سلسلہ وار ناول

کسی اجنبی سے دیار میں : قسط نمبر 3

وہ ہر لحاظ سے ایک یادگار منگنی کی تقریب تھی اہل محلہ سے لے کرتمام رشتے دار بدر کے نصیب پر رشک کر رہے تھے اور کچھ اندر ہی اندرجل رہے تھے۔ بدر کا ارجنٹ پاسپورٹ بننا دے دیا گیا تھا دو ہفتوں بعدسادگی سے نکاح تھا اور وقاص اور بدر کی دبئی روانگی تھی۔
وقاص کا دن میں چند بار ٹیکسٹ میسج ضرور آ تا تھا ان چند روز آ نے والے برقی پیغامات نے اسکا حسن دو آ تشہ کر دیا تھا۔ وہ چمکتی تھی گویا روشنی کا گولا ہو جو نظر بھر دیکھنے پر آ نکھیں خیرہ کر دے۔ سارادن لیٹ کر اپنے فون پر سے ناول پڑھتی وہ سیما کا دل جلاتی تھی کہ اس کا بھائی آ ج کل چرس بھری سگریٹ کی تعداد بڑھا چکا تھا۔ سیماجانتی تھی چرس کی لت اس کے بھائی کو نو عمری میں ہی لگ گئی تھی۔ ریڑھی لے کر جاتا تھا تب ہی ساتھ والے ریڑھی بانوں نے ہی کم عمری کافائدہ اٹھا کر اسے اس طرف لگا دیا تھا۔ لیکن سیما بھی اپنے نام کی ایک تھی سب جانتے بوجھتے وہ اپنے نشئی بھائی کی بربادی کا ذمہ داربدر کو ہی کہتی تھی اسے لگتا تھا بدر اس سے شادی کر لیتی تو اس کے حسن کی بدولت وہ نشہ چھوڑ سکتا تھا۔
مہندی و مایوں ایک ہی دن کرنے کا پروگرام تھا اسی لیے بدر کی ممانیاں،پھوپھیاں اور باقی رشتے دار خواتین بھی ایک دن پہلے ہی ان کے گھر آگئیں۔ ان میں سے بعض کا تو زبیدہ کے ساتھ ناراضی کا سلسلہ بھی تھا پر بدر کی سسرال کی امارت اور دبئی کے اتنے چرچے تھے کہ سبھی ایک بلاوے پر کچی ڈور سے بندھی چلی آئی تھیں۔ نرگس نے فون پر بتا دیا تھا کہ روز روز آ نا اس کے لیے مشکل ہے اس لیے اب وہ بارات لے کر ہی آ ئے گی۔ مہندی کی رسوم انہیں خود ہی کرنا ہوں گی۔ نیچے رش تھا دلہن اور باقی لڑکیاں اوپر برساتی میں ہی ٹھکانا بنائے ہوئے تھیں۔ بدر اپنے پسندیدہ مصنف کا جاسوسی ناول پڑھ رہی تھی کہ اسے وقاص کا وٹس ایپ موصول ہوا۔ اس نے کھول کر دیکھا تو اس کے پاسپورٹ پر دبئی کا وزٹ ویزہ سٹیمپ تھا۔ ایک بار تو وہ ساکت ہی رہ گئی تھی۔
’’خوشی نہیں ہوئی بدر جہاں؟‘‘
’’بہت خوشی ہوئی۔‘‘ اس نے جواب لکھ بھیجا۔
نیچے سے تاج اسے مسلسل آوازیں دے رہی تھی اس نے فون ہاتھ میں پکڑااور اسی کیفیت میں نیچے اتر آئی۔
’’بدر آ پی! آپ جاسوسی ناول پڑھتی رہنا، ادھر آ پکی نند صاحبہ آئی ہوئی ہے۔‘‘
’’آ گ لگے اسکے ناولوں کو ایسا گم ہوتی ہے ارد گرد بھول جاتی ہے۔‘‘
