ناولٹ

کچنار کی کلیاں : محمد طاہر رفیق

باہر کا دروازہ کسی نے زور زور سے دھڑادھڑایا، کچن میں سبزی کاٹتی تائی اماں کا ہاتھ چھری سے کٹتے کٹتے بچا۔
’’تائی ماں! رانی باجی درخت سے گر گئی ہیں۔ میں پاس کے کھیت میں گھاس کاٹ رہا تھا کہ دھم کی آواز آئی ۔ پاس جا کے دیکھا تو اپنی رانی باجی تھیں۔‘‘
تائی اماں نے جب دروازہ کھولا تو محلے کے بچے نے تیز تیز سانسوں کے درمیان بتایا۔تائی اماں تیز تیز قدموں سے باہر کی طرف دوڑیں۔
کچنار کے درخت کے نیچے رانی بے سدھ پڑی تھی ماتھے اورسر سے خون بہہ رہا تھا۔ کھجور کے پتوں سے بنی ٹوکری الٹی پڑی تھی اور کچنار کی کچی کلیاں رانی کے اوپر اور ارد گرد بکھری پڑی تھیں۔
٭…٭
آج ننھا حیدر بہت خوش تھا ۔ ان کے گھر گلابی گلابی گالوں والی ایک ننھی پری آئی تھی ۔ وہ بہت دیر سے چچی کے پلنگ کے پاس ہی بیٹھا تھا ۔ اپنی ماں اور چچی ماں سے نظر بچا کر وہ کبھی کبھی ننھی پری کو چھو بھی لیتا تھا۔
’’دیکھو تو صفیہ اپنا حیدر کتنا خوش ہے جیسے ہمارے گھر میں سچ میں پری آگئی ہو۔‘‘
تائی اماں نے حیدر کے والہانہ پن کو دیکھتے ہوئے کہا۔ جس کو نہ کھانے کا ہوش تھا نہ پینے کا ۔ تائی اماں نے اس کو بہت مشکل سے کھانا کھلایا اور پھر اس کو سوتے میں ہی اٹھا کر اپنے کمرے میں لے گئیں ۔ کیونکہ حیدر کسی صورت بھی آج اپنے کمرے میں جانے پر راضی نہیں تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ یا تو وہ ننھی پری کے ساتھ سوئے گا یا پھر اماں اس کو اپنے کمرے میں ہی ساتھ لے جائیں ۔ پھر اس کو دیکھتے دیکھتے وہیں سو گیا تھا۔
رانی کا نام تو رانیہ تھا لیکن حیدر نے اس ننھی پری کو رانی بولا تو پھر گھر کے سب لوگ ہی اسے رانی کہہ کر پکارنے لگے۔
رانیہ کی پیدائش پر اس کی ماں صفیہ شاہ کی جو طبیعت خراب ہوئی پھر وہ دن بہ دن بگڑتی ہی چلی گئی۔
پھر ایک دن وہ رانیہ کو رابعہ شاہ کے حوالے کر کے اللہ کو پیاری ہو گئیں۔
گو کہ رانیہ کی دیکھ بھال پہلے بھی وہی رہی تھیں۔ صفیہ شاہ اپنی کی بیماری کی وجہ سے ذیادہ تر دواؤں کے زیر اثر رہتی تھیں۔
رانیہ کی صورت میں ان کی بیٹی والی دلی خواہش بھی پوری ہو گئی تھی ۔ حیدر شاہ ان کا اکلوتا بیٹا تھا اور بہت منتوں کے بعد بھی وہ اکلوتا ہی رہا وگرنہ ان کی بڑی خواہش تھی اللہ کریم ان کو ایک بیٹی عطا کر دے۔
’’کیونکہ بیٹیاں ماؤں کی ہمراز اور سہیلیاں ہوتی ہیں، اور مائیں اپنے دکھ سکھ میں اپنی بیٹیوں کو ہی شریک کرتی ہیں۔‘‘
