سلسلہ وار ناول

کسی اجنبی سے دیار میں: قسط نمبر 1

’’جس حال میں تم ہو مجھے لگتا ہے سفر سے بچنا چاہیے۔‘‘
’’ففتھ منتھ سفر کے لیے سیف ہے تم میری فیلنگ سمجھو نوید! میں ابھی پاکستان جانا اس لیے مانگتی تمہاری فیملی پر مشکل ٹائم ہے یہ ٹریول کائنڈ جیسچر ہوئیں گا۔ میرا لو ان کو پتا چلیں گا۔ تمہارا امی سوچے گادیسی لڑکی نہیں تو کیا ہوا کئیر تو دیسی ڈاٹر ان لاء (بہو) کی طرح کررہی ہے۔‘‘
’’میری جان! تمہیں دیکھ کر امی کو لگنے والا شاک انہیں اور بیمار کرسکتا ہے۔‘‘ اس نے اس کے چپٹے نقوش والے چہرے کو اپنے دونوں ہاتھوں کے پیالوں میں لیا۔ ’’ہم پاکستانی تم لوگوں کی طرح نہیں ہیں۔ ویسے بھی ڈائریکٹ فلائٹ نہیں ہے میں ہمارے بے بی کے لیے رسک نہیں لے سکتا۔‘‘
’’یاد کرو، یہ وہی بے بی ہے جسے تم ابورٹ کروانا مانگتے تھے۔ اب اس کی وجہ سے مجھے سالیکوٹ نہیں لے کر جا رہے۔‘‘
’’سالیکوٹ نہیں میری ماں سیالکوٹ، پنجابی میں سالی بیوی کی بہن کوکہتے ہیں اور مجھے بار بار میری پچھلی ابارشن کرا لو کہنے والی بے وقوفی یاد نہ کرایا کرو۔ تب مجھے لگتا تھا بے بی اضافی ذمہ داری ہو گا، ابھی ہمیں سیٹل ہونا چاہیے۔‘‘
’’او کے اوکے سوری! میں اگین ایسا نہیں کرے گی۔‘‘
’’میں چائے بنا کر لاتا ہوں پھر ڈنر کے لیے باہر جائیں گے۔‘‘
وہ کچن کی طرف بڑھا تو پیچھے اس نے اپنے ملک کا چینل لگا لیا۔ اس کے فیورٹ سیریل کی اگلی قسط چل رہی تھی۔ چائے کے لیے ابلتے پانی میں پتی ڈالتے اسے بلند آواز میں ٹی وی سے آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔
’’ان چوں چاں چی والوں کی تو…‘‘ گندی گالی اس نے زیر لب دی۔ اپنی مٹھیاں بھینچ کر خود کو ہدایت دی۔’’کنٹرول یار کنٹرول! بس آدھا گھنٹہ مزید برداشت کر لو۔‘‘
مگ پر چھلنی رکھ کر چائے چھانی، ٹی وی لاؤنج کی طرف چپکے سے دیکھ کر تسلی کی کہ وہ کچن کی طرف تو نہیں آ رہی پھر اپنے ٹراؤزرکی جیب سے گولیوں کا پتا نکالا اور دو گولیاں چائے میں ڈال دیں۔ دوسرے مگ میں اپنے لیے چائے چھان کر ڈالی اور جانے کیا سوچ کر اپنے سستے سے ٹراؤزر کی جیب ٹٹول کر پھر سے انہی گولیوں کا پتا برآمدکیا، ایک ٹیبلٹ مزید اس کے مگ میں ڈال کر چینی بھی مزید ڈالی، زورزور سے چمچ ہلا کر گولیاں اور چینی مکس کی ٹرے میں کپ رکھے اورباہر نکل آیا۔ سینٹرل ٹیبل پر ٹرے رکھ، اس کا کپ اس کے ہاتھ میں دے کراپنی چائے سے چسکی لی۔
’’کیسا گندی ٹیسٹ ہے چائے کا؟‘‘ وہ منہ بگاڑ کر انگریزی، ہندی اور عربی زبان کے مکسچر میں بولی۔
’’نہیں، ٹیسٹ تو بہت اچھا ہے تمہاری طبیعت کی وجہ سے ٹیسٹ ایسا لگ رہا ہوگا۔ پی لو شاباش۔‘‘
