سلسلہ وار ناول

کسی اجنبی سے دیار میں : قسط نمبر 4

آج وہ ائر پورٹ سے یکسر مختلف مکمل پاکستانی لباس میں تھی۔ کاسنی شلوار قمیص ، سیاہ کھلے بال جن کی لئیرز اس کے شفاف گال چوم رہی تھیں۔ اس کے دل نے شدید خواہش کی کہ ایک بار اس کے پاؤں کا حال پوچھ لیا جائے ۔ اسی بہانے قریب سے دیکھا بھی جائے گا اور آواز بھی سنی جائے گی۔ اس نے پیچھے مڑ کر خوش گپیوں میں مصروف اپنی ٹیم کو دیکھا۔
تبھی حسین متوجہ ہوا تھا۔
’’کوئی مشکل ہے شیخ ؟‘‘ وہ عربی میں پوچھ رہا تھا۔
سالم نفی میں سر ہلا کر سیڑھیوں کی طرف بڑھ گیا۔ اب اس کی ساری ٹیم اور سٹاف بھی اس کے اس اجنبی سے طرز عمل کو حیرت سے دیکھ رہا تھا۔ حسین بھاگ کر اس کے ہم قدم ہوا۔
’’کہاں جا رہے ہو؟ سالم! نیچے لوگ گھیر لیں گے سکیورٹی ساتھ لے لیتے ہیں۔‘‘
وہ کچھ نہ بولا۔
اس کے نیچے آ نے تک اور حسین کی طرف متوجہ ہونے کے قلیل وقت میں ہی وہ میز خالی ہو چکی تھی۔ تیزقدم اٹھاتے وہ دونوں مین ایگزٹ سے باہر نکلے تو حسین کے خدشے کے عین مطابق انہیں مداح پہچان کر گھیر چکے تھے ۔ نہ چاہتے ہوئے بھی دونوں کو آ ٹو گراف، سیلفی اور لوگوں کی ہاتھ ملانے کی خواہشیں پوری کرنی پڑیں۔ پارکنگ میں سے یکے بعد دیگرے گاڑیاں نکل رہی تھیں وہ جانے کس میں بیٹھ کر اس کی نظروں کے سامنے روانہ ہوئے تھے ۔
٭…٭…٭
یاسر سردی کی وجہ سے آ ج کل سوپ اور ابلے انڈوں کا ٹھیلا لگا رہا تھا۔ پہلے پہل تو موسم سخت نہیں تھا تو پورا سوپ بکتا ہی نہیں تھا انہیں خود پینا پڑتا یا ادھر ہمسائیوں کو دینا پڑا تھا۔ پچھلے دو دن سے دھند پڑنے لگی تھی سر شام ہی دھند لپیٹ میں لے لیتی اور اگلے دن بارہ بجے تک رہتی تھی۔
’’یاسر! میں تو کہتی ہوں ساتھ ادرک والی چائے بھی رکھ لو ، ٹھیلا لاری اڈے لے جایا کرو ، دیکھنا چائے زیادہ بکے گی ادھر ۔ ویسے بھی اب دن کے وقت بھی گھر میں نہ اینٹھتے رہا کرو زیادہ سے زیادہ کام کرو کمائی کرو تاکہ ہم بھی بدر اور باجی فخر کے برابر آ سکیں ۔ اب مجھ سے تمہاری ماں بہنوں کی شوخیاں نہیں دیکھی جاتیں۔‘‘
’’سیما! تو نے پاگل ہی رہنا ہے۔ دبئی کی کمائی کا ٹھیلے سے کیا مقابلہ ، تُو تو کتے اور چیتے کی ریس لگوانی چاہ رہی ہے۔‘‘ اپنی بات پر یاسر خود ہی خوب ہی ہنسا جیسے بڑی اعلیٰ مثال دی ہو،پر سیما ذرا بھی نہ مسکرائی۔