حیدر شاہ رانیہ سے ڈھائی سال بڑا تھا لیکن وہ اس کا خیال کسی بڑے کی طرح کرتا تھا ۔ وہ ہر وقت سائے کی طرح اس کے ساتھ رہتا ۔ رانی بھی اس کے ساتھ اتنی مانوس تھی کہ گھڑی بھر کو وہ کہیں اوجھل ہوتا تو رورو کر پورا گھر سر پر اٹھا لیتی۔
سب سے بڑا مسئلہ تب ہوا جب حیدر شاہ پہلی بار سکول گیا ۔ پہلے تو وہ خود ہی اکیلے سکول جانے کو راضی نہ ہوا۔ لیکن پھر ان کے ابا احمد شاہ حیلے بہانے سے ان کو سکول لے ہی گئے۔
سکول کے پہلے دن وہ آدھی چھٹی میں ہی گھر آگیااور پھر کسی صورت سکول جانے پر راضی نہ ہوا۔
’’بابا میں رانی کے بغیر سکول ہر گز نہیں جائوں گا اور مجھے پتہ ہے امی جان میری رانی کو بہت مارتی ہیں۔‘‘
حیدر نے روتے روتے بابا کو کہا۔
” بیٹا وہ ابھی بہت چھوٹی ہے جب بڑی ہوگی تو تمھارے ساتھ سکول جایا کرے گی ۔ تمھاری امی اس کا بہت خیال رکھتی ہیں ۔تم فکر نہ کرو۔ پھر سکول سے آنے کے بعد توتم دونوں سارا وقت ساتھ رہتے ہو۔‘‘احمد شاہ نے پیار سے بیٹے کو سمجھایا۔
پھر احمد شاہ کے ساتھ ساتھ رانی بھی حیدر کو سکول چھوڑنے جاتی۔ اور پھر دن کا باقی حصہ جلے پیر کی بلی کی طرح اندر باہر پھرتی اور ہر دس منٹ تائی اماں سے وقت پوچھتی۔
”امی جان! کیا ٹائم ہوا ہے اور حیدر کو سکول لینے کب جانا ہے۔ ابھی تو چھٹی بھی ہو گئی ہو گی۔‘‘
رابعہ شاہ سکول کی چھٹی کے وقت تک اس کو چھوٹے چھوٹے کاموں میں الجھائے رکھتیں۔
حیدر بھی سکول سے آنے کا بعد کا سارا وقت رانیہ کے ساتھ رہتا اور باتوں باتوں میں اس کو سکول کا سارا سبق پڑھا دیتا۔
جس دن رانیہ نے سکول جانا تھا اس دن ان کے گھر جیسے عید کا سا سماں تھا۔ حیدر کے تو خوشی سے پائوں ہی زمین پر نہ ٹکتے تھے۔
رانیہ نے جب حیدر سے پڑھے ہوئے اسباق ٹیچرز کو سنائے تو سب ہکا بکا رہ گئیں۔ اپنی ذہانت فطانت اور خوبصورتی کی وجہ سے بہت جلد سب کی آنکھ کا تارا بن گئی۔
باہمی مشاورت سے اس کو اگلی کلاس میں پروموٹ کر دیا گیا۔
حیدر اسی طرح پڑھائی میں رانیہ کی مدد کرتا رہا ۔ اور وہ ہر کلاس میں ٹاپ کرتی رہی۔
وقت کسی بے لگام گھوڑے کی طرح سر پٹ بھاگتا رہا۔ ایک بار پھر مشکل وقت ان کے سامنے کھڑا تھا۔ ان کا سکول صرف مڈل تک تھا جب رانیہ آٹھویں کلاس میں پہنچی تو حیدر کو نویں کلاس میں داخلہ لینے کے لیے دوسرے سکول جانا پڑا۔
لیکن اب دونوں سمجھ دار ہو گئے تھے اپنے احساسات کو زبان تک آنے سے روک سکتے تھے لیکن آنکھوں میں آئی نمی کو نہ چھپا سکتے تھے۔