’’اماں ابھی جو ناول پڑھ رہی ہوں اس میں لڑکی کو باہر لے کر جاتے ہیں اور پھر بیچ دیتے ہیں اب بھی ٹائم ہے غور کر لیں کہیں آپ کا وقاص بھی دو نمبر نہ ہو۔‘‘ بدر نے ماں سے شرارت کی تھی۔ بعض شرارتیں کس قدرمنحوس ہو سکتی ہیں انسان جان لے تو کبھی شرار ت نہ کرے۔
’’تیرے منہ میں خاک بدر، کوئی حیا کو ہتھ مار کیسی بد فالیں منہ سے نکال رہی ہو، وقاص جتنا اچھا بر چراغ لے کر ڈھونڈنے سے نہ ملے۔ حسن تو ہر دوسری گلی میں رُلتا پھر رہا ہے۔ ایسے قدر دان کس کوملتے ہیں بھلا، نہ جہیز نہ پیسہ نہ ٹکا اوپر سے تیرے بعد ان تینوں کے اچھی جگہ رشتے بھی جلد ہو جائیں گے آ خر کو بہن دبئی رہتی کا کوئی تھوڑا رعب ہوتا ہے۔ یاسر کا روزگار لگ جائے گا دبئی کا۔ شریکوں کے سینے پر سانپ لوٹے پڑے ہیں تو بد فالیں نکالتی پھر رہی ہے۔ میری بات سنو خبردار کسی نے نرگس کے پاس کسی رشتے دار کواکیلا کھڑے ہونے دیا سایہ بن کر ساتھ رہو۔ میں تو ہلنے جلنے کو محتاج ہوں۔‘‘
زبیدہ نے بدر کے ساتھ چھوٹی بیٹیوں کی بھی کلاس لے ڈالی کہ وہ نرگس اور وقاص کے بارے میں حساس ہی اتنی ہو چکی تھی۔
’’مہندی کا ڈریس سسرال والوں کی طرف سے ہو ہر لڑکی کا یہی خواب ہوتا ہے بس اسی سوچ نے مجھے مجبور کر دیا کہ بدر کو مہندی مایوں کی رسم کا سارا سامان دے ہی آؤں۔‘‘
پہلے تو سیماکی زبانی قصے سنے تھے اب ساری خواتین نے اپنی آنکھوں سے نرگس اور مہندی کا قیمتی سامان آ یا دیکھ لیا تھا۔ ساتھ رس گلے اور گلاب جامن کی ٹوکریاں تھیں۔ ایک بڑا کیک بھی تھا جس پر بدر وقاص لکھا ہوا تھا۔ سیما سمیت سب انگشت بدنداں تھیں۔ بدر سے زیادہ انہیں زبیدہ پر غصہ آ رہا تھا جو ایسے داماد بڑی چالاکی سی ڈھونڈتی جا رہی تھی اور فخر سے جتاتی بھی تھی کہ خاندان میں کسی کو رشتے کرنے نہیں آتے۔ سب کی بیٹیاں دکھی ہیں غریبی سے لڑرہی ہیں۔
’’یہ لو! کسی بہترین سیلون سے کل کامیک اوور کرانا مہندی بھی کسی ماہر سے ہی لگوانا۔‘‘ نرگس بدر کے ہاتھ میں پانچ پانچ ہزارکے نوٹ دے رہی تھی۔
فخر اور اماں کے سر ہلانے پر اس نے بے دلی سے مٹھی بند کر لی وہ پیسے لینے کے حق میں نہیں تھی کہ پیسے اسکی خود داری پر چوٹ لگارہے تھے۔ باقی سب کچھ تو رسم و رواج کے نام پر چل ہی رہا تھا پرپیسے اسے بے قرار کر گئے۔
دن ڈھلتے جب وہ اور فخر مہندی لگوانے پارلر جانے لگیں تو اس کی چھوٹی پھوپھی نے بے ساختہ اسے روک لیا۔ سیاہ چادر میں لپٹے اس کے پناہ حسین چہرے کو دیکھا اور بڑبڑائی۔
