مکمل ناول

رنگ حنا : آخری حصہ

باب نمبر ۸
وصل اور وصال

ننھے سفیان کے آنے سے تو جیسے گھر میں نعمتیں برسنے لگیں ۔ گھر میں پہلے ہی روپے پیسے کی کمی نہ تھی ۔ اب مزید اضافہ ہوا اور آسودگی بھی پہلے سے زیادہ چھانے لگی ۔ ذوالفقار کی ریٹائرمنٹ کا سال تھا مگر وہ کہتے نظر آئے کہ ریٹائر ہوکرسارا دن گھر بیٹھ کر کیا کروں گا ۔ چنانچہ انہوں نے مزید کچھ سال کام کرنے کی درخواست دی ۔ شعیب نے تو مخالفت کی مگر زاہدہ کہتیں ۔
’’ ٹھیک ہے ٹھیک ہے ۔ جاب پر جائیں گے تو میں بھی کچھ گھر کے کام کرسکوں گی ، ورنہ یہاں بیٹھ کر تو محض مجھ پر ٹونٹ کریں گے ۔اور میراجینا مشکل کردیں گے ۔‘‘ شعیب ہنسنے لگا ۔
اس کے ماں باپ بھی عجیب تھے ۔ کبھی ایسے جیسے یک جان دو قالب ، دوسرے کی برائی بھی اچھائی لگتی اور کبھی ایسے کہ ہر وقت دوسرے سے نالاں ۔ بہرحال ذوالفقار کی عرضی منظور ہوگئی اور ان کی ریٹائر منت تین سال کے لیے ملتوی ہوگئی۔
گھر میں سفیان کی قلقاریاں گونجتی اور یہ چہچہاہٹ ملی قلقاریاں جیسے درودیوار کو منور کردیتی۔
اس نے بیٹھنا شروع کردیاتھا ۔ سارے گھر والے اسے بیٹھا دیکھتے ، خوشی سے نہال ہوجاتے ۔ اس نے گھٹنوں گھٹنوں چلنا شروع کیا ۔ زاہدہ اور لیلیٰ، یوں چلتا ہے اور یوں رکتا ہے ۔ گھنٹوں اسی بات پر گفتگو کیے جاتیں۔
ذوالفقار اس کے لیے واکر لے آئے ۔ پہلے پہل تو وہ واکر میں کھڑا ہوتے گھبراتامگر رفتہ رفتہ واکر چلنے لگی تو اسے بھی مزہ آنے لگا ۔ قلقل ہنستا جاتا اور واکر دوڑاتا جاتا ۔ واکر کے آگے کچھ پش بٹن لگے تھے ۔ ان بٹن کو دبانے سے مختلف قسم کی آوازیں پیدا ہوتیں ۔ ان پر الٹے سیدھے ہاتھ مارتا ، آوازیں گونجتی ، شور اٹھتا اور وہ خوش ہونے لگتا ۔ کبھی کبھار تھوڑی ایک بٹن پر رکھ دیتاتو مسلسل آواز گونجتی رہتی ۔ وہ مسلسل خوش ہوتا رہتا ۔
’’ تم پر گیا ہے ۔ سفیان کو دیکھتی ہوں تو تمہارا بچپن یاد آتا ہے ۔‘‘ زاہدہ شعیب سے کہتیں ۔ وہ مسکرائے دیتا ۔
سفیان دو سال کا ہونے کو آیا تھا کہ لیلیٰ نے اس سے فرمائش کی ۔
’’ میں اس بار سفیان کی دھوم دھام سے سالگرہ کرنا چاہتی ہوں ۔‘‘
’’ ضرور کرو ۔ ‘‘ شعیب نے رضا مندی دکھائی ۔ لیلیٰ اسی وقت مہمانوں کی لسٹ بنانے لگی ۔
