچھ بولیں ہی نہیں کہ بات بڑھے۔
اک دفعہ اسکول سے واپسی پر ہم موتیے کے پھول چن لائے۔ گجرے بنائے اور بھابھی کو دیئے۔ انہوں نے پیار سے منع کر کے ہمارے ہاتھوں میں ڈال دیئے۔ برا وقت بتا کر نہیں آتا… پھولوں کو دیکھ کر وہ بھی ہمارے ہاتھوں میں، وہ طوفان برپا ہوا کہ نہ مندرجہ پوچھیے۔ وہ تو شکر ہے ہم کوئی گلاب توڑ کر نہ لے آئے ورنہ ویلنٹائن ڈے کا الزام تیار ہو جاتا۔ حالانکہ خود میرے خیال میں وہ آج بھی عمو جان سے ویلنٹائن ڈے کا گفٹ لیتی ہوں گی۔ غرض جس قدر وہ سختیاں کر سکتی تھیں کرتی رہیں۔ میرے بال نہایت خوبصورت تھے یعنی مجھے پسند تھے۔ قدرت نے مشرق میں مغربیت دے پر پیدا کیا تھا۔ قدرتی اسٹیپ بال جو آگے سے لیڈی ڈیانا کٹ کا تاثر دیئے ہوتے۔ ان کو اس پر بھی شک تھا کہ پارلر سے کٹوائے جاتے ہوں گے۔ تب ہی تو ایسے ہیں۔ ایک دفعہ بجیا کو اس پر حلفیہ بیان دینے کی نوبت آ گئی۔ غرض وہ جس قدر سختی کر سکتی تھیں، انہوں نے کی۔
اب پچیس برس گزر گئے ہیں۔ اپنے بچوں کی اعلٰی تربیت کرنے، ان کے گھر بسانے کے بعد میں سوچ کر مشکور ہوتی ہوں، انہوں نے ہمیں خود میں الجھائے رکھا کہ کبھی خاندان میں اِدھر اُدھر آنکھ لڑانے کا موقع ہی نہیں مل سکا۔ خاندان کی تمام لڑکیوں کا دکھ لاحاصل موضوع گفتار صرف بی جی ہی رہیں۔ کبھی پڑھے لکھے مہذب لڑکوں کو دیکھنے، سوچنے اور ان کو موضوعِ گفتگو بنانے کی نوبت ہی نہیں آئی۔ ہم سب ایک ایک کر کے گھونسلے سے اڑ گئیں۔
ہاں ہر بیٹی کے اڑنے پر ابا کی نم ناک آنکھیں آج بھی یاد آتی ہیں تو قدرت کی طرف سے ابا جسے انمول تحفے پر بے اختیار رونا آ جاتا ہے۔ ابا قدرت کا وہ انمول تحفہ تھے جو شاید قدرت نے بہت کم لوگوں کو دیا ہو گا ۔ بی جی کے تمام دکھوں کا مداوا ابا کی محبت نے کیا اور ان تمام مظالم سہنے کے نتیجے میں ہم لڑکیاں اپنے سخت ترین سسرالوں میں بھی مکمل طور پر گھل مل گئیں۔ بقول شاعر ’’دانہ خاک میں مل کر گل و گلزار ہوتا ہے‘‘۔ آج اسی گھرانے کی پر کٹی، سر اجڑی، سر پھری لڑکیوں کو دیکھتی ہوں تو سوچتی ہوں کہ وقت وقت کی بات ہے کبھی کسی کی مٹھی میں، کبھی کسی کی… زمانے کی بات کروں تو ہم سب لڑکیوں کے سارے بچے کئی گنا اچھی تربیت یافتہ ہیں۔ شتر بے مہار نہیں۔ حالانک بچیاں بھی بری نہیں مگر کسان دوسرے کے کھیت پر توجہ دے گا، دوسرے کے کھیت پر میں ہل چلائے گا تو فصل بھی دوسرے ہی کے کھیت میں اگے گی۔ وہاں بھی یہی ہوا۔ ان بے چاریوں کا شاید اتنا قصور نہ ہو مگر کیا کریں ان مادر زاد آزاد نسل کا جو شاید اپنی دادی کا پرتو ٹھہری۔ اس دن ہم کو بیٹے کی بھی بہترین تربیت کی اہمیت اجاگر ہوئی۔