’’رک! تجھ پر آ یت الکرسی پڑھ کر پھونک دوں۔ زبیدہ تو باؤلی ہوئی پھررہی ہے ذرا جو احساس ہو ،سویرے شادی ہے۔ دن رکھے ہوں تو سو ال بلاء پیچھے پڑ جاتی ہے۔ دلہے دلہن کے بدن کی مہک دور دور تک جوجاتی ہے۔ ان چڑیلوں بھوتوں کو بڑی پسند ہے ایسی مہک۔ تجھ پر ویسے ہی نظر نہیں ٹھہرتی اوپر سے سویرے شادی ہے، کسی کالے منہ والے کی نظرنہ لگ جائے کہیں۔‘‘ پھوپھو باتیں کرتی گئیں اور پھر خاموش ہو کر زیر لب آ یتیں پڑھ کر اس پر پھونکنے لگیں۔
بدر کا دل بھر آیا۔ فخر آ نسو چھپاتی اسے لیے رکشے میں بیٹھ گئی کہ مہندی والی نے کہا تھا کم سے کم بھی دو گھنٹے تو پکے لگنے تھے۔
٭…٭…٭
گورنر ہاؤس میں شیخ سالم حداد، حسین اور معتصم کے اعزاز میں عشائیہ تھا ۔شہر کی کریم کے ساتھ ساتھ مختلف ممالک کی کمپنیز کی اہم شخصیات بھی موجود تھیں۔ مراکو فوڈ پروسیسنگ کمپنی کی نمائندگی مس جولیا کر رہی تھی اور مراکو ہی وہ ملک تھا جہاں سے شیخ سالم اور اس کی ٹیم جیت کر آئی تھی۔ گویا جولیا کو پکا پرمٹ مل چکا تھا کہ وہ سالم کے برابر والی کرسی سنبھالے۔ جتنا سالم اس سے بچتا تھا وہ اتنا ہی کہیں نہ کہیں ٹکرا جاتی تھی۔ جولیا پکی مراکش گرل تھی جس کی زبان کم اور جسم زیادہ بولتا تھا آ ج بھی وہ تھری پیس پہنے ہوئے تھی لیکن اس تھری پیس نے بھی اسکا کچھ نہیں بگاڑاتھا۔
’’تم مجھے اگنور کیوں کرتے ہو شیخ؟ تمہاری تو حُرمہ (بیوی) بھی نہیں ہے جس سے ڈرتے ہو؟ میرے حسن سے خوف زدہ ہو وللہ میں انسان نہیں کھاتی۔‘‘ جولیا شستہ عربی میں اسے شرمندہ کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔
سالم نے عمانی قہوے کا کپ بھرا اور کرسی گھما کر جولیا کی طرف کرلی۔ حسین اور معتصم نے ایک دوسرے کو دیکھا اور پھر معتصم مسکرادیا۔
’’ہمارا شیر میدان میں اتر آ یا اب جولیا کی بینڈ بجنے والی ہے۔ ہمیں یہاں سے کسی دوسرے کونے کی طرف نکل جانا چاہیے۔‘‘
تاریخ گواہ تھی سالم جب جب کسی کو سیدھا کرنے کی نیت سے سیدھاہو کر بیٹھا تھا سیدھا کرکے ہی اٹھا تھا۔
اس کے یوں جولیا کی طرف متوجہ ہونے کو نوٹ کرنے والے ہال میں حدادیوں کے علاوہ بھی لوگ موجود تھے جو سمجھ رہے تھے کہ سالم بھی جولیا پر مر مٹا ہے۔
’’تمہیں نہیں لگتا تمہاری ایسی باتیں کسی مراکو بار گرل اور تم میں کوئی فرق نہیں رہنے دیتیں۔‘‘
اس کے مسکراتے لہجے میں جو بے عزتی چھپی تھی جولیا اسے محسوس کر کے واضح طور پر ڈاؤن ہوئی تھی۔