ماموں ممانی ،علی ، نادیہ اور بچے ، عمر بھائی اور صنم بھابھی ، شعیب کے قریبی رشتہ دار کہ اچانک رک گئی اور سوچتے ہوئے قلم منہ میں دبا لیا۔ کتنی دیر سوچتی رہی ۔
’’وہ آپ نے بتایا تھا آپ کی حنا کی بڑی بہن سے بات ہوتی تھی۔‘‘
’’ ہمم … ‘‘
’’ انہیں بھی بھلا لیں ۔ ‘‘
شعیب سوچ میں غرق ہوگیا ۔
’’ ٹھیک ہے سوچیں گے ، وقت تو آئے ۔‘‘
اور جب وقت آیا تو سالگرہ سے ایک ہفتہ قبل اس نے زینب کو فون کیا ۔
’’السلام علیکم باجی !‘‘
’’وعلیکم السلام، جی کون ؟‘‘ زینب پہچان نہ پائی ۔
’’ میں ہوں شعیب ۔‘‘ دوسری طرف لمحہ بھر کو خاموشی چھاگئی۔
’’ کیسے ہو شعیب ؟‘‘
’’میں ٹھیک ہوں ، آپ کیسی ہیں ؟‘‘
’’ میں بھی ٹھیک ہوں ۔ وہ دراصل موبائل بدلا تو نمبر محفوظ نہ رہا ۔‘‘ زینب کہہ رہی تھی ۔ جانے یہی حقیقت تھی کہ اس نے از خود نمبر ڈیلیٹ کردیا تھا ۔ شعیب نے کوئی استفسار نہ کیا ۔
’’ حنا نے کوئی رابطہ کیا ؟‘‘وہ پوچھنا چاہتا تھا مگر اس سے قبل زینب نے پوچھ لیا ۔ اس کا دل بوجھل ہونے لگا ۔
’’ نہیں ۔ ‘‘ یک لفظی جواب سے زیادہ جواب وہ دے بھی نہ پایا ۔
’’ سات سال ہونے کو آئے ہیں پتا نہیں کہاں ہوگی ۔ ‘‘
’’سات نہیں آٹھ سال ۔‘‘ اس نے تصحیح کی ۔ اور دونوں طرف خاموشی چھا گئی۔
’’آپ کے بچے ٹھیک ہیں ۔‘‘
’’ہاں اللہ کا شکر ہے ۔ تم سنائو ۔‘‘
’’ میرے بیٹے کی سالگرہ ہے ۔ آپ کو دعوت دینا چاہتا ہوں ۔‘‘ زینب خاموش رہ گئی ۔
’’تمہارا گھر نہیں دیکھا ہوا ۔ کیسے آئوں گی ؟‘‘
’’میں چاہتا ہوں کہ آپ ‘ اسفند بھائی اور بچے سبھی آئیں ۔ گھر نہیں دیکھا تو ایسا مسئلہ بھی نہیں ۔ عمر سے کہوں گا وہ آپ لوگوں کو لے آئے گا یا رہنمائی کردے گا ۔‘‘
’’ اچھا چلو دیکھتے ہیں ۔‘‘
’’میں وقت اور دن آپ کو میسج کیے دیتا ہوں ۔ ‘‘بات اختتام کو پہنچی ۔ زینب کا آنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا ۔ بھلا اس نے کیا کرنا تھا جاکر ۔
مگر جب وہ دن آیا تو دل میں کیا سوجھی کہ چھوٹی بیٹی حنا کے ہمراہ چلی آئی ۔ شعیب کا گھر برقی قمقمو ں سے سجا تھا ۔ گھر کی اندرونی سجاوٹ دیدنی تھی ۔ شعیب کی بیوی سے جب تعارف ہوا تو بھرپور گرمجوشی سے ملی ۔ حال احوال دریافت کیا اور حنا کو پچکارا ۔ وہ باتیں تو خوب کرنا چاہتی تھی مگر مہمان زیادہ تھے اور وقت کی کمی ۔