’’یہ بات ہے تو ابھی جا کر اپنی ماں سے بات کرو بدر سے کہے تمہیں فوراً دبئی بلائے ۔ میں تمہیں بتا رہی ہوں یاسر وہ ہے تو تمہاری بہن لیکن ہے بڑی خود غرض اور مغرور ، کبھی تمہیں اپنے پاس نہیں بلائے گی ۔ اسے پتا ہے پھر اس کا عہدہ کم ہو جانا ہے اس لیے کبھی بھی تمہیں بلانا برداشت نہیں کرے گی۔ ذرا مہرو کے فون پر تصویریں تو دیکھنا کیسے آوارہ پھر رہی ہے۔ اپنا پشوکا (پچھلا گھر) بھول گئی ہے اسے ذرا بھی ہمارے حالات کی پرواہ نہیں رہی۔‘‘
’’نہیں سیما! بدر ایسی نہیں ہے وہ ذرا نیا نیا کام ہے نا تو اس لیے سوچ سمجھ کر چلے گی۔‘‘
یاسر شروع سے ہی سیما سے دبتا بھی تھا اور اس کے کہے کو حرف آخر بھی سمجھتا تھا لیکن باہر اور رشتے داروں میں اچانک اپنی بننے والی اہمیت کے پیش نظر اس بار اس نے ذرا چنا منا اختلاف کرنے کی کوشش کی ۔
’’مطلب کیا تیرا یاسر؟ تم نے مجھے بتایا تھا نرگس اور وقاص نے خود تیرے ویزے کی حامی بھری تھی جب یہ رشتہ ہوا تھا۔ جب تمہارے کہے بنا انہوں نے حامی بھری تھی تو اب بدر کو وعدہ یاد کراتے موت کیوں پڑ رہی ہے۔ اس لیے نا کہ خصم نے بھائی کے ویزے پر پیسے لگا دیے تو شاید اس کی ہوٹلنگ بند کر دے۔‘‘
یاسر ساتھ ہی دب گیا کہ اسے سیما کبھی غلط لگ ہی نہیں سکتی تھی اور اسے اپنی ماں کا بھی پتا تھا کہ وہ اس کی بہنوں سے زیادہ پیار کرتی ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ احساس بھی سیما نے ہی جگایا تھا۔
’’اب میں کیا کروں؟‘‘ یاسر نے سیما سے بڑی عاجزی سے پوچھا۔
’’کیا کروں ؟ ابھی تک میرا مقصد سمجھ نہیں آ یا؟ بھوسہ بھرا ہے دماغ میں ، دماغ ہی ماں بہنوں پر چلا جاتا تو مجھے خواری تو نہ ہوتی۔ جا کے اپنی اماں کے پاس واویلہ کرو اسے کہو اپنی لاڈلی سے کہے تیرا ویزہ بھیجے ۔ غضب خدا کا بیٹے کے لیے ممتا ہی مر گئی ہے اس عورت کی۔‘‘
’’اماں! تم سارا دن محلے والوں اور رشتے داروں کو بدر کی تصویریں اور ویڈیو دکھا کر ہی خوش رہنا۔‘‘
’’تو پھر کیا کروں؟‘‘
زبیدہ کو علم ہو گیا تھا اپنے کمرے سے نکل کر آ کر رہا ہے تو اندر سے پکی استانی نے ہی سبق دیا ہوگا۔
’’اماں! اپنی لاڈلی سے کہو اپنی چیزیں دکھا دکھا کر ہمیں ساڑنے کرنے کی بجائے میرا ویزہ بھیجے ۔ اپنی عیاشیوں میں گم ہو گئی ہے ہماری غربت کا احساس ہی نہیں ہے ۔ وڈے وڈے ہوٹلوں میں چائے ، روٹی پر پیسے ضائع کرا رہی ہے اتنا نہیں کہ پیچھے والوں کا ہی خیال کر لے۔‘‘
’’نہ، وہ کیا خیال کرلے ؟ مجھے یہ بتاؤ تم نے جہیز دے کر بھیجا ہے یا وہ جو تجھے اندر سے بم بنا کر میرے پاس بھیج دیتی ہے اس کے میکے نے تجھے ویزہ خریدنے کے پیسے دیے ہیں۔‘‘
میکے کا نام لینے کی دیر تھی سیما بھی میدان میں اتر آئی ۔
’’تو نے اپنی بیٹی کو کیا دے کر بھیجا ہے جو مجھے پیچھے سے کچھ نہ لانے کے طعنے دیتی رہتی ہو؟‘‘
