یہی داغ تھے : پہلا حصہ
سردیوں کی جاتی دھوپ اور اترتی شام…. سردیوں کی دھوپ بھی بس انسان کی زندگی میں اچھےلمحات کی طرح بہت تھوڑے وقت کے لیے آتی ہے ۔
ابھی تین بجے تھے اور دھوپ کب کی دیواروں کے کناروں سے پرواز کر چکی تھی، شیشے کے اس پار وہ بڑی خاموشی سے باہر ہونے والی کسی ہلچل کے انتظار میں تھی کل صبح آٹھ بجے سےشام پانچ بجے تک نو گھنٹے وہ اسی کرسی پر بیٹھ کر گھر چلی گئی تھی اور آج پھر سے سات گھنٹے ہو چکے تھے اس ایریا میں بیٹھے ہوئے۔وہاں موجود لوگوں کی تعداد میں کبھی اضافہ ہو جاتا تھا اور کبھی کمی اور کبھی وہ بالکل اکیلی رہ جاتی تھی ایسے میں پی اے اور گارڈ بس چپ چاپ اسے دیکھتے رہتے ،کبھی کبھی کان میں سرگوشیاں بھی کر لیتے۔
لوگ بھی آتے جاتے اس کو دیکھتے یہ عمل دوہراتے کہ اس کا کیا کام یہاں ،کوئی زیادہ پر تجسس ادھر ادھر سے پوچھ بھی لیتے اور پھر پوچھنے کے بعد تضحیک آمیز نظروں سے اسے دیکھتے۔ وکلاء برادری،ٹیچرز ایسوسی ایشن ، ڈاکٹرز ایسوسی ایشن ، یہاں جو بھی آتا تھا جھنڈ میں آتا تھا۔ کبھی ڈی سی صاحب سے ملنے کے لیے، کبھی احتجاج کے لیے ، کبھی عام آدمی کے مسائل کے حل کے لیے اور وہ یہاں اپنی انکوائری کے لیے آئی تھی۔ ایک معطل شدہ آفیسر…. جس کو کل سے انتظار کروایا جا رہا تھا۔
یہ پاکستانی سول مینجمنٹ میں سب سے بڑی سزا مانی جاتی تھی کے اگلے کی سیلف ریسپیکٹ کو اس طرح دفتر میں بلا کر انتظار کروا کر جتنا ڈاؤن کیا جا سکتا تھا کیا جائے۔
افسر شاہی کے لیے یہی مرنے کے برابر ہوتا تھا کہ وہ صرف جی حضوری کے عادی لوگ جب اس طرح ان کو خود کسی کی جی حضوری کرنی پڑے اور ایک لمبا انتظار کرنا پڑے تو انہیں اپنی ورتھ صفر ہوتی محسوس ہوتی۔ وہ بھی اسی تجربے سے گزر رہی تھی ۔ اندر طوفان تھے جو آئے ہوئے تھے لیکن باہر سے وہ بڑی پرسکون تھی ۔ لوگوں کی تضحیک آمیز نظریں یہ، انتظار کوئی چیز بھی اسے بظاہر ایفیکٹ نہیں کر رہی تھی۔
باہر گاڑی میں موجود ہلچل کو دیکھ کر ڈی سی کی آمد کا پتہ لگ رہا تھا، تھوڑی دیر بعد وہ بلیک پراڈو سے اترتے اس شخص کو دیکھ رہی تھی جس نے کل سے اب تک اسے آفس میں بلانے کی زحمت نہیں کی تھی ۔ اس کے عورت ہونے کا لحاظ بھی نہیں کیا تھا ۔ پورے کروفر اور شان کے ساتھ وہ اپنے آفس کی طرف بڑھ رہا تھا ۔ اس کی آنکھوں میں ایک لمحے کے لیے کرچیاں سی چبھی، بڑے خواب ٹوٹے تھے لیکن وہ پھر سے خود کو سنبھال گئی۔
’’تم اتنی کمزور نہیں ہو فاطمہ !‘‘ ہونٹ بھینچے اس نے خود کو تسلی دی۔
’’ میڈم ! آپ کو صاحب بلا رہے ہیں ۔ ‘‘ پی اے کی آواز پر اس نے جھٹکے سے جھکا ہوا سر اٹھایا تھا اور قدرے بے یقینی سے دیکھا تھا گویا اسے اب بھی امید نہیں تھی کہ وہ بلائے گا۔ وہ تیزی سے فائل سنبھالتی پی اے کے پیچھے لپکی، اسے دل کی دھڑکن بے اختیار ضرورت سے زیادہ تیز ہوتی محسوس ہو رہی تھی ۔ وہ اس آدمی کو نہیں جانتی تھی لیکن کل سے اس کے ساتھ جو سلوک روا رکھا گیا تھا اس کے بعد اسے کسی بھی بھلائی کی امید نہیں تھی۔