آ دھے گھنٹے سے پہلے سریع الاثر دوا کے زیر اثر وہ اسی صوفے پرلڑھک چکی تھی۔ اس نے ہلا جلا کر تصدیق کی، حسب توقع وہ گہری نیند میں جا چکی تھی۔ اس کے ایکشن میں آنے کا وقت تھا چنانچہ آ غازہی موبائل اٹھانے سے کیا ۔سارا ڈیٹا مستقل اڑانے کی آپشن پر لگا کرجیب میں ڈالا اور خوبصورت دھاتی الماری کے پٹ وا کر لیے۔ ایک ایک خانہ چیک کیا جو جو شے قیمتی لگی بیگ میں رکھ لی اور پھر سترہ سوعمانی ریال اس کے ہینڈ بیگ سے اپنے ٹراؤزر کی جیب میں منتقل کیے۔ اسے خبر تھی اس مہینے کی تنخواہ ابھی بینک سے نکالی نہیں تھی توبینک کارڈ بھی چاہیے تھا، کوڈ اسے معلوم ہی تھا۔اب وہ لاؤنج میں کھڑاصوفے پر لیٹی بوٹے قد کی قدرے نازک بدن رکھنے والی لڑکی کا ابھراہوا پیٹ دیکھ رہا تھا۔
’’گالی…میرا بچہ پیدا کرے گی۔ دل تو کرتا ہے قتل کر دوں پر نہیں میرے خواب بہت اونچے ہیں سوہار شہر بہت چھوٹا ہے میں پاگل نہیں ہوں جو قتل کرنے کا رسک لوں۔ ایک سال …پورا ایک سال تمہارے ہاتھوں ذلیل ہوا ہوںاتنا تو بنتا ہے۔‘‘ اس نے اس کی جینز کی جیب میں ہاتھ ڈال کر بینک کارڈبھی نکال لیا۔
’’آخ تھو…!‘‘ اس پر تھوک کر وہ اپنا سال بھر کا غصہ نکالتے ہوئے ایک بیڈ روم کے اس اپارٹمنٹ سے اپنے ہونے کا ہر ثبوت مٹا کر نئی منزل کی طرف روانہ ہوگیا۔
٭…٭…٭

شہر کے پسماندہ ترین علاقے کا پسماندہ محلہ دن کے اس پہر چھوٹے بچوں، دروازوں کے سامنے کھڑی عورتوں اور پھیری والوں کے شور سے گونج رہا تھا۔ چار چھ عورتیں سبزی والے کے ٹھیلے کے گرد کھڑی اسے روزانہ کی بنیاد پر سبزی مہنگی کرنے پر سنا رہی تھیں تو باقی دلچسپی نہ لینے والی دال چڑھانے کا بتا رہی تھیں۔ ایسے میں دور سے گلی میں داخل ہوتی جگت اماں بشیراں کے لہراتے ٹوپی برقعے نے ہر اس عورت میں بجلی بھر دی جس جس نے اپنے بچوں کے رشتے کرانے کاٹاسک اماں کو دیا ہوا تھا۔ زبیدہ نے بینگنوں کا مزید معائنہ ترک کیا اورسبزی والی ٹوکری اٹھا کر دو کمروں کے گھر میں گھس گئی۔ اسے معلوم تھا پہلے اماں اسی کے گھر آئے گی کیونکہ باقی گھروں سے پہلے اس کا گھر آ تا تھا۔
’’بہو! یہ بینگن لے لو۔ آج بھرتہ بنا لو… دو روٹیوں کا آ ٹا زیادہ گوندھنا، اماںروٹی کھائے بنا تو جائے گی نہیں۔‘‘
’’اے زبیدہ! تیری کُڑی کی تو قسمت جاگ گئی، صدقہ اتار اپنی لڑکی کا اورمیری جھولی میں میٹھا ڈال۔‘‘ ہمیشہ کی طرح اونچا بولتی اماں گھر میں داخل ہو چکی تھی۔
’’تیرے منہ میں گھی شکر اماں! ادھر کمرے میں آ جا۔‘‘
’’میری تو مارے خوشی کے سانس کے ساتھ سانس نہیں مل رہی تیری بھی سانس نہیں ملے گی۔‘‘
’’امی! بینگن پھر سے بنا دیکھیں اٹھا لائی ہو کیڑوں کے سوراخ اوپر ہی نظر آ رہے ہیں۔ اب کیا کیڑوں سمیت ان کا بھرتہ بنا لوں جہاں بینگن جلیں گے وہیں کیڑے بھی بیچ میں ہی جل کر بھرتہ بن جائیں گے۔‘‘ بہو نے آ کراماں بشیراں کی کمنٹری کو بریک لگا دی۔