اور شعیب ،وہ بھی احترام سے ملا ۔ اسے دیکھ کر زینب کی آنکھیں آبدیدہ ہونے لگیں ۔ کیا اچھا ہوتا کہ وہ حنا کی زندگی میں نہ آتا ۔ اور اگر آگیا تھا تو کم از کم وہ سب نہ ہوتا جو ہوا تھا ۔
اور پھر سالگرہ کا کیک میز پر سجا دیا گیا ۔ بڑی سی میز جس کے ایک طرف تحائف کا ڈھیر تھا ۔ درمیان میں کارٹون کرداروں سے سجا کیک تھا اور میز کے چاروں اورغبارے تھے ۔ رنگ برنگے غبارے …
زینب کچھ ایسی بے ارادہ آئی تھی کہ کوئی تحفہ نہ خرید سکی ۔ البتہ لفافے میں ایک نوٹ ڈال رکھا تھا ۔
’’ وہ میں کوئی تحفہ نہیں لاسکی ۔ آپ بیٹے کے لیے کچھ خرید لیجئے گا ۔‘‘ کیک کٹنے سے قبل اس نے لفافہ لیلیٰ کو پکڑا نا چاہا ۔
’’نہیں اس کی ضرورت نہیں ، آپ تشریف لائیں ۔ یہی ہمارا تحفہ ہے ۔‘‘ لیلیٰ وہ لفافہ لینا نہیں چاہتی تھی ۔ زینب نے زبردستی تھمانا تھا تب بھی اس نے نہ تھاما ۔
’’نہیں باجی ، بس آپ ملتی رہیں ۔ یہ بہت ہے ۔‘‘ اور زینب نے ناچار دوبارہ لفافہ ہینڈ بیگ میں ڈال لیا ۔
کیک کٹنے لگا ۔ سفیان صاحب دولہا بنے ہوئے تھے ۔ اس کے ماں باپ کندھے سے کندھا ملائے کھڑے تھے ۔ سفیان شعیب کی گود میں تھا ۔ ننھے سفیان نے چھری تھامی اور کیک کاٹنے لگا ۔ شور سا مچ گیا ۔ غبارے پھاڑے گئے ۔ لیلیٰ نے کیک کا ٹکڑا لیا اور پہلے سفیان کے منہ میں دیا پھر ساس کی طرف بڑھایا ۔
’’ اہوں ، شوہر کو کھلائو ۔‘‘ زاہدہ نے شعیب کی طرف اشارہ کیا تھا۔
لیلیٰ نے مسکراتے ہوئے کیک شعیب کی طرف بڑھایا ۔ شعیب نے منہ کھول لیا ۔ یہ منظر کس قدر محبت بھرا تھا مگر زینب کو برا لگنے لگا ۔ قبل اس کے کہ اشتعال اس پر غلبہ پاتا اس نے چھوٹی بیٹی حنا کا ہاتھ تھاما اور باہر کی جانب قدم بڑھا دیے۔
اور یہ کیسے ہوسکتا تھا کہ شعیب زینب کی موجودگی سے غافل ہوتا اس نے اسے یوں اچانک جاتے بھی دیکھا مگر روکنے کی ہمت نہ ہوئی ۔ باہر آکر جو پہلا رکشہ قریب سے گزرا وہ اس میں بیٹھ گئی اور اسے اپنے گھر کا پتا سمجھانے لگی ۔
’’لو میری بہن جس شخص کے لیے تم نے گھر چھوڑا ، ماں باپ ، بہن بھائی کو چھوڑدیا ۔ وہ شخص اپنی بیوی کے ساتھ مست و مگن ہے ۔ بس یہی تھی محبت ، یہی تھا فسانہ ۔‘‘ رکشہ ہچکولے کھاتا تھا۔ ویسے ہی جیسے اس کی سوچ ہچکولے کھارہی تھی۔