’’جولی! میری فیلڈ اور زندگی بھلے کتنی ہی گلیمرس سہی لیکن میں ٹائم پاس والا بندہ نہیں ہوں خواتین کی عزت کرتا ہوں خاص کر ان خواتین کی جو اپنی عزت کرانا جانتی ہیں تمہاری تو ساری سرگرمیوں سے واقف ہوں بھلے صلالہ میں کم وقت گزار رہا ہوں لیکن میرا گھر یہیں ہے۔‘‘
اس سے پہلے کہ جولیا کچھ بولتی شیخ نجم طبوق ان کی طرف چلا آ یا۔
’’کچھ وقت ہمارے لیے بھی نکال لیں مس جولیا!‘‘ جولیا سے ہاتھ ملا کرشیخ نجم طبوق نے اس کے ہاتھ کی پشت پر بوسہ دیا تو جولیا نے سالم کوبڑی جتاتی نظر سے دیکھا تھا کہ قدردان اسی ہال میں موجود ہیں۔
سیف حداد نے شیخ طبوق کو سالم کی طرف جاتے دیکھا تو بے چین ہوکر باقی حدادیوں کے تاثرات بھی جانچے۔
طبوق کنسٹرکشن اور حداد کنسٹرکشن کمپنیز سالہا سال سے رائیول تھیں۔ لیکن تین ماہ پہلے طبوق اینڈ سنز کوملنے والے تمام سٹیٹ ڈویلپمنٹ کنٹریکٹ حداد اینڈ سنز کو شیخ سالم حداد کی وجہ سے ٹرانسفر کر دیے گئے کہ دینے والا شیخ سالم حداد کا فین نکل آ یا تھااور اس دن کوٹیشن جمع کرانے والے وفد میں شیخ سالم حداد بطور مقاول مہندس (سول انجنئیر) شامل ہوا تھا۔ یہ زخم شیخ نجم طبوق کوبہت گہرا لگا تھا۔ جاننے والے جانتے تھے کہ شیخ نجم کی فطرت میں کینہ ہے وہ حدادیوں کو معاف نہیں کرے گا۔ اس کے نزدیک ڈیل فئیر نہیں تھی، شیخ سالم کا سٹیٹس کیش کرایا گیا تھا۔ یہ بات جھوٹ بھی نہیں تھی ہوا تو ایسا ہی تھا۔
’’شیخ طبوق نے تم سے بھی کچھ کہا تھا؟‘‘ سارے حدادی اب بیت حدادکی مجلس میں محفل سجائے بیٹھے تھے۔
’’نہیں صرف جولیا سے ہی بات کی تھی۔‘‘
’’تو تمہیں کیا ضرورت تھی اس حرافہ کے ساتھ منہ سے منہ جوڑ کربیٹھنے کی، صبح کسی اخبار میں کسی گھٹیا کیپشن کے ساتھ فوٹولگی ہوگی۔‘‘ گویا ہاجرہ حداد کو الف تا یے قصہ سنا دیا گیا تھا۔
’’ماما! آ پکو پتہ ہے میں خواتین سے ویسے ہی بچ کر چلتا ہوں اب اگر کوئی خود پیچھا نہ چھوڑے تو بات تو کرنا ہی پڑتی ہے۔‘‘
’’پچھلا قصہ بھول گئے کیا؟‘‘ طوبی نے بھی مداخلت کی۔ ایک یورپین فین ہوٹل میں اس کے کمرے میں گھس آئی تھی نامناسب لباس میں اس نے سوشل میڈیا پر اس کے کمرے میں کھینچی گئی اپنی تصاویر وائرل کرکے لکھ دیا تھا کہ سالم اس کا بوائے فرینڈ ہے اور وہ اکثر اسے اپنے کمرے میں بلایا کرتا ہے۔ اسے پریس کانفرنس کرنا پڑی تھی لڑکی سے بھی معذرت کروائی گئی تھی۔