’’بی بی! کچھ نہیں دیا تو ساتھ تیرے جیسی گز بھر کی انگارہ زبان بھی نہیں دی۔ بیٹیوں کو یہی سکھاتی ہوں جا کر اگلوں کی تابعدار رہنا۔ شرم حیا کھانا کہ میرا میکہ کچھ دینے جوگا نہیں ہے۔ بھابھی کی طرح بے غیرت نہ بننا ، اسی غیرت مندی کا تقاضا ہے جو میری بدر خاموش ہے۔ میاں کے سامنے بار بار بھائی کے ویزے کے لیے زبان نہیں کھول رہی۔ تونے اور تیرے باقی خیر خواہوں نے سڑ سڑ کر سواہ ہو جانا ہے سیما ، پر میری بدر کی خاک کو نہیں چھو سکنا، اسے اللہ نے عہدہ دیا ہے۔‘‘
زبیدہ بھی زبان کی تیکھی تھی۔ یاسر اور مہر النساء نے بڑی مشکلوں سے دونوں خواتین کی زبانی گولہ باری بند کروائی تھی۔
زبیدہ نے اپنے گرد رضائی لپیٹی اور بیٹے کو اشارے سے اپنی چارپائی پر بلایا۔ آخر کو اکلوتا اور پہلوٹھی کا بیٹا تھا اسے پیارا بھی بہت تھا۔ یہ تو سیما ہی تھی جس نے یاسر کو سارے رشتوں سے بدگمان کر رکھا تھا اور وہ بیوی کی محبت میں نا چاہتے ہوئے بھی ماں بہنوں کے سامنے بول دیتا تھا۔
’’نئی نئی شادی ہے بیگانے لوگ ہیں ان امیر لوگوں کے چونچلے بھی ہم سے الگ ہوتے ہیں ان چاؤ چونچلوں سے نکلے گا نوکری پر جانا شروع کرے گا تو بدر موقع دیکھتے ہی اسے یاد دلانا شروع کر دے گی۔ میرے بچے اپنی بہن پر بھروسہ رکھو اس کی مجبوری سمجھو۔‘‘
’’اماں! ایسا نہیں ہو سکتا کہ آپ وقاص سے کہیں ذرا جلدی ویزہ بھیج دے آخر اس نے خود ہی تو ہمیں کہا تھا۔‘‘
’’جوائی پائی (داماد) ہے نئی نئی رشتے داری ہے ذرا چھری تلے ساہ تو لو پتر پھر مجھے بات کرنا پڑی تو میں بھی کر لوں گی ابھی بدر جو ہے۔‘‘
’’ہونہہ بدر ، وہ تو جب سے گئی ہے بات کرنے کی روادار نہیں رہی ویزہ دلائے گی۔‘‘
’’حق ہاااا… بتا تو رہی ہوں ہر وقت تو وقاص گھر میں ہوتا ہے سمجھدار لڑکیاں میاں کے سامنے بار بار میکے بات نہیں کرتیں اور نہ ہی ہر بات شوہر کے سامنے کرنے والی ہوتی ہے، کوئی بھرم بھی تو رکھنا ہوتا ہے۔ لو بھرم سے نرگس یاد آ گئی۔
’’اے مہرو! ذرا نرگس کا نمبر تو ملا کر دے کئی دن ہو گئے فون نہیں آیا۔‘‘
یاسر پاؤں پٹختا ماں اور بہنوں کے کمرے سے نکل آ یا۔
’’اماں! پاور آف ہے۔‘‘
’’چلو کل یاد کروانا، پھر بات کروں گی۔
٭…٭…٭