’’زینب باجی نظر نہیں آرہیں۔‘‘ ایک پلیٹ میں کیک لیے لیلیٰ شعیب سے کہہ رہی تھی ۔
’’وہ چلی گئیں۔‘‘
’’ہائیں کیوں ؟‘‘ لیلیٰ کو حیرت ہونے لگی ۔
’’شاید ہمیں ان کو بلانا ہی نہیں چاہیے تھا ۔‘‘ شعیب کے لہجے میں ملال نے بسیرا ڈال لیا ۔
٭٭ …٭٭
یہ شام کا پہر تھا ۔ آنگن کے بیچوں بیچ شہتوت سے ذرا پرے سفیان کا تین پہیوں والا سائیکل کھڑا تھا ۔ سائیکل کے پاس ہی اس کا جوتا پڑا تھا ۔ ایک پائوں سیدھا ، دوسرا پائوں الٹا ۔ کچھ کاریں اور دوسرے کھلونے بھی آنگن میں ادھر ادھر بکھرے تھے اور وہ خود ان سب سے دور برآمدے کی سیڑھیوں پر چہرہ ہتھیلی پر جمائے بیٹھا تھا ۔ کچھ بیزار بیزار سا نظر آرہا تھا ۔
اور چونکہ آج چھٹی کا دن تھا تو ذوالفقار اور شعیب دونوں گھر پر تھے ۔ذوالفقار اخبار لگ بھگ پڑھ ہی چکے تھے ۔ بس ادارتی صٖفحے پر کچھ غیر مقبول کالم نگاروں کے کالم رہ گئے تھے۔
’’ ہونہہ ، انہیں تو چھٹی ہی اخبار پڑھنے کے لیے ملتی ہے ۔ ‘‘ زاہدہ ہرچھٹی والے دن کی طر ح آج بھی کئی بار بڑبڑا چکی تھیں ۔ شعیب بھی پاس بیٹھا تھا ۔ اس کا ابھی عمر کے ساتھ جاگنگ پر جانے کا پلان تھا ۔ چارپائی کے نیچے جھک کر اس نے اپنے جوگرز اٹھانے چاہے مگر وہ دسترس سے دور تھے۔
’’ سفیان ادھر آئو بیٹا ۔ ‘‘ شعیب نے سفیان کو پکار ا ۔ وہ سست روی سے چلتا آیا ۔
’’ بابا کے جوگرز نکال دو ۔‘‘ شعیب نے کہا تو وہ چارپائی کے نیچے سے اس کے جوگرز اٹھا لایا ۔
’’ تھینک یو بابا کی جان ۔‘‘ شعیب نے اس کے پھولے ہوئے گال پر چپت لگائی ۔ جواباََ اس نے پھولے ہوئے گال مزید پھلا لیے۔
’’سفیان بیٹا بابا سے ناراض ہو کیا ؟‘‘
’’جی ۔‘‘ اس نے اثبات میں سرہلایا ۔
’’کیو ں ؟‘‘
’’ آپ مجھے طوطے کیوں نہیں لاکر دیتے ۔ ‘‘ تبھی لیلیٰ بھی کچن سے چلی آئی ۔ گفتگو میں اس نے بھی حصہ ڈالا ۔
’’نہیں کوئی ضرورت نہیں طوطوں کی ۔‘‘
’’ مما … ‘‘ سفیان نے جھنجھلا کر کہا ۔
’’بیٹا پرندوں کو قید نہیں کیا جاتا ۔ وہ اداس ہوجاتے ہیں ۔ اللہ نے ان کے پر فضا میں آزاد اڑنے کے لیے بنائے ہیں ۔ ‘‘ لیلیٰ نے اسے سمجھانے کی کوشش کی اور وہ یہ بات پچھلے ایک ہفتے میں کوئی پندرہ دفعہ سمجھانے کی کوشش کرچکی تھی۔
’’ کبیر کے گھر بھی تو ہیں ۔‘‘ سفیان ہمسائیوں کا حوالہ دینے لگا ۔
