یہی داغ تھے : تیسرا حصہ
’’جو ہوگیا اسے بھلانا آسان نہیں ،مگر اس طرح سے ہاتھ پاؤں چھوڑ کے بیٹھنا بھی ٹھیک نہیں۔‘‘ مسکین بھائی اسے سمجھا رہے تھے ۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ وہ کب اور کیسے ہوسپٹل آئے تھے۔
’’میرے لیے مزید کچھ بھی باقی نہیں بچا اب ۔‘‘ اس کی نظریں چھت پر جمی ہوئی تھیں اور لہجہ بے تاثر تھا۔
’’بیوقوفی کی باتیں نہیں کرتے، وقاص تمہیں کبھی بھی اس حالت میں دیکھ کر خوش نہ ہوتا۔‘‘ ان کا بھاری ہاتھ اس کے سر پر تھا۔
’’تو کیا چاہتے ہیں مجھ سے؟‘‘ اس کے انداز میں کوئی فرق نہیں آیا تھا ۔ ویسا ہی لٹھ مار سا زخمی لہجہ تھا ٹوٹا ہوا۔
’’جو بھی ماضی میں ہوا، کم عمری کی نادانی میں تم سے غلطی ہوئی یا نہیں ہوئی اور اب جو ہوا، اس سب کے بارے میں میں کچھ نہیں کہوں گا مزید مگر میرے لیے تم چھوٹی بہنوں کی طرح ہو، تمہارے آگے کی زندگی کے لیے میں فکر مند ہوں اور اکیلا نہیں چھوڑ سکتا ۔‘‘ انہوں نے تمہید باندھی۔
’’آپ فکر نہ کریں میں اکیلے رہنے کی عادی ہوں۔‘‘ اس کی آنکھیں بھر بھر آرہی تھیں مگر ایک بھی آنسو اس نے گالوں پر نہیں آنے دیا تھا البتہ آواز ضرور رندھ گئی تھی۔
’’جاب کے لیے رہنا اور بات ہے، ساری زندگی اکیلے رہنا اور بات، وقاص اگر ہوتا آج تو اکیلا رہنے دیتا تمہیں؟‘‘ ان کے سوال پر اس کی آنکھوں سے ایک بار پھر سیل رواں شروع ہوگیا تھا ۔ ساری بات تو ان کے ہونے کی تھی، وہ ہوتے تو وہ یہاں نہ ہوتی کبھی بھی ۔ وہ تو صحیح معنوں میں یتیم ہی اب ہوئی تھی ۔
’’کیا تم مجھے آصف کی جگہ نہیں مانتی؟ میں تمہارے لیے کبھی بھی کوئی غلط فیصلہ نہیں کروں گا ۔ دو ہفتے پہلی میں جب جیل گیا تھا اس سے ملنے تو جانتی ہو اس نے کیا کہا تھا؟‘‘ ان کے کہنے پر وہ سوالیہ نظروں سے انہیں دیکھنے لگی ۔ اس وقت کمرے میں صرف وہ اور مسکین بھائی تھے۔
’’اس نے کہا میں چاہتا ہوں کہ فاطمہ میری سزائے موت سے پہلے اپنے گھر کی ہوجائے۔‘‘ مسکین بھائی کی آواز بھی بتاتے ہوئے بھرا رہی تھی۔
’’اور کہا مسکین اس کے لیے کوئی اس کی طرح کا رشتہ ڈھونڈھو جلد از جلد اسکے معیار کا۔‘‘ وہ بتا رہے تھے اور وہ پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی ۔ اس کا آخری فیصلہ تھا کہ وہ کبھی شادی نہیں کرے گی مگر اس کے بھائی کو ادھر بھی اس کی فکریں کھا رہی تھیں ۔ صحیح کہ رہی تھیں امی، میں ذمہ دار ہوں انکی موت کی۔
’’مجھے بتاؤ، جو ذمہ داری اس نے مجھے سونپی ، کیا میں اس سے منہ موڑ لوں ؟ اس کی آخری خواہش اور اب جو حالات ہیں اس میں میں تمہیں اکیلا کیسے چھوڑ دوں ۔ گھر میں تمہیں نہیں لے جاسکتا، کس کے آسرے چھوڑوں ؟ میری بھی تو بہن ہو تم۔‘‘ وہ بے بس سے کہہ رہے تھے۔