وہ بڑے خواب خواب دن تھے۔ ساری رات وہ مختلف مالز ، پلازے ، شاپنگ سینٹرز اور ریسٹورانز میں آوارہ گردی کرتے آخری پہر لگژری بنگلے کے اس لگژری بیڈروم میں لوٹ آتے۔ وقاص اپنی باتونی فطرت سے اس کا دل بہلاتا اور اول روز کی طرح غیر محسوس طریقے سے کوئی دوا منہ میں ڈالتا اور پانی پی لیتا۔ وہ اسے دنیا جہان کے باتیں ، پیسہ اور اس کی اہمیت کے قصے سناتے سناتے صوفے پر منٹوں میں سو جاتا۔ ایلیٹ کلاس کس انداز میں اٹھتی بیٹھتی کھاتی پیتی ہے وہ اکثر اسے بریف کرتا رہتا تھا۔ اب بھی وہ کروز ڈنر سے لوٹے تھے۔ رات مکمل بھیگی ہوئی تھی چاند کے پورا ہونے میں چند دن ہی باقی تھے پر چاند کی روشنی ایسی تھی کہ تارے ماند لگ رہے تھے۔ بدر جہاں کمرے کے دروازے کے سامنے بنی سیڑھیوں پر بیٹھ گئی۔ وقاص نے اسے بیٹھتے دیکھا تو خود بھی ذرا سا فاصلہ رکھ کر بیٹھ گیا۔بدر کو کبھی کبھی اس کے انداز سے الجھن ہوتی تھی۔
’’میں وقاص سے کہوں کہ اب میں بالکل ٹھیک ہوں ٹخنے میں کوئی درد نہیں ہے وہ بیڈ پر سو سکتا ہے۔ اف نہیں بالکل نہیں …! اسے میرا مطلب سمجھ آ جائے گا پھر شاید مجھے ایسی ویسی لڑکی سمجھے۔ وہ مرد ہو کر اتنا ضبط دکھا رہا ہے تو مجھے ایسی کوئی بات کرکے خود کو ہلکا ثابت نہیں کرنا چاہیے۔‘‘
’’اس میں ہلکے پن کی کیا بات ہے۔ ہو سکتا ہے وہ میری وجہ سے چپ ہو میری پیش قدمی کا منتظر ہو ۔ جتنا وہ میرے لیے کر رہا ہے جتنے اس کے میری فیملی پر احسان ہیں مجھے بھی اس کے ذہنی و جسمانی سکون کا خیال رکھنا چاہیے۔‘‘
’’اور اگر اسے کوئی میڈیکل ایشو ہوا تو میری کوئی ایسی چھوٹی سی بات اس کے زخم چھیل سکتی ہے۔‘‘
اسے وقاص کا روزانہ اس سے چھپا کر دوا کھانا یاد آ نے لگا۔ ایک کے بعد ایک سوچ تھی جو اسے اپنے پہلو میں بیٹھے شخص کے بارے میں آ رہی تھی۔ اپنی سوچوں کو وہ اپنے ہی دماغ میں تولے جا رہی تھی۔
’’کیا سوچ رہی ہو؟ کب سے گم صم بیٹھی ہو ۔‘‘ وقاص نے مسکراتے لہجے میں اس سے خاموشی کی وجہ دریافت کی۔
’’میں چاند دیکھ رہی ہوں مجھے چاند بہت پسند ہے اللہ کی قدرت دیکھو وقاص یہ پاکستان میں بھی ایسے ہی نظر آ رہا ہوگا۔‘‘
’’پاگل ہو تم بھی …‘‘
بدر نے شکر کیا اس نے اس کی بات تسلیم کر لی تھی۔
’’میں نے بیس ہزار فخر باجی کے نام پر ویسٹرن یونین سے بھیج دیے ہیں۔‘‘
’’وقاص آپ نہ بھیجتے ، مجھے بالکل اچھا نہیں لگ رہا۔‘‘
’’مہرو اور تاج مری چلی جائیں گی اپنی سہیلیوں کے ساتھ ٹرپ انجوائے کریں گی اس سے بڑی بات کیا ہے۔‘‘
’’کوئی ضرورت نہیں تھی اتنی دور ٹرپ کے لیے پیسے بھیجنے کی ، پہلے کون سا وہ ٹرپس کے ساتھ جاتی رہی ہیں۔‘‘
بدر کو حقیقتاً وقاص کا یوں نقد پیسے بھیجنا برا لگا تھا۔ پہلے شادی پر ہی اس کی سب بہنوں ، بھائی حتی کہ ان کے بچوں کے لیے بھی بیش قیمت تحفے دے چکا تھا اور اب نقد بھیج دیے تھے۔ بدر کو اپنا آپ مزید زیر بار لگا۔