’’میں آئی کم ان سر؟ ‘‘ اپنی آواز کو ہموار کرکے اس نے آہستہ سے پوچھا۔
’’یس شیور….‘‘ اس کے ظاہری وجود کی طرح اس کی آواز میں بھی ایک الگ سا رعب تھا۔
وہ خاموشی سے اندر داخل ہو گئی، مقابل نے ایک نظر تک نہ اٹھائی تھی وہ بڑے سکون سے اپنے لیپ ٹاپ پر مصروف تھا۔ جب کہ وہ کمرے کے بیچوں بیچ کھڑی تھی ، اسے پہلی بار اپنا اعتماد کمرے کی فضا میں گھلتامحسوس ہو رہا تھا۔ ہاتھوں کی کپکپاہٹ چھپانے کے لئے اس نے فائلز پر اپنی گرفت بہت مضبوط کر لی تھی ، تقریبا پندرہ منٹ بعد اس نے سر اٹھا کے اسےدیکھا تھا۔
’’پلیز سٹ ڈاؤن….‘‘ اس کے چیئر کی طرف اشارہ کرنے پر وہ خاموشی سے اس کے سامنے والی کرسی پر ٹک گئی۔
مقابل کی گہری نظریں اسے اپنے وجود کے اندر اترتی محسوس ہو رہی تھیں اور وہ جو اپنا اعتماد بحال کرنا چاہ رہی تھی پھر سے اس میں ناکام ہو رہی تھی۔
’’مس فاطمہ آفندی!‘‘ اس کے بولنے پر اس نے سر اٹھایا اور وہ اس کی بجائے اپنے ہاتھ میں پکڑی فائل کو دیکھ رہا تھا جو یقینا اس کے کیس کی تھی ، وہ فائل کھول رہا تھا۔۔
’’مس یوز آف آفس پاورز …. پانچ کروڑ روپے کے لگ بھگ بے ضابطگیاں، کرپشن ،سیلری اکاؤنٹ میں سیلری سے 50 لاکھ روپے سے زائدکی ٹرانزیکشنز….‘‘ وہ فرد جرم پڑھ رہا تھا اور ساتھ میں بغور اس کے چہرے کے تاثرات بھی دیکھ رہا تھا جو اپنے ہاتھ میں موجود فائلز پر نظریں گاڑے پیلے پڑتے رنگ کے ساتھ یہ سب سن رہی تھی۔
’’عملے سے قرض کے نام پر لاکھوں روپے لینے اور پھر واپس نہ کرنے کا الزام ثبوتوں کے ساتھ…. من پسند ماتحت عملے کو بے جا نوازنا، یہ آپ پر لگائے گئے تمام ایلیگیشنز ہیں فاطمہ۔‘‘ وہ بہت سنجیدہ لہجے میں بول رہا تھا۔
’’ کتنا عرصہ ہوگیا آپ کو سول سروس جوائن کیے ہوئے؟‘‘
’’دو سال۔‘‘ وہ آہستہ سے بولی
’’صرف دو سالوں میں یہ آپ کا سروس ریکارڈ ہے ؟‘‘ وہ حیران ہوا تھا۔
’’ان میں سے کوئی ایک بھی ایلیگیشن لوگ اپنی پوری سروس میں خود پر نہیں لگنے دیتے ۔ ‘‘وہ جانتی تھی وہ ٹھیک کہہ رہا ہے۔
’’ اور اسسٹنٹ کمشنر کوئی ایسی پوسٹ بھی نہیں ہوتی کہ اس پر آکر آپ دین دنیا سب بھول جائیں۔ ‘‘ اب کے بار اس کا لہجہ قدرے تلخ تھا۔ اس نےبے اختیار اپنا نچلا ہونٹ دانتوں تلے بہت زور سے دبایا تھا۔
’’آپ کا میڈیا ٹرائل ہوتا تو اب تک تمام آفیسرز صرف آپ کی وجہ سے بدنام ہو چکے ہوتے کیونکہ لوگ سب کو ایسا ہی سمجھتے۔‘‘ وہ ایک لمحے کے لے رکا۔
’’ساری سروس ایک ہی تحصیل میں ہے آپ کی؟‘‘
’’نو سر، ایک سال چار ماہ ساہیوال میں، اور شروع کی چھ ماہ گلگت میں۔‘‘ اسے اپنی آواز کانپتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔
’’کوالیفیکیشن۔‘‘ نے مزید استفسار کیا