’’ہوسکتا ہے آج سے سال دوسال بعد حالات تبدیل ہوجائیں، چچی کا دل نرم پڑ جائے تمہارے لیے ، آخر تم انکی اولاد ہو مگر ابھی کے لیے تمہیں میرا فیصلہ ماننا ہوگا ، میرا نہیں تو وقاص کا فیصلہ سمجھ کر مان لو۔‘‘ وہ التجا کر رہے تھے ۔
’’کتنے لوگ اس کی وجہ سے تکلیف میں تھے ۔ ‘‘ اس نے کرب سے سوچا اور دونوں ہاتھوں سے اپنے آنسو صاف کیے۔
’’میرے لیے جو بھی فیصلہ کرنا چاہتے آپ کرلیں، مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ اس دنیا کے بدترین یا بہترین انسان کے پلے بھی باندھ دیں گے مجھے تو مجھے اس چیز سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔‘‘ اس نے ٹھہر ٹھہر کر مضبوطی سے کہا تھا۔
’’لائک مائی بریو گرل۔‘‘ انہوں نے اسکا سر تھپتھپایا۔
’’چچی نے ذرا بھی گنجائش رکھی ہوتی تو میں تمہیں گھر لے کے جاتا وہاں سے رخصت کرتا مگر اللہ کو ایسے ہی منظور تھا۔‘‘ ان کے کہنے پر فاطمہ نے پہلی بار حیرانی سے سر اٹھا کر دیکھا ، وہ کیا لڑکا بغل میں لیے پھر رہے تھے۔
’’خود کو سنبھالو، بہت مضبوط ہو تم۔ میں مولوی صاب کو کال کرتا ہوں۔‘‘ اسے حیرت کی وادیوں میں چھوڑتے وہ باہر چلے گئے تھے جبکہ وہ ساکت وہیں بیٹھی دروازے کو دیکھ رہی تھی۔ کیا کیا رنگ بدل رہی تھی زندگی ۔۔ نئے سے نیا رنگ اور آخر میں اس کے ہاتھ پھر بھی خالی رہ جاتے تھے۔
’’کون مجھ جیسی بد کردار لڑکی سے شادی کرے گا۔‘‘ اس نے پہلی بار اپنے لیے بد کردار کا لفظ سوچا تھا ۔ ساری دنیا یہ کہتی تھی تو وہ بھی مان گئی تھی ۔
اپنے خالی ہاتھوں کو دیکھ کر ایک تلخ مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر آئی تھی، جاب بھی نہیں بچنے والی تھی اور اب اسے اس چیز کی پروا بھی نہیں تھی ، شاید شادی کا فیصلہ درست تھا۔ آہٹ پر اس نے سوچوں سے نکل کر سامنے دیکھا ، نتاشہ کو اندر آتا دیکھ کر وہ چونکی، وہ اب تک یہیں تھی۔
’’تم گئی نہیں ابھی؟‘‘ اس کے پوچھنے پر وہ گھورتے ہوئے اسکے قریب آئی۔
’’تم تو میری شادی سے بھاگ گئی تھی مگر میں تمہاری طرح بالکل بھی بے وفا نہیں۔‘‘ حساب بے باق کرتی وہ اس کے سر پر ہاتھ میں پکڑا سرخ دوپٹہ ڈال رہی تھی۔
’’کیا کر رہی ہو۔‘‘ اس نے بوکھلا کے دوپٹہ پیچھے کرنا چاہا مگر دروازے پر کھڑے اس شخص کو دیکھ کر اس کے ہاتھ ادھر ہی تھم گئے جو یک ٹک اسے دیکھے جارہا تھا ۔ سرخ رنگ اسے آج کم از کم پہلی بار اچھا لگا تھا اتنا اچھا کہ وہ نظر نہیں ہٹا سکا ۔ مزید کسی سنگھار کی گویا کوئی ضرورت ہی نہیں بچی تھی، سفید اور سرخ پھولوں والے ملگجے سے کپڑوں کا بوسیدہ پن اس دوپٹے نے چھپا دیا تھا۔
’’بعد میں ۔۔۔بعد میں۔۔۔ابھی دلہن پردے میں ہے۔‘‘ نتاشہ اس کے سامنے آگئی تھی۔وہ کسی خواب سے نکلا تھا۔پھر مسکاتا ہوا باہر چلا گیا۔
’’یہ سب کیا ہو رہا ہے نتاشہ۔‘‘ وہ بہت سنجیدہ تھی۔
’’شادی۔‘‘ نتاشہ نے چہک کر کہا۔
’’کس کے ساتھ۔‘‘ تمام خدشوں کو دل میں دبائے وہ پوچھ رہی تھی۔
’’عمر شہزاد کی ساتھ۔۔۔ بھئی دیکھو میں نے سوچا اور کوئی جیٹھانی بن کے آئی تو لڑائی کے چانسز بہت ۔۔ تم تو میری دوست ہوناں۔‘‘ وہ اپنی دھن میں بول رہی تھی جبکہ اس کا چہرہ غصے اور بے بسی سے سرخ پڑ گیا تھا۔
’’کوئی خیرات نہیں چاہیے، نہ ہی میں اس کے ساتھ شادی کروں گی۔ مسکین بھائی سے کہو میری کسی سے بھی شادی کردیں مگر اس سے نہیں۔‘‘ اس کے کہنے پر نتاشہ نے حیران ہو کر اسے دیکھا تھا ۔ کوئی بھی لڑکی عمر شہزاد جیسے شریف آدمی کو ریجیکٹ نہیں کرسکتی تھی پھر اس کے ساتھ تو وہ بہت کائنڈ رہا تھا۔
’’میں ساری زندگی کسی کی ہمدردی کے ساتھ نہیں گزار سکتی نتاشہ ۔۔کم از کم میرے وجود کا غرور تو میرے ساتھ رہنے دو۔‘‘ وہ رو پڑی تھی۔
’’تمہارے سارے انداز ے اس کے بارے میں ۔ ‘‘ نتاشہ کی آواز منہ میں ہی دب گئی تھی عمر اور باقی سب کو اندر آتا دیکھ کر۔جبکہ وہ مسکین بھائی کے ساتھ مولوی صاب کو آتا دیکھ کر قدرے حواس باختہ ہوگئی تھی ۔ مسکین بھائی نے رجسٹر اسکے سامنے رکھا اور اس کے سر پر ہاتھ رکھا، اس نے بھرائی آنکھوں سے ان کے ساتھ کھڑےتین دوستوں کو دیکھا تھا جو وہ یقینا گواہ بنا کر لائے تھے ۔ایک بھائی کو رسوا کر چکی تھی وہ، ان کو نہیں کر سکتی تھی۔۔۔
اس نے خاموشی سے سائن کردیئے تھے ۔ اس کے سائن کرتے ہی عمر کی آنکھوں کی چمک یکلخت بڑھ گئی تھی ۔ملکیت کا ایک انوکھا سا احساس رگ و پے میں سرائیت کر رہا تھا ۔ تین ہفتے پہلے تک وہ اس نام سے بھی واقف نہیں تھا اور ان تین ہفتوں میں اس نے اس لڑکی کے کئی روپ دیکھ لیے تھےاوروہ کسی بھی روپ میں اس سے نفرت نہیں کرسکا تھا الٹا گھائل ہی ہوا تھا ۔سرشاری کے ساتھ اس نے دستخط کیے تھے اور دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے ۔ پوری صدق دل سے اس رشتے میں برکت اور ہمیشگی کا اللہ سے سوال کیا اور آخری سانس تک اس رشتے کو نبھانے کا عہد کر کے آمین کہا ۔۔ اسکے برعکس مقابل کے چہرے پر اضطراب تھا، بے بسی تھی، غصہ تھا ، ہارا ہوا انداز تھا ۔۔۔
سب سے مبارکباد وصول کرتا وہ اس کے پاس آیا تھا اور اپنا بھاری ہاتھ اس کے دودھیا ہاتھ پر رکھا ۔۔ اس نے گھبرا کرسر اٹھایا وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا۔
’’مبارک ہو۔‘‘ وہ نرم دلی سے مسکرایا ۔ دل عجیب سے انداز میں اس کی طرف کھچا جارہا تھا ۔ اس نے جوابا بنا کچھ کہے اپنا ہاتھ کھینچ کر احتجاج ریکارڈ کروایا تھا ۔ وہ مسکراہٹ دباتا سائیڈ پر ہوگیا ۔۔
٭…٭…٭
ملتان ایئر پورٹ پر وہ مسافر لاؤنج میں اسکے ساتھ بیٹھی تھی ۔ نتاشہ کی فلائٹ لاہور کے لیے نکل چکی تھی جبکہ وہ اسلام آباد کی فلائٹ کے انتظار میں بیٹھے تھے ۔ سرخ دوپٹہ اب اس کے سر کی بجائے شانوں پر ڈھلکا ہوا تھا ۔وہ بہت کچھ کہنا چاہتی تھی اس سے مگر وہ ’’گھر جا کر بات کریں گے۔‘‘ کہہ کر اسے خاموش کروا چکا تھا۔دوگھنٹوں کی فلائٹ اور ایک گھنٹے کے روڈ ٹریول کے بعد وہ ایبٹ آباد پہنچے تھے ۔۔ وہ حیرت سے اس فلیٹ کو دیکھ رہی تھی جہاں وہ اسے لے کر آیا تھا۔یہ ڈی سی ہاؤس تو نہیں تھا۔
اسکا ہاتھ پکڑ کر وہ اندر لے آیا۔ بڑا لگژری فلیٹ تھا۔ ویل فرنشڈ اور بہت نفیس۔
’’جب تک آپ کی انکوائری میرے پاس ہے، اس شادی کو ایکسپوز نہیں کرسکتے ہم ۔۔ ورنہ مجھ سے لے کر وہ انکوائری کسی اور کو دے دیں گے۔‘‘ اسے صوفے پر بٹھا کر وہ ساتھ ہی بیٹھ گیا تھا۔
’’میرے بارے میں میری فیملی میں سے صرف نتاشہ اور اسد جانتے ہیں ۔۔۔ آپ پر کوئی زور زبردستی نہیں ہے ، اپنے لیے کوئی فیصلہ لینے کے لیے ۔۔۔ جتنا وقت آپ کو چاہیے اس رشتے کو ایکسیپٹ کرنے میں، آپ لے سکتی ہیں ۔ اس کے بعد ہی میں اسے منظر عام پر لے کر آؤں گا ۔۔۔مگر ان دی اینڈ آپکو ایکسیپٹ کرنا ہی ہے ، فرار کا کوئی آپشن نہیں ہے۔۔۔‘‘ آخری بات اس نے کچھ سختی سے کہی تھی۔
’’فیصلہ میں کروں گی، آپ نہیں۔‘‘ اسے بھی غصہ آگیا تھا۔وہ مسکراتاہوا اس کے قریب ہوا تھا۔
’’فیصلے صرف مرد ہی کرتے اچھے لگتے ہیں ۔ ‘‘ گھمبیر لہجے میں اس کے کانوں میں سرگوشی کرتے ہوئے وہ تیزی سے اٹھ کھڑا ہوا تھا ۔ جبکہ وہ ہونٹ چباتی وہیں بیٹھی تھی۔
’’آپ کا گھر ہے، جیسے مرضی رہیں، گاڑی ڈرائیور باہر موجود ہے، ٹائم پر آفس آئیں اور جائیں ۔۔ ضد کم سے کم کریں اور غریب کو اجازت دیں ، مزید آپکے جلوے سہنے کی تاب نہیں بندہ جان سے بھی جاسکتا تھا ہے۔‘‘ اس کے لہجے کی شوخی اور آنکھوں کی چمک پر وہ حیران سی اسے دیکھ رہی تھی ۔بڑا ہی الگ سا لگ رہا تھا وہ ۔آفس والے سنجیدہ خاموش طبع انسان سے بالکل مختلف۔
’’مجھے کچھ باتیں کرنی ہیں آپ سے۔‘‘ وہ سنجیدہ تھی۔ اس کی مسکراہٹ مزید گہری ہوگئی تھی۔
’’آئی نو، مگر ابھی نہیں ۔ ‘‘ نرمی سے اسکے گال تھپکتا وہ منع کرچکا تھا۔
’’آفس میں ملیں گے، کھانا آرڈر کیا ہوا ہے، آجائے تو ریسیو کرلیجیے گا ۔ مجھے ابھی فوری آفس پہنچنا ہے۔‘‘ جزبات پر بند باندھتے ہوئے وہ کہتا ہوا وہاں سے نکل آیا تھا جبکہ وہ صوفے پر بیٹھی تھی سمجھی نا سمجھی کی کیفیت میں ۔۔۔ یا تو وہ شخص واقعی بہت ہمدرد تھا کی اس کے بارے میں کافی کچھ جان کر بھی اسے اپنی زندگی میں شامل کر چکا تھا یا پھر شاید نتاشہ کی وجہ سے ۔۔ یا شاید بھائی نے ریکویسٹ کی ہو ۔۔ ۔ترس کھا رہا ہے۔۔ ۔ وہ الجھتی جا رہی تھی ۔۔۔ ایک دن میں ہی اس کی پہچان بدل کر رہ گئی تھی۔
٭…٭…٭