’’اتنے سے پیسوں پر منہ بنا لیا ہے چلو جب تم اپنا بزنس کرنا تو مجھے لوٹا دینا بلکہ میں سود سمیت واپس لوں گا۔‘‘
وقاص نے قہقہہ لگایا جو واضح طور پر مصنوعی تھا لیکن بدر اپنی سادگی میں پہچان کہاں رکھتی تھی۔
’’میں اور بزنس… اتنی اوقات ہوتی تو یہاں ہوتی۔‘‘ بدر مسکرا اٹھی ۔
’’آپ آ فس جانا کب شروع کریں گے وکی؟‘‘
’’کیسی بیوی ہو، میاں کو گھر میں دیکھ کر راضی نہیں ہو؟‘‘
’’میرا یہ مطلب نہیں تھا۔‘‘
’’بات یہ ہے بدر جہاں کہ میرا شیخ بزنس کے سلسلے میں چائنہ گیا ہوا ہے۔ آ ج کل میں بس آ نے والا ہے تو سمجھو ہمارا کام شروع ہونے ہی والا ہے۔ ویسے فون پر بات ہو جاتی ہے۔ اس نے مجھے شادی کی مبارک باد بھی تھی۔ تمہاری تصویر دیکھنے کے بعد اسے تمہیں ملنے کا بہت شوق ہے ۔ میں نے کہہ دیا میری بیوی کو بھی تم سے ملنے کا شوق ہے۔‘‘
بدر کو یہ بات خاص پسند تو نہ آئی پر اس نے اس بات کو بھی امیروں کی ادا سمجھا اور درگزر کر لی۔ اسے لگا امیروں میں یہ عام بات ہوتی ہو گی۔
’’ اچھی خاصی سردی ہو گئی ہے سو جاؤ اب ، میں تو سونے لگا ہوں۔‘‘
اس کے جانے کے کچھ وقت بعد وہ بھی اٹھ کر کمرے میں آئی تو وہ معمول کے مطابق صوفے پر کمبل لپیٹے سو رہا تھا۔ ایک بار دل میں آئی کہ فون اٹھا کر بڑی بہن سے اپنے شوہر کا رویہ ڈسکس کرے اور پوچھے کہ سارے خاوند ایسے ہی ہوتے ہیں یا صرف اسی کی زندگی میں کچھ ابنارمل چل رہا ہے، لیکن پھر اسے بہن کے جھمیلے اور سسرال یاد آ یا۔ اس وقت اسے فون کرنا مینٹل ٹارچر کے مترادف تھا۔ شاید اس کے میاں یاسسرال کو رات کے اس پہر فخر کا گھر کے کسی کونے میں علیحدہ ہو کر فون پر مصروف ہونا پسند ہی نہ آ تا۔ وہ چند لمحے اسے ہلکے ہلکے خراٹوں کے ساتھ سوئے دیکھتی رہی پھر اپنے بیڈ پر جا بیٹھی۔ پہلے تو بدر کو لگا اس کے ٹخنے کی چوٹ کی وجہ سے وہ اسے وقت دے رہا ہے لیکن اب اس نے وہ سوچا جو پہلے سوچتے جھجک محسوس ہوتی تھی۔ سوچنے کے بعد کمرے میں آ کر اسے سوتے دیکھ کر وہ ایک دم مطمئن ہو گئی۔ اس نے فرض کر لیا وقاص کو کوئی طبی مسئلہ درپیش ہے۔
’’تم نے کہا تھا ہم میاں بیوی ہیں ایک دن کا ساتھ نہیں ہے بالکل یہ ایک دن کا ساتھ تو نہیں ہے جو بھی ہے جیسا بھی ہے میں تمہارے ساتھ ہوں۔ ہم بھلے مکمل میاں بیوی نہیں بنے لیکن ہم بہترین دوست تو بن چکے ہیں میرے لیے یہی کافی ہے۔‘‘ وقاص کی طرف دیکھ کر اس کے دماغ نے سوچی ہوئی بات پورے جسم تک پہنچائی تو وہ مطمئن ہو کر آنکھیں موند گئی۔
٭…٭…٭

1 2 3اگلا صفحہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

You cannot copy content of this page