’’ایم فل کیمسٹری ۔‘‘ اس نے بھی یک لفظی جواب دیا تھا۔مقابل کے چہرے پر قدرے افسوس کے تاثرات ابھر آئے تھے۔
’’یہ سب آپ نے کیوں کیا فاطمہ؟‘‘ وہ اب قدرے افسوس سے پوچھ رہا تھا۔
’’ اچھا کیریئر کا سٹارٹ ملا آپ کو ،آپ بہت آگے جا سکتی تھی، پھر یہ سب….؟ ‘‘ وہ اس کی چہرے پر پھیلی شرمندگی دیکھنا چاہا تھا لیکن ناکام رہا تھا ۔ وہ بس پیلے پڑتے رنگ کے ساتھ اپنی فائلز پر نظریں جمائے ساکت بیٹھی تھی ۔ ایک لمحے کو اسے گمان ہوا کہ شاید کوئی مجسمہ ہے جو اسکے سامنے بیٹھا ہے۔
’’مس آفندی….‘‘ اس نے ہلکے سے میز بجا کر اس کو متوجہ کیا۔
’’آپ کے پاس ہے کچھ اپنے ڈیفنس میں؟‘‘ اس کے کہنے پر اس نے ذرا سا سر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا صرف ایک پل کے لئے دونوں کی نظریں ملی تھی ۔ دوسرے ہی لمحے وہ آنکھیں پھیر کر فائل میں سے کچھ کاغذات نکالنے لگی ۔ جب کہ وہ اس ایک پل کے زیرِ اثر وہیں رہ گیا تھا، اس کی آنکھوں کے سرخ پڑتے کنارے بتا رہے تھے کہ وہ ضبط کی کس انتہا پر تھی۔
’’اگر وہ بے گناہ ہوئی؟‘‘ اس سوچ کے آتے ہی وہ الجھا سا ان پلندوں کو دیکھنے لگا جو چیخ چیخ کر بتا رہے تھے کہ سامنے بیٹھی لڑکی کس لیول کی کرپٹ ہے ۔ اس کی جگہ کوئی اور ہوتا تو ان سب ثبوتوں کو دیکھ کر ہی فیصلہ لکھ دیتا، اس سے کچھ پو چھنے کی زحمت ہی نہ کرتا ۔ اس نے تو پھر بھی اس کو ڈیفنس کا موقع دیا تھا ۔ ورنہ کیس تو بہت سیدھا تھا ۔
’’سوری ، میں آپ کو جج کرنا نہیں چاہتا تھا لیکن مجھے دل سے آپ کے لیے افسوس ہے ک یہ آپ کو نہیں کرنا چاہیئے تھا۔‘‘ اپنی ازلی نرم دلی کے باعث اس نے بے اختیار معذرت کی۔
’’از ناٹ ریکایرڈ(اس کی ضرورت نہیں)‘‘ جوابا اس کے لٹھ مار بے تاثر لہجے پر اس نے بمشکل اپنے اندر اٹھتے ابال کو دبایا تھا اور خود پر لعنت بھی بھجی تھی۔
’’یہ میرا ڈیفنس ہے۔ ‘‘ وہ کاغذات اس کے سامنے رکھ رہی تھی۔
’’سب کو آپ یہ دو پیجز لکھ کر غلط پروف کر سکتی ہیں؟” وہ سائیڈ پر رکھے ریکارڈ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا تھاجو ڈہپارٹمنٹ کی طرف سے اس کو بھیجا گیا تھا۔
’’یہ فیصلہ آپ کو کرنا ہے میرا جواب پڑھنے کے بعد، مجھے نہیں ۔‘‘ اب کے بار اس کا لہجہ بھی قدرے اونچا تھا۔
’’ اوکے، اگر ایسا ہے تو آپ تشریف لے جاسکتی ہیں یہاں سے …. آفس ٹائمنگز کو مکمل فالو کریں ۔ میں اس دوران دیکھ لوں گا کہ مجھے کیا کرنا ہے کیا نہیں۔‘‘ وہ بدتمیزی سے کہتے ہوئے اس کا جواب سائیڈ ٹیبل پر رکھتے ہوئے بیل بجا رہا تھا۔
’’ڈی آر سی میٹنگ لوں گا میں ابھی، شروع کروائیں۔‘‘ پی اے کو اندر آتے ہی اس نے احکامات جاری کیئے اور اس کو مکمل اگنور کرتے ہوئے دوبارہ اپنے لیپ ٹاپ پر مصروف ہو گیا تھا ۔ اس کے اس طرح کے بی ہیو پر ایک لمحے کی لیے اس کا جی چاہا کہ سوری کرلے لیکن اس کے ماتھے کے بل دیکھ کر وہ اپنے خیال پر فاتحہ پڑھتی بیرونی دروازے کی طرف بڑھی ۔ اسے نو گھنٹے ویٹنگ ایریا میں بیٹھنا منظور تھا ۔ بھلے ہی دنیا کے سامنے اس کی عزت نفس کا جنازہ نکل گیا تھا لیکن اس کی خود کی نظروں میں نہیں نکلا تھا۔جاتے ہوئے وہ دروازہ ایک زور دار دھماکے سے بند کر کے گئ تھی۔ایسے ہے تو پھر ایسے ہی سہی۔
جبکہ دروازے کی آواز پر اس کے ماتھے کے بلوں میں مزید اضافہ ہو گیا تھا۔بڑبڑاتے ہوئے اس نے دروازے کی طرف دیکھا تھا۔سارے موڈ کا ستیاناس ہو گیا تھا۔
٭…٭…٭
بڑھتی ہوئی کہر اور کھڑکی کے اس پار چھم چھم گرتی بارش۔۔وہ چپ چاپ اس مدھر آواز کو سن رہی تھی جو بارش کے زمین ساتھ ملتے ہی پیدا ہوتی تھی۔بڑے دھیمے سروں کا میوزک تھا۔ اس کے اپنے وجود کے اندر بھی ایسے ہی کن من ہو رہی تھی ۔ رات کے اس سرد پہر میں جب ہر طرف ایک ہو کا عالم تھا ، شاید پورے ہوسٹل میں وہ واحد تھی جو کھڑکی کے شیشے پر بارش سے بننے والی آڑھی ترچھی لکیروں کو دیکھ رہی تھی ۔ ایسی ہی لکیریں اس کے دونوں گالوں پر بھی بن رہی تھیں ۔ فرق صرف اتنا تھا کہ باہر ہونے والی رم جھم کا اپنا ایک شور تھا اور اس کی آنکھوں سے ہونے والی بارش بالکل بے آواز تھی ۔ بہت عرصے سے اس نے اپنے اندر کی ہر آواز کا گلا گھونٹ رکھا تھا جو تنہائی ملتے ہی پھر سے زندہ ہونے لگتا تھا ۔
اپنی چھبیس سالہ زندگی میں وہ ہر انتہا دیکھ چکی تھی ۔ بلندی پر اڑنے پھر گرنے ، پھر سے اٹھنے اور اب پھر سے ذلت کی اتھاہ گہرائیوں میں تھی ۔ وہ ہارنے والوں میں سے نہیں تھی لیکن اب کی بار اس کو لگ رہا تھا کہ وہ شاید اٹھ نہ پائے۔
’’ یہ تھی تم اور تمہاری کہانی فاطمہ۔‘‘ اس نے دونوں گال انگلیوں کے پوروں سے رگڑے۔
اس کی ولن اور ہیرو وہ خود ہی تھی۔
مستقبل اس کے لیے ایک سوالیہ نشان بن چکا تھا ۔ یہ سب وہ گھر میں کیسے بتائے گی، امی کا علاج، بھائی کی رہائی کا کیس، بھابھی کی امیدیں اور وہ امیج جو اس نے اپنا آٹھ سال لگا کے دوبارہ خاندان میں کھڑا کیا تھا وہ بڑی بری طرح زمین بوس ہوا تھا ۔ ایک بدکردار بدنامی کا داغ لگانے والی فاطمہ سے ایک کامیاب آفیسر تک کا سفر اور یہ خواب صرف دو سالوں تک ہی قائم رہا تھا ۔ وہ پھر سے وہیں آگئی تھی جہاں سے قصہ شروع ہوا تھا۔
وہ یہ سب آخر کب تک چھپائے گی ۔ سب کے نزدیک وہ ٹھاٹھ سے آفیسری کر رہی تھی ۔ کون جانتا تھا وہ اس بمشکل ایک بیڈ والے ایبٹ آباد کے اس ہوسٹل میں اپنی قسمت کا ستارہ غروب ہوتا دیکھ رہی تھی۔
’’کیسی دنیا ہے اللہ آپ کی۔‘‘ اس کے اندر ہی کوئی سسک رہا تھا ۔ پہلی بار اسے سچ میں اللہ سے کچھ بے اختیار ہی شکوہ سا ہوا تھا۔
’’ میں ہی کیوں، ہر بار آخر صرف میں ہی کیوں ۔‘‘ باہر بڑے زور سے بجلی چمکی تھی ، اس نے دوبارہ ہاتھوں کی پشت سے دونوں گال رگڑے اور لحاف درست کرتی اس کے اندر لیٹ کر سونے کی کوشس کرنے لگی ۔ پھر نجانے کب تک اس کا تکیہ بھیگتا رہا اور کب آنکھ لگی اسے کچھ پتہ نہیں لگا تھا۔
٭…٭…٭