جس طرح پہلے حیدر رانیہ کا خیال رکھتا تھا اب اسی طرح بلکہ اس سے بھی ذیادہ اس کا خیال رکھتی تھی۔
اس کے کھانے پینے سونے جاگنے پہننے اوڑھنے پسند ناپسند ہر چیز کا جیسے ایک ماں کو اپنے راج دلارے کا خیال رکھتی تھی۔
’’مجھے تو رانیہ حیدر سے بھی ذیادہ پیاری ہے اس کو تو میں گھڑی بھر کے لئے بھی اپنی آنکھوں سے اوجھل نہ ہونے دوں کجا کہ عمر بھر کے لئے کسی کے حوالے کر دوں۔‘‘
ایک بار تائی اماں کا اس سے لاڈ پیار دیکھ کر کسی نے پوچھا تھا کہ آپا اتنا لاڈ پیار دو گی تو اگلے گھر کیسے بھیجو گی۔ اس کے جواب میں رابعہ شاہ نے جواب دیا تھا۔ رانیہ نے چائے لاتے ہوئے جب تائی اماں کی یہ بات سنی تو اس کے سوچنے اور دیکھنے کا انداز ہی بدل گیا۔
اب حیدر شاہ اس کے لیے ایک کزن اور دوست سے بڑھ کر تھا۔ بچپن کی دوستی کو اب لڑکپن میں ایک نیا رخ ملا تھا تو ہر سو قوس قزح پھیلی ہوئی لگتی تھی۔ دنیا اور زندگی اب پہلے سے بڑھ کر حسین اور خوبصورت ہو گئی تھی۔
رانیہ میں چال میں ایسا بانکپن آگیاتھا جیسے جنگل میں ہلکی بارش کی پھوار میں مورنی رقص کرتی ہے۔
اب حیدر کے لئے پکائے گئے کھانوں میں اس کے ہاتھ کے ذائقے کے ساتھ ساتھ محبت کی چاشنی بھی شامل ہوتی تھی۔
دوسری طرف حیدر کے رنگ ڈھنگ پہلے والے ہی تھے ۔ اس کے دل پر محبت نے ابھی شب خون نہیں مارا تھا۔ وہ اب بھی پہلے کی طرح ہی اس سے گپ شپ لگاتا اور وہ اکیلے میں ہر ہر بات کے سو سو مطب نکالتی رہتی۔
٭…٭
حیدر کو کھانے میں کچنار کی کلیاں بہت پسند تھیں ۔ اب تو رانیہ کے ہاتھ کے ذائقے کے ساتھ ساتھ اس کی محبت بھی شامل ہوتی تو وہ تعریف کیے بنا نہیں رہتا تھا۔
’’لگتا ہے آج کچنار کی کلیاں اور گوشت امی جان نے پکائی ہیں ۔ اسی لیے بہت لذیذ ہیں۔ کھا کھا کے پیٹ بھر گیا ہے لیکن نظر نہیں بھری۔ دل کرتا کھاتا چلا جائوں۔‘‘حیدر نے انگلیاں چاٹتے ہوئے رابعہ شاہ کی طرف دیکھا۔
’’ نہیں بیٹا اب تو عرصہ ہوا میں نے کھانا پکانا چھوڑ دیا ۔ یہ سب تو رانیہ کے ہاتھ کاکمال ہے ۔ اس کے ہاتھ میں اللہ پاک نے اتنا ذائقہ رکھا ہے کہ سادہ پانی میں نمک بھی گھول کررکھ دے تو کھانے والا انگلیاں چاٹتا رہ جاتا ہے۔‘‘
رابعہ شاہ نے رانیہ کی طرف پیار بھری نظروں سے دیکھا۔
رانیہ برتن سمیٹتے ہوئے یہی سوچتی رہی کہ لگتا ہے اب حیدر کو اس کے ہاتھ کے ذائقے کے ساتھ محبت کی چاشنی بھی محسوس ہوتی ہے۔
٭…٭

1 2 3اگلا صفحہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے