یہی داغ تھے: چوتھا اور آخری حصہ
فاطمہ کو مس ضویا کے فلیٹ پر لے جاؤ ۔‘‘ اس نے سختی سے کہ کر فون بند کیا اور پھر ضویا کو کال ملائی۔
’’مس ضویا ! مس فاطمہ آج آپکی طرف سٹے کریں گی ۔دیر ہونے کے باعث انکا ہاسٹل بند ہوگیا ہے۔‘‘ اسے ہدایات دینے کے بعد اسنے فاطمہ کا نمبر ملایا۔
’’ہیلو۔‘‘ اسکی مدھم آواز پر اسکی جان میں جان آئی۔
’’ضویا کو میں کہہ دیا ہےکہ آپکا ہاسٹل بند ہے ۔آپ ادھر ہی رہیں گی آج ۔ میں دو گارڈز کی ڈیوٹی لگا دوں گا باہر وہاں ، فکر مند مت ہوئیے گا ۔یہ سب اس لیے ضروری ہے تا کہ آپکی اصل رہائش اسکی نظروں میں نہ آئے ۔‘‘ وہ اسے سمجھانے کے ساتھ تسلی بھی دے رہا تھا جبکہ وہ خاموش تھی ۔شکرگزاری، کیا کیا احساسات تھے جو اندر پیدا ہوئے تھے ۔ اسکا بھی تھا کوئی اب اسکی فکریں کرنے والا، اسے منانے والا، اسکے لیے پریشان ہونےوالا۔
’’فاطمہ۔‘‘اسکی خاموشی پر وہ پریشان ہوا۔
’’جی میں سمجھ گئی سب ۔ آپ پریشان نہ ہوں بالکل بھی۔‘‘ اسکے لہجے کے سکون پر اسنے ایک گہری اطمینان بھری سانس لی تھی۔
’’خیال رکھنا۔‘‘ اسنے دونوں لفظوں پر زور دیتے ہوئے کہا اور فون بند کردیا ۔ پھر وہ صبح تک مسلسل اسکے ساتھ میسج پر رابطے میں رہا تھا۔
٭…٭…٭
’’یہ پچھلے ایک سال کا ریکارڈ ہے عمر۔‘‘ فائز نے یو ایس بی اسکے سامنے رکھی۔
’’اور باقی؟‘‘ اسنے اس ادھورے ریکارڈ پر کینہ توز نگاہوں سے فائز کو دیکھا ۔
’’تمہیں کیا لگتا ہے؟؟ مجھے انٹیلی جنس والوں نے فری رہنے کی تنخواہ دینے کا عہد کیا ہوا ہے؟‘‘ اسکی نگاہوں کو خاطر میں لگائے بغیر وہ بے نیازی سے پوچھ رہا تھا۔
’’تمہارے اس لیٹ کے چکر میں میرا گھر نہی بس رہا ۔‘‘ اسکے بے بس لہجے پر فائز نے بے اختیار قہقہہ لگایا۔
’’اس عمر میں ایسے ہی گھر بستے ہیں ۔ خیر تم فکر نہ کرو ایک دو دن تک تمہیں باقی سب بھی مل جائے گا۔‘‘ اسنے تسلی دی۔ وہ مطمئن سا ہوگیا۔
’’بھابھی سے کب ملوا رہے ہو۔‘‘ فائز نے شرارت سے پوچھا۔
’’پہلے میں خود تو مل لوں اس سے۔‘‘ فائز کو گھورتے ہوئے اسنے جواب دیا ۔ اسکی بے بسی کو وہ فل انجوائے کر رہا تھا۔
’’اب جاؤ بھی تم ۔ مجھے دیکھنا ہے یہ سب۔‘‘ اسکے کہنے پر فائز نے اس طوطا چشم انسان کو دیکھا ۔
’’سب طوطوں نے اپنی جان کو قربانی دی ہوگی تمہاری پیدائش پر ۔آخر کو ان کا باپ اس دنیا میں آیا تھا۔‘‘ موبائل میز سے اٹھاتے ہوئے اسے گھورتا وہ باہر نکل گیا جبکہ وہ مسکراتا ہوا یوایس بی لیپ ٹاپ سے کنیکٹ کر رہا تھا ۔ جیسے ہی اسنے ڈیٹا اوپن کر کے دیکھنا شروع کیا اسکے ماتھے پر بچھے لکیروں کے جال میں اضافہ ہوتا جارہا تھا۔
’’تمہارے دن بس اب کچھ گنتی کے ہیں معظم شاہ ۔ ‘‘ یو ایس بی جیب میں ڈال کر وہ آفس سے نکل آیا تھا ۔ اسکا رخ فلیٹ کی جانب تھا جہاں وہ پچھلے تین دن سے مصروفیت کے باعث جا نہیں سکا تھا ۔ آنکھوں کی چمک میں اضافہ ہو گیا تھا۔
فاطمہ اسے فلیٹ میں دیکھ کر اپنے چہرے پر آئے خوشی کے تاثرات چھپا نہیں سکی تھی ۔جبکہ اسے خوش دیکھ کر وہ مزید خوش ہوا تھا۔
’’کیا بات ہے ۔ آج تو لوگ بہت خوش ہیں۔‘‘ اسکے کندھے کے گرد بازو پھیلا کر اسنے دلچسپی سے اسکے چہرے پر بکھرے رنگوں کو دیکھا۔
’’اور کچھ لوگ اس خوشی کو دیکھ کر زیادہ ہی پھیل رہے ہیں ۔‘‘ اسنے اسکا بازو پیچھے کرتے ہوئے قدرے تیکھے لہجے میں کہا۔ وہ بے اختیار ہنس پڑا۔
’’واہ لوگ تو بڑے موڈ میں ہیں۔‘‘ اسکی حاضر جوابی پر وہ محفوظ ہوا۔
’’کیا کریں ۔ ایک آفیسر کو ہر وقت اپنے کان اور آنکھیں کھلی رکھنی پڑتی ہیں ورنہ لوگ فائدہ اٹھالیتے۔‘‘ سکون سے کہتی وہ کچن میں گھس گئی جبکہ وہ کافی دیر تک اسکے باونسرز پر مسکراتا رہا ۔ زندگی بہت خوبصورت ہوگئی تھی ۔ بس کچھ دن اور تھے انکی مشکلات کے۔ ادھر وہ کچھ سوچ رہا تھا جبکہ ادھر ایک اور جال بنا جارہا تھاجس سے وہ دونوں انجان تھے۔
٭…٭…٭
کمرے کی تاریکی میں کھڑکی سے چھن چھن کر آتی غروب ہوتی شام کی ٹھنڈی سی روشنی میں سگریٹ کے مرغولہ بناتے دھوئیں عجیب ڈراؤنا سا منظر پیش کر رہے تھے جبکہ آرام دہ کرسی پر نیم دراز سگریٹ کے کش پرکش لگاتا وہ سرخ آنکھوں کے ساتھ کمرے کی تاریک فضا کو گھور رہا تھا ۔ رہ رہ کر اسکی آنکھوں کے سامنے ہال کا منظر آرہا تھا ۔پلر کے ساتھ لگی وہ اور گردونواح سے بے خبر اسکے چہرے پہ جھکا عمر ۔ جب جب اسے یہ منظر یاد آتا اسکے تن بدن میں گویا آگ لگ جاتی تھی ۔ اتنا بڑا دھوکہ، اتنا بڑا فراڈ ۔ اسکے سامنے کیا شو کر رہا تھا وہ دو دن اور حقیقت کیا تھی۔ اور وہ لڑکی کتنی پارسا بنتی تھی اسکے سامنے ۔ ہر ایک الزام اپنے سرلے کر جس نے اپنے کردار پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا تھا ۔ اسکے سامنے کیسے آرام سے کھڑی تھی۔ اندر باہر ایک آگ تھی جو اسے جلا رہی تھی ۔فون کی بجتی بیل پر اس نے سگریٹ بجھایا اور کال اٹینڈ کی۔
’’ان کا کوئی بھی افیئر نہیں چل رہا سر ۔ عمر شہزاد نے اس سے ملتان میں نکاح کیا ہے ۔‘‘ دوسری طرف سے بولے جانے والے الفاظ کسی ہتھوڑے کی طرح اسکے سر پر لگے تھے۔
’’نکاح۔۔۔‘‘ حیرت کے مارے وہ کچھ اور نہیں بول سکا۔
’’یس سریہ کنفرم نیوز ہے ۔میڈم کی فیملی سے کنفرم کروائی گئی ہے۔‘‘ دوسری طرف سے اسی طرح مؤدبانہ انداز میں جواب آیا ۔ اسنے کچھ کہے بغیر فون بند کردیا ۔ عمر اس سے نکاح کیسے کرسکتا ہے ۔ وہ مان کیسے گئی اورکیسے ہوسکتا ہے یہ۔۔۔۔کیسے ہوسکتا ہے۔۔۔ اتنا سب دیکھنے کے بعد اتنی کرپٹ لڑکی سے اسنے نکاح کرلیا۔۔۔۔ اور میرے سامنے وہ ایسے پوز کر رہا تھا جیسے۔۔۔۔اسنے زور سے مٹھیاں بھینچی۔
’’میرے ساتھ اس دشمنی کا آغاز تم نے خود کیا ہے عمر اب تم یاد کرو گے کہ تمہارا پالا پڑا کس کے ساتھ ہے۔‘‘ حسد، جلن، غصہ،بےبسی، فرسٹریشن، ملے جلے جذبات تھے جو اسے پاگل کر رہے تھے ۔ وہ دونوں اسوقت اسکے سامنے ہوتے تو وہ کسی ایک کو ادھر ہی ختم کردیتا اور وہ کوئی ایک عمر ہوتا ۔ اسکا بہت اچھا دوست اور اب سب سے بدترین دشمن۔
شیشے کے سامنے کھڑے ہوکر اسنے مدھم روشنی میں بغور اپنا چہرہ دیکھا ۔ ایسا کیا تھا عمر میں جو اسمیں نہیں تھا۔پھر اگلے ہی لمحے ہاتھ میں پکڑا گلاس اسنے شیشے پر مارا تھا ۔ جس سے وہ کرچی کرچی ہوگیا تھا۔۔۔۔ اسکی اپنی اندرونی حالت بھی ایسی ہی تھی اسوقت ۔شکست خوردہ مگر وہ طے کر چکا تھا کہ وہ اس سب کا بدلہ لے گا ۔ اسکے خلاف کوئی ریکارڈ فاطمہ کے پاس نہیں تھااس لیے وہ دونوں تو اسکے خلاف کچھ نہیں کرسکتے تھے لیکن وہ ضرور اس رشتے کی بنیاد پر ان کو ذلیل کر سکتا تھا ۔ اسکا نشانہ عمر تھا جس کے کیریئر کی بیورو کریسی میں مثالیں دی جاتی تھیں۔
’’اپنا قصہ ختم سمجھو اب تم ۔‘‘ وہ دل ہی دل میں عمر سے مخاطب ہوا ۔ اسکے ہاتھ بہت تیزی سے ایک نمبر ملا رہے تھے۔
٭…٭…٭
زندگی اس وقت اسے کتنی خوشگوار لگ رہی تھی وہ سمجھ نہیں پارہا تھا کہ کیسے شکر ادا کرے ۔ آج چھٹی کا دن تھا اور وہ اسکے بار بار منع کرنے کے باوجود لے کر باہر آیا تھا۔
اسکا ارادہ اسکے ساتھ مکمل ٹائم سپینڈ کرنے کا تھا ۔ وہ ہر صورت اس رشتے کو پنپنے کا، بڑھنے کا ،پھلنے پھولنے کا بھرپور موقع دینا چاہتا تھا ۔ وہ اس سے چار پانچ سال چھوٹی تھی ۔ اس لیے وہ باہمی انڈرسٹینڈنگ کو زیادہ سے زیادہ بڑھانا چاہتا تھا تاکہ وہ اسکے ساتھ کمفرٹیبل فیل کرے ہمیشہ اور بنا جھجھکے ہر بات شیئر کرے ۔ اسوقت وہ ایبٹ آباد سے مانسہرہ جارہے تھے ۔ راستے میں وہ اسے ہر جگہ کے بارے میں تفصیل سے بتاتا جارہا تھا ۔
’’آپ کو کتنا عرصہ ہوگیا ہے ادھر؟‘‘ اس نے اسکے اس قدر نالج سے خاصا امپریس ہوکر پوچھا۔
’’میری پوسٹنگ کو تو ابھی ایک سال بھی نہیں ہوا لیکن میری ریزیڈنس مانسہرہ سے کچھ ہی کلومیٹرز کے فاصلے پر واقع گاؤں کی ہے۔‘‘ اسکے بتانے پر وہ حیران ہوئی ۔ اسے اندازہ نہیں تھا کہ وہ لوکل ہے ادھر۔
’’اتنی نزدیک کی ہوسٹنگ کیسے مل گئی آپکو ۔ بہت مشکل سے ہی ملتی ہے یہ تو۔‘‘ اسکی حیرانی پر وہ مسکرایا۔
’’آٹھ سال سے سروس میں ہوں ۔ چوبیس سال کا تھا جب پہلی بار پنجاب میں جوائننگ دی تھی ۔ اسکے بعد بہت دور دور دھکے کھائے ۔ اب جاکر کہیں ملی ہے۔‘‘ اسکے بتانے پراسنے سر ہلایا۔
’’میں نے بھی بہت شوق سے سی ایس ایس کی تیاری کی تھی ۔بہت جان لگا کر پہلی کوشش میں ہی کلیئر کرلیا تھا۔‘‘ وہ بتا رہی تھی لہجے میں اداسی تھی ۔ وہ یہی چاہتا تھا کہ وہ خود اس سےسب شیئر کرے ۔
’’تب جنون تھا کہ میں نےاپنے بھائی کو چھڑوانا ہے ، اپنے گھروالوں کو ایک اچھی زندگی دینی ہے لیکن جیسا ہم سوچتے ویساکبھی نہیں ہوتا ۔‘‘ وہ تلخی سے مسکرائی۔
’’نیت صاف تھی اینڈ دس از دی موسٹ امپورٹنٹ۔ باقی کچھ معنی نہیں رکھتا ۔ زندگی میں اپس اینڈڈاون آتے ہی رہتے ہیں ۔ اللہ ہمیں ہماری ہمت سے زیادہ نہیں آزماتا۔‘‘ اسنے اپنا بھاری ہاتھ اسکے گود میں دھرے ہاتھوں پر رکھ کر تسلی دی ۔ جواب میں وہ کچھ نہیں بولی۔ وہ گاڑی پارک کر رہا تھا ۔ وہ کچھ حیران سی باہر دیکھنے لگی تھی ۔ جھیل پر خوبصورت سا قدیم ہاتھوں کا بنا ہوا پل تھا ۔بڑا دلکش نظارہ تھا۔
وہ کچھ ایکسائیٹڈ سی باہر آئی۔
’’مانسہرہ میں یہ سب سے پرسکون اور خوبصورت جگہ لگتی مجھے ۔ ‘‘ اسے ساتھ لیے وہ پل کی جانب بڑھا۔ وہاں واقعی بہت سکون تھا۔ خاموشی، خنکی، جھیل کا آہستہ آہستہ بہتا ہوا پانی اور اکا دکا دور چلتے لوگ۔ ہریالی ہی ہریالی تھی ارد گرد اور بے تحاشا کنول کے پھول۔ فاطمہ نے بے اختیار ایک گہری سانس لی تھی اس سکون کو اپنے اندر اتارتے ہوئے۔
بہترین کہانی اور انداز بیان بھی خوب ہے . میں خود بھی فاطمہ کے ساتھ ساتھ روئی ہوں . واقعی مشکل حالات سے گزری فاطمہ۔ اچھی شکل نعمت بھی ہے اور زحمت بھی۔ تبھی اللّه کا حکم ہے عورت کو کہ اسے چھپایا جائے .
The author deserved an applaud. Though there were some cliche things but it was good story and good effort. Thanks for writing this.