’’ آپ اس کے لیے کوئی کھلونا طوطا لے آئیں، اس کا بھی دل بہل جائے گا ۔‘‘ لیلیٰ نے شعیب سے کہا ۔
’’ نہیں مجھے اصلی والا چاہیے ۔‘‘ سفیان کے پھولے گال کس قدر اچھے لگتے تھے ۔ بے ساختہ چھونے کو دل کرتا ۔
’’ تم ماں بیٹا فیصلہ کر لو کہ اصلی چاہیے یا نقلی ۔ مجھے بتا دینا حکم کی تعمیل ہوگی ۔ابھی چلتا ہوں ۔‘‘ شعیب جوگرز پہن چکا تھا ۔ موبائل پر عمر کا نام جگمگا نے لگا تو وہ اٹھ کھڑا ہوا ۔ یقیناََ وہ باہر آچکا تھا ۔ شعیب نے باہر کی طرف قدم بڑھائے ۔ لیلیٰ سفیان کو پچکارنے لگی مگر آج تو جیسے اس نے اپنی بات منوانے کا تہیہ کرلیا تھا ۔ لیلیٰ اور سفیان کی یہ باتیں ذوالفقار کے کانوں میں پڑ رہی تھیں۔
’’ بہو مان جاؤ نا بچے کی بات ۔‘‘ ذوالفقار نے کہا تو لیلیٰ نے انہیں شکایتی نظروں سے دیکھا ۔
’’یوں اس کی ہر جائز نا جائز بات ماننے لگے تو ضدی ہوجائے گا ۔‘‘ وہ کچھ ایسا غلط بھی نہیں کہہ رہی تھی ۔ سفیان منہ پھلائے بیٹھا رہا ۔
’’ سفیان چھپن چھپائی کھیلیں ۔ ‘‘ ذوالفقار نے تجویز پیش کی تو وہ جھٹ سے خوش ہوگیا ۔
چھپن چھپائی کھیلنے کی تیاری شروع ہونے لگی اور طوطے فی الحال فراموش ہوگئے ۔ ذوالفقار شہتوت کے تنے کے ساتھ کھڑے آنکھوں پر ہاتھ رکھے گنتی گن رہے تھے۔
’’ ایک ، دو ، تین ، چار … ‘‘ اور سفیان چھپنے کی جگہ ڈھونڈ رہا تھا ۔ اور بالآخر دروازے کے پردے کے پیچھے چھپنے کا فیصلہ کر لیا ۔
’’بچے کے ساتھ یہ بھی بچہ بن جاتے ہیں۔‘‘ زاہدہ لیلیٰ سے کہہ رہی تھیں۔
’’اچھی بات ہے ، ہر کسی میں یہ خاصیت نہیں ہوتی ۔‘‘ یہ لیلیٰ کی خیال آرائی تھی ۔
اب ذوالفقار سفیان کو ڈھونڈ رہے تھے۔ دروازے کے پردے کے پیچھے ہونے والی حرکت انہیں باور کرواچکی تھی کہ سفیان یہیں ہے مگر وہ جان بوجھ ادھر ادھر دیکھ رہے تھے۔
’’ کدھر ہو سفیان …‘‘ انہوں نے چارپائی کے نیچے جھانکا ۔ سفیان کی ہنسی نکل گئی مگر وہ پھر بھی پردے کی جانب متوجہ نہ ہوئے ۔
’’ کہاں چھپ گئے ہو مل ہی نہیں رہے۔‘‘ وہ اب کچن میں جھانک رہے تھے اور بلاآخر انہوں نے ڈھونڈ ہی لیا ۔
’’ ڈھونڈ لیا ، ڈھونڈ لیا ۔ ‘‘ ذوالفقار نے اسے گود میں اٹھا لیا اور وہ بے تحاشہ ہنستا جاتا ۔ قہقہے لگائے جاتا ۔