ہاجرہ اور طوبی کے اشاروں پر شیخ حداد نے کھنکار کر گلا صاف کیاتو اس نے باپ کی طرف دیکھا تھا۔
’’یا سالم! تم شادی کر لو۔‘‘
شیخ حداد کے اس ڈھیلے ڈھالے جملے پر طوبی نے ہاتھ میں پکڑا فون کارپٹ پر پٹخ دیا۔
’’یا شیخ! ہم نے آ پ کو حکم دینے کا بولا تھا اس طرح کی درخواستیں ہم خودکر کے دیکھ چکی ہیں۔‘‘
ساری مجلس میں زور دار قہقہہ پڑا۔
’’وہ عاقل و بالغ ہے میں اس کے ساتھ زبردستی نہیں کر سکتا اس کی اپنی زندگی ہے۔ ‘‘
سالم کو معلوم تھا اب اس کی ماؤں اور باپ کے درمیان زور دار بحث ہوگی۔ سو وہ بھی اپنے بہن بھائیوں کی طرف متوجہ ہو گیا۔
’’کیسی طبیعت ہے چڑیل؟‘‘ اس نے چھوٹی بہن سے پوچھا۔
’’بس ایسی ہی ہے۔‘‘ جواباً سلمہ نے بھی اپنے پیٹ کی طرف اشارہ کر دیا۔
’’لگتا ہے اس بار دو چیکو(بچے) ہوں گے۔‘‘ اپنی طرف سے اس نے بہن سے شرارت کی۔
’’ان شاء اللہ، تم جلتے رہنا۔‘‘
’’اگر یہی حالات رہے تو تمہاری اپنی فٹ بال ٹیم ہو گی۔‘‘
’’ماموں کوچ ہوں تو فٹ بال ٹیم سے اچھا کیا ہوگا۔‘‘
عمانی مزاجاً کھلے ڈلے ہیں برصغیری طرز معاشرت سے بالکل الٹ، شادی، ازدواجیات، حمل اور بچے انکے لئے یونیورسل ٹرتھ ہیں مرد وخواتین ان معاملات کوئی شرم محسوس نہیں کرتے۔ شادی اور خوشخبری کے بارے میں مرد و زن بنا تخصیص بات کرتے ہیں۔ بچوں پرسختی کا کوئی تصور نہیں اسی لئے شیخ سالم سے صرف شادی کی بات چیت کی جاتی تھی اصرار نہیں۔
وہ سارے بہن بھائی خوش گپیوں میں مگن تھے جب طوبی نے ایک بارپھر سے سالم کو مخاطب کر لیا۔
’’یا سالم! چار قبائل کی لڑکیوں کے تصویریں آئی ہیں ہمارے پاس، ایک نظر دیکھ لو۔ سارے قبیلے بہت نامی گرامی اور معزز ہیں۔ لڑکیاں تو چاندکا ٹکڑا ہیں انکار کی کوئی وجہ نہیں بن رہی۔ شادی سنت ہے بچے، شادی کے بعد تمہارا جولیا جیسی بلاؤں سے پیچھا بھی چھوٹ جائے گا۔ شادی قلعہ ہے انسان کو محفوظ کر دیتا ہے۔‘‘
’’ماما! چند دن بعد دبئی میں عرب لیگ شروع ہونے والی ہے دبئی سے واپسی پر ہم اس موضوع پر بات کریں گے۔ فی الحال میرے نزدیک عرب لیگ سے زیادہ اہم کچھ نہیں ہے۔‘‘
’’کب جا رہے ہو دبئی؟‘‘
’’جب مسقط سے حکم آ گیا تو فوراً روانہ ہونا پڑے گا۔ ‘‘
’’میں دادا جان کے کمرے میں ہوں قہوہ ادھر بھیج دیں انک کے ساتھ پیوں گا۔ ‘‘
طوبی نے سر ہلا دیا۔
٭…٭…٭

1 2 3اگلا صفحہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

You cannot copy content of this page