’’سیما! مجھے کون سا ٹھیک سے دکھتا ہے۔ اب زیادہ کیڑا لگا ہے تو کاٹ کر آلو ڈال کر پکا لو۔ کیڑے والا ٹکڑا پھینک دینا۔ ‘‘زبیدہ کو اماں سے تفصیل سننے کی اتنی جلدی تھی کہ بہو کی تلخ و ترش کا جواب دینا بھی وقت کا ضیاع لگ رہا تھا۔
’’اماں بشیراں کی تو ہر بار سانس سے سانس نہیں ملتی، الٹے سیدھے رشتے بتا کر دو چار سو لے کر رفو چکر ہو جاتی ہے۔ ادھر ساسو ماں کودیکھو ہر مہینے کیسے سنجیدہ ہو کر اس کی باتوں اور تفصیل پر یقین کرلیتی ہے۔‘‘ سیما نے کڑھ کر سوچا اور ٹوکری اٹھا کر ورانڈے کی سائیڈمیں بنے چھوٹے سے باورچی خانے میں چلی گئی۔
’’دل تو کر رہا ہے بینگن آ گ پر ہی رکھ دوں اور کیڑوں کے گوشت والابھرتہ ہی بنا ڈالوں۔ ہر شے میں آ لو کھلا کھلا کر اس عورت نے مجھے بھی اپنے جیسا بڑا آلو بنا دینا ہے، اللہ معافی دے خود تو بنا بنایا تربوزہے تربوز۔‘‘سیما زبان کے ساتھ ساتھ ذہن و دل کی بھی بے حد کڑوی تھی، دفعتاً اسے ساس اور اماں کی گفتگو پر کان دھرنا پڑے۔
’’لاہور بحریہ میں میری بھانجی اور اس کی سہیلی کوٹھیوں میں کام کرتی ہیں۔ ایک باجی نے اس کی سہیلی کو کھوبصورت پڑھی لکھی لڑکی کارشتہ ہو تو بتانے کا کہا ہے۔ لڑکی بھلے غریب گھر کی ہو ،پر ہو بہت سوہنی سنکھی اور پڑھی لکھی …امیروں والے سارے رنگ ڈھنگ جانتی ہو۔ اس نے میری بھانجی سے کہا میری بھانجی نے مجھ سے کہا تو میں نے ڈرتے ڈرتے اس باجی سے مبیل (موبائل) پربات کی۔ باجی نے مجھے لاہور بلایا تھا۔ کہتی ایسی باتیں آ منے سامنے بیٹھ کر کرنے کی ہوتی ہیں۔ آ نے جانے کا کرا یہ بھی مجھے اپنے پلے سے دیا، ہائے زبیدہ !کیاشاندار کوٹھی ہے، کیسا شاندار سمان (سامان) ہے۔ ہر ہر شے لاکھوں کی ہو گی، ہزار روپے سے کم کپ نہ ہوگا جس میں نوکر نے مجھے چائے پلائی۔ پیزا، برگر اور چکن پکوڑے تو صرف چائے میں ہی آ گے رکھ دیے تھے۔‘‘ اماں افتاد طبع کی بدولت اصل گفتگو بھول کر کسی اور طرف نکل چکی تھیں۔
’’اماں پھر باجی نے کیا کہا؟‘‘ زبیدہ ڈرتے ڈرتے اماں کو اصل گفتگو کی طرف لانے کی کوشش کرنے لگی۔ اماں نازک مزاج بھی کافی تھیں اورزبیدہ کو کم پیسوں میں رشتہ ڈھونڈ کر دینے کی واحد امید بھی وہی تھیں، اس لیے وہ بہت سنبھل کر اماں سے ڈیل کیا کرتیں مبادا غصے ہوجائیں اور ان سے یہ امید بھی چھن جائے۔
’’نرگس نام ہے بٹیا کا…‘‘ اماں نے ناک سے مکھی اڑائی گویا زبیدہ پر واضح کیا کہ بحریہ والی انہیں ماں کی جگہ دے چکی ہے۔
’’نرگس کا اکلوتا بھائی ہے دبئی میں کارووار(کاروبار) کرتا ہے۔ بتا رہی تھی ماں باپ کے بعد وہی خونی رشتہ ہے اس لیے اسے اپنی اولاد کی طرح عزیز ہے۔ جتنی جلدی وہ اس کی شادی کرنا چاہتی ہے اتنا ہی وہ ٹیم (ٹائم) لے رہا تھا۔ بتا رہی تھی اس بات سے تنگ ہو کر اس نے بھائی کو اپنی پسند کی شادی کرنے کی بھی اجازت دے کر دیکھ لی پربات نہ بنی۔ آخر اب آ کر شادی کے لیے مانا ہے۔ نرگس اور اس کے بھائی کی ایک ہی شرط ہے لڑکی رج کے سوہنی اور تلیم یافتہ (تعلیم یافتہ) ہو۔ میں نے تیری بدر جہاں کی تصویر دکھائی پھر اسے بتایا تصویر اتنی اچھی نہیں جتنی کو لڑکی کھوبصورت ہے طور طریقے تو سارے میڈموںوالے ہیں کوئی پشان (پہچان) نہیں سکتا کھولی سے نکلی ہے یا کوٹھی سے…مانو نرگس تو لوٹ پوٹ ہو گئی۔ کہتی ہے جلد از جلد لڑکی سے ملاقات کراؤ۔‘‘
’’جب وہ ہمارے علاقے اور اس کوچے کو دیکھے گی تو لڑکی دیکھنے سے پہلے ہی ناک پر کپڑا رکھ کر واپس چلی جائے گی۔‘‘ اشتیاق سے تفصیلات سنتی زبیدہ نے صورت حال کی سنگینی کومحسوس کرکے منہ لٹکا لیا۔
’’اے لو، کچی گولیاں نہیں کھیلتی، میں نے سارا کچھ بتا دیا ہے۔ کوئی ایک بات بھی نہیں چھپائی بلکہ میں نے چار باتیں لگا کر ہی بتائی ہیںتاکہ بھاگنا ہو تو ابھی بھاگ جائے پر وہ پھر بھی بدر جہاں کو دیکھناچاہتی ہے۔ کہہ رہی تھی ایک بار لڑکی دیکھ لوں اگر سچی ایسی ہوئی جیسی بتا رہی ہو تو ہم نے گلی محلے علاقے کو کیا کرنا ہے لڑکی لینی ہے بس!‘‘
’’اللہ کرے ایسا ہی ہو، خود ساری زندگی تنگی دیکھی ہے، دل کرتا ہے خود سے اچھے کھاتے پیتے گھرانے میں بیٹیاں بیاہوں…کم سے کم من پسند کھانا اور پہننا تو نصیب ہو گا۔‘‘
’’اللہ خیر کرے گا، روٹی بھی آ لو بینگن کے ساتھ دے رہی ہو۔ اس سے پہلے کوئی بیکری کی شے ہی کھلا دو۔‘‘
زبیدہ نے لمبا سانس کھینچ کر دوپٹے کے پلو کے ساتھ بندھے روپے کھولے، چھوٹا سا صحن پار کرکے دروازہ کھولا تو آ گے چاروں بیٹیاں کھڑی تھیں۔
’’آج اتنی جلدی کیسے آ گئی ہو؟‘‘
’’اماں بتایا تو تھا مہینے کی آ خری جمعرات کو بزم ادب کی وجہ سے آدھی چھٹی ہو جاتی ہے۔‘‘
’’اچھا، اچھا! اب آ ہی گئی ہو تو بھابھی کے ساتھ مل کر دو روٹیاں ڈال کراماں کو فٹ فٹا روٹی دو۔ کھا کر جائے گی تو سکون آ ئے گا ورنہ ہر دس منٹ بعد کوئی شے کھانے کو مانگتی رہے گی۔‘‘
’’آج پھر اماں آئی ہوئی ہے۔‘‘ بدر نے ماتھے پر ہاتھ مارا۔
’’اس کے سامنے یہ کرتوت نہ کرنا ،رشتہ نہیں کروائے گی، اور ہاں باورچی خانے جانے سے پہلے سلام کر لو ساری۔‘‘ زبیدہ نے بیٹیوں کو گھرکا۔
’’اللہ نے ساری دنیا کی رحمتیں میرے گھر ہی دینی تھیں۔‘‘ بڑبڑا کرسموسے لینے باہر نکل گئی۔ اندر اماں بدر کے صدقے واری جا رہی تھی۔
’’تصویر تیرا حسن کیا دکھائے گی۔ تُو تو جاپانی گڈی ہے گڈی، ایک وارنرگس تجھے دیکھ لے سب کُش(کچھ) نہ بھول جائے تو میرا نام بدل دینا۔‘‘
اماں کی تعریفوں سے سرخ پڑتی بدر کو کچن میں جا کر سکون آ یا تھا۔
٭…٭…٭

1 2 3اگلا صفحہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

You cannot copy content of this page