اور رات کو وہ لیلیٰ کے پہلو میں لیٹا نیلم پری کی کہانی اشتیاق سے سن رہا تھا ۔ لہجے کے اتار چڑھائو سے وہ اسے نیلم پر ی کے کارنامے بتائے جاتی ، یہاں تک کہ وہ نیند کی آغوش میں جاپہنچا ۔
’’ صاحبزادے روز ایک ہی کہانی سن کر بور نہیں ہوتے ۔ ‘‘ شعیب پوچھ رہا تھا ۔ لیلیٰ مسکرانے لگی ۔
’’ بچپن ایسا ہی ہوتا ہے ۔ اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کو بھی میں روز نیلم پری کے ایک جیسے کارنامے سناتی ۔ ان کی دلچسپی میں بھی کمی نظر نہیں آتی تھی اور یہی حال سفیان کا ہے ۔ ‘‘ اپنے مرحوم بہن بھائیوں اور سفیان میں ایک مشترک قدر کا ذکر کرتے ہوئے لیلیٰ کہاں جانتی تھی کہ کاتب تقدیر نے ایک اور قدر بھی سفیان کی ان مرحومین کی سی طے کی ہے ۔
کم عمری میں وصال …
٭٭ …٭٭
یہ رات کا پچھلا پہر تھاجب سفیان کی طبعیت خراب ہونے لگی ۔پہلے سوتے میں رونے لگا ۔
’’ کیا ہوا میری جان ؟‘‘ وہ پریشان ہوگئی ۔ سفیان راتوں کو اٹھ کر رونے والا بچہ نہیں تھا۔
’’ مما …‘‘ اس نے ٹراؤز رکی طرف اشارہ کیا اس کا ٹراؤز ر پاخانے سے بھری تھی ۔
وہ اسے واش روم لے آئی ، اسے دھویا اور کپڑے تبدیل کیے ۔ قبل اس کے کہ دست کے لیے لیلیٰ کوئی ٹوٹکا آزماتی اس نے قے کردی ۔ سارے دن کا کھایا الٹنے لگا ۔ اور قے رکنے کا نام نہ لیتی تھی ۔ شعیب بھی اٹھ گیا۔
’’شعیب ہمارے بیٹے کو کیا ہوگیا ہے ؟ ‘‘
وہ ازحد پریشان تھی ۔ یہ قے کیوں رک نہیں رہی تھی ۔ اور چند لمحے ہوئے تھے کہ قے ٹھہری تھی کہ سفیان کا ٹراؤزر خراب ہوگیا ۔ اس نے ٹرائوزر میں ہی پاخانہ کردیا تھا ۔ چھوٹا سا بچہ تھا ۔ دست اور قے نے بے حال کردیا ۔ پانی اور نمکیات کی کمی نڈھال کیے جاتی ۔
’’ ہمیں ہسپتال جانا چاہیئے ۔ تم تیاری کرو میں گاڑی نکالتا ہوں ۔‘‘ لیلیٰ نے جلدی سے ڈائپر پہنا کر سفیان کے کپڑے بدلے ۔ کپڑے بدلنے کے دوران اس نے دست کردیا اور اب دست رکنے کا نام نہ لیتے ۔ لیلیٰ کی آنکھیں گیلی ہونے لگیں ۔ وہ پڑھی لکھی تھی ۔ کالج کے زمانے میں مبادیات کے مضمون میں اسہال کی وجہ سے بچوں میں پانی اور نمکیات کی کمی کی شدید نوعیت کے بارے میں پڑھ چکی تھی ۔ اسی لیے تو اوسان خطا ہوئے جاتے تھے ۔ غلاظت کا خیال کیے بغیر اس نے جلدی سے دوبارہ ڈائپر بدلا ، کپڑے پہنائے ۔ ساس کو جگا کر مطلع کیا ۔ تب تلک شعیب گاڑی نکال چکا تھا ۔ وہ جلدی سے گاڑی میں آبیٹھی۔
اس دوران بھی سفیان نے قے کردی ۔ پیٹ سے اٹھنے والی گڑگڑ اور گیلا ہوتا ڈائپر بھی بتلائے جاتا ۔ شعیب نے گاڑی دوڑا دی ۔ آنکھیں پونچھتے ہوئے لیلیٰ سفید ہوئے بیٹے کو دیکھے جاتی جس کا جسم اتنا ٹھنڈا کیوں ہورہا تھا اور وہ بے ہوش کیوں تھا ۔
’’ سفیان ، سفیان ۔‘‘ لیلیٰ اسے جگانے کی کوشش کرنے لگی مگر وہ اِدھر ُادھر لڑکھتا بے ہوش رہا ۔
’’ شعیب جلدی گاڑ ی چلائو ، میرے بیٹے کو کچھ ہونہ جائے ۔‘‘ لیلیٰ اب زور و قطار رونے لگی ۔
’’ ہمت سے کام لو لیلیٰ ۔ ‘‘ شعیب صحیح طرح سے دلاسا بھی نہ دے سکا ۔ سڑک کی تعمیر کا کام ہورہا تھا ۔ قریبی ہسپتال جاتے تو زیادہ وقت لگتا ۔ شعیب نے گاڑی مین روڈ پر ڈال لی اور دوڑاتا چلا گیا ۔ سفیان نے ایک اور قے کردی ۔
’’ بس میری جان ۔‘‘ لیلیٰ اسے تھپکنے لگی ۔ درود اس کی زبان پر جاری ہوگئے ۔ وہ اللہ سے خیر اور شفا یابی کی دعا مانگنے لگی ۔
ہسپتال آیا تو دونوں جلدی سے گاڑی سے اترے اور دوڑتے ہوئے سیڑھیاں پار کرتے گئے ۔
’’رات کے پہر آنے والے مریضوں کی دیکھ بھال اچھے سے کرنی چاہئے ۔ کل بھی ایک مریض کمپلین کرگیا ہے اور سسٹر صبا اگر چھٹی پر ہیں تو اس کی جگہ کون ڈیوٹی کررہا ہے ۔‘‘ ایک خاتون پشت کیے کھڑی تھیں اور ریسپیشنٹ سے محو گفتگو تھی ۔
’’ بچہ وارڈ ‘ بچوں کا ڈاکٹر ۔‘‘ شعیب بدحواسی سے پوچھنے لگا ۔
’’ دائیں رو ۔‘‘ خاتون غالباََ ہسپتال میں ہیڈ تھیں ۔
ریسپیشنٹ سے پہلے انہوں نے دائیں طرف اشارہ کیا ۔ شعیب دوڑتا ہوا دائیں رو کی طرف گیا ۔ یوں دوڑتے ہوئے جانے اس کے ذہن میں کیا چیز ڈور کی طرح الجھی اور اس نے مڑ کر دیکھا اور لمحے بھر کو ساکت ہوگیا ۔بچہ وارڈ کی طرف رہنمائی کرنے والی کوئی اور نہیں حنا تھی۔
دیے کا ساتھ نبھاتا ہوں اور دیکھتا ہوں
میں روز خود کو جلاتا ہوں اور دیکھتا ہوں
کئی برس ہوئے اک شخص کہہ گیاتھا مجھے
میں تھوڑی دیر میں آتا ہوں اور دیکھتا ہوں
’’ چلو شعیب ۔ ‘‘ لیلیٰ اس کے رکنے پر کہنے لگی ۔ انہیں لمحے بھر کی دیر نہیں کرنی چاہئے ۔ شعیب نے پھرسے تیز قدموں سے قدم بڑھائے ۔ وہ دیر نہیں کرسکتا تھا ۔ اندر وارڈ میں مستعد ڈاکٹر موجود تھے ۔ دو نرسیں اور ایک ڈاکٹر مل کر سفیان کو طبی امداد دینے لگے ۔
سوئی لگا کر ڈرپ لگائی گئی ۔ اور ڈاکٹر دل کی جگہ پرا سٹیتھو سکوپ رکھ کر سننے لگا اوراس کے چہرے پر تشویش کے آثار نمایاں ہونے لگے ۔
’’ سسٹر ان سے نوٹس پر دستخط کروا لو ۔ آپ کے مریض کی حالت تشویشناک ہے ۔‘‘فقرے کا دوسرا حصہ شعیب سے کہا اور ڈاکٹر اپنی کاروائی میںمصروف ہوگیا ۔ ایک نرس دوڑتے ہوئے گئی اور ایک پرنٹڈ نوٹ لے آئی ۔
’’ یہاں دستخط کردیں ۔‘‘ شعیب اردو میں لکھی عبارت پڑھنے لگا ۔
’’ ہمیں مریض کی تشویشناک صورتحال سے آگاہ کردیا گیا ہے ۔ خدانخواستہ مریض کی موت بھی واقع ہوسکتی ہے ۔ کسی بھی قسم کی ناگہانی صورتحال میں ہسپتال ، ڈاکٹر اور معاون عملہ ذمہ دار نہ ہوگا۔‘‘ شعیب کے ہاتھ کانپنے لگے ۔ یہ کیسا متن تھا ۔ اس کے بیٹے کو صرف دست اور قے ہی تو لگے تھے
’’ سر سائن کردیں ۔‘‘ نرس نے تاکید کی ۔ وہ ساکت کھڑا تھا ۔ لیلیٰ نے جلدی سے وہ نوٹ لیا اور پڑھے بغیر سائن کردیے ۔
’’ شعیب میرا دل کانپ رہا ہے ۔ سفیان ابھی چھوٹا ہے ۔ اسے کچھ ہو ہی نہ جائے ۔‘‘ لیلیٰ روتے ہوئے کہہ رہی تھی ۔ وہ شعیب سے تسلی چاہتی تھی مگر شعیب دو بول تسلی کے بھی نہ کہہ سکا ۔ شعیب اورلیلیٰ سلائیڈ پار ڈاکٹر اور عملے کی کاروائی دیکھتے رہے ۔ اب وہ سفیان کو الیکٹرک شاک دے رہے تھے ۔
’’ سفیان … ‘‘ لیلیٰ نے محبت سے پکارا ۔
شیشے کے پار آواز نہیں جاسکتی تھی اور اگر وہ چلی بھی جاتی تو سفیان نے کہاں جواب دینا تھا ۔
تبھی کوئی کوریڈور پار کرتا آیا اور آکر لیلیٰ کے قریب رک گیا ۔
’’ محترمہ اللہ آسانیاں فرمائے ۔ ‘‘ آنے والی کوئی اور نہیں حنا تھی ۔ وہ بھی وہیں رک گئی اور شیشے کے پار دیکھنے لگی ۔
’’ تسلی رکھیں ، ڈاکٹر زوہیب قابل ڈاکٹر ہیں ۔ ‘‘ وہ دلاسے دے رہی تھی ۔ لیلیٰ روئے جاتی اور شعیب ساکت کھڑا تھا ۔
ڈاکٹر کی مستعدی میں کمی کیوں آنے لگی تھی اور پھر ڈاکٹر نے اپنے ہاتھ روک لیے اور نرس سے کچھ کہنے لگا ۔
’’ شعیب ۔‘‘ لیلیٰ نے اسے پکارا اور شعیب ساکت ہی کھڑا رہا ۔ نرس اب سفیان کی رگ میں لگی سوئی نکال کر ڈرپ اور دیگر سامان سمیٹ رہی تھی ۔ اس کے بعد اس نے سفیان کے وجود کو ایک چادر سے ڈھانپ دیا ۔

1 2 3 4اگلا صفحہ

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے